اتحاد و وحدت ،حضرت آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نظر میں

Rate this item
(0 votes)
اتحاد و وحدت ،حضرت آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نظر میں

قرآن کریم اور احادیث پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلط تفسیر و تشریح حالیہ برسوں میں تکفیری گروہوں کے پروان چڑھنے اور ان کی جانب سے دوسرے مسلمانوں بالخصوص شیعہ مسلمانوں کو کافر قرار دیئے جانے، اتحاد بین مسلمین کو پارہ پارہ کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف و نفرت کا بیج بونے کے لئے تسلط پسند نظام کے نئے سیناریو کا نتیجہ ہے۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہ دہشتگردگروہ جو بظاہر اسلام پسند نظرآتا ہے خفیہ طور پر دنیا کی بڑی طاقتوں سے مالی مدد حاصل کرتا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ طاقتیں ان گروہوں کو اپنے سیاسی اہداف کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

درحقیقت عالمی سامراج اور دنیا کی بڑی طاقتیں ان گروہوں کا پروپیگنڈہ کرکے انھیں مسلمانوں کی علامت کے طور پرپیش کرتی ہیں اور دنیا کے سامنے اسلام کو تشدد پسند مذہب کے طور پرپیش کرتی ہیں۔ اور یہ خود اسلامی ممالک میں مداخلت اور ان پر دباؤ ڈالنے کا بہانہ بن جاتا ہے۔

اس سلسلے میں رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای فرماتے ہيں: امریکہ اور اسرائیل کی سربراہی میں کفر ونفاق کے علمبردار چاہتے ہيں کہ جہاد و استقامت کو فرزندان اسلام کے قتل اور تکفیر کے منصوبے میں تبدیل کردیں، ایک جملے میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ عالم اسلام پر شیعہ و سنی جنگ مسلط کرناچاہتے ہيں اور اپنے خیال خام میں اس طرح عالم اسلام کے تمام مادی و معنوی امورکو اپنے کنٹرول میں لے لیناچاہتے ہیں۔

اس عمل میں انسانی حقوق کی اصلی خلاف ورزی کرنے والے تکفیریوں کے حامی ہيں جو مسلمانوں کے قتل میں ملوث ہیں۔ شیعہ و سنی کو برا بھلاکہہ کراور ان پرتہمت لگا کر انھیں مشتعل کیا جاتا ہے اور اس کام میں مغرب کی سرمایہ کاری اور ان کے ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کیا جاتا ہے جو خود اس اختلاف و تفرقہ سےعالمی سامراجی محاذ کوحاصل ہونے والے منافع کو ظاہرکرتا ہے۔

اس سلسلے میں رہبرانقلاب اسلامی فرماتے ہيں : مسلمان سے مسلمان کی جنگ کے عامل وہ لوگ ہیں جو سامراج کے ایجنٹوں کے پیسے استعمال کرتے ہیں ۔ وہ دشمن کی پروپیگنڈہ مشینریوں کے ذریعے، رائے عامہ کی نظر میں اسلام کو برا بنا کر ظاہر کرتے ہیں جب ٹیلی ویژن پر ایک انسان کو ایک دوسرے انسان کا جگر چباتے ہوئے دکھایاجاتا ہے تو دنیا اسلام کے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے۔ یہ وہ چیزیں نہيں ہے جو اچانک پیدا ہوگئي ہیں یہ گھنٹوں میں وجود میں آنے والی چیزیں نہيں ہيں ، یہ وہ چیزیں ہيں جن کے بارے میں مدتوں پروگرام بنایاگیا ہے، اس کے پیچھے سیاست ہے ،اس کے پیچھے پیسہ ہے ، اس طرح کے کاموں کے پیچھے جاسوس تنظیمیں ہيں۔

رہبرانقلاب اسلامی کی نظر میں یہ لوگ نہ شیعہ ہیں نہ سنی بلکہ صرف جنگ بھڑکانے، جھگڑا کرانے اور دشمنان اسلام کے اہداف و مقاصد کو آگے بڑھانے والے ہيں۔ آپ اسلام کا اصلی دشمن، اشتعال دلانے والوں اور تکفیریوں کی مالی واسلحہ جاتی مدد کرنے والوں کو قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہيں : اصلی دشمن وہ ہیں جو انکا محرک ذرا کمزور پڑ تے ہی ان کی طرح طرح سے مدد کرکے ان کے اندر محرک پیدا کرتے ہیں۔اصلی دشمن وہ شخص ہے جو اس نادان، جاہل، گروہ کو مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کے لئے استعمال کرتا ہے، یہ خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں۔ لہذا میں نے باربار کہاہے کہ عقل سے عاری یہ گروہ  جو سلفیت اور تکفیریت کے نام پر، اور اسلام کے نام پر مسلمانوں سے جنگ کررہا ہے ہم اسے اصلی دشمن نہيں سمجھتے ، انھیں فریب خوردہ سمجھتے ہيں ،اصلی دشمن پردے کے پیچھے بیٹھا ہوا ہے، وہ ہاتھ بہت خفیہ بھی نہيں ہے ، بلکہ سیکورٹی ایجنسیوں کی آستینوں سے باہر آتا ہے، اور مسلمانوں کاگریبان پکڑتا ہے اور انھیں ایک دوسرے سے لڑاتا ہے۔                   

قرآن کریم نے تفرقہ ڈالنے سےخبردار کرتے ہوئے تقرقہ ڈالنے والوں کو اسلام سے الگ اور دشمن اسلام قراردیا ہے اور پورے یقین سے کہتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے آئين کو پراگندہ کرلیا، اور طرح طرح کے گروہوں میں بٹ گئے اے پیغمبر ان سے آپ کا کوئي واسطہ نہيں ہے ، ان کا سروکار صرف اللہ سے ہے۔

قرآن کریم نے انتشار اور تفرقے کو مشرکوں کی منصوبہ بندی بتایا ہے اور مسلمانوں کو اس سے سختی سے روکا ہے اور اتحاد کے ساتھ توحید کی طرف دعوت دی ہے اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ : ان مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ کہ جنھوں نے اپنا دین پراگندہ کرلیا اور گروہوں اور دھڑوں میں تقسیم ہوگئے۔

مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقے کا ایک  نتیجہ، اسلامی بیداری سے انحراف ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی اس نکتے کے پیش نظر فرماتے ہيں: آج اسلامی بیداری تحریک کو جس چیز سے سب سے بڑا خطرہ ہے وہ اختلاف ڈالنا اور ان تحریکوں کا خونریز قومی ، نسلی اور مذہبی جھڑپوں میں تبدیل ہوجاناہے۔

یہ سازش اس وقت مغرب اور صیہونیزم کی جاسوسی تنظیموں کی جانب سے، پیٹروڈالر اور خودفروش سیاستدانوں کی مدد سے، مشرق سے لےکر شمالی افریقہ تک بالخصوص عرب علاقے میں پوری سنجیدگی اور زور وشور سے جاری ہے اور جو دولت مخلوق خدا کی خدمت کےلئے خرچ ہونی چاہئےتھی وہ دھمکی، قتل ، بم دھماکوں، مسلمانوں کاخون بہانے اور طویل مدت کینےکی آگ بھڑکانے پرخرچ ہو رہی ہے۔

اس بیچ اس ہلاکت خیز فتنے میں جو چیز ضروری ہے وہ بصیرت غور و فکر ، تدبر و تفکر اور گہرا تجزیہ ہے تاکہ اختلاف و تفرقے اور دشمنان اسلام کی عیاری ومکاری سے بچتے ہوئے مسلمانوں کی صفوں میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں ناکام بنائی جاسکیں۔

رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہيں:اس طرح کے مواقع پر جس طرح کی بصیرت ضروری ہے اس کاذکر روایتوں اورائمہ علیھم السلام کے کلام میں موجود ہے اور اس پر تاکید کی گئی ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے زمانے کےحالات و واقعات پرغور وفکر کرناچاہئے اور آسانی کے ساتھ اسے نظرانداز نہ کرے۔امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے بقول عبرت حاصل کرے، حضرت نےفرمایا رحم اللہ امرا تفکر فاعتبر، غور و فکر اور اس کے نتیجے کی بنیاد پر عبرت حاصل کرے یعنی مسائل کا تدبر کےساتھ جائزہ لے۔حالات کا درست جائزہ لینا اور غور و فکر کرنا انسان میں بصیرت کا باعث ہوتا ہے اس سے بصیرت پیدا ہوتی ہے یعنی غور و فکر انسان کے اندر بینائی پیدا کرتی ہے اورانسان کو حقیقت نظرآنے لگتی ہے۔

بابصیرت انسان بخوبی سمجھتا ہے کہ جو بھی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنےکی کوشش کرتا ہے اسے ضرور سامراج کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ہدایات ملتی ہيں ۔آپ اس سلسلے میں مسلمانوں کے لئے ایک مجموعی اصول بیان کرتے ہوئےفرماتے ہيں:  آج دنیائے اسلام میں اتحاد کے لئے جو آواز بھی بلند ہوتی ہے وہ الہی آواز ہے ۔یعنی وہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے۔ اور جو آواز بھی اسلام کے مختلف فرقوں میں اختلاف ڈالے یا ایک دوسرے سے دشمنی کے لئے اکسائے اور تعصب کو ھوا دے وہ شیطانی آواز ہے جو لوگ ابلیس کی زبان میں بات کرتے ہیں وہ خود کو اور اپنے سننےوالے کو جہنم کی طرف لے جاتے ہيں خود کو ہلاکت میں مبتلاء کرتے ہيں۔کیا نہيں دیکھاکہ جو لوگ نعمت الہی کوکفران الہی میں تبدیل کرتے ہيں ، وہ اپنی قوم کو نابودی کی جانب لےجاتے ہيں، نابودی وہی جہنم ہے جس کی آگ میں وہ ڈالے جائيں گے اور وہ کیا برا ٹھکانہ ہے۔

فتنہ و فساد کی آگ میں جو چیز سامراج کے مفادات اور مذموم عقائد کوناکام بناتی ہے وہ وحدت مسلمین ہے چنانچہ قرآن اتحاد کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ سب لوگ اللہ کی رسی کومضبوطی سے پکڑ لو اور متفرق نہ ہو۔ اسی طرح پیغمبراسلام فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان ایک ہاتھ کی مانند اغیار کے سامنے متحد ہیں۔

رہبرانقلاب اسلامی فرماتے ہيں : اس وقت عالم اسلام کے پاس اپنی قوموں کے مفادات کے تحفظ کے لئے واحد راستہ اسلام کے محور پر اتحاد قائم کرنا ہے، دشمنوں اور مستکبرین کے سامراجی اہداف کا انکار ہے۔ استکبار کا مقصد دنیائے اسلام بالخصوص مشرق وسطی میں دینی اور قومی  تشخص پامال کرنا ہے ۔ اس مقصد کا مقابلہ کرنے کےلئۓ مزید اتحاد ، مزید یکجہتی، اسلام سے تمسک، اسلام کی ترویج و تبلیغ اور امریکہ اور سامراج کی زیادہ طلبی کا انکار ہے۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے تاریخ انسانی میں کسی بھی قوم یا امت کو اختلاف کےعالم میں کوئي نعمت نہيں دی ہے ۔

اختلاف و تفرقہ باعث بنتا ہے کہ اللہ تعالی لوگوں سے عزت اور فراوانی نعمت سلب کرلے۔ چنانچہ اس وقت عالم اسلام کو ہرچیز سے پہلے ، پہلے سے زيادہ اتحاد ویکجہتی کی ضرورت ہے تاکہ مسلمانوں کی صفیں، دشمنان اسلام کے پیکر پر لرزہ طاری کردیں۔

 

Read 3537 times