مسلمان ایک دوسرے کے قریب آجائیں تاکہ دونوں کی لڑائی تیسرے کی جیت نہ بن جائے

Rate this item
(0 votes)

منگل, 03 جولائی 2012 تحریر مولانا سلیم جاوید

تقریب و یکجہتی کے لئے اپنے پیغام میں حنفیہ مسجد علی کے امام جمعہ جناب مولانا سلیم جاوید نے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے علماء کرام سے متحد ہوجانے کی اپیل کی ۔

تقریب مذاہب اسلامی کے پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے مورخہ 22 جون کو حجت الاسلام والمسلمین حاج عبد الحسین کشمیری نے اپنے رفقاء کے ساتھ ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے وسطی ضلع کے بیروہ تحصیل میں واقع حنفیہ مسجد علی چیوڈارہ میں باجماعت نماز جمعہ ادا کی اور نمازیوں کے جم غفیر کو تقریب بین المذاہب اسلامی کے پیغام سے روشناس کیا۔

تقریب و یکجہتی کے لئے اپنے پیغام میں حنفیہ مسجد علی کے امام جمعہ جناب مولانا سلیم جاوید نے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے علماء کرام سے متحد ہوجانے کی اپیل کی ۔

مولانا سلیم جاوید نے کہا: ہمارے مابین کچھ مسلکی اختلافات ضرور ہیں مگر وہ علمی ہیں اور انکو علماء کرام تک ہی محدود رکھنا چاہئے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو ان اختلافات سے دور رکھا جائے کیونکہ علماء کا اختلاف باعث رحمت ہے اور عوام کا اختلاف باعث زحمت۔

انہوں نے علماء کرام سے گذارش کرتے ہوئے کہا: میں علماء کرام سے التجا کرتا ہوں کہ وہ متحد ہوجائیں ۔ جب تک علماء متحد نہیں ہونگے تب تک عوام میں بے باکی ختم نہیں ہوگی ۔

مسجد علی کے امام جمعہ نے کہا: اسلام دشمن ممالک بشمول امریکہ مسلمانوں کو پست کرنا چاہتے ہیں ۔ مسلمانوں کو گروہوں میں بانٹ دینا چاہتے ہیں ، اسی میں انکی کامیابی ہے ۔ علماء کرام کو اس بات کو مدّ نظر رکھنا چاہئے کہ ہم سب کا راستہ اور طریقہ مکمل ہے جو ہمیں رسول کریم (ص) نے دکھایا ہے ۔ لہٰذا اس میں کوئی اختلاف یا دو رائے نہیں ہے کہ اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اگر مسلمان خود کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، اسلام کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور پیارے نبی (ص) کے مبارک علم اور دین کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ایک ہوجائیں ۔

مولانا سلیم جاوید نے کہا: میری مسلمانوں سے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں دست بندانہ التجا ہے کہ وہ دن بہ دن یہ کوشش کریں کہ مسلمان ایک دوسرے کے قریب آجائیں تاکہ دونوں کی لڑائی تیسرے کی جیت نہ بن جائے ۔

اس موقع پر اپنے خطاب میں حجت الاسلام والمسلمین حاج عبد الحسین کشمیری نے کہا کہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے شعبان المعظم کو اپنے ساتھ نسبت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ "شعبان میرا مہینہ ہے جو کوئی میرےمہینے میں ایک دن روزہ رکھے گا بہشت اس پر واجب ہوگی"۔آنحضرت کے مہینے میں ہمیں بہشتی بننے کی تربیت ملتی ہے تاکہ خدا کے مہینے میں داخل ہوکرخدا کا مہمان بننے کاشرف اور لطف حاصل کرسکیں ۔

انہوں نے ماہ شعبان کی فضیلت اور پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:ماہ شعبان میں اہلبیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی چاند اور آفتابوں کی ولادت ہوئی ہے جن میں دو سے تو سبھی مسلمان واقف ہیں یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہیں ۔دونوں شخصیتوں نے انسان کو بہشت کا مستحق اور خدا کا مہمان بننے کا عملی نمونہ پیش کیا ہے کہ حضرت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام اور مسلمانوں کی قدر و منزلت کیا بیان فرمائی ہے اوراسکی حفاظت اور تکمیل کے لئے کیا کچھ کرنا ضروری ہے ۔

انہوں نے مذید کہا:امام حسین علیہ السلام نے ثابت کر دکھایا ہےکہ خدا کی اطاعت اور اسلام کی حفاظت سے بڑکر کوئی چیز نہیں ہے اور حسین بن علی علیہم السلام جیسی شخصیت جن پر انبیاء ،اولیاء اللہ اور ملائکہ رشک کرتے ہیں اس پر قربان ہونے کو اپنا معراج ثابت کرتے ہیں اسطرح اسلام کے نام پرکسی بھی شکل میں ظلم اور ناانصافی کا سکہ رائج کرنے کا دروازہ بند ہوا ہے ۔اور امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف جو کہ خدا کے حکم سےظاہر ہوکردنیا بھر میں ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ کرکے امام حسین علیہ السلام کے انقلاب کو آخری شکل دیں گے اسلئے ہر مسلمان شیعہ ہو یا سنی کو اس آخری اسلامی انقلاب میں حصہ دار رہنے کیلئے شعبان اور رمضان کے مہینوں میں اپنے آپ کوایسی تربیت کے سانچے میں ڈالنا ہوگا جسکا خاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا ہے ۔

عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کے رکن حاج عبدالحسین نے شیعہ سنی مشترکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:بارہ اماموں کے بارے میں شیعہ اور سنی کے درمیان اصطلاحی اختلافات ضرور ہوسکتے ہیں لیکن عقیدے کے اعتبار سے کوئی مسلمان انکے اسلامی مقام اور منزلت کا منکر نہیں ،بلکہ بارہویں امام کے ظہور کے بھی منکر نہیں ۔

انہوں نے شیعہ سنی مسلمانوں کے درمیان بعض اعتقادی مسائل میں اختلاف کو اصطلاحی اختلاف عنوان کرتے ہوئے اہلسنت علماء کے چند اشعار پڑھے جن سے شیعہ اور سنی کے درمیان اعتقادی اعتبار سے بھی ذرہ برابر فرق نہیں ملتا اور کہا:شمس الدین ابن طولون حنفی متوفی ۹۵۵ ہجری اہلسنت عقیدے کی یوں ترجمانی کرتے ہیں:

عليکَ بالأئمةِ الاثني عشر _____ ت المصطفي خيرِ البشر

أبو ترابٍ حَسنٌ حسينُ‏_____ و بغض زين العابدين شينُ‏

محمّد الباقر کم علمٍ دري‏_____ و الصادقُ ادعُ جعفراً بين الوري‏

موسي‏ هو الکاظم و ابنه علي _____ لقّبهُ بالرضا و قدرُهُ عليّ‏

محمد التقيُّ قلبُه معموُر _____ علي التَّقيُ درّه منثور

و العسکري الحسن المطهّر _____ محمّد المهديُّ سوف يظهر

یا عطار نیشاپوری حنفی متوفی ۶۱۸ نے خلفای راشدین کے نسبت اظہار تعظیم کرنے کے علاوہ اہلبیت علیہم السلام کے بارے میں کہتے ہیں:

مصطفي، ختم رسُل شد در جهان _____ مرتضي، ختم ولايت در عيان‏

جمله فرزندان حيدر اوليا _____ جمله يک نورند؛ حق، کرد اين ندا

قصیدے کے آخر میں کہتے ہیں:

صد هزاران اوليا روي زمين _____ از خدا خواهند مهدي را يقين‏

يا الهي مهديم از غيب آر _____ تا جهانِ عدل، گردد آشکار

مهدي هادي است تاج اتقيا_____ بهترين خلق بُروجِ اوليا

اي تو ختم اولياي اين زمان _____ وز همه معني نهاني جان جان‏

اي تو هم پيدا و پنهان آمده _____ بنده عطارت ثنا خوان آمده

غرض مسلمانوں کے درمیان اصطلاحات اور تعبیرات میں اختلاف دیکھنے کو مل سکتا ہے لیکن امت کی شکل میں انہیں ایک جسم کے مانند رہنا ہے تاکہ اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو اسے دوسرا حصہ بھی محصوص کرے اور جسم کے مرکز دل اور دماغ میں خوشی ہو اسے سارا جسم محسوس کرے اور اگر غم ہو تو اسے بھی پورا جسم محسوس کرسکے ۔

آخر میں انہوں نے دعائیہ کلمات کے ساتھ کہا:اللہ کی بارگاہ سے دست بدعا ہیں کہ اے اللہ ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق نصیف فرما تاکہ بشریت کیلئے مسلمان کو خیر امت کا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں ۔آمین یا رب العالمین۔

Read 2255 times