کچھ حدیثوں کے مطابق ۲۵/ ذیقعدہ روز” دحو الارض“ اور امام رضا علیہ السلام کے مدینہ سے طوس کی طرف سفر کی تاریخ بھی ہے۔”دحو“کے معنی پھیلانے کے ہیں۔ قرآن کی آیت < والارض بعد ذلک دحیہا [1] اسی قبیل سے ہے ۔زمین کے پھیلاؤ سے کیا مراد ہے؟ اور یہ اس علم جدید سے کس طرح سازگار ہے جس میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ زمین نظام شمسی کا جز ہے اور سورج سے جدا ہوئی ہے؟
جب زمین سورج سے جدا ہوئی تھی تو آگ کا ایک دہکتا ہوا گولا تھی،بعد میں اس کی گرمی سے اس کے چاروں طرف پانی وجود میں آیا جس سے سیلابی بارش کا سلسلہ شروع ہوا اور نتیجہ میں زمین کی پوری سطح پانی میں پوشیدہ ہوگئی۔ پھر آہستہ آہستہ یہ پانی زمین میں سمانے لگااور زمین پر جگہ جگہ خشکی نظر آنے لگی۔ بس ” دحو الارض“ پانی کے نیچے سے زمین کے ظاہر ہونے کا د ن ہے۔ کچھ روایتوں کی بنا پر سب سے پہلے خانہ کعبہ کا حصہ ظاہر ہوا۔ آج کا جدید علم میںبھی اس کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں ہوئی ہے۔ یہ دن حقیقت میں الله کی ایک بڑی نعمت حاصل ہونے کا دن ہے اس دن الله نے زمین کو پانی کے نیچے سے ظاہر کرکے زندگی کے لئے آمادہ کیا۔
کچھ تواریخ کے مطابق اس دن امام رضا علیہ السلام نے مدینہ سے طوس کی طرف سفر شروع کیا اور یہ بھی ہم ایرانیوں کے لئے الله کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، کیوںکہ حضرت کے قدموں کی برکت سے یہ ملک آبادی،معنویت، روحانیت اور الله کی برکتوں کے سر چشموں میں تبدیل ہو گیا۔ اگر ہمارے ملک میں امام کی بارگاہ نہ ہوتی تو شیعوںکے لئے کوئی پناہ گاہ نہ تھی۔ ہر سال تقریباً ۵۰۰۰۰۰۰,۱ افراد اہل بیت علیہم السلام سے تجدید بیعت کے لئے آپ کے روضئہ مبارک پر جاتے ہیں اورآپ کی زیارت سے شرفیاب ہوتے ہیں۔ آپ کی معنویت ہمارے پورے ملک پر سایہ فگن ہے اور ہم سے بلاؤں کو دور کرتی ہے۔ بہرحال آج کا دن کئی وجہوں سے مبارک دن ہے۔ میں الله سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم کو اس دن کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
مقدمہ :
اس ہفتہ کی اخلاقی بحث میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے خطاب فرمائی تھی ۔ اس حدیث میں مومن کامل کی ۱۰۳ صفتیں بیان کی گئی ہیں، ہم گذشتہ جلسہ تک ان میں سے ۳۱/ صفتیں بیان کرچکے ہیں اور آج کے اس جلسہ میں چار صفات اور بیان کریں گے۔
حدیث :
” ….. حلیماً اذا جہل علیہ، صبوراً علی من اساء الیہ، یبجل الکبیر ویرحم الصغیر“ [2]
ترجمہ :
مومن کامل الایمان جاہلوں کے جہل کے مقابل بردبار اور برائیوں کے مقابل بہت زیادہ صبر کرنے والا ہوتا ہے،وہ بزرگوں کے کے ساتھ احترام سے پیش آتا ہے اور اپنے سے چھوٹوں پر رحم کر تا ہے۔
حدیث کی شرح :
مومن کی بتیسویں صفت: ” حلیماً اذا جہل علیہ“ ہے۔
یعنی وہ جاہلوں کے جہل کے مقابل بردباری سے کام لیتاہے اگر کوئی اس کے ساتھ برائی کرتا ہے تو وہ اس کی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتا۔
مومن کی تینتسویںصفت: ” صبوراً علی من اساء علیہ“ ہے۔
یعنی اگر کوئی مومن کے ساتھ عمداً برا سلوک کرتا ہے تو وہ اس پر صبر کتا ہے۔پہلی صفت میں اور اس صفت میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ پہلی صفت میںزبان کی برائی مراد ہے اور اس صفت میں عملی برائی مراد ہے۔اسلام میں دو چیزیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک کا نام قانون اور دوسری کا نام اخلاق ہے ، قانون یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ برائ کرے تو آپ اس کے ساتھ اسی اندازہ میں برائی کرو۔قرآن میں ارشاد ہوتاہے کہ فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدیٰ علیکم [3] یعنی جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پرکی ہے۔ یہ قانون اس لئے ہے تاکہ برے لوگ برے کام انجام نہ دیں۔لیکن اخلاق یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ برائی کے بدلہ میں برائی نہ کروبلکہ برائی کا بدلہ بھلائی سے دو۔ قرآن فرماتا ہے کہ < واذا مرو باللغو مروا کراماً [4] یا <ادفع باللتی ہی احسن السیئہ [5] یعنی آپ برائی کواچھائی کے ذریعہ ختم کیجئے۔ یا< واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً [6] جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ انھیں سلامتی کی دعا دیتے ہیں۔
مومن کی چوتیسویں صفت:”یبجل الکبیر“ہے ۔
یعنی مومن بزرگوں کی تعظیم کرتا ہے ۔ بزرگوں کے احترام کا مسئلہ بہت سی روایات میں بیان زیر غور آیا ہے ۔ مرحوم شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب”سفینة البحار“ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ” من وقر ذا شیبہة لشیبتہ آمنہ الله تعالیٰ من فزع یوم القیامة“ [7] جو کسی بزرگ کا احترام اس کی بزرگی کی وجہ سے کرے تو الله اسے روز قیامت کے عذاب سے محفوظ کرے گا۔ایک دوسری روایت میں ملتا ہے کہ ” ان من اجلال الله تعالیٰ اکرام ذی الشیبة المسلم“ [8] یعنی الله تعالیٰ کی تعظیم میں سے ایک یہ ہے کہ مسلم بزرگوں کا احترام کرو۔
مومن کی پیتیسویں صفت:”یرحم الصغیر“ہے
یعنی چھوٹوں پر رحم کرتا ہے۔ یعنی محبت کے ساتھ پیش آتا ہے۔
مشہور ہے کہ جب بزرگوں کے پاس جاؤ تو ان کی بزرگی کی وجہ سے ان کا احترام کرو اور جب بچوں کے پاس جاؤ تو ان کا احترام اس وجہ سے کرو کہ انھوں نے کم گنا ہ انجام دیئے ہیں۔
[1] سورہٴ نازعات: آیہ/ ۳۰
[2] بحارالانوار،ج/ ۶۴ ، ص/ ۳۱۱
[3] سورہٴ بقرہ: آیہ/ ۱۹۴
[4] سورہٴ فرقان: آیہ/ ۷۲
[5] سورہٴ مومنون:آیہ/ ۹۶
[6] سورہٴ فرقان:آیہ/ ۶۳
[7] سفینة البحار ، مادہ” شیب “
[8] سفینة البحار، مادہ ”شیب “