کربلا کی عظیم و شجاع خواتین میں ایک " ام خلف " بھی ہیں وہ پہلی صدی ہجری کی دلیر و شجاع عورتوں میں سے ہیں آپ کی شادی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاص صحابی اور امام حسین علیہ السلام کے باوفا ساتھی مسلم بن عوسجہ سے ہوئی تھی آپ کو خداوندعالم نے ایک بیٹا "خلف" عطا فرمایاتھا جو اپنے بابا مسلم بن عوسجہ کے ہمراہ روز عاشورہ اپنے مولا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے ۔
ام خلف محبت اہل بیت علیہم السلام سے سرشار ایک مؤمنہ خاتون تھیں اور اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ کربلا کے راستے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں شامل ہوئی تھیں کربلا کے میدان میں اپنے شوہر نامدار کی شہادت کے بعد آپ نے اپنے فرزند خلف کو میدان جنگ میں بھیجا مگر امام حسین علیہ السلام نے خلف کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کہ اگر تم میدان جنگ میں مارے گئے تو تمہاری ماں تنہا اور بے سہارا رہ جائے گی اور جنگ سے زیادہ تمہارے لئے اپنی ماں کی دیکھ بھال ضروری ہے ۔
لیکن ام خلف نے جو ہر چیز پر فرزند رسول کی نصرت ویاری کو مقدم سمجھتی تھیں، جب امام علیہ السلام کے فرمان کو سنا تو خلف سے کہا: میرے لال اپنی جان اور سلامتی پر فرزند رسول(ص) کی نصرت ویاری کو ترجیح دو اور اگر تم نے اپنی سلامتی کی فکر کی تو میں تجھ سے راضی نہ رہوں گی ۔
خلف شجاعت و بہادری کےساتھ میدان میں گئے ادھر ان کی مادر گرامی ان کی تشویق کرتے ہوئے کہہ رہیں تھیں " اے میرے لال تمہیں مبارک ہو کہ تم عنقریب آب کوثر سے سیراب ہوگے "
خلف دین اسلام اور اپنے امام وقت کا دفاع کرتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے . کوفیوں نے ان کے سر کو بدن سے جدا کرکے ان کی مادر گرامی کی طرف پھینکا اس بہادر خاتون نے اپنے لال کے سر کو آغوش میں لے کر اس کا بوسہ لیا اور خوب گریہ کیا کہ اس دلخراش منظر کو دیکھنے والے بھی گریہ وزاری میں مصروف ہوگئے۔ اور دشمن کی ظاہری کامیابی پر مذمت کی ۔