صفات مومن 4

Rate this item
(0 votes)

 

مقدمہ :

پچھلے جلسوں میں ہم نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث ،جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے خطاب فرمائی بیان کی یہ حدیث مومن کامل کے ایک سو تین صفات کے بارے میں تھی۔اس حدیث سے سولہ صفات بیان ہو چکے ہیں اور اب چھ صفات کی طرف اور اشارہ کرنا ہے ۔

حدیث :

” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بریئاًمن المحرمات،واقفاً عند الشبہات،کثیر العطاء،قلیل الاذیٰ،عوناً للغریب،واباً للیتیم ۔ ۔ ۔ ۔ [1]

ترجمہ :

مومن حرام چیزوں سے بیزار رہتا ہے ،شبہات کی منزل پر توقف کرتا ہے اور ان کا مرتکب نہیںہوتا،اس کی عطا بہت زیادہ ہوتی ہے،وہ لوگوں کو بہت کم اذیت دیتا ہے ،مسافروں کی مدد کرتا ہے اور یتیموں کے لئے باپ ہوتا ہے۔

حدیث کی شرح :

مومن کی سترہویں صفت”بریئاً من المحرمات “ ہے۔

یعنی مومن وہ ہے جو حرام سے بری اور گناہ سے بیزار ہے ۔گناہ انجام نہ دینا اور گناہ سے بیزار رہنا ان دونوں باتوں میں فرق پایا جاتا ہے ۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو گناہ میں لذت تو محسوس کرتے ہیں مگر الله کی وجہ سے گناہ کو انجام نہیں دیتے ”یہ ہوا گناہ انجام نہ دینا“ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تہذیب نفس کے ذریعہ اس مقام پر پہونچ جاتے ہیں کہ ان کو گناہ سے نفرت ہو جاتی ہے اور وہ ہر گزگناہ سے لذت نہیں لیتے۔ بس یہی گناہ سے بیزاری ہے۔انسان کو اس مقام پر پہونچنے کے لئے (جہاں پر الله کی اطاعت سے لذت اور گناہ سے نفرت پیدا ہو جاے)بہت زیادہ زحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مومن کی اٹھارہویںصفت”واقفاً عند الشبہات“ ہے۔

یعنی مومن وہ ہے جو شبہات کے سامنے توقف کرتا ہے ۔چونکہ شبہات محرمات کا پیش خیمہ ہیں۔اس لئے جو شبہات کا مرتکب ہو جاتا ہے وہ محرمات میں پھنس جاتا ہے ۔شبہات سے بچنا چاہئے کیونکہ شبہات اس ڈھلان کی مانند ہے جو کسی درہ کے کنا رہ واقع ہو۔درواقع شبہات محرمات کا حریم (کسی چیز کے اطراف کا حصہ)ہے لہٰذا ان سے اسی طرح بچنا چاہئے جس طرح زیادہ وولٹیج والی بجلی سے ،کیونکہ اگر انسان معین فاصلہ کی حد سے آگے بڑھ جائے تو وہ اپنی طرف کھنیچ کی جلا ڈالتی ہے اسی لئے اس کے لئے حریم(اطراف کا فاصلہ)کے قائل ہیں ۔کچھ روایتوںمیں بہت اچھی تعبیر ملتی ہے جو بتاتی ہے کہ لوگوںکے حریم میں داخل نہ ہو ، تاکہ ان کے غضب کا شکار نہ بن سکو۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جو منشیات کا شکار ہو گئے ہیں۔شروع میں انھوں نے تفریح میں نشہ کیا لیکن بعد میں بات یہاں تک پہونچ گئی کہ وہ اس کے بہت زیادہ عادی ہوگئے۔

مومن کی انیسویں صفت”کثیر العطا “ہے

یعنی مومن وہ ہے جو کثرت سے عطا کرتا ہے یہاں پر کثرت ،کثرت نسبی ہے یعنی (اپنے مال کے مطابق دینا)مثلاً اگر ایک بڑا سپتال بنوانے کے لئے ایک مالدار آدمی ایک لاکھ روپیہ دے تو یہ رقم اس کے مال کی نسبت کم ہے لیکن اگر ایک معمولی سا منشی ایک ہزار روپیہ دے تو سب اس کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ یہ رقم اس کے مال کی نسبت زیادہ ہے ۔جنگ تبوک کے موقع پر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی فوج کی تیاری کے لئے لوگوں سے مدد کی درخواست کی رسول کے اس اعلان پر لوگوں نے بہت مدد کی اسی دوران ایک کاری گر نے اسلامی فوج کی مدد کرنے کے لئے رات میں اضافی کام کیا اور اس سے جو بدل ملا وہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔اس کم رقم کو دیکھ کر پاس بیٹھے منافقین نے مذاق کرنا شروع کیا فورا آیت نازل ہوئی <الذین یلمزون المطوعین من المومنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جہدہم فیسخرون منہم فسخر الله منہم ولہم عذاب الیم [2] جو لوگ ان پاک دل مومنین کا مذاق اڑاتے ہیں جو اپنی حیثیت کے مطابق مدد کرتے ہیں،تو الله ان مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے ۔پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابوعقیل اپنی کھجوران کجھوروں پر ڈال دو تاکہ تمھاری کھجوروں کی وجہ سے ان کھجوروں میں برکت ہو جائے ۔

مومن کی بیسویں صفت”قلیل الایذیٰ“ ہے

یعنی مومن کامل الایمان کی طرف سے دوسروں کو کم اذیت ہوتی ہے۔اس مسلہ کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال عرض کرتا ہوں ہماری سماجی زندگی ایسی اذیتوں سے بھری ہوئی ہے ۔نمونہ کے طور پر گھر کی تعمیر ایک ایسا مسلہ ہے جوسب کے سامنے پیش آتا ہے۔ مکان کی تعمیر کے وقت لوگ تعمیر کے سامان (جیسے اینٹیں،پتھر،ریت،سمنٹ ۔۔۔۔۔۔۔ ) کو راستے میں پھیلاکر راستوں کو گھیر لیتے ہیں جس سے آنے جانے والوں کو اذیت ہوتی ہے ۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ سماجی زندگی میں جو یہ اذیتیںپائی جاتی ہیں ان کو جہاں تک ممکن ہو کم کرنا چاہئے۔بس مومن کی طرف سے لوگوں کو بہت کم اذیت ہوتی ہے ۔

مومن کی اکیسویں صفت”عوناً للغریب“ہے

یعنی مومن پردیسیوں کی مدد کرتا ہے ۔اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروںکی مددکرنابہت اچھا ہے لیکن درواقع یہ ایک بدلہ ہے یعنی آج میں اپنے پڑوسی کی مدد کررہا ہوں کل وہ میر مدد کرے گا ۔اہم بات تو یہ ہے کہ اس کی مددکی جائے جس سے بدلہ کی امید نہ ہو لہٰذاپردیسی کی مدد کرنا سب سے اچھا ہے۔

مومن کی بائیسویں صفت”اباً للیتیم “ہے

یعنی مومن یتیم کے لئے باپ ہوتا ہے ۔پیغمبر نے یہاں پر یہ نہیں فرمایا کہ مومن یتیموں کو کھانا کھلاتا ہے ،ان سے محبت کرتا ہے بلکہ فرمایا مومن یتیم کے لئے باپ ہوتا ہے ۔یعنی وہ تمام کام جو ایک باپ اپنے بچے کے لئے انجام دیتا ہے مومن یتیم کے لئے انجام دیتا ہے ۔

یہ تمام اخلاقی دستور سخت ماحول میں بیان ہوئے ہیں اور انھوں نے اپنا اثر دکھایا ہے میں چاہتا ہوں کہ الله ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق دے اور ہم سب ان صفات پر توجہ دیتے ہوئے کامل الایمان بن جائیں۔

 

________________________________________

[1] بحارالانوار،ج/ ۶۴ ص/ ۳۱۰

[2] سورہٴ توبہ:آیہ/ ۷۹

Read 2405 times