حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجده جناب " یوکابد" اور آپ کی بہن جناب کلثوم اور آپ كي بيوي جناب صفورا

Rate this item
(20 votes)

حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجده جناب

جناب عمران کی زوجہ اور حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ " یوکابد" کے یہاں جب حضرت موسی کی ولادت ہوئی تو آپ بہت زیادہ مضطرب و پریشان ہوئیں کیونکہ فرعون نجومیوں کی بیان کردہ تعبیر کے مطابق اس خبر سے بے حد پریشان تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو اس کے قصر ظلم کو نیست و نابود کردے گا اسی بناء پر فرعون نے حکم دیدیا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو بھی بچہ پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے اور یوکابد کا بچہ بھی اسی برے زمرے میں شامل تھا لیکن ایسے گھٹن کے ماحول میں جو چیز ان کے سکون و اطمینان کا سہارا تھی وہ خداوندعالم پر ان کا ایمان تھا اور آپ اپنے بیٹے کی جان کی حفاظت کے لئے ہمیشہ اسی سے التجا و فریاد کرتی تھیں ۔ ایسے حساس ماحول میں پروردگار عالم نے یوکابد کے بچے کی حفاظت کے لئے ان کی طرف وحی کی جس کو قرآن کریم نے سورہ قصص کی ساتویں آیت میں بڑے ہی خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے ارشاد ہوتا ہے : اور ہم نے مادر موسی کی طرف وحی کی کہ اپنے بچے کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور بالکل ڈرو نہیں اور پریشان نہ ہو کہ ہم اسے تمہاری طرف پلٹا دینے والے اور اسے مرسلین میں سے قرار دینے والے ہیں ۔

حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کا ایمان اور خدا پراعتماد اس بات کا سبب بنا کہ انہوں نے الہام الہی کے بعد کسی بھی طرح کی کوئی استقامت و مخالفت ظاہرنہیں کی بلکہ ماں کی محبت و ممتا اور احساس و جذبات کے باوجود خداوندمتعال کے حکم کی اطاعت کی اور اپنے بیٹے کو لکڑی کے صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کی موجوں کے حوالے کردیا ۔

یوکابد ایک متقی و پرہیزگار خاتون تھیں اور ان کا دل ایمان الہی سے مملو تھا خداوندعالم کی ذات پر ان کا مکمل بھروسہ واعتماد اس بات کی علامت ہے کہ عورتوں میں احساس و جذبات کے ذریعے خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے ۔ جب یوکابد نے خدا پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنے نور نظر کو دریائے نیل کی موجوں کے حوالے کردیا تو دریا کی موجوں نے حضرت موسی کو قصر فرعون تک پہنچادیا پروردگار عالم نے یوکابد کے بیٹے پر اپنا لطف و کرم کیا اور فرعون نے بھی آسیہ کی نصیحتوں کی بناء پر نہ صرف یہ کہ موسی کو قتل نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے محل میں رہنے تک کی اجازت بھی دیدی ۔

حضرت موسی علیہ السلام بہت زیادہ بھوکے تھے اور دھیرے دھیرے ان کی بھوک میں شدت آرہی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت ہی بے چین و مضطرب ہوکر بار بار گریہ کررہے تھے ان کے رونے کی آواز فرعون کے محل میں گونجتی ہوئی ملکہ تک پہنچی جسے سن کر ملکہ لرز گئی ۔ فرعون کے سپاہیوں نے اس روتے ہوئے بچے کو سیراب کرنے کے لئے بہت سی دایہ کا انتظام کیا لیکن موسی نے کسی بھی دایہ کا دودھ نہیں پیا اگر چہ حضرت موسی کی والدہ نے خدا پر اعتماد و توکل کے ذریعے خود کو مطمئن کرلیا تھا لیکن حضرت موسی کے مستقبل کے حالات سے باخبر ہونا چاہتی تھیں اس لئے آپ نے موسی کی بہن کلثوم سے کہا کہ ان کے حالات پر نظر رکھیں اور انہوں نے ماں کے حکم کو بہترین طریقے سے نبھایا اور خود کو فرعون کے محل میں پہنچادیا تاکہ اپنے بھائی کے حالات معلوم کرسکیں ۔فرعون کے سپاہی کلثوم کو نہیں پہچانتے تھے فرعون کے مخصوص سپاہی بچے کو لے کر محل سے باہر آگئے تھے تاکہ ان کے لئے کوئی دایہ تلاش کریں عین اسی وقت موسی کی بہن کلثوم نے دور سے حضرت موسی کو دیکھا اور بہت ہی فراست وعقلمندی سے کہا کہ : " ميں ایک ایسی عورت کو پہچانتی ہوں جو اس بچے کو دودھ پلا سکتی ہے کیونکہ اس کا نومولود بچہ اس سے بچھڑ گیا ہے اور وہ آپ کے بچے کو دودھ پلانے کے لئے آمادہ ہے ۔ فرعون کے سپاہی بہت زیادہ خوش ہوگئے اور ان سے کہا کہ فورا اس عورت کو محل میں لے کر آؤ کلثوم کو جیسے ہی سپاہیوں نے اجازت دی وہ خوشی خوشی اپنی مادر گرامی کے پاس آئیں اور حضرت موسی کی سلامتی کی خبر دیتے ہوئے انہیں فرعون کے محل میں لے کر آگئیں ۔

یوکابد نے جب پروردگارعالم کے وعدے کو پورا ہوتے ہوئے دیکھا تو شکر الہی بجالاتے ہوئے خدا کے اولوالعزم پیغمبر کو آغوش میں لے لیا اور اپنے نورنظر کو دودھ پلاکر سیراب کردیا ۔ جی ہاں صرف یوکابد جیسی ماں ہی سزاوار تھیں جو خدا کے عظیم پیغمبر موسی کو دودھ پلاکر سیراب کریں کیونکہ خداوندعالم نہیں چاہتا تھا کہ موسی علیہ السلام حرام دودھ سے سیراب ہوں بلکہ وہ اپنے ماں کےطیب و طاہر اور پاکیزہ دودھ سے پروان چڑھیں تاکہ دشمنان خدا کے خلاف قیام کرسکيں اور مشرکوں اور ظالموں سے جنگ کریں اور اس طرح حضرت موسی علیہ السلام اپنی ماں کی آغوش عطوفت میں واپس پہنچ گئے ۔

فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ موسی کو ماں سے جدا ہوئے صرف ابھی تین ہی دن گذرے تھے کہ خدا نے بچے کو ماں سے ملا دیا ۔یوکابد نے دودھ بڑھائی کے بعد موسی کو آسیہ کے سپرد کردیا اور حضرت موسی فرعون کے محل میں آسیہ کے پاس پروان چڑھنے لگے ۔ یوکابد جیسی عظیم خاتون کی داستان زندگی ایمان ، یقین اور خدا پر کامل اعتماد سے پر تھی اور ہر زمانے و ہرنسل میں کمال و بلندی چاہنے والوں کے لئے لائق پیروی ہے ۔

حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی سنوارنے اورنکھارنے میں جن دوسری خواتین نے اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ان میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی اور آپ کی شریک حیات جناب صفورا تھیں حضرت موسی ابھی جوانی کی بہاریں ہی دیکھ رہے تھے کہ فرعون کی جانب سے دھمکیاں شروع ہوگئیں اور موسی نے مصر کو ترک کرکے خدا پر امید و اعتماد رکھتے ہوئے سعودی عرب کے شمال مغربی علاقے مدین کی طرف روانہ ہوگئے وہ کئ دنوں تک برہنہ پا چلتے رہے اور جب اس سرزمین پر پہنچے تو وہاں دو لڑکیوں کو دیکھا جو کنویں کے پاس کھڑی تھیں اور اپنی بکریوں کے لئے پانی بھرنا چاہتی ہیں لیکن مردوں کی بھیڑ کی وجہ سے وہ کنویں تک نہیں پہنچ پارہی ہیں حضرت موسی نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ اس بیابان میں کیا کررہی ہو انہوں نے کہا کہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے ہم بکریاں چرانے نکلے ہیں کیونکہ میرے والد بہت ہی ضعیف ہیں اور ہمارے علاوہ ان کا کوئی نہیں ہے۔حضرت موسی نے لوگوں سے کہا تم لوگ کتنے خود غرض ہو کہ صرف اپنی ہی فکر میں مست و مگن ہو اور ذرہ برابر بھی ان عورتوں کی مدد نہیں کررہے ہو ؟ پھر حضرت موسی علیہ السلام ان کی مدد کے لئے گئے اور ان کی بکریوں کے لئے کنویں سے پانی نکالا ۔

لڑکیوں نے گھر آکر پورا ماجرا اپنے والد سے بیان کیا حضرت شعیب نے اپنی بیٹی صفورا سے کہا کہ جاؤ اور موسی کو گھر آنے کی دعوت دو صفورا کمال شرم و حیا کے ساتھ حضرت موسی کے پاس گئیں اور نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ پیغمبر خدا حضرت موسی کوگھر آنے کی دعوت دی ۔حضرت موسی کے دل میں امید کی ایک کرن جاگ اٹھی اور احساس کیا کہ ضرور کوئی اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے بلکہ ایک عظیم شخصیت کے سامنے حاضرہونا ہے ۔حضرت موسی علیہ السلام حضرت شعیب کے گھر آئے، پورا گھر نور نبوت سے منور تھا حضرت موسی نے حضرت شعیب سے اپنا پورا واقعہ بیان کیا ادھر صفورا نے ایک پاک و پاکیزہ ، فاضل واسوہ اور بہترین شناخت و معرفت کے عنوان سے اپنے کو پیش کیا اور حضرت موسی کی رفتار وگفتار اور ان کے شریفانہ طرز عمل کا مشاہدہ کرکے انہیں نیک اور امین قراردیا ۔قرآن کریم سورہ قصص کی چھبیسویں آیت میں اس واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا کہ بابا آپ انہیں نوکر رکھ لیجئیے کہ آپ جسے بھی نوکر رکھنا چاہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہوگا جو صاحب قوت بھی ہو اور امانتدار بھی ہو ۔

حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی بیٹی کے اس صحیح نظریہ کی تائید کی اور احساس کیا کہ صفورا ، حضرت موسی کو اپنے شوہر کے عنوان سے منتخب کرنا چاہتی ہیں لہذا آپ نے اس نیک امر کا استقبال کیا اور موسی سے کہا : کہ میں ان دونوں میں سے ایک بیٹی کا عقد آپ سے کرنا چاہتا ہوں بشرطیکہ آپ آٹھ سال تک میری خدمت کریں پھر اگر دس سال پورے کردیں تو یہ آپ کی طرف سے احسان ہوگا اور میں آپ کو کوئی زحمت نہیں دینا چاہتاہوں انشاء اللہ آپ مجھے نیک بندوں میں سے پائیں گے ۔

حضرت موسی نے بھی آپ کی درخواست قبول کرلی اور معنویت و نورانیت سے معطر ماحول میں بڑی ہی سادگی کے ساتھ حضرت شعیب کے داماد بن گئے اور نہ صرف یہ کہ انہیں ایک باوفا بیوی نصیب ہوئی بلکہ پیغمبر خدا شعیب کے پاس ہی رہنے لگے اور ان سے بہت سےعلوم و معارف بھی سیکھے ۔ جب موسی مصر واپس جانے لگے تو صفورا بھی ان کے ساتھ مصر گئیں اور سخت حالات میں بھی اپنے شوہر کی معاون و مدد گار رہیں اور ایک بہترین و اسوہ خاتون کے عنوان سے اپنا عظیم کردار تاریخ کے دامن میں ثبت کردیا ۔

Read 11739 times