عقیدہٴ ظہور کا اخلاق پر اثر

Rate this item
(0 votes)

مشہور مصری مفسر "طنطاوی" نے اپنی تفسیر میں قرب ساعت" قیامت" اور ظہور مہدی کے بارے میں ابن خلدون کے نظریات نقل کرنے کے بعد ان دونوں موضوعات کو پست ہمتی، تساہلی اور اختلاف و تفرقہ کا سبب قرار دیا ہے اور علمائے اسلام کی جانب غفلت بلکہ جہالت و ضلالت کی نسبت دی ہے

اختلاف و تفرقہ کے بارے میں گذشتہ مقالہ میں وضاحت پیش کی جا چکی ہے اور یہ بتایا گیا

ہےکہ تمام اچھے عنوانات یا حقائق کا فاسد اور مفاد پرست افراد کے ہاتھوں غلط استعمال ہوا ہے یہاں تک کہ مذہبی و قومی اتحاد کے ذریعہ بھی اختلافات برپا کئے گئے اورتحفظ اتحاد کے نام پر بھی اختلاف پیدا ہوئے اور شرم سے سر جھکا دینے والے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔

لیکن اس کے باوجود اتحاد کی اچھائی اور ضرورت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔

دوسرے اسلامی عقائد کی مانند ظہور مہدی کے عقیدہ کو بھی اسلامی فرقوں کے درمیان قدر مشترک اور اتحاد کا ذریعہ ہونا چاہئے تھا، غلطی آپ کی ہے جو ایسے موضوع کا انکار کر رہے ہیں یا اس کے ذریعہ امت کے درمیان تفرقہ پیدا کر رہے ہیں جس پر پوری امت مسلمہ متفق و متحد ہے اور جس کے لئے دوسرے اسلامی عقائد سے زیادہ معتبر مدارک و منابع پائے جاتے ہیں۔

رہا قرب ساعت "قیامت" کا مسئلہ پہلی بات تو یہ کہ اقتراب اور قرب قیامت پر ایمان، قرآن مجید کی صریح و محکم آیات سے ماخوذ ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ عقیدہ کسی بھی قیمت پر ضعف یا سستی کا موجب نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے برخلاف قوت ارادی، احساس ذمہ داری، خلوص نیت، تہذیب نفس، اور کارِ خیر اور اعمال صالح کی جانب رغبت کا باعث ہوگا۔ غلطی سے آپ نے چونکہ حقائق کی تصدیق یا تکذیب کا معیار مادی نتائج کو بنا رکھا ہے اس لئے آپ "اقترا ب ساعت" کو براہ راست ممالک کی فتح کا سبب، مختلف ایجادات اور صنعتی و مادی ترقی کی دعوت کا موجب قرار دینا چاہتے ہیں اور آپ معنویات و اخلاقیات کی تاثیر اور اسلام کے مقصد ِ نظر "مدینہ فاضلہ" اوراس کے رابطہ سے بے خبر ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ انبیاء کی دعوت اور تعلیم و تربیت کی اساس مبداء ومعاد کے ایمان پرہے۔

مسلمانوں نے مبد ا ء ومعاد اور اسی اقتراب ساعت کے ایمان کے ساتھ بڑے بڑے ممالک کو فتح کیا ہے اور دور دراز علاقوں میں اسلامی پرچم لہرایا ہے اور دنیا بھر میں انسانی آزادی کا پیغام دیا ہے۔

اسی ایمان کے ساتھ دنیا والوں کو علم و دانش، تحقیق و تفکر اور علمی و صنعتی ترقی کی دعوت دی ہے ۔مسلمان اسی ایمان کے ساتھ علم و دانش اور تہذیب و تمدن کے علمبردار بنے ۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں بھی اسلام نے نامورعلماء پیش کےٴ۔

قیام مہدی اور قیامت کے وقت کی تعیین کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ "یہ عقائد انحراف و گمراہی کا ذریعہ ہیں اور فلاں دھوکہ باز سنی صوفی نے اس کا وقت مقرر کر دیا ہے" اس طرح آپ اپنے سنی بھائیوں سے شکوہ کر رہے ہیں۔ آپ کو شکوہ کا حق بھی ہے لیکن اگر کوئی مسلمان اس دھوکہ باز صوفی کی بات تسلیم کرلے تو اس کا گناہ اہل سنت کے آپ جیسے رہبروں کی گردن پر ہے کہ آپ افکار و اذہان کو روشن نہیں کرتے مبداء و معاد سے متعلق قرآنی معارف مسلمانوں کو نہیں بتاتے۔

قرآن نے صاف و صریح طور پر اعلان کیا کہ قیامت کا علم صرف خدا کو ہے اور ہمارا عقیدہ یہی ہے کسی کو قیامت کے وقت کا علم نہیں ہے اور اگر کوئی اس کا وقت معین کرے تو وہ جھوٹا ہے۔ عوام کی اکثریت بلکہ تمام مسلمان چاہے سنی ہوں یا شیعہ انہیں علم ہے کہ قیامت کی اطلاع کسی کو نہیں ہے۔ علماء اور خواص کو تو جانے دیجئے۔ قرآن کا اعلان ہے:

"انّ اللہ عندہ علم السّاعة" (۱(

اس کے باوجودبھی اگر نادان اس بارے میں اظہار خیال کرے تو اس کی بات قابل قبول نہ ہوگی اور نہ ہی کوئی اس کی بات پر دھیان دے گا۔ ایسے عقائد ضعف یا سستی کا موجب نہیں ہیں۔ بلکہ ضعف ِمسلمین کا سبب حقائق کا چھپایا جانا، حکام کی غلط سیاست اور اسلامی معاشرہ کو اسلام کے واضح راستہ سے گمراہ کرنا ہے۔

قیام ساعت اور قرب قیامت کی طرح ظہور مہدی پر ایمان بھی ضعف، پست ہمتی اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کا سبب نہیں ہے۔ کسی نے نہیں کہا کہ چونکہ مہدی کا ظہور ہوگا لہٰذا تمام ذمہ داریاں ختم اب مسلمانوں کو کفار کے حملوں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں کرنا ہے بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔

کسی نے نہیں کہا کہ آیہٴ کریمہ :

"واعدوا لہم مااستطعتم من قوة" (۱)

امربالمعروف و نہی عن المنکر، حق کی طرف دعوت، اسلام کے دفاع اور سیاسی و سماجی فرائض سے متعلق آیات کا نفاذنہیں ہونا چاہئے۔

کسی نے نہیں کہا کہ ظہور مہدی کا عقیدہ کاہل سست، ضعیف الارادہ اور بہانہ تلاش کرنے والوں اور اپنے گھر، وطن اور اسلامی علاقوں میں اغیار کے ظلم و ستم برداشت کرنے والوں کے لئے "عذر" ہے۔

ایک بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ تمام امور مستقبل یا ظہور مہدی تک معطل رکھو،اس کے برعکس روایات میں صبروثبات، سعی واستقامت اور شدت کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور قرآنی احکام پر عمل پیرا رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔

جیسے کہ پیغمبر اکرم اوراسلام کے اولین مجاہد حضرت علی اور دیگر صحابہٴ والا مقام نے ظہور مہدی کے انتظار میں گوشہ نشینی اختیار نہیں کی اورگھر میں خاموش نہیں بیٹھے رہے بلکہ کلمہ ٴ اسلام کی برتری کے لئے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہیں ہوئے اوراس راہ میں کسی قسم کی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا آج بھی مسلمانوں کی یہی ذمہ داری ہے۔

ظہور مہدی کا ایمان اور امام وقت کی موجودگی کا احساس، ذمہ داریوں سے غافل نہیں بناتا بلکہ احساس ذمہ داری میں اضافہ کرتا ہے۔

ظہور مہدی کا عقیدہ طہارت نفس، زہدوتقویٰ اور پاکیزگی کردار کا سبب ہے۔

ظہور مہدی کے ایمان کا مطلب امور کو آئندہ پر اُٹھا رکھنا، گوشہ نشینی اختیار کرنا اورآج کوکل پر ٹالنا اور کفار واغیار کے تسلط کو قبول کرنا، علمی وصنعتی ترقی نہ کرنا اور سماجی امور کی اصلاح ترک کردینا ہرگز نہیں ہے۔

ظہور مہدی کا عقیدہ رشد فکر کا باعث اور ضعف وناامیدی اور مستقبل کے تئیں مایوسی سے روکتاہے چنانچہظہور مہدی کے عقیدے سے وہی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو:

"انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون"(۱)

"ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔"

"یریدون لیطفئوا نور اللّٰہ بافواہھم"(۲)

"یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوںسے بجھا دیں۔"

"ولاتہنوا ولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم موٴمنین"(۳)

"مسلمانوں! خبردار (دینی معاملات میں) سستی نہ کرو اور (مال غنیمت اور متاع دنیا فوت ہوجانے کے ) مصائب سے محزون نہ ہونا اگر تم صاحبان ایمان ہو تو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے۔"

جیسی آیات سے حاصل ہوتے ہیں جس طرح ان آیات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان سستی کا شکار ہوجائے اور ذمہ داریوں سے گریزاں رہے اسی طرح ظہور مہدی ، آپ کے غلبہ اور عالمی حکومت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سستی اور ذمہ داریوں میں کوتاہی کو جائز سمجھ لیں۔

جس طرح صدر اسلام کے مسلمانوں نے ان آیات اور پیغمبر اکرم کی بشارتوں سے مستقبل کی فتوحات اور مسلمانوں کے ہاتھوں ممالک کی فتح کے بارے میں یہ نہیں سمجھا کہ ہمیں گھر میں بیٹھ کر مستقبل کا انتظار کرنا چاہئے اور دور سے مسلمانوں کی شکست، اور کفار کے مقابل علم وصنعت اور اسباب قوت میں مسلمانوں کی پسماندگی کا نظارہ کرتے رہنا چاہئے اور اس دور کے مسلمان یہ سوچ کر

خاموش نہیں بیٹھ گئے کہ خدا حافظ وناصر ہے اس نے نصرت کا وعدہ کیا ہے اس کا نور کبھی بجھ نہیں سکتااسی طرح جو لوگ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں خصوصاً اگرانہوں نے شیعہ طرق سے نقل ہونے والی روایات پڑھی ہیں تو انھیں اوامر خدا کی اطاعت اور احکام الٰہی کی ادائیگی میں دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ آگے ہونا چاہئے اور قرآن وشریعت، حریم اسلام، عظمت مسلمین کے دفاع کے لئے زیادہ غیرت وحمیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

اللھّم عجّل فرجہ وسہّ-ل مخرجہ واجعلنا من انصارہ واعوانہ

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔

(۱)یقینا الله ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ،سورئہ لقمان ۳۴۔

(۱) اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت کا انتظام کرو، سورئہ انفال۔ ۶۰

(۱)سورہٴ حجر آیت۹۔

(۲)سورہٴ صف آیت۸۔

())سورہٴ آل عمران آیت۱۳۹۔

Read 2149 times