فرعون اور اس کی زوجہ اپنے محل کے قریب دریائے نیل کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ان کی نگاہیں ایک سیاہ چیز پر پڑیں جو پانی کے اوپر تیر رہی تھی ۔ انہوں نے دور ہی سے یہ اندازہ کرلیا تھا کہ سطح آب پر بہنے والی شئے کوئی اور چیز نہیں بلکہ لکڑی کا صندوق ہے جو ان کی جانب رواں دواں ہے ۔صندوق دھیرے دھیرے ان کے قریب پہنچ گیا فرعون نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ صندوق کو پانی سے باہر نکال لو حکم ملتے ہی صندوق باہر نکالا گیا اور جب اسے کھولا گیا تو اس میں ایک خوبصورت بچہ نظر آیا ۔ وہ پیغمبر خدا حضرت موسی علیہ السلام تھے جنہیں ان کی والدہ ماجدہ نے پروردگار عالم کے حکم اور فرعونیوں سے محافظت کے لئے صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا تھا تاکہ خداوندعالم خود ان کی محافظت کرے ۔فرعون نے کہا : یہ بچہ بنی اسرائیل میں سے ہے فورا اسے قتل کردو ، بچے کی جان خطرے میں تھی لیکن فرعون کی زوجہ آسیہ بچے کو دیکھ کر اس کی گرویدہ ہوگئیں اور کہنے لگیں " یہ بچہ تو تمہاری اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے لہذا اسے قتل نہ کروکہ شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہم اسے اپنا فرزند بنالیں " آسیہ کی ذہانت ، انداز بیان اور کلام نے اپنا اثر دکھایا اور فرعون کو بچے کے قتل سے روک دیا اور وہ بھی موسی کی محبت کا گرویدہ ہوگیا۔
رامسس دوم فرعون مصر اور اس کا خوبصورت محل آسیہ کو فریقتہ نہ کر سکا۔ آسیہ کا پاکیزہ ضمیر بیدار تھا ۔ ان کےقلب پرایمان و توحید پروردگار کا پہرہ تھا جس کی بناء پر فرعون کے مادی اور تسلط پسند جذبات آسیہ پر ذرہ برابر بھی اثر نہ کرسکے ۔ وہ ایسی پاکیزہ خاتون تھیں جنہوں نے خدا پر مکمل و راسخ ایمان کے ساتھ فرعون کے گناہوں سے معمور محل کو لرزہ براندام کردیا ۔اور اپنی پاکیزہ فطرت کو فرعون کے کفر سے نجات بخشی ۔قرآن کریم نے جناب آسیہ کو لوگوں کے لئے نمونہ و اسوہ قراردیا ہے تاکہ لوگ غیر مناسب اور گناہ سے بھرپور حالات میں بھی اپنے ایمان کو نجات بخشیں اور اسے ضلالت و گمراہی کا بہانہ نہ بنا ئیں ۔
فرعون ایک بہت ہی ظالم و جابر بادشاہ تھا اس نے مصر کے شہروں کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا تھا تاکہ لوگ اس کے خلاف بغاوت و قیام نہ کرسکیں۔ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتا تھا اور انہیں ذلیل و خوار کرنے کی ہمیشہ کوشش کیا کرتا تھا اور غریب و محتاج اور بے نواؤں کی خواہشات و آرزؤں کو کچل کر اپنے غرور و تکبر کا محل کھڑا کررکھا تھا اور خود کو لوگوں کا خدا اور رازق کہتا تھا ۔لیکن کسی میں بھی اتنی جرآت نہ تھی کہ اس کے فرمان کی مخالفت کرتا ۔مگر فرعون کی پاکدامن بیوی آسیہ نے ان ظالمانہ و کافرانہ فرمان کو ہرگز قبول نہیں کیا اور ملکہ مصر کے عنوان سے اپنے شوہر کی مذمت کی۔
ایک رات فرعون نے خواب میں دیکھا کہ اس کا محل نابود ہوگیا ہے خوف و وحشت سے اس کا پورا وجود لرزنے لگا اس نے نجومیوں کو بلاکر ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی انہوں نے کہا کہ عنقریب بنی اسرائیل کا ایک بچہ تمہارے محل کو نابود کردے گا اس لئے فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جس کے یہاں بھی لڑکا پیدا ہو اسے فورا قتل کردو لیکن اگر لڑکی پیدا ہو تو اسے قتل نہ کرنا تاکہ ان کی نسل باقی رہے ۔
ایسے پر آشوب زمانے میں خدا کے پیغمبر حضرت موسی پیداہوئے جب کہ خدا وند عالم کا منشاء و ارادہ یہ تھا کہ حضرت موسی کی جان کی حفاظت کے لئے موسی فرعون کےمحل اور آسیہ کے پاس پرورش پائیں آسیہ نے موسی کو اپنا فرزند قبول کرکے درحقیت انہیں ان کی حتمی موت سے بچالیا اور قوم بنی اسرائیل کی نجات کا سامان فراہم کیا ۔
اس لئے قرآن کریم نے آسیہ جیسی عورتوں کے رائے ومشورے کو جن کا عقیدہ و کردار عقلی اور منطقی تھا ،مفید و مستحسن قرار دیا ہے ۔ اگر فرعون دوسرے امور میں بھی آسیہ کے عقلی اور معتبر نظریوں کی پیروی کرتا تو کبھی بھی بلا و مصیبت میں غرق نہ ہوتا اور خود کو ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ کا ایندھن نہ بناتا پس ایک آزاد اور صالح عورت، مردوں اور تمام معاشرے کی ترقی و کامیابی کے لئے بہترین مشاور و رہنما بن سکتی ہے ۔
حضرت موسی علیہ السلام کے عہدہ نبوت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلے حضرت آسیہ ان پر اور خدا پر ایمان لائیں اور بہت دنوں تک اپنے ایمان کو چھپائے رکھا فرعون، کفر کے اس مرحلے میں پہنچ گیا تھا کہ خود کو خدا کہلانے لگا ۔ لیکن آسیہ کا دل خدائے وحدہ لاشریک کے عشق سے سرشار تھا اس لئے فرعون کی خدائی کو قبول نہیں کیا اور خود فرعون کی قدرت وطاقت اور اس کا کفر ان کے ایمان پرغالب نہ ہوسکا ۔
خداوندعالم قرآن کریم میں فرعون کی بیوی کی مثال دیتے ہوئےفرماتا ہے کہ آسیہ خدا پر صدق دل سے ایمان لائیں تو خدا نے انہیں نجات عطا کی اور جنت میں داخل کردیا اور فرعون جیسا کافرشوہر بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکا ۔
مردوں کی طرح عورتیں بھی صحیح و سالم معاشرے کی تعمیر ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور معاشرے میں رونما ہونے والے ہر طرح کے ظلم و فساد کا مقابلہ کرکے ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل دے سکتی ہیں۔ حضرت آسیہ بھی ایسی ہی عظیم و با استقامت خواتین میں سے تھیں جنہوں نے ایسا عظیم کردار ادا کیا اسی لئے خداوندعالم قرآن کریم میں حضرت آسیہ کی استقامت اور عظمت و ستائش بیان کرتے ہوئے سورہ تحریم کی گیارہویں آیت میں فرماتا ہے : خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ " پروردگار میرے لئے جنت میں ایک گھربنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادےاور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے"
قرآن کریم کی نظر میں حضرت آسیہ حق کی شناخت و بصیرت سے آگاہ تھیں انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی شجاعت و بہادری کے ساتھ اپنے کافر شوہر کی پیروی نہیں کی بلکہ اپنے عقیدہ و ثقافت میں بھی پوری آزاد تھیں اسی لئے قرآن کریم نے آسیہ کومومنین کے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیا ہے اور یہ اسوہ اور نمونہ عورتوں کے آزاد اور مستقل عقیدہ و ثقافت پر بہترین دلیل ہے ۔
آسیہ ایک شجاع و بہادر اور حق پرست خاتون تھیں اس خداپرست خاتون کے ایمان راسخ اور شجاعت و دلیری نے انہیں ایسی منزل پر فائز کردیا کہ بارگاہ الہی کے مخلص بندے جنت میں ان کا مقام و مرتبہ دیکھ کر افتخار و تعجب کریں گے ۔
جب فرعون کو آسیہ کے ایمان کے بارے میں خبر ملی تو اس نے بہت زیادہ کوششیں کی تاکہ کسی نہ کسی طرح انہیں راہ راست سے منحرف کردے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکا اور آسیہ نے بھی اس کی تمام کوششوں کو ناکام بنا کر صرف خدائے واحد کی عبادت میں مصروف رہیں حضرت آسیہ نے حضرت موسی علیہ السلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے فرعون سے بہت زيادہ بحث و مناظرہ کیا مگر فرعون آسیہ کے ایمان و عقیدے کو بدلنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔
قصر فرعون روز بروز پر آشوب ہوتا گیا اور آسیہ نے فرعون سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور حضرت موسی کا دفاع کرتی رہیں ۔حضرت موسی علیہ السلام کے چاہنے والے فرعون کے سپاہیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کی بھینٹ چڑھ رہے تھے اور انہیں بے دردی کے ساتھ قتل کیا جارہا تھا یہاں تک کہ فرعون نے حضرت موسی پر ایمان لانے والے ایک شخص کہ ، جسے قرآن کریم نے " مومن آل فرعون" کے نام سے یاد کیا ہے بڑی ہی بے دردی سے قتل کردیا جس کے بعد آسیہ کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا اور کھلم کھلا فرعون کی مخالفت کرنے لگیں فرعون میں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی اور اس نے اپنی زوجہ آسیہ کو بہت ہی دردناک طریقے سے ایذائیں پہنچائیں ۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ فرعون نے حضرت آسیہ کو مصر کے تپتے سورج کے نیچے زمین پر لٹا کر چار کیلیں ٹھونک دیں اورسخت ایذائیں پہنچائی اور آخر میں اس سنگدل نے ان کے سینے پر ایک بڑا پتھرگرادیا اور اس طرح ایک پاک وپاکیزہ اور خدا پرست کنیز خاص راہ حق میں نہایت ہی بے دردی اور اذیتوں کا شکار ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوگئیں ۔
حضرت آسیہ کی استقامت ایک شجاع و بہادار اور پاک و پاکیزہ با ایمان عورت کی نشاندہی کرتی ہے کہ جس نے حق کا اعتراف اور باطل قوت کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا۔ تاریخ بشریت میں حضرت آسیہ کی استقامت ، تمام حق پرستوں اور منزل کمال کے متلاشیوں کے لئے بہت بڑا درس ہے۔ پیغمبر اسلام (ص)نے جناب آسیہ کو کائنات کی ان چار عظیم خواتین یعنی حضرت فاطمہ ، حضرت خدیجہ اور حضرت مریم سلام اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ شمار کیا ہے ۔
ابن عباس بیان کرتے ہيں کہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے زمین پر چار لکیریں لگائيں اور فرمانے لگے:
کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآله و سلم) کوزيادہ علم ہے ، رسول خدا نے فرمایا :
جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران ہیں۔ (1)
اس کے علاوہ حضرت آسیہ کی زندگی کا مطالعہ ، ایسی تمام خواتین کے لئے نمونہ عمل ہے جو اپنے گھر کے ماحول یا اپنے شوہر کے عمل کو دین کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ قرار دیتی ہیں کیونکہ عورتوں کے اندر اتنی طاقت و قدرت موجود ہے جو ہر طرح کے ظلم و فساد ، اخلاقی بے راہ روی اور پستی وبرائی کا خاتمہ کرسکتی ہیں اور اگر ان کا شوہر فرعون کی طرح سنگدل نہ ہو تو یہ اپنی عقل و تدبیراور نیک اخلاق وکردار سے اسے راہ حق و صداقت پر گامزن کرسکتی ہیں ۔
*******************************
1- مسنداحمد حديث نمبر ( 2663 ) علامہ البانی نے صحیح الجام (1135) میں اسے صحیح قراردیا ہے ۔