حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا

Rate this item
(0 votes)

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تمام اولادوں میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے علاوہ حضرت فاطمہ کبری معصومہ سلام اللہ علیہا بھی عظیم فضائل و کمالات اور اعلی و ارفع مقام پر فا‏‏ئز تھیں۔

فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت کو پچیس سال گذر چکے تھے کہ پہلی ذیقعدہ سن ایک سو ایکہتر ہجری قمری کو حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں آپ اپنے والدین حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اور جناب نجمہ خاتون کی پاکیزہ آغوش میں پروان چڑھیں ایسے گھر میں کہ جس کے تمام افراد علم و عمل سے مالامال اور تقوی و پرہیزگاری سے سرشار تھے آپ نے اپنے والد گرامی اور عظیم المرتبت بھائی کی ولایت و تربیت میں رہ کر الہی تعلیم حاصل کی اور رسول اسلام اور آپ کے اہلبیت کی احادیث پر تسلط حاصل کیا البتہ آپ کے بابا اپنی عمر کے اواخر میں ہمیشہ ہارون الرشید کے قید خانے میں رہے بالآخر قید خانے میں ہی کہ جس وقت حضرت معصومہ کی عمر دس برس تھی آپ کو شہید کردیا گیا اس کے بعد سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیر تربیت رہیں ۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عبادت و زہد میں شہرہ آفاق اور فضائل و کمالات میں بلندترین مقام پر فائز تھیں آپ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تمام اولادوں میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے بعد علمی و اخلاقی کمالات میں سب سے زيادہ اعلی و ارفع مرتبے پر فائز تھیں۔ یہ حقیقتیں حضرت معصومہ کے القاب اور آپ کے بارے میں علماء و دانشوروں کے بیان کردہ صفات سے بخوبی واضح ہوجاتی ہیں۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے بے شمار صفات و القاب جس کی وجہ سے آپ بہت معروف ہوئیں ہیں وہ ان کے اخلاق کریمانہ پر دلالت کرتے ہیں آپ کی زيارت میں آپ کے بہت سے القابات مثلا طاہرہ، حمیدہ ، مرضیہ ، محدثہ اور شفیعہ کا ذکر ہوا ہے لیکن امام علی رضا علیہ السلام کے فرمان کے مطابق آپ کا سب سے مشہور لقب " معصومہ " ہے ۔ان میں سے ہرایک القاب و صفات آپ کی عظمت و کرامت اور اعلی مقام کے عکاس ہیں ایسی شخصیت کہ جس کی تمام رفتار و گفتار پاکیزگی ، صداقت اور دین و عرفان کے سانچے میں ڈھلی تھی آپ کے اعلی صفات کو اجاگر کررہی تھی ۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے جو علوم و فضائل اپنے بابا اور اپنے بھائی حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے کسب کیا تھا اس کے ذریعے معاشرے کی ہدایت و رہنمائی کرتی تھیں تاریخ میں منقول ہے کہ جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام مدینے میں تشریف نہیں رکھتے تھے تو حضرت معصومہ لوگوں کے سوالات کا جوابات دیا کرتی تھیں اور ان کے مشتبہ افکار کی اصلاح فرمایا کرتی تھیں ایک دن امام علیہ السلام کے کچھ چاہنے والے آپ سے ملاقات کے لئے مدینہ تشریف لائے تاکہ اپنے سوالات کا اطمینان بخش جواب حاصل کرسکیں مگر اس وقت امام کاظم علیہ السلام مدینے سے باہر سفر پر گئے ہوئے تھے ان لوگوں نے اپنے سوالات لکھ کر حضرت معصومہ کے پاس بھیجوایا اور قیام گاہ واپس چلے گئے پھر دوسرے دن بھی وہ لوگ امام علیہ السلام کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے لیکن امام علیہ السلام موجود نہ تھے امام کے چاہنے والوں نے اپنے سوالات واپس مانگے تاکہ پھرکبھی امام علیہ السلام سے آکر جواب معلوم کریں گے مگر ان لوگوں کو اس وقت بہت زيادہ حیرت ہوئی جب انہوں نے دیکھا کہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے تمام سوالات کے جوابات لکھ کر ارسال کئے ہیں اور وہ جوابات بھی اتنے جامع تھے کہ وہ لوگ قانع ہوگئے جب امام علیہ السلام سفر سے واپس آئے اور اس واقعے سے باخبر ہوئے تو آپ نے باکمال افتخار فرمایا : فداھا ابوھا فداھا ابوھا تیرا باپ تجھ پر نثار ہو ،تیرا باپ تجھ پر نثار ہو۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا متقی و پرہیزگار ، عالمہ اور محدثہ خاتون تھیں یہی وجہ ہے کہ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں آپ سے نقل کردہ روایتیں موجود ہیں آپ نقل احادیث کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی و ہدایت فرماتی تھیں۔ آپ اپنے والد ماجد اور بھائی سے جو بے شمار حدیثیں سنتی تھیں ان کو لوگوں کے سامنے بیان فرماتی تھیں اور انہی میں سے ایک وہ روایت ہے جسے آپ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علہا سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا: جو شخص محمد و آل محمد کی محبت پر مرجائے وہ شہید مرا ہے ۔

فقہاء کی نظر میں آپ کا معروف لقب " کریمہ اہل بیت " ہے اہلبیت علیہم السلام کی خواتین کے درمیان یہ لقب صرف اور صرف آپ ہی کی ذات اقدس سے مخصوص ہے ۔کریمہ کے معنی بہت ہی سخی و مہربان عورت کے ہیں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے قرآن کریم اور اسلام کی تعلیمات کی پیروی ميں بسر ہونے والی زندگی کو سعادتمند زندگی سے تعبیر فرمایا اور اپنی پوری زندگی ذکر خدا اور یاد خدا میں بسر کی یہی وجہ ہے کہ آپ دین اسلام کی مکمل پیروی اور راہ ہدایت پر چل کر کمال انسانی کے سب سے اعلی مرتبے پر فائز ہوئیں روایتوں میں آپ کے روضہ انور کی زيارت کی بہت زيادہ تاکید ہوئی ہے اور یہ بات خود آپ کی منزلت، شرف و فضیلت اورآپ کے علو درجات کو نمایاں کرتی ہے ائمہ معصومین علیہم السلام نے مسلمانوں کو آپ کی زيارت کی بہت زیادہ تشویق و ترغیب دلائی ہے ۔

فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : جو میری پھوپھی کی قم میں زيارت کرے گا اس پر جنت واجب ہے ۔آپ کی زیارت پر اتنا زیادہ اجر و ثواب ، جی ہاں کیونکہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی اولادوں میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے بعد کسی کے بارے میں بھی اتنی فضیلت بیان نہیں ہوئی ہے ۔

مامون کی خلافت کے آغاز سے ہی اس مکار و عیاش عباسی خلیفہ نے اپنے ظالم وستمگر آباؤ و اجداد کی مانند اہل بیت و عصمت وطہارت علیہم السلام کی روز افزوں مقبولیت کے سبب نئی چالیں اور حربے استعمال کرنا شروع کردیئے اور امام علی رضا علیہ السلام کو اپنے دارالحکومت "مرو " بلا لیا امام علیہ السلام نے مجبورا اس کی دعوت قبول کی اور اپنے اہل بیت اور اعزہ و احباب کو لئے بغیر ہی تنہا مرو چلے گئے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مرو جانے کے ایک برس بعد سن دو سو ایک ہجری میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کی زيارت کے لئے اپنے چار بھائیوں اوربہت سے چاہنے والوں کے ہمراہ ایران کی جانب روانہ ہوئیں جب یہ مختصر سا قافلہ شہر ساوہ کے قریب پہنچا تو مامون عباسی کے حکم سے کچھ دشمنان اہل بیت نے آپ لوگوں کا راستہ روک لیا اور ان پر حملہ کرکے خاندان پیغمبر کے تقریبا تیئیس افراد کو شہید کردیا اس دلخراش واقعہ کا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا پر اتنا زيادہ اثر ہوا کہ آپ بیمار پڑ گئیں یا ایک روایت کی بنیاد پر آپ کو زہر دیا گیا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے باقی بچے ہوئے افراد سے پوچھا یہاں سے قم کتنی دور ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا بہت ہی نزدیک ہے آپ نے فرمایا مجھے فورا قم لے چلو کیونکہ ہم نے اپنے بابا سے بارہا سنا ہے کہ قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے اور اس طرح مرو کی جانب جانے والا قافلہ قم کی طرف روانہ ہوگیا اور تیئیس ربیع الاول سن دو سو ایک ہجری کو قم پہنچ گیا قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی آمد کی خبر تمام لوگوں کے لئے بہت ہی مسرت بخش تھی بزرگان قم اور وہاں کے عوام حضرت کے استقبال کے لئے نکل پڑے انہوں نے محبت و عقیدت سے سرشار آپ کو اپنے جھرمٹ میں لے لیا استقبال کرنے والوں سے پہلے شہر قم کی معروف شخصیت موسی بن خزرج پہنچ گئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا سے خواہش ظاہر کی کہ اے معصومہ آپ ہمارے گھر میں قیام کیجئے آپ نے ان کی درخواست کو قبول کرلیا ۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کے غم جدائی اور اپنے بھائیوں کی شہادت یا ایک قول کی بناء پر آپ کو جو زہر دیا گیا تھا اس کی وجہ سے بیمار پڑگئیں اور صرف سترہ دن زندہ رہیں اور دس ربیع الثانی دوسو ایک ہجری کو اپنے بھائی کے دیدار کی تمنا دل میں لئے ہوئے غربت کے عالم میں اٹھائیس برس کی عمر میں اس دارفانی سے بقائے جاودانی کی طرف رخصت ہوگئیں اور اپنے چاہنے والوں کو گریہ و زاری میں مبتلا کردیا اور قم کے جس گھر میں آپ نے سترہ دن قیام کے دوران عبادت پروردگار اور اپنے معبود حقیقی سے راز و نیاز کیا تھا آج وہ جگہ بیت النور کے نام سے معروف اور مسلمانوں کی زیارت گاہ بنا ہوا ہے ۔

آپ کی وفات کے بعد آپ کو نہایت ہی ادب و احترام سے غسل و کفن دیا گيا اور بڑی شان و شوکت سے آپ کا جنازہ اٹھا اور اسی مقام پر جہاں آج روضہ منور ہے سپرد خاک کردیاگیا-

ہمارا سلام ہو اس عظیم خاتون پر جس نے ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کے نقش قدم پر چل کر دین اسلام کی آبیاری کی ۔

Read 5314 times