صفات مومن 2

Rate this item
(0 votes)

مقدمہ :

گذشتہ اخلاقی بحث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی جس میں آپ حضرت علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک اس میں ایک سو تین صفات جمع نہ ہوجائیں،یہ صفات پانچ حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں ۔پانچ صفات کل کے جلسہ میں بیان ہو چکی ہیں اور دیگر پانچ صفات کی طرف آج اشارہ کرنا ہے ۔

حدیث :

” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کریم المراجعة،اوسع الناس صدراً،اٴذلہم نفساً ،ضحکة تبسماً،واجتماعہ تعلماً ۔ ۔ [1]

ترجمہ :

اس کی مراجعت کریمانہ ہوتی ہے ،اس کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ ہوتا ہے ،وہ بہت زیادہ متواضع ہوتا ہے ،وہ اونچی آواز میں نہیں ہنستا،اور جب وہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے تو تعلیم و تعلم کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مومن کی چھٹی صفت”کریم المراجعة“ ہے

یعنی وہ کریمانہ اندز میں ملتا جلتا ہے۔ اس میں دو احتمال پائے جاتے ہیں :

1. جب لوگ اس سے ملنے آتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ کریمانہ سلوک کرتاہے۔یعنی وہ جن کاموں کے لے آتے ہیں اگر وہ ان پر قادر ہوتا ہے تو اسی وقت انجام دے دیتا ہے یا یہ کہ ان کو آئندہ انجام دینے کا وعد ہ کرلیتا ہے اور اگر قادر نہیں ہوتا تومعذرت کرلیتا ہے ۔قرآن کہتا ہے کہ قول معروف و مغفرة خیر من صدقة یتبعہااذی والله غنی الحلیم [2]

2. یا یہ کہ جب وہ لوگوں سے ملنے جاتا ہے تو اس کا ا نداز کریمانہ ہوتا ہے یعنی اگر کسی سے کوئی چیز چاہتا ہے تو اس کا انداز مادبانہ ہوتا ہے اور اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے اصرار کرکے سامنے والے کو شرمند ہ نہیںکرتا۔

مومن کی ساتویں صفت”اوسع الناس صدراً“ ہے

یعنی اس کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ ہوتا ہے قرآن کریم سینہ کی کشادگی کے بارے میں فرماتا ہے فمن یرید الله ا ن یہدیہ یشرح صدرہ للاسلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقاً حرجاً [3] الله جس کی ہدایت کرنا چاہتا ہے (جس کو قابل ہدایت سمجھتا ہے ) اس کے سینے کواسلام قبول کرنے کے لئے کشادہ کردیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے (جس کو قابل ہدایت نہیں سمجھتا) اس کے سینے کو تنگ کردتیا ہے ۔

” سینہ کی کشادگی “ کے کیا معنی ہیں؟

جن لوگوں کا سینہ کشادہ ہوتا ہے وہ سب باتوں کو (ناموافق حالات ،مشکلات ،سخت حادثات ۔۔۔۔۔۔۔ )برداشت کرتے ہیں ۔برائی ان میں اثر انداز نہیں ہوتی ،وہ جلدی ناامید نہیں ہوتے ،علم ،حوادث،ومعرفت کو اپنے اندر سما لیتے ہیں۔اگر کوئی ان کے ساتھ برائی کرتا ہے تو وہ اس کو اپنے ذہن کے ایک گوشہ میں رکھ لیتے ہیںاور اس کو اپنے پورے وجود پر حاوی نہیں ہونے دیتے ۔ لیکن جن لوگوںکے سینے تنگ ہیں اگر ان کے سامنے کوئی چھوٹی سی بھی نہ موافق بات ہو جاتی ہے تو ان کا حوصلہ اور تحمل جواب دے جاتا ہے۔

مومن کی آٹھویں صفت”اذلہم نفساً“ ہے

عربی زبان میں ”ذلت“ کے معنی فروتنی اور” ذلول “کے معنی رام ومطیع ہونے کے ہیں۔لیکن اردو میں ذلت کے معنی رسوائی کے ہیں بس یہاں پر یہ صفت فروتنی کے معنی میں ہے۔یعنی مومن میں بہت زیادہ فروتنی پائی جاتی ہے اور وہ لوگوںسے فروتنی کے ساتھ ملتا ہے سب چھوٹوں بڑوں کا احترا م کرتا ہے اور دوسروں سے اپنے احترام کی توقع نہیں رکھتا۔

مومن کی نویں صفت”ضحکہ تبسماً“ ہے۔

یعنی مومن بلند آواز میںنہیں ہنستا۔روا یات میں ملتا ہے کہ پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی بلند آواز میں نہیں ہنسے ۔بس مومن کا ہنسنا بھی مودبانہ ہوتا ہے ۔

مومن کی دسویں صفت ”اجتماعہ تعلماً“ہے۔ یعنی مومن جب لوگوںکے درمیان بیٹھتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ تعلیم و تعلم میں مشغول رہے۔وہ غیبت اور بیہودہ باتوں سے (جن میں اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہوتا) پرہیز کرتا ہے۔

 

________________________________________

[1] بحارالانوار،ج/ ۶۴ ص/ ۳۱۰

[2] سورہٴ بقرة:آیہ/ ۲۶۳

[3] سورہٴ انعام:آیہ/ ۱۲۵

Read 2961 times