عورت کی عصمت و عفت کا تصور

Rate this item
(0 votes)

عورت کی عصمت و عفت کا تصور

یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ عورت ہمیشہ افراط و تفریط کے المناک عذاب میں مبتلا رہی ہے۔ عورت کو کبھی تقدس کا اونچا درجہ دے کر پاربتی اور درگار دیوی بنایا گیا، جس کے قدموں میں خود شنکر اور کیلاش پتی نظر آتے ہیں، کبھی اس بے بس مخلوق کو خدا کی لعنت اور ’’شیطانی کمند‘‘ قرار دیتے ہیں، کبھی اس کو اس حد تک اونچا کیا گیا کہ جائیداد منقول اور غیر منقول کا حق صرف عورت تک محدود کر دیتے ہیں اور مرد کے بارے میں فیصلہ کیا گیا کہ وہ نہ تو کسی جائیداد کا مالک ہو سکتا ہے اور نہ اُسے بیچ سکتا ہے، جیسا کہ افریقہ کے کئی قبائل خصوصاً ملثمین کے قوانین میں درج ہے کہ عورت کو خود منقولہ جائیداد سمجھا گیا۔ جیسا کہ ارسطو طالیس کی تعلیمات میں ملتا ہے کبھی عورت کو وراثت سے کلیتاً محروم کر دیا گیا ہے، کیونکہ اس سلسلے میں بہت سے مفکروں نے مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے، جیسے یونانیوں کا خیال تھا کہ آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسے جانے کا علاج ممکن ہے، لیکن عورت کے شر کا علاج محال ہے۔

سقراط کہتا ہے کہ عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں ہے، وہ ایک ایسا درخت ہے کہ بظاہر انتہائی خوبصورت اور خوش نما نظر آتا ہے، لیکن جب کوئی اسے کھاتا ہے تو مر جاتا ہے۔ افلاطون کا قول ہے کہ دنیا میں جتنے ظالم اور ذلیل مرد ہوتے ہیں وہ سب نتائج کی دنیا میں عورت بن جاتے ہیں۔ مقدس قدس برنار کہتا ہے کہ عورت شیطان کا آلہ کار ہے۔ یوحنا دمشقی کہتا ہے کہ عورت مکر کی بیٹی ہے اور امن و سلامتی کی دشمن۔ مونٹسکو کہتا ہے کہ فطرت نے مرد کو طاقت دی ہے اور عقل و خرد سے نوازا ہے، لیکن عورت کو صرف زینت اور خوشنمائی دی ہے۔

ان خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر شخص نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کے تحت عورت کے بارے میں اچھی بری رائے قائم کی۔ زندگی میں ہر شخص کے ذاتی تجربات اور مشاہدات مختلف ہو سکتے ہیں، چنانچہ ہر ایک نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے، چونکہ بڑے لوگ تھے اس لئے ان کی باتوں کو ضرب المثال کا درجہ حاصل ہو گیا۔ جنہیں آج تک عورت کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ تمام باتیں اس طرزِ فکر کی ترجمانی کرتی ہیں، جن کا خمیر بھی افراط و تفریط سے اٹھایا گیا تھا۔ ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے عورت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ صرف ان کی صفاتی کمزوریوں اور خرابیوں کو ضرب المثال کا درجہ دے دیا۔

اعتدال کو قائم نہ رکھنے کی یہ صورت آج کے اس ترقی یافتہ متمدن اور مہذب دور میں بھی یہ بدستور قائم ہے۔ مغربی اور استعماری ایجنٹ جو سب سے زیادہ عورت کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں، ان کے ہاں یورپ میں کئی ممالک ایسے ہیں جن میں عورت کو حق رائے دہی حاصل نہیں۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹسں کے دروازے ان پر بند ہیں۔ پہلے برطانیہ میں عورت وزیراعظم نہیں بن سکتی تھی، امریکہ میں عورت صدر نہیں بن سکتی تھی، فوج کی سپہ سالار عورت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اسے ورلڈ بینک آف انگلینڈ میں ڈائریکٹر کا عہدہ دیا جا سکتا ہے۔

شادی کرتے ہی عورت اپنے اصلی نام سے محروم ہو جاتی ہے، جب تک شادی نہ ہو تو باپ کے نام سے پہچانی جاتی ہے، جیسے کہ اس کی اپنی کوئی شخصیت نہ ہو۔ عملی طور پر زندگی کے ہر شعبے میں اس کو کم تر درجہ مخلوق بنا کر رکھا گیا ہے، لیکن ہر قسم کے لہو و لعب کے کاموں، کلبوں اور عیاشی کے اداروں میں اس کو بے پناہ عزت حاصل ہے۔ عام اجتماعی زندگی میں عریانی، فحاشی اور بے لگام آزادی اسے اس طرح دی گئی ہے کہ اس کے بغیر کسی محفلِ نشاط کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔

عورت ایک انتہائی خوبصورت اور خوش رنگ پھول ہے، نسوانیت کا جوہر اس کی خوشبو ہے۔ یہ جوہر عورت کی عصمت و عفت کا تصور ہے، جب یہ بھینی بھینی عطر بیز خوشبو گلزار ہستی میں پھیلتی ہے تو اسے رشک فردوس بنا دیتی ہے، ہر شخص کی زندگی دامن گل فروش بن جاتی ہے، اسی خوشبو کا اعجاز ہے کہ مختلف قبیلے، ذاتیں، قومیں اور انسانی گروہ معرضِ وجود میں آتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی قوم کے برے دن آتے ہیں تو سب سے پہلے اس قوم کی عورتیں عصمت و عفت کے جوہر سے محروم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ دانشور اور فلاسفر تصور عصمت و عفت کا مذاق اڑاتے ہیں، عورت کی دوشیزگی کو قدامت پرستی کے طعنے دیئے جاتے ہیں اور یہ نام نہاد اہلِ علم اور قلم کار عورت کو ایسے ایسے خوبصورت فریب دیتے ہیں کہ وہ آخر اپنے فطری راستے سے بھٹک جاتی ہے۔ چونکہ عورت میں روزِ اوّل سے ہی احساسِ کمتری پیدا کر دیا گیا ہے، اس لئے جب اسے مردوں کی طرف سے شتر بے مہار قسم کی آزادی ملتی ہے تو وہ بہک جاتی ہے اور بہت خوش ہوتی ہے کہ اسے اُس کے حقوق مل گئے ہیں۔

یہی وہ دھوکہ اور طلسمی فریب ہے جس میں جدید دور کی عورت کو مبتلا کر دیا گیا ہے! اس افراط و تفریط کے عمل میں عورت کا ظالمانہ استحصال بھی شامل ہوتا ہے، جو آج تک جاری ہے۔ یہ حماقت ہے کہ عورتوں کے کام مرد کریں، اور مردوں کے کام عورتیں انجام دیں، کیونکہ ہر ایک کی ساخت اور فطری تقاضے ہیں، جو خالق کائنات نے ازل سے عطا کئے گئے ہیں۔ جہاں تک اس حقیقت کا تعلق ہے یہ قطعی حقیقت ہے کہ مرد نے ہمیشہ اسی آغوش کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، جس آغوش میں اس نے پرورش پائی اور اسی سینے کو زخمی کیا، جس سے اس کا رشتہ حیات وابستہ رہا۔

ان تمام اقوال اور خیالات کے باوجود یورپ کی پہلی جنگ عظیم کے اوائل میں ہی اہل یورپ نے یہ محسوس کیا کہ وہ چاہے عورت کے بارے میں جو بھی خیالات رکھتے ہوں، مگر اس کے بغیر جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ مردوں کی کثیر تعداد جنگ کے محاذوں پر مصروف ہو گئی ہے تو اندرونی ذمہ داریاں کون نبھائے گا؟ چنانچہ خواتین نے اسلحہ ساز اور دیگر ہر قسم کے کارخانوں میں جا کر کام کرنا شروع کر دیا۔ حالات کے تحت عورتوں نے علمِ طب میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی، وکالت کے میدان میں آئیں، وظائف اور مناصب حاصل کرکے قلیل عرصے میں یہ ثابت کر دیا کہ عورتیں بھی مردوں کے کام حسن و خوبی کے ساتھ انجام دی سکتی ہیں۔

اسی طرح سرزمین عرب میں جس قدر ادیب، شاعر اور فاضل خواتین پیدا ہوئیں، وہ فراست و شجاعت اور ذہانت کی زندہ مثال تھیں، جو ریگستان عرب میں مشہور و معروف ہوئیں، حالانکہ یہ وہی سرزمین عرب تھی جہاں عورت کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا تھا۔ لیکن اسلام کی روشنی پھیلنے کے بعد پورے ملک میں عورت کی زندگی میں انقلاب آ گیا۔ اسلام نے عورتوں کے لئے جو اصول و ضوابط پیش کئے اور تعلیم و تربیت کے جس اصول کو پیشِ نظر رکھا، وہ یقینا عورت کی صحیح اور متوازن فطری آزادی کا ضامن تھا۔

اس تعلیم و تربیت کی بدولت نہایت مختصر عرصے میں نسائیت کے وہ اعلٰی ترین نمونے پیش کئے کہ اب پوری دنیا میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی صرف ایک وجہ تھی کہ اسلام دنیا کا وہ پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے صدیوں کی ٹھکرائی اور روندی ہوئی مظلوم عورت کو فطری حدود کے اندر جائز اور مکمل آزادی عطا کی۔ انہیں عزت و آبرو اور وقار کا مقام عطا کیا، جو ہر قسم کے افراط و تفریط سے یکسر پاک تھا، یہ افراط و تفریط کا رویہ ہی ہمیشہ عورت کے لئے دنیا میں جہنم زار بنا رہا ہے۔

دنیا میں فقط اسلام ایسا دین فطرت ہے، جس نے عورت کو عورت اور خدا کی حسین مخلوق سمجھا ہے اور اس کی بشری کمزوریوں کو نہیں اچھالا بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے حکم دیا کہ دونوں میں بہتر وہی ہے جو تقویٰ میں بہتر ہے۔ ان دانشوروں کی طرح اسلام نے عورت میں احساسِ کمتری اور احساسِ ذلت پیدا نہیں کیا، بلکہ عورت کو ہر روحانی بلندی تک پہنچنے کے قابل بنایا ہے، بشرطیکہ وہ سچی مسلمان ہو اور سچی مسلمان عورت کا کردار فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ حضرت زہرا (س) کی زندگی بہت مختصر تھی، لیکن زندگی کے مختلف شعبوں، جہاد، سیاست، گھر اور معاشرے و اجتماعیت میں ان کی زندگی کی برکت، نورانیت، درخشندگی اور جامعیت نے انہیں ممتاز اور بے مثل و بے نظیر بنا دیا ہے۔

خواتین اپنے حقوق اور اسلام کی نظر میں عورت کے کردار میں معیار و میزان کے فہم اور ان معیاروں کی اساس پر اپنی تربیت و خود سازی کی روش و طریقہ کار کی دستیابی کے لئے حضرت فاطمہ زہرا (س) جیسی عظیم المرتبت شخصیت کو اپنے سامنے موجود پاتی ہیں، اور اس بناء پر وہ دیگر آئیڈیل شخصیات سے بے نیاز ہیں۔ حضرت زہرا (س) اور ان کی سراپا درس و سبق آموز زندگی کی طرف توجہ کرنا خواتین کو معنویت، اخلاق، اجتماعی فعالیت و جدوجہد اور گھرانے کے ماحول میں ان کی انسانی شان کے مطابق ایک مطلوبہ منزل تک پہنچانے کا باعث ہوگا۔

دریائے علم اجرِ رسالت ہیں فاطمہ(س)

قرآن اختصار، فصاحت ہیں فاطمہ(س)

محروم عدل، روحِ عدالت ہیں فاطمہ(س)

اقتباس از اسلام ٹائمز

Read 4862 times