دنیا اس وقت انسان کو اہمیت دینا اورا یک دوسرے کو دوستانہ نگا ہ سے دیکھنا چاہتی ہے ۔ انسانیت و معرفت کی دنیا کے لئے مادی دنیا میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ بھی ایسی تبدیلی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے ۔ آج بھی آپ کا پیغام پریشان و سرگردان انسان کو اخلاق ، امن اور عدل وانصاف کی ترغیب دلارہا ہے در حقیقت دین کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان کو مادی دنیا سے نکال کر انصاف و صداقت پر مبنی معنوی دنیا میں داخل کر دیتا ہے اور اسے ایک انصاف پسند اور ممتاز انسان بنادیتا ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو انقلاب لائے وہ ایسا انقلاب تھا کہ انسان حتی اپنے بھی غلط کاموں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا اور اپنے کاموں کی مذمت کرتاتھا ۔ جو شخص بھی پیغمبر اسلام کی رو ح پرورباتوں کو سنے گا اور ان پر عمل کر ےگا تو وہ خود کو اور دنیا کو پہچان لےگا اور اپنے کاموں کا محاسبہ کرےگا اور اس میں بنیادی طور پرتبدیلی آجائےگی پیغمبر اسلام نے اپنی روح افزا تعلیمات کے ذریعہ انسانی معاشرے کو گلستان میں تبدیل کردیا جو ہمیشہ سر سبز و شاداب اور معطر ہے۔
دین اسلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 23 سالہ کوششوں کا ثمرہ ہے ،اسلام ایک جامع اور کامل دین ہے جس نے کسی خاص قوم کو دعوت نہیں دی بلکہ پوری دنیا کو دعوت دی اور امت اسلامی کے اتحاد کو اپنے سیاسی اور سماجی پروگراموں میں سرے فہرست رکھا صدر اسلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خدا پر ایمان کے زیر سایہ وحدت و اخوت کا تحفہ لیکر آئے۔ رسول اکرم نے مدینہ میں داخل ہوتے ہی مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت و برادری کا کلمہ پڑھا اور اس طرح پہلی بار شہر مدینہ میں وحدت کی آواز پھیلی اور اتحاد وہمدلی کے زیر سایہ اسلا م وبرادری کی اعلی اقدار نے جاہلیت کی بے بنیاد اور کھوکھلی اقدار کی جگہ لے لی ۔پیغبر اسلام نے اسلامی معاشروں کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں خدا کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہنے کا حکم دیا اور عبودیت الہی کے زیر سایہ ہر قسم کے اختلاف اور تفرقہ سے پرہیز کرتے ہوئے امت واحدہ تشکیل دینے کی دعوت دی، مسلمانوں نےبھی اس دعوت پر عمل کرتے ہوئے اتحاد کے ذریعہ دشمنوں پر حملہ کیا اورتھوڑے ہی عرصے کے اندر اسلام دنیا میں پھیل گیا۔
عصر حاضر میں انقلاب اسلامی کے ظہور کے ساتھ مشام انسانی ایک بار پھر اتحاد وہمدلی کی خوشبو سے معطر ہوگیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی طر ح انقلاب اسلامی کی کامیابی کا ایک اہم عنصر وحدت کلمہ تھا۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ وحدت و اتحاد کے ایک بڑے اور کامیاب ترین منادی تھے اور دعوت وحدت ان کی زندگی اور عمل کا بنیادی پیغام تھا آپ نہ صرف سیاست میں بلکہ عرفان، فقہ اوردوسرے امور میں بھی اتحاد و ہمدلی پر ایمان رکھتے تھے ۔امام خمینی رحمت اللہ علیہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کو اتحاد وہمدلی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دنیاوالوں نے ملت ایران کے اتحاد کو دیکھ لیا اور یہ دیکھ لیا کہ ایران کے عوام نے ایمان کے بل بوتے پر خالی ہاتھ اور بغیر ہتھیارکے دوہزار پانچ سو سالہ شہنشاہی حکومت کو جڑ سے اکھاڑکر پیھنک دیا حالانکہ امریکہ جیسی طاقت اس کے ساتھ تھی لیکن وہ بھی کچھ نہ کرسکا ۔اگر ہم نے اتحاد کو باقی نہ رکھا تو ہمیں پھلی والی حالت کی طرف یا اس سے بھی بد تر حالت کی طرف پلٹا دیں گے۔
امام خمینی پیغمبر اسلام کی راہ پر چلنے والے اور ان کی روح پرورتعلیمات کے فریفتہ تھے او آپ اتحاد و ہودلی کی ضرورت پر بہت زیادہ زوردیتے تھے ۔آپ کا کہنا تھا کہ شیعہ اور سنی دو ایسے مذہب ہیں کہ جن کے ماننے والے بہت زیادہ ہیں اپنے اپنے عقائد کو ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک کرنا چاہیے اس لئے کہ مسلمانوں کی عزت وسر بلندی کے لئے یہ کام بہت اہم اور موثر ثابت ہوگا اور اپنے اتحاد کے ذریعہ دشمنوں کی سازشوں کو نقش بر آب کر د یں گے۔ چنانچہ امام خمینی نے بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول کے ایا م کو دو مختلف ر وایات کی بنا پر ہفتہ وحدت قرار دیا اور شیعوں اور سنیون کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں موئثر قدم اٹھایا ہے ۔ آپ کے صالح جانشین حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ہفتہ وحدت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مسلما نوں کے درمیان اس ہفتہ وحدت اور ہفتہ مشترک الا حترام کی قدر جانیے اور اس بات کی کوشش کریں کہ تمام مسلمانوں کی طاقت ایک محاذ پر اکھٹا ہوجائے اور مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا ہوجائے تو یہ عالمی طاقتوں کے سامنے مسلمانوں کی عزت و سر بلندی اور کامیابی کا راز ہوگا اسے غنیمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کو انقلاب اسلامی کامیابی کے بعد عالمی سامراج کی طرف سے مختلف سازشوں کا سامنا کرنا پڑا دشمنوں نے انقلاب کو کمزور کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے۔ جو مسلسل جاری ہیں دشمنوں کا ایک حربہ یہ تھا کہ مذہبی ، قومی اور سیاسی اختلاف پھیلایا جائے جسے رہبر انقلاب اسلامی کی درایت و ہوشیاری اور دور اندیشی اور لوگوں کے اتحاد اور پائداری نے نا کام بنا دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے منجملہ اہل تسنن کی نماز جماعت میں شرکت اور ان کے مقدسات کی توہین سے متعلق،منشور وحدت کی تدوین کے بارے میں حکم اور فتوی دے کر مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی ہےاور اس امر کو عالم اسلام کے لئے اہم اور بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہیں ۔رہبر انقلاب اسلامی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اسلام کی طاقت اور عالم اسلام میں موجود ذخائر اور مادی و معنوی امکانات سے سرشار صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عالم اسلام کو متحد رہنا چاہیئے اور آج اس چیز کی ضرورت ہے اور اسلامی معاشروں کی ضروریات بھی اسی چیز کو چاہتی ہیں کہ اسلامی معاشرے ایک دوسرے سے نزدیک ہوں اور ان کے درمیان اتحاد واتفاق پایا جائے۔ دشمنوں کو ان کی کمزریوں سے استفادہ کرنے کی اجازت نہ دیں۔ آپ شیعہ و سنی کے درمیان اتحاد کے بارے میں ایک اہم موضوع کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فرماتے ہیں کہ و حدت اسلامی سے ہماری مراد عقائد اور مذہب کے لحاذ سے ایک ہونا نہیں ہے بلکہ عالم اسلام میں ا تحاد سے ہماری مراد عدم تنازعہ ہے یعنی مسلمان آپس میں جھگڑا نہ کریں اور اختلاف سے پر ہیز کریں۔
در حقیقت اتحاد وہمدلی ہر معاشرے اور قوم کی عزت و طاقت کی موجب ہو تی ہے جس طرح اختلاف وتفرقہ ہر قوم اور معاشرے کی ذلت وخواری اور سقوط کا باعث ہوتا ہے۔ اسی لئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام گزشتہ امتوں کے حالات کو بیان کرکے لوگوں کو ان کے حالات سے عبرت حاصل کرنے اور ان کےسقوط و ترقی کےبارے میں غور وفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور اس کےبعد مسلمانوں کو ایسے کام انجام دینے کی تر غیب دلاتے ہیں جو ان کی عزت و شان کے موجب بنتے ہیں ۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ امور جن کی وجہ سے گزشتہ امتوں کی عزت وشان میں اضافہ ہوا وہ ہے اختلاف تفرقہ سے دوری اور آپس میں ایک دوسرے کو اتحاد کی ترغیب دلاتے تھے اور ہمت سے کام لیتے تھے وہ ہر اس چیز سےدوری اختیار کر تے تھے جو امت اسلامی کی طاقت کو کمزور کرتی تھی۔
ہمیں امید ہے کہ مسلمانوں نے پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئےنیز اتحاد و ہمدلی، مکمل بصیرت اور اپنے دشمن کے اہداف کو پہچانتے ہوئے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس میں وہ کامیاب اور سر بلند رہیں گے۔