مقدمہ :
اس سے پہلے جلسہ میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی جس میں آپ نے مومن کے ایک سو تین صفات بیان فرمائے ہیں ان میں سے دس صفات بیان ہو چکے ہیں اور اس وقت چھ صفات اور بیان کرنے ہیں۔
حدیث :
” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مذکر الغافل ،معلم الجاہل،لا یوذیومن یوذیہ ولا یخوض فیما لا یعینہ ولا یشمت بمصیبة و لا یذکر احداً بغیبة ۔ ۔ ۔ ۔ “ [1]
ترجمہ :
مومن وہ انسان ہے جو غافلوں کو آگاہ کرتا ہے ،جاہلوں کو تعلیم دیتا ہے ،جو لوگ اسے اذیت پہونچاتے ہیں وہ ان کو اذیت نہیں پہونچاتا،جو چیز اس سے مربوط نہیں ہوتی اس میں دخل نہیںدیتا،اگر اس کو نقصان پہونچانے والا کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے تو وہ اس کے دکھ سے خوش نہیں ہوتا،غیبت نہیں کرتا۔
حدیث کی شرح :
مومن کی گیارہویں صفت”مذکر الغافل“ہے
یعنی مومن غافل لوگوں کو متوجہ کرتا ہے غافل اسے کہا جاتا ہے جو کسی بات کو جانتا تو ہو مگر اس کی طرف متوجہ نہ ہو جیسے جانتا ہو کہ شراب حرام ہے مگر اس کی طرف متوجہ نہ ہو۔
مومن کی بارہویں صفت”معلم الجاہل “ہے
یعنی مومن جاہلوں کو تعلیم دیتا ہے اور جاہل نا جاننے والے کو کہا جاتاہے ۔
غافل کو متوجہ کرنے ،جاہل کو تعلیم دینے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں کیا فرق ہے؟
ان تینوں واجبوں کوکبھی بھی ایک نہیں سمجھنا چاہئے۔”غافل “اس کو کہتے ہیں جو حکم کو جانتا ہو مگر اس کی طرف متوجہ نہ ہو (موضوع کو بھول گیا ہو)مثلاًجانتا ہو کہ غیبت کرنا گناہ ہے لیکن اس سے غافل ہو کر غیبت میں مشغول ہو جائے ۔
” جاہل“اس کو کہتے ہیں جو حکم کو ہی نہ جانتا ہو اور ہم چاہتے ہیں کہ اسے حکم کے بارے میں بتائیں جیسے وہ یہ ہی نہیں جانتا کہ غیبت حرام ہے۔
” امر بالمعروف ونہی عن المنکر“یہ اس مقام پر ہے جہاں موضوع اور حکم کے بارے میں علم ہو یعنی نہ جاہل ہو اور نہ ہی غافل۔ان سب کا حکم کیا ہے؟
” غافل “یعنی اگر کوئی موضوع سے غافل ہو اور وہ موضوع مہم نہ ہو تو واجب نہیں ہے کہ ہم اس کو متوجہ کریںجیسے نجس چیز کا کھانا لیکن اگر موضوع مہم ہو تو متوجہ کرنا واجب ہے جیسے اگر کوئی کسی بے گناہ انسان کا خون اس کو گناہ گار سمجھتے ہوئے بہا رہار ہو تو اس مقام پر اس کو متوجہ کرنا واجب ہے۔
” جاہل“جو احکام سے جاہل ہو اس کو تعلیم دینا واجب ہے۔
” امر بالمعروف ونہی عن المنکر“اگر کوئی انسان کسی حکم کے بارے میں جانتا ہوو غافل بھی نہ ہو اور پھر بھی گناہ انجام دے تو ہمیں چاہئے کہ نرم لب و لہجہ میں امر ونہی کریں۔
یہ تینوں واجب ہیں مگر تینوں کے دائروں میں فرق پایا جاتا ہے ۔عوام میں جو یہ کہنے کی رسم ہو گئی ہے کہ ”موسیٰ اپنے دین پر اور عیسیٰ اپنے دین پر“یا یہ کہ” مجھے اور تجھے ایک قبر میں نہیں دفنایاجائے گا“بے بنیاد بات ہے۔ہمیں چاہئے کہ آپس میں ایک دوسرے کو متوجہ کریںاور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرسے غافل نہ رہیں۔یہ ہمارا ہی کام ہے کسی دوسرے کا نہیں۔روایت میں ملتا ہے کہ سماج میں گناہگار انسان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کشتی میں بیٹھ کر اپنے بیٹھنے کی جگہ پر سوراخ کرے اور اب جب اس کے اس کام پر اعتراض کیا جائے تو جواب دے کہ میں تو اپنی جگہ پر سوراخ کررہا ہوںتو ایسے انسان کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ اس سوراخ کے نتیجہ ہم سب مشترک ہیں کیونکہ اگر کشتی میں سوراخ ہوگا تو ہم ڈوب جائیں گے ۔روایت میں اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگر بازار میں ایک دوکان میں آگ لگ جائے اور بازار کے تمام دکاندار اس کو بجھانے کے لئے اقدام کریں تو وہ دوکاندار ان سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمھیں کیا مطلب یہ میری اپنی دکان ہے،کیونکہ اس کو فورا جواب ملے گا کہ ہماری دکانیں بھی اسی بازار میں ہیں ممکن ہے کہ آگ ہماری دکان تک بھی پہونچ جائے۔یہ دونوںمثالیںامر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فلسفہ کی صحیح تعبیر ہیں۔اور اس بات کی دلیل کہ یہ ہم سب کا فریضہ ہے یہ ہے کہ سماج میں ہم سب کی سرنوشت مشترک ہے ۔
مومن کی تیرہویں صفت”لا یوذی من یوذیہ“ہے
یعنی جو اس کو اذیت دیتے ہیں وہ ان کو اذیت نہیں پہونچاتا،دینی مفاہیم میں دو مفہوم پائے جاتے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے جدا ہیں :
1. عدالت :
عدالت کے معنی یہ ہیں کہ”من اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدیٰ علیکم“یعنی تم پر جتنا ظلم کیا گیا ہے تم اس سے اسی مقدار میں تلافی کرو۔
2. فضیلت:
یہ عدل سے الگ ایک چیز ہے جو واقعیت میں معافی ہے ۔یعنی برائی کے بدلے بھلائی ،اور یہ ایک بہترین صفت ہے جس کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”یعطی من حرمہ ویعفوا عن من ظلمہ یصل من قطعہ“جو اس سے کسی چیز کے دینے میں دریغ کرتا ہے اسکو عطا کرتا ہے ،جو اس پر ظلم کرتا ہے اسے معاف کرتا ہے ،جو اس سے قطع تعلق کرتا ہے اس سے رابطہ قائم کرتا ہے ۔یعنی جو مومن کامل ہے وہ عدالت کو نہیں بلکہ فضلیت کو اختیار کرتا ہے۔
مومن کی چودہویں صفت”ولا یخوض فیما لا یعنیہ“ ہے
یعنی مومن واقعی اس چیز میں دخالت نہیں کرتا جو اس سے مربوط نہ ہو”ما لا یعنیہ“ ”مالا یقصدہ“ کے معنی میں ہے یعنی وہ چیز آپ سے مربوط نہیں ہے۔ایک اہم مشکل یہ ہے کہ لوگ ان کاموں میں دخالت کرتے ہیں جو ان سے مربوط نہیں ہے حکومتی سطح پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے کچھ حکومتیں دوسرے کے معاملات میں دخالت کرتی ہیں۔
مومن کی پندرہوی صفت”ولا یشمت بمصیبة“ہے
یعنی زند گی میں اچھے اور برے سبھی طرح کے دن آتے ہیں ۔مومن کسی کو پریشانی میں گھرا دیکھ کر اس کو شماتت نہیں کرتا یعنی یہ نہیںکہتا کہ ”دیکھا الله نے تجھے کس طرح موصیبت میں پھنسایا میں پہلے ہی نہیں کہتا تھا کہ ایسا مت کر“کیونکہ باتیں جہاں انسا نی شجاعت کے خلاف ہیں وہیں زخم پر نمک چھڑکنے کے متردف بھی۔اگرچہ ممکن ہے کہ وہ مصیبت اس کے ان برے اعمال کا نتیجہ ہی ہوںجو اس نے انجام دئے ہیں لیکن پھر بھی شماتت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ہر انسان کی زندگی میں سخت دن آتے ہیں کیا پتہ آپ خودہی کل مصیبت میں گرفتار ہو جائیں۔
مومن کی سولہویں صفت”ولا یذکر احداً بغیبة“ہے یعنی وہ کسی کا ذکر بھی غیبت کے ساتھ نہیں کرتا ہے ۔غیبت کی اہمیت کے بارے میں اتناہی کافی ہے کہ مرحوم شیخ مکاسب میں فرماتے ہیںکہ اگر غیبت کرنے والا توبہ نہ کرے تو دوزخ میں جانے والا پہلا نفر وہی ہوگااور اگر توبہ کرلے اور توبہ قبول ہو جائے تب بھی سب سے آخر میںجنت میں واردہوگا۔غیبت مسلمان کی آبروریزی کرتی ہے اور انسان کی آبرواس کے خون کی طرح محترم ہے او رکبھی کبھی آبرو خون سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے ۔
________________________________________
[1] بحارالانوار،ج/ ۶۴ ص/ ۳۱۰