يہي وجہ تھي کہ خلافت شروع ہونے کے بعد امام ط‘ کي جانب سے کوئي ايسي بات ديکھنے ميں نہيں آئي کہ ان کي گفتگو يا عمل سے (اسلام کي طاقت کي حفاظت کے خيال سے)خلفاء کي طاقت اور دبدبے کو نقصان پہنچے يا ان کي طاقت گھٹنے يا ان کي شان اور رعب ميں بٹا لگنے کا سبب بنتي ، خلفاء کي ان کارروائيوں کے باوجود جو آپ ديکھتے تھے اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے گھر ميں بيٹھے رہے يہ تمام احتياطيں محض اس ليے تھيں کہ اسلام کے فائدے محفوظ رہيں اور اسلام اور مسلمانوں کے اتحاد اور ميل جول کے محل ميں کوئي خرابي اور دراڑ پيدانہ ہو چنانچہ يہ احتياط لوگوں نے آپ ہي سے سيکھي سمجھي -
حضرت عمر ابن خطاب بار بار کہتے تھے:
لاَ کُنتُ لِمُعضَلَۃٍ لَيسَ لَھَا اَبُو الحَسَن :- خدا نہ کرے کہ ميں ايسي مشکل ميں پڑوں کہ جہاں ابوالحسن نہ ہوں-
يا
لَولاَ عَلِّيٌ لَھَلَکَ عُمَرُ :- اگر علي نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا -
(نوٹ، 1-صحيح بخاري، کتاب المحاربين ، باب الايرجم المجنون ،سنن ابي داود، باب مجنون يسرق صفحہ 147، مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 140 و 154،سنن دار قطني، کتاب الحدود صفحہ 346، کنرالعمال، علي متقي، جلد 3 صفحہ 95،فيض القدرير ،منادي،جلد 4 صفحہ 356، موطا، مالک، کتاب الاشر بہ صفحہ 186 ، مسند، شافعي، کتاب الاشربہ صفحہ 166 ، مستدرک حاکم جلد 4 صفحہ 375، سنن بيہقي صفحہ 123 ، رياض النضرہ، محب طبري، جلد 2 صفحہ 196، طبقات ابن سعد جلد 2 باب 2 صفحہ 102، شرح معافي الآثار، طحاوي، کتاب القضاء صفحہ 294 ، استيعاب، ابن عبدالبر، جلد 2 صفحہ 463، نورالابصار، ثعلبي، صفحہ 566، درمنشور، سيوطي، سورہ مائدہ آيت خمر)
امام حسين ط‘ کي روش بھي کبھي بھلائي نہيں جاسکتي کہ انہوں نے کس طرح اسلام کي حفاظت کي خاطر معاويہ سے صلح کي، جب آپ نے ديکھا کہ اپنے حق کے دفاع کے ليے جگ پر اصرار کرنا، قرآن اور عادلانہ حکومت ہي کونہيں بلکہ اسلام کے نام کو ہميشہ ہميشہ کے ليے مٹادے گا اور شريعت الہٰيہ کو بھي نابود کردے گا تو آپ نے اسلام کي ظاہري نشانيوں اور دين کے نام کي حفاظت ہي کو مقدم سمجھا-
اگرچہ يہ رويہ اس کے برابر ٹھہرا کہ ان ظالموں کے باوجود جن کے بارے ميں يہ انتظار تھا کہ آپ پر اور آپ کے شيعوں پر ڈھائے جائيں گے، معاويہ جيسے اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن اور آپ سے اور آپ کے شيعو سے دل ميں بغض اور کينہ رکھنے والے دشمن سے صلح کي جائے- اگرچہ بني ہاشم اور آپ کے عقيدت مندوں کي تلواريں نيام سے باہر آچکي تھيں اور حق کے بچاۆ اور حصول کے بغير نيام ميں واپس جانے کو تيار نہيں تھيں ليکن امام حسن ط‘ کي نظر ميں اسلام کے اعليٰ فوائد اور مقاصد کي پاسداري ان تمام معاملات پر فوقيت رکھتي تھي- ( جاري ہے)
متعلقہ تحریریں:
''و عترتي اہل بيتي '' صحيح ہے يا ''و سنتي''؟