مقدمہ:
اس اخلاقی بحث میں پیغمبر اکرم کی و ہ حدیث بیان کی جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے بیان فرمائی تھی۔ اس حدیث میں مومن کی ۱۰۳ صفتیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے ۲۶ صفتیں بیان ہو چکی ہیں اور آج کے اس جلسہ میں مومن کے پانچ صفات اوربیان کرنے ہیں۔
حدیث :
” ۔ ۔ ۔ لطیف الحرکات، حلو المشاہدات، کثیر العبادة، حسن الوقار، لین الجانب“۔ ۔ ۔ [1]
ترجمہ :
مومن کی حرکتیں ہمیشہ لطیف ہو تی ہیں،وہ خوش مزاج اورکثیرالعبادة ہوتاہے ،اس سے سبک حرکتیں سرزد نہیں ہوتی اور اس کی ذات میں بہت زیادہ محبت و عاطفیت پائی جاتی ہے۔
شرح حدیث :
مومن کی ستائیسویں صفت: ” لطیف حرکات“ ہوناہے ۔
یعنی مومن کے حرکات و سکنات بہت لطف ہوتے ہیںاور وہ الله کی مخلوق کے ساتھ محبت آمیز سلوک کرتا ہے ۔
مومن کی اٹھائیسویں صفت:” حلو المشاہد“ ہونا ہے ۔
یعنی مومن خوش مزاج ہوتا ہے اور ہمیشہ شاد رہتا ہے وہ کبھی بھی ترش رو نہیں ہوتا۔
مومن کی انتیسویں صفت: ” کثیر العبادات“ ہے ۔
یعنی مومن بہت زیادہ عبادت کرتا ہے ۔ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ عبادت سے روزہ، نمازمراد ہے یا اس کے کوئی اور معنی ہیں؟
عبادت کی دوقسمیں ہیں :
عبادت اپنے خاص معنی میں :
یہ وہ عبادت ہے کہ اگر اس میں قصد قربت نہ کیا جائے تو باطل ہو جاتی ہے۔
عبادت اپنے عام معنی میں :
ہر وہ کام کہ جس کواگر قصد قربت کے ساتھ کیا جائے تو ثواب رکھتا ہو مگر قصد قربت اس کے صحیح ہونے کے لئے شرط نہ ہو ۔ اس صورت میں تمام کاموں کو عبادت کا لباس پہنایاجا سکتا ہے ۔ عبادت روایت میں اسی معنی میں ہو سکتی ہے ۔
مومن کی تیسویں صفت: ” حسن الوقار“ ہے ، یعنی مومن چھوٹی اور نیچی حرکتیں انجام نہیں دیتا۔ وِقار یا وَقار کامادہ وَقَ رَ ہیں جس کے معنی سنگینی کے ہیں۔
مومن کی اکتیسویں صفت: ” لین الجانب “ ہے یعنی مومن میں محبت و عاطفت پائی جاتی ہے۔
اوپر ذکر کی گئی پانچ صفتوں میں سے چار صفتیں لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے مربوط ہیں۔ لوگوں سے اچھی طرح ملنا اور ان سے نیک سلوک کرنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے مخاطبین متاثر ہوتے ہیں چاہے دینی افراد ہوں یا دنیوی۔
دشمن ہمارے ماتھے پر تند خوئی کا کلنک لگانے کے لئے کوشاں ہے لہٰذا یہ ثابت کرنا چاہئے کہ ہم جہاں” اشداء علی الکفار“ ہیں، وہیں ” رحماء بینہم“ بھی ہیں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں ملتا ہے کہ وہ ان غیر مسلم افراد سے بھی محبت کے ساتھ ملتے تھے جو در پئے قتال نہیں تھے ۔نمونہ کے طور پر تاریخ میںملتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام ایک یہودی کے ہم سفر تھے۔ اور آپ نے اس سے پہلے ہی بتا دیاتھا کہ دو راہے پر پہونچ کر میں تجھ سے جدا ہو جاؤںگا۔ لیکن دو راہے پر پہونچ کر بھی جب حضرت اس کے ساتھ چلتے رہے تو اس یہودی نے کہا کہ آپ کو تو دو راہ پر مجھ سے جدا ہو جا نا تھا لیکن آپ اب بھی میرے ساتھ چل رہے ہیں شاید آپ بھل گئے ہیں اور غلط راستے پر چل رہے ہیں ، حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا کہ نہیں! میں بھولا نہیں ہوں بلکہ اپنے دین کے حکم کے مطابق ہم سفر کے حق کو ادا کرنے کے لئے تھوڑی دو رتیرے ساتھ چل رہا ہوں۔ آپ کا یہ عمل دیکھ کر اس نے تعجب کیا اور مسلمان ہو گیا۔ اسلام کے ایک سادے حکم پر عمل کرنا بہت سے لوگوں کے مسلمان بن نے کا سبب بنتا ہے۔< یدخل فی دین الله افواجاً>لیکن افسوس ہے کہ کچھ مقدس افراد بہت زیادہ خشک ہو تے ہیں اور اپنے اس عمل کے ذریعہ دشمن کو بولنے کا موقعہ دیتے ہیں جب کہ دین کی بنیاد تند خوئی پر نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ۱۱۴ سورہٴ ہیں جن میں سے ۱۱۳ سورہ ” الرحمٰن الرحیم“ سے شروع ہوتے ہیں۔ یعنی ۱۱۴/۱ میں تندی اور ۱۱۳ میں رحمت ہے۔
دنیا میں دو طریقہ کے اخلاقات پائے جاتے ہیں :
1. ریاکارانہ اخلاق( دنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لئے
2. مخلصانہ اخلاق( جو دل کی گہرائیوں سے ہوتا ہے
پہلی قسم کا اخلاق یوروپ میں پایا جاتاہے جیسے وہ لوگ ہوائی جہاز میں اپنے مسافروں کو خوش کرنے کے لئے ان کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے ہیں کیونکہ یہ کام ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اچھا سلوک مسافرون کو متاثر کرتا ہے۔
دوسری قسم کا اخلاق مومن کی صفت ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ مومن کا اخلاق بہت اچھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن دنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ آپس میں میل محبت بڑھانے کے لئے اخلاق کے ساتھ پیش آتا ہے۔ قرآن کریم میں حکیم لقمان کے قصے میںان کی نصیحتوں کے تحت ذکر ہوا ہے کہ < ولا تصعر خدک للناس و لا تمش فی الارض مرحا [2] ” تعصر“ کا مادہ” صعر“ ہے اور یہ ایک بیماری ہے جو اونٹ میں پائی جاتی ہے ۔ اس بیماری کی وجہ سے اونٹ کی گردن دائیں یا بائیں طرف مڑ جاتی ہے ۔ آیت فرمارہی ہے کہ گردن مڑ ے بیماراونٹ کی طرح نہ رہو اور لوگوں کی طرف سے اپنے چہرے کو نہ موڑو۔ اس تعبیرسے معلوم ہوتا ہے کہ بد اخلاق افراد ایک قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ آیت کے آخرمیں بیان ہوا ہے کہ تکبرکے ساتھ نہ چلو۔
________________________________________
[1] بحار،ج/ ۶۴ ، ص/ ۳۱۰
[2] سورہٴ لقمان: آیہ/ ۱۸