چاند کی درخشان:
جاہلیت کے زمانہ میں اور پیغمبر نور و رحمت ﴿ص﴾ کی بعثت سے پہلے جزیرة العرب کے لوگ شیطان کی غلامی اور بندگی کے نتیجہ میں قتل و غارت اور ظلم و ستم کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہے تھے۔ بیٹیوں کو زندہ زندہ دفن کرنے میں فخر و مباہات سمجھتے تھے اور مال کی زیادتی، نسل اور قبیلہ و خاندان کے افراد کی تعداد پر بھی فخر و مباہات کرتے تھے ۔ قبرستانوں میں جاکر اپنے مردوں کی قبروں کی تعداد کو گن کر ایک دوسرے کے منہ پر بات مارتے تھے اور اس طرح شیطان، ناشائستہ کام کو ان کے لئے زیبا و پسندیدہ صورت میں جلوہ نمائی کرتا تھا، اور انھیں فطرت سے دور کرکے ان کی پاکی و طہارت کو آلودہ بنا دیتا تھا۔ تاکہ الہی فطرت انھیں حقیقت کی طرف راہنمائی نہ کرسکے، بلکہ وہ خلافت الہی کے مقام سے غافل رہیں اور روزبروز تاریکی اور بدقسمتی کی گہرائیوں میں غرق ھوتے رہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جس کے بارے میں شہنشاہ کلام و بیان حضرت علی بن ابیطالب﴿ع﴾ نے یوں فرمایا ہے:“ اے گروہ عرب! تم بدترین دین پر تھے اور چٹانوں کے بیچ میں سرخ سانپوں کے درمیان زندگی گزارتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور اپنے خویش و اقارب سے رابطہ توڑتے تھے۔ ۔ ۔”﴿١﴾
اسی تاریکی اور جہالت کے زمانہ میں ایسے لوگ بھی زندگی بسر کرتے تھے جو شرک و گمراہی کے مقابلے میں سیسہ پلائی ھوئی دیوار کے مانند مقاومت و مقابلہ کرتے تھے اور اپنی الہی فطرت اور یکتاپرستی کو لکڑی اور پتھر کے بنے ھوئے بتوں سے آلودہ نہیں کرتے تھے ان کے دلوں نے انھیں غیر خدا کی طرف کبھی دعوت نہیں کی۔ ان افراد پر آلودہ ماحول نے اثر نہیں ڈالا، کیونکہ وہ عام لوگوں کے ہمرنگ اور ہم فکر بننا نہیں چاہتے تھے۔ اس لحاظ سے ان کے دل خدا کی محبت سے سرشار اور ایمان سے آباد تھے۔
ان مختصر لیکن استوار اور حق پرست افراد کے درمیان، ایک جوان مرد تھا۔ یہ جوان اپنے اکثر اطرافیوں کے مانند نہ صرف بت پرست اور ظالم نہیں تھا، بلکہ دوسروں کو بھی وحدہ لاشریک کی پرستش کرنے کی دعوت دیتا تھا اور تنہائیوں میں خداوند متعال سے اپنی قوم کے لئے ہدایت کی دعا کرتا تھا۔ یہ نوجوان حضرت خلیل الرحمن﴿ع﴾ کی ذریت سےتھا اور اپنے جد امجد کی پیروی کرتا تھا اور رفتہ رفتہ اس پیغمبر عظیم الشان کے فکر و اندیشہ اور کردار کے نزدیک تر ھوتا جارہا تھا۔
اس جوان کا نام “ اسد” اور ان کے باپ کا نام “ ہاشم ” تھا۔ یہ جوان بخوبی جانتا تھا کہ ہر جوان کی روح و جسم کے اطمینان کے لئے اسے ایک شریک حیات کی ضرورت ہے، اس لئے اس نے اپنے والدین کو اس سلسلہ میں آگاہ کیا اور انھوں نے اس سے وعدہ کیا کہ اس کے لئے ایک مناسب شریک حیات کی تلاش کریں گے اور اس سلسلہ میں انھوں نے اقدام کیا تاکہ اپنے بیٹے کے لئے ایک اچھے خاندان کی ایک نجیب و پاک دامن لڑکی کو مناسب ہمسر کے عنوان سے منتخب کریں۔ انھوں نے “ فاطمہ” نام کی ایک پاک دامن لڑکی کو پالیا۔ یہ ایک خاندانی لڑکی تھی، جس کے والدین کے اجداد، پیغمبر اکرم﴿ص﴾ کے اجداد سے مشترک تھے اور دونوں کے جد بزرگوار “ فھر” تھے۔﴿۲﴾
منگنی:
اسد کے باپ نے “ فاطمہ” کے باپ سے ان کی بیٹی کے بارے میں خواستگاری کی اور جواب مثبت ملا۔ اسد کی شادی پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی ہجرت سے ساٹھ سال قبل انجام پائی، خداوند متعال نے اس پاک دامن بیوی سے اسد کے لئے ایک بیٹی عطا کی۔ باپ نے اپنی ماں کے نام پر اس بیٹی کا نام “ فاطمہ” رکھا۔ زمانہ جاہلیت کی رسم کے بر خلاف اسد اس بیٹی سے انتہائی محبت کرتے تھے اور اس کی پیدائش سے شاد و خوش تھے۔ اس معاشرہ کے دوسرے مردوں کے مانند بیٹی ھونے پر اسد ناخوش نہیں ھوئے۔ اور ان کے چہرے کا رنگ تبدیل نہیں ھوا اور شرم کے مارے گوشہ نشین نہیں ھوئے﴿۳﴾ اس زمانہ میں لڑکیوں کو زندہ زندہ دفن کیا جاتا تھا تاکہ وہ ان کے لئے ننگ و شرمندگی کا سبب نہ بنے۔
معاشرہ میں اس شرمناک عادت اور رسم کی بنیاد قبیلہ بنی تمیم نے ڈالی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دن “نعمان بن منذر” نے قبیلہ بنی تمیم پر حملہ کیا اور ان کے اموال اور عورتوں کو غارت کرکے لے گیا۔ ایک مدت کے بعد بنی تمیم کے بزرگ افراد اس کے پاس گئے اور اس سے عورتوں کو آزاد کرنے کی درخواست کی، لیکن ان عورتوں میں سے بعض نے اسیری کے دوران ازدواج کی تھی اور انھوں نے اپنے شوہروں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی، ان عورتوں میں “ قبیلہ بنی تمیم قیس بن عاصم” کی بیٹی بھی تھی، وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر باپ کے پاس واپس لوٹی۔ لیکن اس کا باپ اپنی بیٹی کے اس انتخاب کو برداشت نہ کرسکا اور اس پر شاق گزرا۔ اس لئے اس نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ اس کے بعد اس کے ہاں جو بھی بیٹی پیدا ھوگی اسے زندہ زندہ دفن کر ے گا اور اس کے بعد اس نے ایسا ہی کیا اور دوسرے قبیلوں نے بھی اس کی پیروی کی اور اس طرح لڑکیوں کو زندہ زندہ دفن کرنے کی شرمناک رسم کی بنیاد پڑی۔﴿۴﴾
عورتیں ۔ اسلام سے پہلے:
ہم سب جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں دوسری اشیاء کے مانند عورتیں بھی خرید و فروخت کی جاتی تھیں اور تمام عورتیں ،انسانی ، انفرادی اور اجتماعی حقوق، حتی وراثت سے بھی محروم تھیں۔ مرد، عورتوں سے یا حیوانوں کا سلوک کرتے تھے یا انھیں گھر کی دوسری اشیاء کے مانند جانتے تھے۔ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو طلاق دیتا تو اس عورت کو دوسری شادی کرنے کے لئے پہلے شوہر سے اجازت لینا ضروری تھا اور اکثر اس صورت میں اسے اجازت ملتی تھی کہ وہ عورت اپنا مہر بخش دے! اس سے بد تر یہ کہ مردوں کے دوسرے اموال کے مانند عورتوں کو بھی مترو کہ وراثت میں شمار کیا جاتا تھا۔
لیکن اسد نے ان تمام غلط رسموں اور سنتوں سے مقابلہ کیا اور اپنی بیٹی کی توحیدی عقائد پر مبنی تربیت کی، یہاں تک کہ فاطمہ ایک مکمل، عاقل اور مومن لڑکی بن گئیں۔ فاطمہ ایمان میں پیش رو تھیں، وہ ایک پاک سیرت، با ھوش، امور آخرت کے بارے میں بصیرت رکھنے والی والی، آگاہ اور پاک دامن خاتون تھیں۔ اس کا دین، “ دین حنیف” تھا، وہ اپنے جد بزرگوار حضرت ابراھیم﴿ع﴾ کی شریعت، یعنی حق اور یکتا پرستی پر تھیں۔ انھوں نے حتی اسلام سے قبل بھی کبھی بتوں کے سامنے سجدہ نہیں کیا تھا﴿۵﴾
جناب فاطمہ بنت اسد کی بزرگی اور عظمت کے سلسلہ میں اتناہی کافی ہے کہ ان کے بارے میں یوں کہا گیا ہے کہ:“ فاطمہ، بنی ہاشم کی سب سے بر تر خواتین میں سے تھیں، وہ اپنے زمانہ میں آفتاب کے مانند ظاہر ہوئیں ، شجرہ نسب کی شرافت، پسندیدہ اخلاق، عظمت، اندرونی آگاہی و بصیرت، نفس کی پاکی، باطنی خوبصورتی اور زینت اس عظمت والی خاتون کی برتر خصوصیات ہیں اور یہی وجہ ھوئی کہ قریش کے ایک سردار نے انھیں انتخاب کیا، اور زندگی بھر میں کسی کو ان کا جانشین قرار نہیں دیا۔﴿٦﴾
ایک آفاقی شریک حیات سے لافانی پیوند:
برسوں گزر گئے فاطمہ بنت اسد بالغ ھوئیں۔ مکہ کے موسم گرما کا ایک دن فاطمہ بنت اسد کے لئے نا قابل فراموش دن تھا ۔ یہ وہ لمحات تھے جو اس عمر میں ہر لڑکی کے لئے پیش آتے ہیں۔ “ ابو طالب” نام کے ایک خاندانی، با ایمان اور یکتا پرست جوان ان کی خواست گاری کے لئے آگئے۔ اس جوان کے باپ کا نام عبدالمطلب تھا۔ یہ نام مکہ کے تمام مرد وزن کے لئے آشنا تھا! کوئی ایسا نہیں تھا، جس نے یہ نام نہ سنا ھو اور ان کی عظمت اور مقام و منزلت سے آگاہ نہ ھو؟!
عقد کی تقریب منعقد ھوئی اور اسد نے لوگوں کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ جب سب جمع ھوئے ۔ ابوطالب اپنی جگہ سے اٹھے اور اسد سے مخاطب ھوکر کہا:“ حمد و ثنا پروردگار عالم کے لئے، عرش اعلی کے پروردگار کے لئے، سرزمین محشر و حطیم کے پروردگار کے لئے، جس نے ہمیں عظمت بخشی، جس نے ہمیں مخلص و عارف قرار دیا، ہر قسم کی خیانت اور شک و شبہہ سے پاک قرار دیا، درد و عیب سے نجات دیدی، ہمارے لئے نشانیاں قرار دیں اور ہمیں دوسری اقوام پر برتری عطا کی، ہمیں حضرت ابراھیم ﴿ع﴾ کے خاندان اور حضرت اسماعیل ﴿ع﴾ کی نسل سے قرار دیا۔ ۔ ۔ بیشک میں نے فاطمہ بنت اسد کو اپنے عقد میں قرار دیا اور مہر اداد کیا اور دستور کو جاری کیا، پس آپ پوچھئے اور گواہ رہئے۔”
اسد نے جواقب میں کہا:“ میں نے تجھے اپنے داماد کے عنوان سے قبول کیا اور میں نے اپنی بیٹی کوتیری ازدواج میں قرار دیا۔ اس کے بعد مہمانوں کی ولیمہ سے خاطر تواضع کی گئی۔ ﴿۷﴾
یہ خطبہ قابل غور ہے کہ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی بعثت سے تقریبا ساٹھ سال پہلے پڑھا گیا ہے، اس سے اس خطبہ کو پڑھنے والے کی حکمت وایمان کا اندازہ ھوتا ہے اور معلوم ھوتا ہے کہ وہ یکتا پرست تھے اور انھوں نے اپنی قوم کی کسی بے بنیاد چیز پر فخر و مباہات کا اظہار نہیں کیا ہے اور اپنے مال و دولت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ وہ فاطمہ بنت اسد کے لئے ایک نئی نعمت تھے، کیونکہ وہ ایک عظیم مرد اور یکتا پرست کے گھر میں گئی تھیں۔ اس مبارک پیوند کا ایک عظیم اثر نکلنے والا ہے، جس سے عنقریب ہی دنیا والے بہرہ مند ھوں گے۔
حضرت ابوطالب ۔۔۔ فاطمہ بنت اسد کے شوہر محترم
حضرت ابو طالب ایک اونچی ذات والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کا حسب و نسب اصلی، شریف اور مشہور تھا۔ اور وہ حضرت ابراھیم خلیل اللہ ﴿ع﴾ کے دین و شریعت کے پیروکار تھے۔ حضرت ابو طالب کے والد گرامی حضرت عبدالمطلب تھے اور وہ ایک ایسی معروف شخصیت تھے، جن کے سامنے قریش سرتسلیم خم ھوتے تھے اور ان کے بلند مقام و منزلت، عفو و بخشش اور بلند اخلاق کا اعتراف کرتے تھے۔ حضرت عبدالمطلب کے دس﴿١۰﴾ بیٹے تھے، ان میں ایک ہی ماں، یعنی فاطمہ بنت عمر بن عائد بن عمران بن مخزوم سے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے والد گرامی حضرت عبداللہ، اور امیرالمؤمنین حضرت علی ﴿ع﴾ کے باپ حضرت ابوطالب تھے۔﴿۸﴾ حضرت عبداللہ اپنے بیٹے حضرت محمد﴿ص﴾ کی پیدائش سے پہلے ہی اس دارفانی کو وداع کر گئے اور ان کے بیٹے کی سرپرستی دادا﴿ عبدالمطلب﴾ نے سنبھالی۔ جب حضرت عبدالمطلب کو محسوس ھونے لگا کہ اس دنیا سے رخصت ھونے والے ہیں، تو انھیں حضرت محمد ﴿ص﴾ کی سرپرستی کی فکر لاحق ھوئی کہ اس آٹھ سالہ بچے کو اپنے بیٹوں میں سے کن کے حوالہ کریں؟ لہذا، انھوں نے اپنے بیٹوں کی طرف مخاطب ھوکر کہا:“ آپ میں سے کون میرے بعد محمد ﴿ص﴾ کی سرپرستی کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ھو؟ انھوں نے جواب میں کہا: آپ خود اس سلسلہ میں ہم سے دانا تر ہیں، جس کو چاہیں منتخب کریں! عبدالمطلب نے محمد﴿ص﴾ سے مخاطب ھوکر کہا:“ اے محمد﴿ص﴾ تمھارا دادا عنقریب تم سے جدا ھونے ولا ہے، تم اپنے چچا یا چاچیوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تاکہ وہ تمھاری کفالت اور پرورش کی ذمہ داری لےلے اور میرے بعد تمھارا حامی اور سرپرست بن جائے” بچے نے اپنے چچاؤں میں سے ہر ایک کے چہرے پر ایک نظر ڈالی اور اس کے بعد حضرت ابوطالب کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے بعد عبدالمطلب نے ابوطالب سے مخاطب ھوکر کہا:“ میں تمھاری دیانتداری اور امانتداری کی تائید کرتا ھوں، محمد﴿ص﴾ کی وپسی ہی کفالت کرنا جیسی میں کرتا تھا اور میرے ہی مانند اس کی حفاظت کرنا۔ جس دن حضرت عبدالمطلب اس دنیا سے رخصت ھوگئے، حضرت ابو طالب حضرت محمد﴿ص﴾ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ھوئے، اس کے بعد محمد﴿ص﴾ اپنے چچا کے لئے ایک عزیز بیٹے کے مانند تھے اور محمد ﴿ص﴾ نے بہترین پشت پناہی اور حمایت کا احساس کیا۔
حضرت عبدالمطلب کی رحلت کے بعد قوم کی سرداری اور ریاست کی باگ ڈ ور ان کے فرزند حضرت ابوطالب کو ملی اور وہ قریش کے سردار کے عنوان سے پہچانے گئےاور یہی ان کا بلند مقام ان کے بھتیجے کے لئے قوی دفاع اور حمایت کا سبب بنا۔ حضرت محمد﴿ص﴾ اب بچہ نہیں تھے بلکہ نوجوان ھوچکے تھے، ان کی ضرورتیں بڑھ چکی تھیں، لیکن پھر بھی ان کے چچا اپنے بھتیجے کی پرورش اور کفالت کے سلسلہ میں سیسہ پلائی ھوئی دیوار کے مانند کھڑے رہے۔ حضرت محمد﴿ص﴾ کو کام اور تجارت سکھانے میں یہی ان کے عمو پیش قدم ھوئے اور ان کی راھنمائی کی۔ ازدواج کے وقت حضرت محمد ﴿ص﴾ کے انتخاب کی حضرت ابوطالب نے حمایت اور پشت پناہی کی۔ جب حضرت محمد ﴿ص﴾ کی بعثت کا زمانہ پہنچا، تو یہ ان کے چچا حضرت ابوطالب تھے جنھوں نے ہر جہت سے ان کی حمایت کی اور جب تک حضرت محمد﴿ص﴾ کے یہ چچا زندہ تھے اپنے بھتیجے کا دفاع کرنا ان کا ایک مسلم اور نا قابل انکار امر بن چکا تھا۔ شعب ابیطالب میں تین سال تک محاصرہ اور تنگدستی کی زندگی برداشت کرنا، اس عظیم شخصیت کے اسلام اور بانی اسلام کا بے نظیر دفاع اور حمایت کی نا قابل انکار دلیل ہے۔ انھوں نے حضرت محمد ﴿ص﴾ کا ایسا دفاع کیا، یہاں تک کہ اپنے بیٹے علی﴿ع﴾ کو آپ ﴿ص﴾ کے لئے سپر قرار دیا۔ تاکہ نبی اکرم ﴿ص﴾ کو کوئی صدمہ نہ پہنچے۔ حضرت ابوطالب کی عظیم شخصیت کی پہچان کے لئے اتناہی کافی ہے کہ ان کی رحلت کے بعد آنحضرت ﴿ص﴾ پر جبرئیل امین﴿ع﴾ نازل ھوئے اور آپ ﴿ص﴾ کی خدمت میں خداوند متعال کی طرف سے مکہ چھوڑنے کا حکم پہنچا دیا، اور کہا:“ اے محمد﴿ص﴾ مکہ سے چلے جاؤ کہ ابوطالب کے بعد اس شہر میں آپ ﴿ص﴾ کا کوئی یار و یاور نہیں ھوگا۔﴿۹﴾
امام جعفر صادق بن محمد باقر ﴿ علیہما السلام﴾ نے نقل فرمایا ہے کہ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ نے فرمایا:﴿لم تزل قریش کاعہ عنی حتی توفی ابوطالب﴾ “ ابو طالب کی رحلت تک قریش میرے خلاف کچھ نہ کرسکے۔﴿١۰﴾
افسوس ہے کہ تاریخ اسلام میں اس عظیم شخصیت کے خلاف ان کے بیٹے کے دشمنوں نے ظالمانہ حملے کئے ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے بعض نا عاقبت اندیش افراد نے یہ افواہ بھی پھیلائی ہے کہ:“ حضرت ابوطالب اس دنیا سے رحلت کرگئے لیکن پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ پر ایمان نہیں لائے! علی بن الحسین، زین العابدین﴿ع﴾ سے سوال کیا گیا: کہ کیا ابوطالب مؤمن تھے؟ امام نے جواب میں فرمایا:“ عجیب ہے کہ اس تہمت کے ذریعہ علی ﴿ع﴾ یا پیغمبر ﴿ص﴾ کی طعنہ زنی کرنا چاہتے ہیں! کیونکہ خداوند متعال نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کو دستور فرمایا ہے کہ :“ مؤمن عورت کو کافر مرد کے ساتھ نہ رکھنا”﴿١١﴾ اور کسی کو اس سلسلہ میں شک و شبہہ نہیں ہے کہ فاطمہ بنت اسد ایمان میں پیش رو تھیں اور ابوطالب کی رحلت تک ان کی شریک حیات تھیں۔﴿١۲﴾ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ابوطالب مسلمان نہ ھوں؟! کیا ممکن ہے کہ کافر کو شفاعت حاصل ھوگی؟ جبکہ ابوطالب خدا کی اجازت سے اس مقام و منزلت کے مالک ہیں! امیرالمؤمنین علی ﴿ع﴾ نے جو فرمایا ہے کہ: اگر میرے باپ روئے زمین پر ہر گناہگار کے حق میں شفاعت کریں گے تو خداوند متعال ان کی شفاعت کو قبول کرے گا۔﴿١۳﴾﴿ اس روایت کا قطعا یہ مراد ہے کہ شفاعت خاص شرائط کے مطابق اور ان کے بارے میں ھوتی ہے جو شفاعت کے زمرے میں شامل ھوں ﴾
نقل کیا گیا ہے کہ ایک سال مکہ میں خوشک سالی اور قحط پھیلا۔ لوگوں نے حضرت ابوطالب کے ہاں پناہ لے لی، اور ان سے طلب بارش﴿استسقاء﴾ کی درخواست کی اور انھوں نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ ، جو ان دنوں جوان تھے، کی شفاعت قرار دے کر خداوند متعال سے توسل کیا، تو خداوند متعال نے ان کی دعا قبول فرمائی اور رحمت کی بارش نازل ھوئی۔﴿١۴﴾
پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے حق میں فاطمہ بنت اسد کی مہربانی اور توجہ:
حضرت محمد﴿ص﴾ نے فاطمہ بنت اسد کے گھر میں قدم رکھا اور یہ نیک خاتون ایک مہربان ماں کے عنوان سے آپ ﴿ص﴾ کی حفاظت و سرپرستی کرتی تھیں اور اپنی اولاد پر انھیں ترجیح دیتی تھیں، اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ بھی انھیں “ ماں” کہکر پکارتے تھے۔﴿١۵﴾ حضرت ابوطالب نے بھی حضرت محمد﴿ص﴾ کو ایک باپ کی محبت و شفقت کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، یہاں تک کہ اپنے بیٹے علی﴿ع﴾ کو پیغمبر ﴿ص﴾ کے بسترے میں سلایا اور اس طرح آپ ﴿ص﴾ کا دفاع کیا۔ حضرت ابوطالب کے توسط سے اپنے بھتیجے کے بارے میں اس قدر توجہ اور حفاظت، برسوں کے بعد دین محمد﴿ص﴾ کی حفاظت اور دفاع ثابت ھوئی، انھوں نے گونا گون سختیاں برداشت کیں تاکہ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ، پیغام الہی پہنچانے میں کامیاب ھو جائیں اور اس طرح ان کا قول و عمل ان کے اعتقاد پر ثابت قدمی کی دلیل تھی۔﴿١٦﴾
کہا جاتا ہے کہ جب حضرت ابوطالب اپنے بھتیجے کو اپنے گھر لے آئے، تو اپنی شریک حیات سے کہا: یہ جان لو کہ یہ بچہ میرا بھتیجا ہے اور میرے لئے میری جان و مال سے عزیز تر ہے، ھوشیار رہنا کہ کوئی اسے صدمہ نہ پہنچائے۔ فاطمہ بنت اسد نے اپنے شوہر کے کلام کو سننے کے بعد مسکراہٹ سے کہا: کیا آپ مجھے میرے بیٹے محمد﴿ص﴾ کے بارے میں سفارش کرتے ہیں؟ جبکہ وہ میرے لئے میری جان اور اولاد سے بھی محترم و عزیز تر ہیں؟ ابوطالب نے جب یہ بات سنی تو مطمئن و شاد ھوگئے۔﴿١۷﴾
باوجودیکہ اس روایت میں صراحت سے بیان کیا گا ہے کہ اس زمانہ میں فاطمہ بنت اسد صاحب اولاد تھیں اور مورخین نے عقیل و جعفر کی پیدائش کو، عبدالمطلب کی رحلت سے قبل ذکر کیا ہے، لیکن بعض دوسری روایتوں سے معلوم ھوتا ہے کہ جب محمد ﴿ص﴾ نے احساس کیا کہ فاطمہ بنت اسد چاہتی ہیں کہ ان کا اپنا بھی کوئی بیٹا ھو، تو ان سے مخاطب ھوکر فرمایا: “امی! خدا کی راہ میں قربانی پیش کرنا اور کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دینا، وہ آپ کی دعا کو قبول کرے گا اور آپ کی تمنا پوری ھوگی”۔ فاطمہ بنت اسد نے قربانی کی اور اس کے بعد دعا کی تاکہ خداوند متعال انھیں ایک بیٹا عطا کرے اور خداوند متعال نے بھی ان کی آرزو پوری کردی۔﴿١۸﴾
اگر چہ بظاہر مذکورہ دو روایتوں کے درمیان تعارض دکھائی دیتا ہے، لیکن ان کے درمیان جمع اس طرح ممکن ہے کہ، پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ نے جو بات حضرت فاطمہ بنت اسد سے کہی ہے، وہ حضرت ابوطالب کی کفالت سے پہلے ھو، اس کے علاوہ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ، علی ﴿ع﴾ سے عمر میں تیس سال بڑے تھے، یعنی وہ اپنے چچا کے بڑے بیٹے “ طالب” کے ہم عمر تھے۔ اور اس طرح عقیل اس زمانہ میں پیدا ھوئے ھوں گے، جب فاطمہ بنت اسد پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی کفالت و سرپرستی کر رہی تھیں۔ بہرحال اس عظیم خاتون نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی حفاظت اور پرورش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ہر جہت سے آپ ﴿ص﴾ کے ساتھ محبت و مہربانی سے پیش آتی تھیں اور لباس و خوراک کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کو اپنے بچوں کی بہ نسبت ترجیح دیتی تھیں۔ امام جعفر صادق ﴿ع﴾ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:“ فاطمہ بنت اسد، پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی بہ نسبت تمام لوگوں میں سب سے نیک خاتون تھیں۔”﴿١۹﴾
فاطمہ بنت اسد پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کو نہاتی دھلاتی تھیں اور آپ ﴿ص﴾ کے سر کے بالوں پر تیل ملتی تھیں، اس لئے آنحضرت ﴿ص﴾ انھیں امی! کے علاوہ کسی اور نام سے خطاب نہیں کرتے تھے۔﴿۲۰﴾ اور اس لئے جب علی ﴿ع﴾ نے مضطرب حالت میں پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کے پاس آکر کہا کہ میری ماں رحلت کر گئیں، تو پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے فرمایا: خدا کی قسم وہ میری بھی ماں تھیں، اور اس کے بعد روتے ھوئے فریاد بلند کی: افسوس! امی!﴿۲١﴾
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے حضرت محمد ﴿ص﴾ کے بچپن میں ہی آپ﴿ص﴾ میں پیغمبری کی نشانیاں دیکھی تھیں، اس لئے ان کے دل میں اس بچے کے بارے میں محبت میں روزبروز اضافہ ھوتا جارہا تھا اور انھیں عظیم سمجھتی تھیں ۔ ان نشانیوں اور کرامتوں کے علاوہ من جملہ وہ اتفاق بھی تھا، جسے انھوں نے اپنے مکان کے صحن میں مشاہدہ کرکے یوں نقل کیا ہے کہ:“ ہمارے گھر کے صحن میں چند خرما کے درخت تھے، ان میں تازہ پکے ھوئے خرما تھے۔ محمد ﴿ص﴾ کی عمر کے بچے ہر روز آکر زمین پر گرے ھوئے خرما کو اٹھا کر کھا لیتے تھے، لیکن میں نےکبھی نہیں دیکھا کہ محمد ﴿ص﴾ نے کسی بچے کے ہاتھ سے خرما چھین کر کھائے ھوں، کیونکہ وہ بچے اکثر محمد ﴿ص﴾ سے پہلے دوڑ کر گرے ھوئے خرما اٹھا لیتے تھے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں سے بھی خرما چھین لیتے تھے۔ میں اور میری کنیز ہر روز محمد﴿ص﴾ کے لئے کچھ خرما جمع کرکے انھیں دیتے تھے۔ ایک دن میں اور میری کنیز اتفاق سے محمد ﴿ص﴾ کے لئے خرما جمع کرنا بھول گئیں۔ میں نے شرم کے مارے اپنے چہرہ کو چھپالیا اور لیٹی، جیسا کہ سو رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ محمد ﴿ص﴾ صحن میں گئے اور وہاں پر درخت کے نیچے کوئی چیز نہیں پائی اور کمرے میں واپس آئے۔ میری کنیز نے ان سے کہا کہ ہم آج آپ کا حصہ جمع کرنا بھول گئے اور بچوں نے تمام خرما کھا لئے۔ یہ سن کر محمد ﴿ص﴾ دوبارہ صحن میں گئے اور خرما کے درختوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا اور کہا:“ اے درخت! مجھے بھوگ لگی ہے۔” کنیز کہتی ہے کہ میں نے دیکھا کہ خرما کا درخت جھگ گیا اور محمد﴿ص﴾ نے اس سے خرما توڑ کر کھا لئے اور اس کے بعد درخت دوبارہ اپنی حالت میں پلٹ گیا۔﴿۲۲﴾
بیشک تمام کائنات اور مخلوقات، انسان کامل کی خدمت میں ھوتی ہیں، کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے کہ :“ اے فرزند آدم! میں نے تمام چیزوں کو تمھارے لئے پیدا کیا ہے اور تجھے اپنے لئے پیدا کیا ہے!” فاطمہ بنت اسد بخوبی جانتی تھیں کہ محمد ﴿ص﴾ خدا کے خاص بندہ ہیں اور خدا کے دست پرورش کو واضح طور پر محسوس کرتی تھیں اور آپ ﴿ص﴾ کی عظمت کو بخوبی سمجھ گئی تھیں اور انھوں نے اپنے اس نیک کام کو لافانی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے درج کیا۔
سچا خواب:
حضرت عبداللہ کا یتیم، اپنے چچا ابوطالب کی سرپرستی اور کفالت میں قرار پانے اور فاطمہ بنت اسد کے گھر میں سکونت پذیر ھونے کے بعد فاطمہ بنت اسد نے ایک رات کو ایک عجیب اور سچا خواب دیکھا، اس خواب کے بارے میں فاطمہ بنت اسد یوں بیان کرتی ہیں:“ میں نے دیکھا کہ شام کے پہاڑ لوہے کی صورت میں وحشتناک شور محشر کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور مکہ کے پہاڑ بھی اسی خوفناک محشر کے ساتھ بلکہ اس سے خطرناک تر صورت میں بڑی تیزی کے ساتھ ان کی طرف رواں دواں ہیں اور ان کا جواب دے رہے ہیں اور ان سے آگ کے شعلے بڑھک رہے ہیں ۔ ابو قبیس نامی پہاڑ ایک تیز رفتار گھوڑے کے مانند دوڑ رہا ہے اور اس کے دائیں بائیں سے مسلسل ٹکڑے جدا ھو رہے ہیں اور لوگ ان جدا شدہ ٹکڑوں کو جمع کر رہے ہیں۔ میں نے بھی چار تلواریں اور لوہے کے طلائی رنگ کے ایک انڈے کو اٹھا لیا۔ جب میں شہر مکہ کے اندر داخل ھوئی تو میرے ہاتھوں سے ایک تلوار ایک کنویں میں گر کر نابود ھوئی، دوسری تلوار ھوا میں اڑ گئی اور تیسری تلوار زمین پر گر کر ٹوٹ گئی، لیکن چوتھی تلوار بدستور میرے ہاتھوں میں تھی، کہ اچانک ایک شیر کے بچہ میں تبدیل ھوئی اور اس کے فورا بعد شیر کا بچہ ایک خطرناک شیر میں تبدیل ھوا۔ اس کے بعد یہ شیر میرے ہاتھوں سے نکل گیا اور پہاڑوں کی طرف دوڑا اور پہاڑوں پر گرج رہا تھا، ایک طرف دوڑتا تھا اور دوسری طرف سے باہر آتا تھا۔﴿۲۳﴾ اور لوگ ڈر کے مارے بیہوش ھورہے تھے، کہ اسی اثناء میں محمد﴿ص﴾ آئے اور شیر کی گردن پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، شیر ایک بلی کے مانند سر تسلیم خم ھوگیا۔ میں ترس و اضطراب کی حالت میں نیند سے بیدار ھوئی اور اپنے خواب کی تعبیر کرانا چاہتی تھی، کہ مجھے ایک کاہن ملا اور اس نے میرے خواب کی یوں تعبیر کی:“ تیرے ہاں چار بیٹے پیدا ھوں گے اور اس کے بعد خداوند متعال تجھے ایک بیٹی عطا کرے گا، آپ کا ایک بیٹا پانی میں ڈوب جائے گا۔﴿۲۴﴾اور دوسرا جنگ میں قتل ھوجائے گا۔﴿۲۵﴾ اور تیسرا بیٹا طولانی عمر گزارنے کے بعد کئی اولاد اور نواسے اور پوتے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ھو جائے گا۔﴿۲٦﴾لیکن چوتھا بیٹا امت کا پیشوا اور رھبر بن جائے گا اور صاحب حق و شمشیر بن جائے گا۔﴿۲۷﴾ وہ عظمت اور فضیلت والا ہے اور پیغمبر آخر الزمان ﴿ص﴾ کی بخوبی اطاعت و فرمانبرداری کرے گا۔﴿۲۸﴾
بیشک اس مومنہ خاتون کا سچا خواب شرمندہ تعبیر ھوا اور ان کے شجرہ طیبہ نے پھل دئے اور خداوند متعال نے چار بیٹے عطا کئے جن کے نام طالب، عقیل، جعفر اور علی ﴿ع﴾ تھے۔ تاریخ میں فاطمہ بنت اسد کی دو بیٹیاں درج ھوئی ہیں جن کے نام فاختہ، ملقب بہ ام ہانی﴿۲۹﴾ اور “ جمانہ” تھے۔ ام ہانی، ابو وہب ہبیرہ بن عمرو بن عامر مخزومی کی بیوی تھیں اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ان کا کافی احترام کرتے تھے اس نے فتح مکہ کے دن لوگوں کے ایک گروہ کی پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی خدمت میں شفاعت کی اور آنحضرت ﴿ص﴾ نے ان کی شفاعت کو قبول فرمایا۔﴿۳۰﴾ لیکن “ جمانہ” یا بعض دوسرے مورخین کے بقول “ اسماء” یا “ ربطہ”، سفیان بن حارث بن عبدالمطلب کی بیوی تھیں۔﴿۳١﴾
فاطمہ بنت اسد کی اولاد:
یہاں پر ہم فاطمہ بنت اسد کی اولاد کا ایک سرسری تعارف پیش کرتے ہیں:
١۔ عقیل بن ابیطالب: عقیل، فاطمہ بنت اسد کے دوسرے فرزند تھے، جو ہجرت سے چالیس سال قبل پیدا ھوئے ہیں۔ پیغمبر نور و رحمت ﴿ص﴾ ان سے خاص محبت اور الفت رکھتے تھے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ ان کے بھائی علی ﴿ع﴾ نے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی خدمت میں عرض کی اے رسول خدا ﴿ص﴾ ! کیا آپ عقیل کو دوست رکھتے ہیں؟ جواب میں آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا: جی ہاں، خدا کی قسم میں دو لحاظ سے اسے دوست رکھتا ھوں، ایک خود ان کے لئے اور دوسرا ابوطالب کی محبت کی وجہ سے، بیشک ان کا بیٹا تمھارے بیٹے کی محبت و دوستی میں قتل کیا جائے گا اور مؤمنین کی آنکھیں ان کے لئے آنسوں بہائیں گی اور مقرب فرشتے ان پر درود بھیجیں گے ﴿ ان کے لئے استغفار کریں گے﴾ ۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے آنسوں بہائے جو ان کے سینہ مبارک پر جاری ھوئے، اس کے بعد فرمایا: جو کچھ میرے بعد میرے خاندان پر گزرے گی میں اس کا بارگاہ الہی میں شکوہ کروں گا۔﴿۳۲﴾
عقیل دنیا پرست اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے نہیں تھے اور دنیا کی زرق برق انھیں فریب نہیں دے سکی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ معاویہ ان کے لئے تحفہ و تحائف بھیج رہا تھا، لیکن انھوں نے تاریکی میں نور کی اصطلاحات سے استفادہ کرتے ھوئے اپنے ایمان کی پائداری اور اعتقاد کے استحکام کا ثبوت پیش کیا اور کمال تنگدستی اور محتاجی کے عالم میں معاویہ کے مقابلے میں استحکام و پائداری کے ساتھ مقابلہ کیا اور مضبوطی کے ساتھ اپنے الہی اعتقادات کو عملی جامہ پہنایا۔ ابن ابی الحدید یوں نقل کرتے ہیں: انھوں﴿عقیل﴾ نے امام علی ﴿ع﴾ کے دور حکومت میں “ ضحاک بن سالم” کے شبخون کے بعد حضرت ﴿ع﴾ کے نام ایک خط میں لکھا:“ بیشک یہ خبر ﴿ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ حملہ آور اور کارشکنی کرنے والے حملہ کے بعد صحیح و سالم لوٹے اور کوئی انھیں صدمہ نہیں پہنچا سکا﴾ مجھے پہنچی کہ آپ کے دوست و احباب نے آپ کو تنہا چھوڑا ہے۔ میری ماں کے بیٹے! مجھے لکھنا اور کہنا کہ آپ کا نقطہ نظر کیا ہے اور کیا حکم دے رہے ھو۔ اگر موت﴿ جنگ کی طرف کنایہ﴾ چاہتے ھو، میں آپ کے بھتیجوں بھائیوں کے ہمراہ حرکت کروں گا۔ ہم آپ ﴿ع﴾ کی وجہ سے زندہ ہیں اور آپ کے ساتھ مرنا چاہتے ہیں۔ خدا کی قسم! میں آپ ﴿ع﴾ کے بعد ایک لمحہ بھی زندگی برداشت اور پسند نہیں کرتا ھوں خدا کی قسم، آپ ﴿ع﴾ کے بغیر ہماری زندگی کا کوئی لطف نہیں ہے، خدا کے درود و سلام آپ پر ھو۔” ﴿۳۳﴾
تاریخ نے، فاطمہ بنت اسد کے اس بیٹے کے بارے میں ایک اور واقعہ درج کیا ہے کہ: امام علی ﴿ع﴾ کی شہادت اور امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ کی صلح کے بعد ایک دن معاویہ نے حکم دیا کہ عقیل کے لئے ایک لاکھ درہم لائے جائیں اور ان سے کہا: میرے لشکر کے کیمپ اور اپنے بھائی کے لشکر کے کیمپ کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کرنا، آپ نے ان دو لشکروں کو کیسے پایا؟ عقیل نے جواب میں کہا: خدا کی قسم میں اپنے بھائی کے کیمپ سے گزرا اور رات کو رسول خدا ﴿ص﴾ کی رات کے مانند اور دن کو رسول خدا ﴿ص﴾ کے ایام کے مانند پایا، صرف پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ ان کے درمیان نہیں تھے۔ میں نے وہاں پر نماز گزاروں اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا۔ تیرے لشکر کے کیمپ سے بھی گزرا، اور وہاں پر منافقین کے ایک گروہ کو دیکھا، جنھوں نے “ لیلة العقبہ” میں پیغمبر ﴿ص﴾ کے اونٹ کو ھنکایا تھا۔﴿۳۴﴾ اس کے بعد معاویہ کے اصحاب کی طرف مخاطب ھوکر معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی بعض خصوصیات اور شجرہ نسب بیان کرکے انھیں شرمسار کردیا۔
۲۔ جعفر بن ابیطالب:
جعفر کی پیدائش کے بعد، حضرت ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد نے اسے ان کے چچا جناب عباس کے حوالہ کیا تاکہ وہ اپنے بھتیجے کی سرپرستی انجام دیں۔ ابوطالب اقتصادی بحران سے دوچار ھوئے تھے، اس لئے جعفر کو ان کے چچا عباس کی کفالت میں قرار دیا۔
تاریخ میں جو اہم رول حضرت جعفر بن ابیطالب کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے، وہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی سرپرستی ہے۔ فاطمہ بنت اسد کے اس بیٹے نے شجاعت اور حق پرستی و حق گوئی اپنے اسلاف سے وراثت میں پائی تھی۔ انھوں نے اپنے باپ سے یکتا پرستی سیکھی تھی اور اپنی ماں سے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے لئے جاں نثاری اور فرمانبرداری سیکھی تھی۔
حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر بن ابیطالب نے اسلام اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی تعلیمات کو ایسے بیان کیا کہ نجاشی زبردست متاثر ھوا اور اس کے نتیجہ میں نجاشی نے حضرت جعفر بن ابیطالب اور ان کے ہمراہ آئے ھوئے تمام مھاجروں کی خاطر تواضع کی اور اس سرزمین پر امن و سلامتی کی ضمانت کا حکم دیا۔ اس طرح کفار مکہ کی مسلمانوں کے خلاف تمام ریشہ دوانیاں اور تہمتیں نجاشی کو مسلمانوں کی حمایت سے منصرف نہیں کرسکیں اور اس سلسلہ میں حضرت جعفر بن ابیطالب کا رول کلیدی اور بنیادی تھا۔
حضرت جعفر بن ابیطالب اور ان کے ساتھیوں نے حبشہ میں پندرہ سال گزارے اور اس کے بعد وطن لوٹنے کا وقت آیا۔ اس وقت مسلمان صاحب اقتدار اور شان و شوکت کے مالک بن چکے تھے اور کفار مکہ اس قدر ناتوان اور کمزور ھوچکے تھے کہ اب مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم کرنے کی جرآت نہیں کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ کو ان کی عدم موجودگی میں اپنے عقد میں قرار دے چکے تھے اور جعفر بن ابیطالب نے انھیں اپنے ساتھ مدینہ تک لایا۔ جب جعفر بن ابیطالب مدینہ پہنچے تو پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ان کے استقبال کے لئے آگے بڑھے، جعفر کو اپنی آغوش میں لے کر فرمایا:“ خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ کس بات پر زیادہ خوش و شادھوں، تمھاری تشریف آوری پر یا جنگ خیبر میں تیرے بھائی کے حق میں خدا کی مدد پر”۔﴿۳۵﴾
بیشک فاطمہ بنت اسد نے اپنے بیٹوں کی ایسی تربیت کی تھی کہ ان میں سے ہر ایک پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کے لئے شادی و خوشحالی کا سبب بن گیا تھا۔ جعفر بن ابیطالب کے قابل فخر کارناموں میں سے یہ ہے کہ وہ تیسرے شخص تھے جنھوں نے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی دعوت پر ایمان لایا اور آنحضرت ﴿ص﴾ کی دعوت کی اطاعت و پیروی کی۔﴿۳٦﴾ جعفر بن ابیطالب نے رسول خدا ﴿ص﴾ سے ایک معنوی تحفہ حاصل کیا ہے جو نماز تسبیح یا نماز جعفر طیار کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت جعفر طیار کی دوسری خصوصیات میں سے اسلام کی راہ میں شجاعت، جاں نثاری اور یکتا پرستی ہے۔ ان کی شجاعت، بےباکی اور جوانمردی غزوہ“ موتہ” میں کمال تک پہنچی۔ یہ جنگ مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان واقع ھوئی اور مسلما نوں کے لشکر کے علمبردار حضرت جعفر طیار تھے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ جعفر بن ابیطالب پرچم کو ہاتھ میں لئے ھوئے جنگ کر رہے تھے کہ ان کا دایاں بازو کاٹا گیا تو انھوں نے پرچم کو بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اس کے بعد ان کے بائیں بازو کو بھی کاٹا گیا، اس کے بعد انھوں نے پرچم کو آغوش میں لے کر جنگ جاری رکھی یہاں تک کہ شہید ھوئے۔ حضرت جعفر طیار کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ان کے بدن پر کثرت سے زخم لگے تھے، یہاں تک بعض مورخین نے ان زخموں کی تعداد کو ستر تک ذکر کیا ہے، لیکن قابل غور ہے کہ ان کی پشت پر ایک زخم بھی نہیں لگا تھا! یعنی انھوں نے ایک لمحہ بھی دشمن کی طرف پشت نہیں کی تھی بلکہ مسلسل دشمن کی طرف رخ کرکے لڑتے تھے۔﴿۳۷﴾
لیکن ان کے ظاہری اور باطنی کمالات کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:“ اشبھت خلقی و خلقی” “ تخلیق اور رفتار میں تم میرے شبیہ ھو۔”﴿۳۸﴾ وہ کیوں ایسا نہ ھوتے جبکہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے جعفر بن ابیطالب کے بہشت میں بلند مقام و منزلت کے بارے میں یوں خبر دی ہے کہ: جعفر کو میں نے بہشت میں دیکھا کہ دو پروں سے فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہے ہیں۔﴿۳۹﴾ اور اس کے علاوہ فرمایا:“ ہم عبدالمطلب کی اولاد اہل بہشت کے سردار ہیں، میں، علی، حمزہ، حسن، حسین اور مھدی”۔﴿۴۰﴾
۳۔ علی بن ابیطالب ﴿ع﴾:
علی ﴿ع﴾ فاطمہ بنت اسد اور ابوطالب کی آخری اولاد ہیں، یہ وہ فرزند ہیں، جو مقام و منزلت، فضیلت اور انسانیت میں برترین شخص ہیں، البتہ بیشک خاتم الانبیاء و مرسلین﴿ص﴾ سے پائین تر ہیں۔ حضرت علی ﴿ع﴾ کی ان تمام فضیلتوں کا راز، رسول خدا ﴿ص﴾ کی بلا چون و چرا پیروی اور اطاعت میں مضمر ہے۔ علی ﴿ع﴾ کی بے مثال فضیلتوں میں بچپن میں اسلام قبول کرنا اور کسی بت کے سامنے کبھی نہ جھکنا ہے، اس لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے:“ کرم اللہ وجھہ” سات سال تک صرف علی ﴿ع﴾ اور پیغمبر ﴿ص﴾ نماز پڑھنے والے تھے، اس لئے نبی اکرم ﴿ص﴾ کے ساتھ نماز پڑھنے والے پہلے شخص علی ﴿ع﴾ تھے۔ کفار مکہ کی طرف سے رسول خدا ﴿ص﴾ کو قتل کرنے کی سازش کے سلسلہ میں حضرت علی ﴿ع﴾ پیغمبر اسلام کے بسترہ پر سوئے، تاکہ آنحضرت ﴿ص﴾ رات کی تاریکی میں مشرکین مکہ کے شر سے بچ کر نکل سکیں، پس پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے لئے جاں نثاری کا مظاہرہ کرنے والے اور آنحضرت ﴿ص﴾ کا دفاع کرنے والے پہلے شخص حضرت علی ﴿ع﴾ تھے۔ حضرت علی ﴿ع﴾ ہمیشہ اور ہر حالت میں فضیلتوں کی طرف دوڑتے تھے، یہاں تک کہ تمام انصاف پسند مسلمان کے اعتراف کے مطابق قرآن مجید کی متعدد آیات حضرت علی ﴿ع﴾ سے مخصوص ہیں۔﴿۴١﴾
پیغمبر خدا ﴿ص﴾ نے فرمایا ہے:“ اگر تمام درخت قلم بن جائیں، تمام سمندر سیاہی بن جائیں، تمام جنات حساب گر اور تمام انسان لکھنے والے بن جائیں، تو بھی علی بن ابیطالب کے تمام فضائل کو جمع نہیں کرسکیں گے”۔﴿۴۲﴾ آنحضرت ﴿ص﴾ نے ایک دوسری جگہ پر فرمایا ہے:“ علی ﴿ع﴾ کے چہرہ پر نگاہ کرنا عبادت ہے، اور ان کو یاد کرنا عبادت ہے۔ خداوند متعال کسی بندے کے ایمان کو قبول نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ وہ علی ﴿ع﴾ کی پیروی اور ان کے دشمنوں سے دوری اختیار کرے”۔﴿۴۳﴾
اس کے علاوہ آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا ہے:“ جو شخص مجھ پر اعتقاد رکھتا ہے اور مجھ پر ایمان لایا ہے، میں سفارش کرتا ھوں کہ وہ علی ﴿ع﴾ کی ولایت کو قبول کرے، جو اس کی پیروی کرے گا اس نے میری پیروی کی ہے اور جس نے میری پیروی کی، اس نے خداوند متعال کی پیروی کی ہے”۔﴿۴۴﴾
امام جعفر صادق ﴿ع﴾ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ ﴿ع﴾ نے فرمایا ہے:“ جب فاطمہ بنت اسد اپنے شوہر ابو طالب کے پاس آئیں تاکہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی ولادت کی خوش خبری انھیں سنادے، ابوطالب نے ان سے کہا:“ سبتی” کے برابر صبر کرنا میں تجھے پیغمبری کے علاوہ ان﴿ص﴾ کے مانند ﴿ اولادکی﴾ خوش خبری دوں گا۔ اور کہا: تیس سال کو “سبت” کہتے ہیں اور حقیقت میں پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ اور علی﴿ع﴾ کی عمر کے درمیان تیس سال کا فاصلہ ہے۔
۴۔ ام ہانی:
ام ہانی ایک عظیم اور بلند مرتبہ خاتون ہیں۔ ایمان و تقوی اور راسخ العقیدہ ھونے اور تربیت و پاکدامنی میں وہ فاطمہ بنت اسد کی حقیقی بیٹی ہیں۔ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے اسی خاتون، یعنی ام ہانی کے گھر سے معراج کی ہے۔﴿۴۵﴾ اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی معراج کی ابتداء ان ہی کے گھر سے ھوئی ہے۔ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کے ہاں اس خاتون کی قدر و منزلت اس قدر بلند تھی کہ جب ایک گروہ نے ان کے ہاں پناہ لے لی، تو وہ آنحضرت ﴿ص﴾ کی خدمت میں حاضر حوئیں اور اس واقعہ کی خبر دیدی اور پیغمبر رحمت﴿ص﴾ نے فرمایا:“اجرت من اجرت” ﴿۴٦﴾
ایک دن پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے حسنین ﴿ع﴾ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں آپ کو ان بہترین لوگوں کا تعارف کراؤں جن کے بہترین چچا اور پھپھی ہیں؟ انہوں نے جواب میں کہا: جی ہاں، یا رسول اللہ﴿ص﴾، اس کے بعد رسول خدا ﴿ص﴾ نے فرمایا: وہ حسن﴿ع﴾ اور حسین﴿ع﴾ ہیں جن کے چچا جعفر اور پھپھی ام ہانی یعنی ابوطالب کی اولاد ہیں”۔﴿۴۷﴾
فاطمہ بنت اسد کی بیٹی نے اس سے آگے بڑھ کر اپنا نام راویان پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ میں درج کیا ہے۔ ام ہانی کی نقل کی گئی روایتوں میں سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے، جو موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے حالات سے مطابقت رکھتی ہے۔ آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا:“ لوگوں کے لئے ایسا زمانہ آئے گا کہ اگر آپ نے کسی کا نام سنا تو بہتر ہے کہ اسے دیکھ لوگے اور اگر اسے دیکھ لیا تو اسے امتحان کرنے سے بہتر ہے اور اگر اس کا امتحان کرو گے تو آپ کو معلوم ھوگا کہ ان کا دین و مذہب پیسے ہیں، ان کا ہم و غم ان کا شکم ہے اور ان کا قبلہ، ان کی بیویاں ہیں، روٹی کے لئے رکوع بجا لاتے ہیں اور درہم و دینار کے مقابلے میں سجدہ کرتے ہیں، وہ حیرت اور مستی کے عالم میں ہیں، نہ مسلمان ہیں اور نہ عیسائی”۔﴿۴۸﴾
فاطمہ بنت اسد کی اپنے بیٹے علی﴿ع﴾ اور بہو، فاطمہ ﴿ع﴾ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت:
حضرت محمد رسول اللہ ﴿ص﴾ کو خدا کا حکم ملا کہ مدینہ ﴿یثرب﴾ کی طرف ہجرت کریں تاکہ لوگوں کو دین توحید کی طرف دعوت کرنے میں وسعت پیدا ھوجائے، یثرب کے لوگوں کی بھی تربیت کی جائے اور امتحان دینے کے ضمن میں ان کی الہی تربیت بھی کی جائے تاکہ انھیں“ انصار” کا قابل فخر لقب مل جائے اور مھاجرین کے لئے پناہ گاہ بن جائیں۔ بیشک الہی قوانین کے تحت شہر یثرب ﴿مدینہ﴾ کو حکومت اسلامی کا دارالخلافہ اور مسلمانوں کے اقتدار کو تقویت بخشنے کا سبب بننا چاہئے تھا، اس لئے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کو مخفیانہ طور پر راتوں رات اس شہر کی طرف روانہ ھونا چاہئے تھا۔
پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ نے مدینہ پہنچنے کے بعد علی﴿ع﴾ کے نام ایک خط لکھا اس خط کو “ ابی و اقدالیثی” کے ذریعہ روانہ کیا اور اس میں حضرت علی ﴿ع﴾ کو حکم دیا تھا کہ مدینہ میں آپ﴿ص﴾ کے کے پاس آئیں۔ علی ﴿ع﴾ فاطمہ﴿س﴾ بنت رسول خدا ﴿ص﴾ ، اپنی ماں، فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ھوئے۔ اس سفر میں رسول خدا ﴿ص﴾ کے غلام“ ایمن” اور پیغمبر اسلام﴿ص﴾ کے قاصد“ ابو واقد” بھی حضرت علی ﴿ع﴾ کے ہمراہ تھے۔ ابتداء میں ابو واقد راہنما تھے، اور کفار مکہ کے پیچھا کرنے کے خوف سے تیز چل رہے تھے کہ علی ﴿ع﴾ نے اس سے کہا کہ: خواتین کا خیال رکھنا اور اس قدر تیز نہ چلنا کیونکہ خواتین ناتوان اور ضعیف ہیں! ابو واقد نے قریش کی طرف سے اذیت و آزار کے بارے میں کہا۔ علی ﴿ع﴾ نے اس سے فرمایا: پریشان نہ ھوجاؤ کیونکہ رسول خدا ﴿ص﴾ نے مجھ سے فرمایا ہے کہ: اے علی! اس کے بعد وہ تمھیں صدمہ نہیں پہنچا سکتے ہیں اور آپ کے لئے کوئی حادثہ رونما نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت علی ﴿ع﴾ کاروان کے سالار بن گئے اور آرام و سکون سے آگے بڑھتے ھوئے یہ شعر پڑھ رہے تھے:
لیس الا اللہ فارفع ظنکا یکفیک رب الناس ما اھمکا
﴿خدا کے سوا کوئی نہیں ہے، پس تیری امید بڑھنی چاہئے، لوگوں کے لئے پروردگار کافی ہے۔﴾
راستہ میں، علاقہ “ ضجنان” میں پہنچنے سے پہلے، قریش کے سات مسلح افراد ان مھاجرین کی راہ پر گھات لگا کر بیٹھے تھے اور ان کو واپس مکہ لوٹا دینا چاہتے تھے، اس گروہ کا آٹھواں فرد حارث بن امیہ کا غلام تھا، جس کا نام “ جناح” تھا۔ یہاں پر حضرت علی ﴿ع﴾ “ ایمن” اور “ ابی واقد” کی طرف بڑھے اور انھیں فرمایا اونٹوں کو روک لیں اور خواتین کو اونٹوں سے نیچے اتارا گیا، اس کے بعد علی ﴿ع﴾ ان آٹھ افراد کے گروہ کی طرف بڑھے، فاطمہ بنت اسد کے بیٹے نے ان کے ساتھ ایسی شجاعانہ جنگ کی جس کے نتیجہ میں وہ افراد اپنے منحوس ارادہ سے منصرف ھونے پر مجبور ھوئے، اور حضرت علی ﴿ع﴾ نے ان سے فرمایا: میں یثرب میں اپنے چچازاد بھائی کے پاس پہنچنا چاہتا ھوں، جو اپنا خون بہانا چاہتا ھو وہ ہمارا تعاقب کرے یا میرے نزدیک آئے، اس کے بعد اپنے دو ساتھیوں ۔۔۔ ایمن و ابی واقد ۔۔۔ کے پاس آگئے اور فرمایا: روانہ ھوجاؤ، اس کے بعد روانہ ھوئے، یہاں تک کہ علاقہ“ ضجنان” پہنچے اور وہاں پر ایک دن اور ایک رات ٹھرے۔ اس رات کو پوپھٹنے تک علی ﴿ع﴾ اور تین فاطمہ ﴿ ماں، ہمسر، اور چچازاد بہن﴾ نماز، ذکر و عبادت میں مشغول رہے اور صبح کی نماز علی ﴿ع﴾ کی امامت میں پڑھی، اور یہی واقعہ آیہ شریفہ:“ الذین یذکرون الله قیاماً و قعوداً و علی جنوبهم و یتفکرون فی خلق السّماوات و الأرض ربنا ما خلقت هذا باطلاً... فاستجاب لهم ربهم أنی لا أُضیع عمل عاملٍ منکم من ذکرٍ أو انثی بعضکم مِن بعض" کی شان نزول کا سبب بنا۔ اس آیہ شریفہ میں “ ذکر” سے مراد علی علیہ السلام و “ انثی” سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں اور “ بعضکم من بعض” یعنی علی فاطمہ سے ہیں اور یا علی فواطم سے ہیں اور وہ ﴿ فواطمہ﴾ علی ﴿ع﴾ سے ہیں۔﴿۴۹﴾ اور یہی نورانی ہجرت، جس میں بظاہر پندرہ دن لگ گئے، اس خاتون کے افتخارات کی ایک اور سند ہے،﴿۵۰﴾ فاطمہ بنت اسد نے اس ہجرت میں ایک اور فضیلت حاصل کی، کیونکہ خداوند متعال نے انھیں ان افراد میں شامل کیا جن کی دعا خدا نے قبول کی ہے اور انھیں نیک اجر عطا کیا ہے۔
ابن اثیر کی تاریخ میں یوں آیا ہے کہ:“ علی ﴿ع﴾ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی طرف سے انھیں دی گئی ماموریت ۔۔۔۔ امانتوں کو صاحبان امانت کو لوٹا دینے ۔۔۔۔ سے فارغ ھونے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ھوئے۔ رات کو چلتے تھے اور دن کو مخفی رہتے تھے، یہاں تک کہ مدینہ پہنچے، جبکہ ان کے پاؤں میں چھالے پڑےتھے۔ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ ان کے استقبال کے لئے آگے بڑھے اور انھیں اپنی آغوش میں لے لیا اور ان کے پاؤں کی حالت دیکھ کر روپڑے، اس کے بعد اپنے لعاب دہن کو اپنے ہاتھوں پر ڈالنے کے بعد علی ﴿ع﴾ کے پاؤں پر مل لیا اس کے بعد علی ﴿ع﴾ کے پاؤں کا درد دور ھوا”۔﴿۵١﴾
مدینہ کی طرف ہجرت، فاطمہ بنت اسد کے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی رسالت کے بارے میں عمیق اعتقاد کا ثبوت ہے کیا گھر بار اور وطن چھوڑنا گہرے ایمان کی نشانی نہیں ہے؟
بنت اسد کے دل میں ایک ایسا ایمان اور اعتقاد تھا، جس نے انھیں ایک عظیم اور قابل ستائش کام انجام دینے پر مجبور کیا، جس کام کی وجہ سے انھوں نے اپنے اوپر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیا۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے جد امجد حضرت رسول خدا ﴿ص﴾ سے نقل کرکے فرمایا ہے کہ: “ خداوند متعال نے اپنے پیغمبر ﴿ص﴾ پر وحی نازل کی:“ میں نے تجھے نازل کرنے والے صلب، تجھے حمل کرنے والے رحم، تیری کفالت کرنے والے دامن اور تجھے پناہ دینے والے خاندان پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیا ہے”۔ عبداللہ اس صلب کے مالک ہیں، آمنہ بنت وہب ان سے حاملہ ھوئیں اور ان کی کفالت اور پرورش کرنے والا دامن فاطمہ بنت اسد کا دامن ہے اور انھیں پناہ دینے والا خاندان ابوطالب کا خاندان ہے۔﴿۵۲﴾
بیشک وعدہ الہی یہ ہے کہ کسی کے اجر کے بارے میں خداوند متعال چشم پوشی نہیں کرتا ہے، اور فاطمہ بنت اسد بہترین لوگوں میں شائستہ بن گئیں اور رضائے الہی کی مالک بن گئیں۔ یہ وہ خاتوں ہیں، جنھوں نے کائنات کی بہترین مخلوق کو اپنی محبت بھری آغوش میں پرورش کی اور محمد ﴿ص﴾ کی حمایت و دفاع کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ فاطمہ بنت اسد حضرت محمد ﴿ص﴾ کو صرف ایک بچے اور رشتہ دار کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھیں، کہ جسے محبت اور نگرانی کی ضرورت تھی، کیونکہ حضرت محمد ﴿ص﴾ کے بڑے اور بالغ ھونے کے بعد بھی فاطمہ بنت اسد ان کی حفاظت کرتی تھیں۔ لیکن اس مرحلہ میں وہ چوکس تھیں کہ ایسا نہ ھو کہ محمد ﴿ص﴾ کوئی چیز کہیں اور حکم دیدیں اور وہ اس کی طرف توجہ نہ کرے اور اس طرح پیغمبر خدا ﴿ص﴾ کو ناراحت کرے! ھوشیاری سے کام لیتی تھیں، کہیں ایسا نہ ھو کہ خداوند متعال کا پیغمبر ﴿ص﴾ اسے کسی کردار و گفتار کے بارے میں منع کریں اور وہ ان کی پیروی نہ کرے! فاطمہ، اسد نامی ایک یکتا پرست عظیم شخصیت کی بیٹی تھیں، اور حضرت محمد﴿ص﴾ جیسے منادی توحید اور بے مثال پیغمبر خدا ﴿ص﴾ کی پرورش کرنے والی خاتون اور علی ﴿ع﴾ جیسے مخلصانہ بندگی کے مظہر کی ماں تھیں۔
فاطمہ بنت اسد کا، آنحضرت ﴿ص﴾ کی رسالت پر ایمان لانا:
مورخین نے یوں نقل کیا ہے کہ۔“ پیغمبر آخرالزمان ﴿ص﴾ کی رسالت پر ایمان لانے والی دوسری خاتون فاطمہ بنت اسد تھیں اور اسی ایمان کی وجہ سے انھیں قریش کی عورتیں اور مرد سرزنش کرتے تھے۔ لیکن انھوں نے پائداری اور استقامت کے ساتھ ان تمام طعنہ زنیوں اور دھمکیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ زبیر بن عوام اس سلسلہ میں یوں نقل کرتے ہیں:“ میں نے سنا کہ رسول خدا﴿ص﴾ نے آیہ شریفہ:“ یا ایھا النبی اذا جاءک المؤمنات یبا یعنک” کے نازل ھونے کے وقت عورتوں سے اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی اور علی ﴿ع﴾ کی ماں فاطمہ بنت اسد پہلی خاتون تھیں جنھوں نے آپ ﴿ص﴾ کی بیعت کی اور “ السابقون” کی حقیقی مصداق نبی " و السابقونَ الأولون مِن المُهاجرینَ و الأنصارِ والذین اتبعوهم بإحسانِ رَضِیَ الله عنهم و رضوا عنه وأعدَّ لهم جناتٍ تجری من تحتها الأنهارُ خالدین فیها أبداً ذَلک الفوزُ العظیم ".
لیکن فاطمہ بنت اسد کے اسلام قبول کرنے کی دقیق تاریخ اور زمانہ کے بارے میں مورخین کے درمیان اتفاق نظر نہیں پایا جاتا ہے، البتہ اس سلسلہ میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ وہ دعوت الہی کو قبول کرنے والے پیشرؤں میں شامل تھیں ۔ بعض مورخین ان کو واضح طور پر اسلام قبول کرنے والی گیارہویں فرد کے عنوان سے جانتے ہیں۔﴿۵۳﴾ اور بعض دوسرے افراد کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد کے بلند مقام و منزلت کے سلسلہ میں اتناہی کافی ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے علی ﴿ع﴾ کو کعبہ کے اندر جنم دیا، جو ان کے دوسروں پر ایمان کی سبقت کی دلیل ہے، اور وہ گیارہویں مسلمان ہیں اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ان کی قدر دانی فرماتے تھے اور انھیں ماں کہکر پکارتے تھے۔﴿۵۴﴾ یہ اس حالت میں ہے کہ بعض دوسرے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ گیارہویں فرد تھیں جس نے اسلام لانے کا اعلان کیا اور بعید جانتے ہیں کہ انھوں نے ابتداء میں ہی اور اعلان کرنے سے پہلے ایمان نہ لایا ھو!۔﴿۵۵﴾ یہ لوگ اپنے اس دعوی کی دلیل ان کے بیٹے علی ﴿ع﴾ کے وضع حمل کے وقت فاطمہ بنت اسد کی زبان سے جاری ھونے والے مناجات جانتے ہیں، جس کا ایک ایک بند توحیدی اعتقادات سے چھلکتا ہے، یہ ایک ایسے شخص کی زبان سے جاری ھونے والے مناجات ہیں جس کا سر کبھی بتوں کے سامنے نہیں جھکا ہے اور ہمیشہ پروردگار عالم اور وحدہ لاشریک پر ایمان رکھتی تھیں اور اسے تنہا معبود و معشوق عالم جانتی تھیں۔ بیشک فاطمہ بنت اسد نے تخلیق، ربوبیت، افعال اور عبودیت میں توحید والے پروردگار کو پایا تھا اور مشرکین اور بت پرستوں کے مانند صرف تخلیق کو خدا کا کام نہیں جانتی تھیں، وہ اپنے زمانہ کے مشرکین کے مانند دنیا کی مخلوقات کی پرورش کے لئے مختلف ارباب کا اعتقاد نہیں رکھتی تھیں۔
فاطمہ بنت اسد اور ان کے شوہر پر عہد رسالت میں ایمان نہ لانے اور احکام پر عمل نہ کرنے کا الزام!
پوری تاریخ میں ہمیشہ بافضیلت اور برتر افراد، دنیا پرستوں ، حسد و کینہ رکھنے والوں اور منافقوں کی طرف سے جارحیت کے شکار ھوتے رہے ہیں۔ اس کی پہلی مثال خود پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے صدر اسلام میں پائی جاتی ہے کہ کئی مومن افراد پر جھوٹ، افتراء اور جنون کا الزام لگایا گیا۔ حضرت ابوطالب اور ان کی شریک حیات فاطمہ بنت اسد بھی اس جارحیت اور الزام سے محفوظ نہ رہے اور ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اسلام نہیں لایا تھا، یہاں تک کہ امام علی بن الحسین ﴿زین العابدین﴾ ﴿ع﴾ سے سوال کیا گیا:“ کیا ابوطالب ایمان لائے تھے اور اس دنیا سے بعنوان مسلمان رخصت ھوئے ہیں؟” امام ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا:“ تعجب کی بات ہے کہ خداوند متعال نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کو نہی فرمایا ہے کہ مسلمان عورت کو غیر مسلمان شوہر کے عقد میں قرار نہ دینا اور فاطمہ بنت اسد اسلام لانے میں پیشرو تھیں اور جناب ابوطالب کی زندگی کے آخری لمحات تک ان کی بیوی تھیں۔” امام ﴿ع﴾ نے اس فرمائش سے اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حضرت ابوطالب کے ایمان پر شک کرنا خود رسول اللہ ﴿ص﴾کے توسط سے احکام الہی کو نافذ کرنے میں شک کرنے کے مترادف ہے، اور اسی کے ساتھ ابوطالب کے مسلمان ھونے میں پیشرو ھونے کی تاکید ہے، کیونکہ بیشک فاطمہ بنت اسد، گروہ اول کے مسلمانوں میں شامل تھیں! فاطمہ بنت اسد حضرت علی ﴿ع﴾ کی ماں ہیں اور علی ﴿ع﴾ کو حمل کرنے والا رحم بیشک ایک پاک رحم ہے۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں:“ میں نے علی بن ابیطالب کی پیدائش کے بارے میں رسول خدا ﴿ص﴾ سے سوال کیا، آنحضرت ﴿ص﴾ نے جواب میں فرمایا: آہ ! آہ! تم نے میرے بعد برترین مولود کے بارے میں سوال کیا ہے، جو حضرت عیسی ﴿ع﴾ کی سنت پر پیدا ھوئے ہیں خداوند متعال نے مجھے اور علی ﴿ع﴾ کو کائنات کو پیدا کرنے سے پانچ سو سال پہلے ایک ہی نور سے پیدا کیا ہے اور ہم نے اس کی تسبیح و تقدیس کی ہے اور جب آدم ﴿ع﴾ کو پیدا کیا، توہمیں ان کے صلب میں قرار دیا، میں دائیں جانب قرار پایا اور علی بائیں جانب قرار پائے۔ اس کے بعد ہم دونوں مسلسل پاک صلبوں اور رحموں میں منتقل ھوتے رہے، یہاں تک خداوند متعال نے مجھے عبداللہ کی پاک پشت سے آمنہ کے بہترین اور پاک رحم میں منتقل کیا، اس کے بعد علی کو ابوطالب کی پاک پشت سے فاطمہ بنت اسد کے پاک رحم میں منتقل کیا۔﴿۵٦﴾ اس روایت کے پیش نظر، جس کے راوی خود رسول خدا ﴿ص﴾ ہیں، معلوم ھوتا ہے کہ حضرت ابوطالب اور ان کی شریک حیات فاطمہ بنت اسد ایمان کے بلند ترین مقام پر فائز تھے اور اس طرح حضرت ابو طالب جیسی عظیم شخصیت کے غیر مسلم ھونے کا دعوی کرنے والوں کی حقیقت کا پول کھل جانا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض نا عاقبت اندیش اور بغض و کینہ رکھنے والے افراد نے حضرت علی ﴿ع﴾ کی عظمت اور فضیلت کو گھٹانے کے لئے یہ کوشش کی ہے کہ ان کے والد بزرگوار جناب ابوطالب پر غیر مسلمان ھونے کا الزام لگائیں اور ان کی والدہ گرامی جناب فاطمہ بنت اسد پر یہ الزام لگائیں کہ انھوں نے تاخیر سے اسلام قبول کیا ہے، لیکن یہ ناعاقبت اندیش اور بغض و کینہ رکھنے والے افراد اس سے غافل رہے ہیں کہ: “ ان اللہ یدافع عن الذین آمنوا” “ خداوند متعال خود سچے مومنین کا دفاع کرنے والا ہے۔” اور انھوں نے اس نورانی چہرہ پر حسد کی گرد ڈالنا چاہی ہے، جبکہ خدا کے اس وعدہ کو بھول گئے ہیں کہ: " یریدون لیطفئوا نور الله بأفواههم والله متم نوره و لو کره الکافرون" بیشک، کیا نورالہی کو کافروں اور مشرکوں کے پھونکوں سے بجھایا جاسکتا ہے؟” کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ایسی خاتون کا رحم علی ﴿ع﴾ کو حمل کرے جو خود بت پرست ھو؟! کیا یہ ممکن ہے کہ جس کے صلب میں علی ﴿ع﴾ ھو، وہ خدا کے لئے کسی کو شریک قرار دے؟! “ أشهدُ أَنَّکُم کُنتم نُوراً فی الأصلابِ الشَّامِخةِ و الأرحامِ المُطَهَّرةِ "
ایک دوسری روایت، جس میں ان دونوں میاں بیوی کے ایمان کی تائید کی گئی ہے، میں یوں آیا ہے کہ:“ فاطمہ بنت اسد کہتی ہیں کہ: میں نے دیکھا کہ محمد﴿ص﴾ ایک خشک خرما کے درخت سے خرما کھا رہے ہیں، یہ خرما کافی خوشبو رکھتے تھے، اس قدر خوشبو دار تھے کہ مشک عنبر سے بھی بہتر، میں چاہتی تھی کہ ان خرماؤں سے مجھے بھی دیدیں، لیکن انھوں نے کہا : میں یہ خرما کھانے کا حق نہیں رکھتی ھوں، مگر یہ کہ ان کے ساتھ شہادتین پڑھوں اور میں نے ان کی فرمائش کے مطابق شہادتین کو دہرایا، اور اس کے بعد انھوں نے مجھے بھی ایک عدد خرما دیدیا، جب میں نے اسے کھالیا، میری اشتہا بڑھ گئی اور میں نے اپنے شوہر ابوطالب کے لئے بھی ایک خرما مانگا، لیکن انھوں نے کہا کہ ان کو بھی یہ خرما تب تک نہ دینا جب تک نہ وہ بھی شہادتین پڑھیں اور دوسری ایک روایت میں آیا ہے کہ ابوطالب نے شہادتین پڑھیں اور اس کے بعد پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے انھیں بھی ایک خرما کھلایا، اور فاطمہ بنت اسد اس ماجرا کے بعد حاملہ ھوئیں۔
اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ فاطمہ بنت اسد اور ابوطالب یکتا پرست اور دین حنیف ابراھیم ﴿ع﴾ پر تھے اور خدا کی وحدانیت کی شہادت دیتے تھے اور اپنے زمانہ کے مانند بت پرست نہیں تھے، لیکن دوسری شہادت یعنی محمد مصطفی ﴿ص﴾ کی رسالت کی گواہی ان کی پاکی و مسلمانی کے مکمل ھونے کا لازمہ بنا۔﴿۵۷﴾
بے مثال ماں اور بیٹے کی طہارت کے سلسلہ میں خداوند قادر کی نشانی:
اس عظیم خاتون کی عظمت و بزرگی کے بارے میں تقدیر الہی کا یہ عالم تھا کہ وہ قدم قدم پر خود کو رحمت بیکران الہی میں محسوس کرتی تھیں۔ ارادہ الہی یہ تھا کہ فاطمہ بنت اسد اپنے بیٹے کو دنیا کی بہترین و مقدس ترین جگہ پر جنم دے۔ بہتر ہے کہ اس سلسلہ میں قدیم تاریخ کا مطالعہ کریں اور عینی شاہدوں سے یہ واقعہ سنیں:
یزید بن قعنب کہتا ہے:“ میں عباس بن عبدالمطلب اور چند بت پرستوں کے ہمراہ، بت “عزی” کے پاس خانہ کعبہ کے مقابلے میں بیٹھا تھا، کہ اچانک فاطمہ بنت اسد کو دیکھا اور اس وقت وہ حاملگی کا نواں مہینہ گزار رہی تھیں، کہ ان پر وضع حمل کے حالات رونما ھوئے، پس انھوں نے مناجات کے لئے زبان کھولی اور یوں کہنے لگیں:“ میرے پروردگار! میں تجھ پر ایمان رکھتی ھوں اور تیرے تمام فرشتوں اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتی ھوں، اور بیشک میں اپنے جد امجد ابراھیم ﴿ع﴾ کے کلام کی تصدیق کرتی ھوں کہ انھوں نے خانہ عتیق کی بنیاد ڈالی ہے۔ پس اس کے واسطے جس نے اس گھر کی تعمیر کی ہے اور میرے بطن میں موجود بیٹے کے واسطے میرے وضع حمل کو آسان فرما!” یزید بن قعنب کہتا ہے:“ میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ میں پیچھے سے شگاف ہوگیا اور فاطمہ بنت اسد اس کے اندر داخل ھوگئیں اور ہماری نظروں سے اوجھل ھوگئیں۔ دیوار پھر سے اپنی پہلی حالت میں آگئی اور ہم اسے کھول نہ سکے، لہذا ہمیں معلوم ھوا کہ یہ خداوند عز و جل کی طرف سے کوئی امر ہے، چوتھے دن فاطمہ بنت اسد اپنے بیٹے علی کو گود میں لئے ھوئے خانہ کعبہ سے باہر آئیں اور کہا : بیشک مجھے گزشتہ خواتین پر فضیلت عطا کی گئی ہے، کیونکہ آسیہ بنت مزاحم ایک گھر میں پوشیدہ عبادت کرتی تھیں، خدا کو پسند نہیں تھا، مگر یہ کہ مجبوری کی حالت میں وہاں عبادت کرتیں﴿ فرعون کے گھر میں﴾ اور مریم بنت عمران ایک سوکھے ہوئے درخت خرما کو ہلاتی تھیں اور اس سے تازہ خرما تناول کرتی تھیں اور میں بیت اللہ الحرام میں داخل ھوئی اور بہشت کے میوے اور رزق سے بہرہ مند ہوئی اوراسے تناول کیا، اور جب میں اس گھر سے باہر آنا چاہتی تھی، ہاتفی نے آواز بلند کی کہ اے فاطہ! اس کا نام علی رکھنا کہ وہ بلند مرتبہ ہے، اور خداوند علی اعلی فرماتا ہے: بیشک میں نے اس کا نام اپنے نام کا مشتق قرار دیا ہے اور اسے اپنے ادب سے تربیت کی ہے اور میں نے اس کواپنے علم غیب کے بارے میں آگاہی عطا کی ہے، وہ میرے گھر کے اندر بتوں کو توڑ دے گا اور میرے گھر کی چھت پر اذان پڑھے گا اور میری تقدیس و تمجید کرے گا، پس مبارک ھو اس پر جو اس کی اطاعت کرے گا اور افسوس ھو اس پر جو اس کی نا فرمانی کرے گا۔”﴿۵۸﴾
مسلمان مورخین نے اس عظیم واقعہ کو مکرر ذکر کیا ہے اور اس سلسلہ میں احادیث کی قابل توجہ تعداد نقل کی ہے۔ شیخ محمد اردوبادی نے اپنی کتاب“ علی مولود کعبہ” میں اس فضیلت کے بارے میں سو سے زائد اسناد اور منابع ذکر کئے ہیں! قابل بیان ہے کہ اس عظیم روداد کو نقل کرنا اور ولادت کے وقت اس کا صرف اس خاتون سے مخصوص ھونا کوئی ایسا امر نہیں ہے جس کا ایک حقیقت پسند اور با انصاف محقق انکار کرسکے۔ غیر شیعہ، مسلمان مورخین اس مطلب کے گواہ ہیں۔ حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب “ المستدرک” میں، حافظ کنجی شافعی نے “ کفایہ” میں، آلوسی نے “قصیدہ عینیہ” کی شرح میں اور مسعودی نے “ مروج الذھب”۔ ۔ ۔ میں اس مطلب کو نقل کرکے تمام غیر جانبدار بے غرض محققین پر حجت تمام کی ہے۔
فاطمہ بنت اسد ۔۔۔۔۔۔۔ ایک راوی کی حیثیت سے:
صدر اسلام کا زمانہ، ان اہم زمانوں میں سے ہے کہ سنت نبوی کے راویوں نے اپنے مشاہدات اورسنی سنائی داستانوں کو تاریخ میں درج کیا ہے اور اس قسم کی اکثر روایتیں ایسے افراد سے ہمارے لئے یادگار کے طور پر باقی رہی ہیں، جو پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے ہم نشین، صحابی اور یار و یاور تھے۔ عصر صحابہ میں ان راویوں اور محدثین میں کچھ خواتین بھی تھیں جو حدیث کو حفظ اور نقل کرتی تھیں، ایسی خواتین کے بارے میں فاطمہ بنت اسد اور ان کی بیٹی ام ہانی کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ بعض مورخین نے فاطمہ بنت اسد سے نقل کی گئی روایتوں کی تعداد ۴٦ تک بتائی ہے، کہ ہم نے ان میں سے بعض روایتوں کی طرف مختلف مواقع پر ذکر کیا ہے۔ اس خاتون نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی ۸سالہ عمر سے آپ ﴿ص﴾ کے قول و فعل کا عینی مشاہدہ کیا اور سنا ہے اور امت اسلامیہ کے لئے بیان کیا ہے کہ ان میں سے بعض میں نبوت کی نشانیوں کی طرف اشارے تھے اور بعض روایتیں آنحضرت ﴿ص﴾کے، حتی بچپن میں آپ ﴿ص﴾ کی مہربانیوں اور آداب و تہذیب سے متعلق ھیں۔ اس کے علاوہ فاطمہ بنت اسد نے ابوطالب کے توسط سے اپنے بھتیجے کی کفالت کی کیفیت تفصیل سے بیان کی ہے، جو قطب راوندی کی کتاب“ الخرائج و الجرائح” میں مفصل طور پر درج کی گئ ہے۔
بیشک یہ خاتون“ امراة صالحہ” کی واضح مصداق ہیں، اور صالحین کا مقام ایک بلند مقام ہے، مقام صالحین ایک وصف ہے کہ خداوند متعال نے اپنے انبیاء ﴿ع﴾ کی وجودی عظمت کو اس وصف سے یاد کیا ہے اور ارشاد فرماتا ہے: "إن الله یبشرک بیحیی مُصدقا بکلمةٍ من الله و سیداً و حصوراً و نبیاً من الصالحین" (۵۹﴾
ایک دوسری جگہ پر حضرت ابراھیم ﴿ع﴾ کی توصیف میں ارشاد فرماتا ہے: “ انہ فی الآخرة من الصالحین” ﴿٦۰﴾ اور فاطمہ بنت اسد نے اپنے ایمان، اعتقاد پر استقامت و بردباری کا مظاہرہ اور ہجرت کی سختیاں برداشت کرتے ھوئے ثابت کیا کہ وہ ایک شائستہ اور مثال خاتون ہیں۔ بیشک کائنات کی سب سے برتر اور بلند شخصیت پیغمبر نور و رحمت﴿ص﴾ کا وجود مبارک ہے اور کسی مسلمان کو اس سلسلہ میں ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں ہے۔ حضرت سرور عالم ﴿ص﴾ میں پائے جانے والے کمالات بقول خود آنحضرت ﴿ص﴾ نہ کسی فرشتے میں پائے جاتے ہیں اور نہ انبیائے الہی ﴿ع﴾ میں سے کسی میں۔ لیکن یہی بے مثال پیغمبر ﴿ص﴾ کبھی بعض حقائق سے پردہ اٹھانے کے لئے اور بعض شخصیتوں کی عظمت کی طرف ہماری توجہ مبذول کرانے کے لئے کہ شائد ہم ان کی طرف کم توجہ دیتے ھوں، حضرت علی بن ابیطالب ﴿ع﴾ سے منقول ایک حدیث میں فرماتے ہیں: “ اے علی!تم ایسی چیزوں کے مالک ھو کہ میں ان کے مانند نہیں رکھتا ھوں، آپ کی صلب سے دو ایسے بیٹے متولد ھوئے ہیں کہ ان کے مانند میرے صلب سے کوئی نہیں ہے، خدیجہ جیسی ساس رکھتے ھو کہ میری ساس ان کے مانند نہیں ہے، آپ مجھ جیسے خسر رکھتے ھو کہ میرا خسر میرے مانند نہیں ہے، فاطمہ بنت اسد ہاشمی جیسی مھاجر ماں رکھتے ھو کہ میری ماں ان کے مانند نہیں ہے”۔﴿٦١﴾ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کا یہ کلام حضرت علی ﴿ع﴾ کی آنحضرت ﴿ص﴾ پر برتری کی دلیل نہیں ہے لیکن حضرت علی ﴿ع﴾ سے نسبت رکھنے والی شخصیتوں کی عظمت کی دلیل ہے۔ حضرت علی ﴿ع﴾ کے لئے حضرت فاطمہ زہراء ﴿س﴾ کی ہمسری بے مثال ترین پیوند آسمانی ہے، حسنین﴿ع﴾ آپ ﴿ع﴾ کے لئے تاریخ کی انتہا تک نور کا جاری رہنا ہے، حضرت خدیجہ ﴿س﴾ اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کا داماد ھونا ملکوت اعلی تک پرواز کرنے کے دو پر کے مانند ہے اور فاطمہ بنت اسد کا بیٹا ھونے کا نتیجہ کعبہ کے اندر پیدا ھونا تھا۔ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے اس کلام پر غور کرنے سے معلوم ھوتا ہے کہ آنحضرت ﴿ص﴾ نے ہاشمی اور مھاجر ھونے کی دو خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے! ہاشمی ھونا ایک نسبتی فخر اور ایک الہی عنایت ہے، اس لئے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ اس کے فورا بعد مھاجر ھونے کی یاد دہانی کراتے ہیں، کہ یہ مقام خدا پر ایمان اور اس پر ثابت قدم رہنے کے نتیجہ میں حاصل ھوتا ہے۔
ایک اور امتحان:
بیشک، پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی مصیبتوں میں سے ایک اور مصیبت جو آپ ﴿ص﴾ کے لئے برداشت کرنا سخت اور سنگین تھی، ام المؤمنین حضرت خدیجہ ﴿س﴾ اور آپ ﴿ص﴾ کی با وفا شریک حیات سے محروم ھونا تھا۔ آنحضرت ﴿ص﴾ نے اس سال کا نام “ عام الحزن” ﴿ غم و اندوہ کا سال﴾ رکھا، جس سال آپ ﴿ص﴾ کی شریک حیات ﴿حضرت خدیجہ﴾ اور آپ ﴿ص﴾ کے چچا ﴿ حضرت ابوطالب﴾ نے رحلت کی۔ رسول خدا ﴿ص﴾،حضرت خدیجہ﴿س﴾ سے محروم ھونے کے نتیجہ میں مہرومحبت سے مالامال ایک دل سے محروم ھوئے، یہ وہ دل تھا، جو آنحضرت ﴿ع﴾ کے لئے غم و شادی میں آپ ﴿ص﴾ کا شریک تھا، بیشک آپ ﴿ص﴾ ایک ایسی رفیق و مہربان شریک حیات سے محروم ھوئے، جو آپ ﴿ص﴾ کے شانہ بشانہ رسالت کی سنگینی برداشت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی تھیں۔ وہ ایک ایسی رفیق و شفیق شریک حیات تھیں، جس نے اپنا سب مال و متاع اسلام کی تعلیمات کی ترویج اور تبلیغ میں صرف کیا تھا، اس شریک حیات اور رفیق راہ سے یادگار کے طور پر ایک پانچ سالہ بچی باپ کے پاس رہ چکی تھیں، یہ بچی ماں کی مامتا اور امن و سلامتی کے لئے ایک پناہ گاہ کی محتاج تھیں تاکہ ماں کی محرومیت کے غم میں اس کے لئے تسلی کا سبب بنے اور ماں کی محبت کی تلافی کرے۔ اب فاطمہ بنت اسد کے روف و مہربان قلب کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ کل تک یہ قلب محمد﴿ص﴾ کے عشق و محبت میں دھڑکتا تھا آج یہ قلب ان کی بیٹی کے عشق میں دھڑکنے کا سزاوار تھا، ایسی بیٹی جو اپنے باپ﴿ص﴾ کے بقول ریحانہ تھیں اور آپ ﴿ص﴾ کے بدن کا ٹکڑا اور لخت جگر تھیں۔ اس طرح یہ خاتون ایک بار پھر امتحان سے دوچار ھوئیں اس امتحان میں بھی سربلندی کے ساتھ پاس ھوئیں یہ تمام عورتوں میں صرف فاطمہ بنت اسد کو دنیا کی عورتوں کی سردار خاتون کی سرپرستی اور پرورش کی ذمہ داری سنبھالنے کی سعادت حاصل ھوئی۔﴿٦۲﴾
نورانی الوداع کے ساتھ دنیائے فانی سے رخصت:
حضرت فاطمہ بنت اسد کی عظمت، ایثار اور ایمان سے لبریز زندگی ہجرت کے تیسرے یا چوتھے سال اختتام کو پہنچی اور انھوں نے ٦۵ سال کی عمر میں ندائے الہی کو لبیک کہکر اس دار فانی سے کوچ کیا۔
امام جعفر صادق ﴿ع﴾ سے نقل کی گئی ایک حدیث کے ضمن میں آیا ہے کہ: “ فاطمہ بنت اسد کی رحلت کے دن، علی ﴿ع﴾ روتے ھوئے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی خدمت میں حاضر ھوئے، آنحضرت ﴿ص﴾ نے سوال کیا کہ: کیوں رو رہے ھو؟ انھوں نے جواب میں کہا: میری ماں، فاطمہ نے رحلت کی! جب رسول خدا ﴿ص﴾ نے یہ خبر سنی تو فرمایا: خدا کی قسم! میری ماں! اس کے بعد فاطمہ بنت اسد کے جنازہ میں شرکت کرنے کے لئے دوڑتے ھوئے روانہ ھوئے ۔ جب انھیں دیکھا تو روتے ھوئے خواتین کو حکم دیا کہ انھیں غسل دیں اور فرمایا: جب غسل مکمل ھوجائے، اس کے بعد کوئی کام انجام نہ دینا، مگر یہ کہ مجھے اطلاع دیں۔ جب فاطمہ بنت اسد کو غسل دیا گیا، رسول خدا ﴿ص﴾ کو اطلاع دیدی گئ اور آپ ﴿ص﴾ نے اپنے ایک پیراہن کو خواتین کے ہاتھ میں دیدیا جسے آپ ﴿ص﴾ پہنتے تھے اور فرمایا کہ انھیں اس سے کفن کرنا اور مسلمانوں کی طرف مخاطب ھوکر فرمایا: اگر آپ نے مجھے آج ایسا کوئی کام کرتے مشاہدہ کیا کہ اس سے پہلے کسی کے لئے نہ کیا ھو تو مجھ سے اس کی علت پوچھنا۔ جب خواتین نے فاطمہ بنت اسد کو غسل دے کر کفن پہنایا، پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ داخل ھوئے اور جنازہ کو اپنے شانوں پر اٹھالیا اور اسے قبرستان تک پہنچا دیا، اس کے بعد پہلے خود قبر میں اتر کر لحد میں لیٹے اس کے بعد اٹھے اور فاطمہ بنت اسد کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر لحد میں رکھ دیا، اس کے بعد جھک کر کچھ کہا اور فرمایا: “ تمھارا بیٹا! تمھارا بیٹا!” اس کے بعد قبر سے باہر تشریف لائے اور لحد پر مٹی ڈال دی اور دوبارہ جھک کر کچھ پڑھنے لگے، لوگوں نے سنا کہ فرماتے تھے: لا الہ الا اللہ ، خداوندا! اسے میں نے تیرے حوالہ کیا۔ اس کے بعد رسول خدا ﴿ص﴾ واپس لوٹے، مسلمانوں نے کہا: ہم نے دیکھا کہ آج آپ ﴿ص﴾ نے ایسے غیر معمولی کام انجام دئے، کہ اس سے قبل ہم نے ان کا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا: آج میں ابوطالب کی نیکی سے محروم ھوگیا، وہ مجھے ہر چیز میں اپنی اولاد پر برتری دیتی تھیں، جب میں نے ان﴿فاطمہ بنت اسد﴾ سے کہا کہ قیامت کے دن سب عریان محشور ھوں گے، کہا: افسوس ھو میرے حال پر، میں نے ضمانت دیدی کہ خداوند متعال انھیں لباس کے ساتھ محشور فرمائے گا، جب میں نے فشار قبر کے بارے میں کہا، تو کیا: افسوس ھو میری ناتوانی اور کمزوری پر، اور میں نے ضمانت دیدی کہ خداوند متعال انھیں فشار قبر سے محفوظ رکھے گا، اس لئے میں نے انھیں اپنے پیراہن سے کفن کیا اور ان کی قبر میں اتر کر لیٹا! جب میں ان کی قبر پر جھگ گیا انھیں میں نے تلقین سنادی، ان سے پروردگار اور پیغمبر ﴿ص﴾ کے بارے میں پوچھا گیا انھوں نے صحیح جواب دیا لیکن جب ان سے ولی و امام کے بارے میں سوال کیا گیا، تو نہیں جانتی تھیں کہ جواب میں کہا کہے، پس میں نے ان سے کہا: “ تمھارا بیٹا! تمھارا بیٹا!” ﴿٦۳﴾
اس طرح امامت کی ماں اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی سرپرست حضرت فاطمہ بنت اسد کی زندگی کا سورج ڈوب گیا اور فاطمہ بنت اسد، پروردگار عالم کی بندگی اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی مخلصانہ فرمانبرداری سے سرمشار ایک عمر گزارنے کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔ پس تعجب نہیں ہے کہ ہم مشاہدہ کریں کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ ان کے فراق میں غمگین ھوں اور ان کے لئے دعا کریں اور دین کو مکمل کرنے والی ولایت انھیں تلقین کریں۔
“ علل الشرائع” میں ذکر کے مطابق اس عظیم خاتوں کا مدفن۔، قبرستان بقیع میں “ الروحاء” کی جگہ پر ابی قطیفہ کے حمام کے روبرو تھا۔ ﴿٦۴﴾ لیکن آج اس کے آثار باقی نہیں ہیں، صرف اس ماں اور ان کے بیٹوں، ائمہ اہل بیت﴿ع﴾ حسن مجتبی﴿ع﴾ علی بن الحسین، زین العابدین ﴿ع﴾ محمد بن علی باقر﴿ع﴾ اور جعفر بن محمد صادق ﴿ع﴾ کی قبروں کے نشانوں کے طور پر چند ٹکڑے پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، جو ایک دوسرے کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے ہیں۔ ﴿٦۵﴾
فاطمہ بنت اسد پر خداوند متعال کا درود و سلام ھو، جنھوں نے اپنی پوری زندگی پروردگار عالم کی بندگی میں گزاری اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی حمایت اور دفاع میں بے مثال کارنامے انجام دئے۔ خدا کا سلام ھو فاطمہ بنت اسد کی پیدائش، زندگی، موت اور دوبارہ مبعوث ھونے پر۔
منابع و ماخذ:
1ـ نهج البلاغة: الخطبة 21
2ـ فاطمة١بنت هرم بن رَواحة بن حِجر بن عبد بن معيص بن وهب بن تغلبة بن واثلة بن عمرو بن شيبان بن مُهارب بن فِهر. وأمّها فاطمة بنت أبي همهمة بن عامر بن عمرو بن وديعة بن الحارث بن فِهر. شرح نهج البلاغة، لابن أبي الحديد 6:1، وبحار الأنوار، للمجلسي 182:35. 3ـ النحل: 58 ـ 59
4ـ أُسد الغابة، لابن الأثير ـ ترجمة قيس بن عاصم
5ـ رياحين الشريعة ( بالفارسية ) 6:3
6ـ شيخ الأبطح، للسيّد محمد شرف الموسوي 111
7ـ الحجّة على الذاهب إلى عدم ايمان أبي طالب، للسيّد فخّار بن معد الموسوي 185، بحار الأنوار، للمجلسي 98:35
8ـ إعلام الورى، للطبرسي 282:1، ب 5، ف 2. الحجّة على الذاهب 158
9ـ بحار الأنوار 111:35 ـ 112
10ـ الحجّة على الذاهب 261
11ـ كقوله تعالى: « ولا تُمْسِكوا بِعِصَمِ الكوافِر »11
12ـ الحجّة على الذاهب 123 ـ 124
13ـ بحار الأنوار، للمجلسي 110:35
14ـ السيرة الحلبيّة، للحلبي 125:1. الحجّة على الذاهب 313 ـ 315
15ـ الخرائج والجرائح، للقطب الراوندي 138:1
16ـ من أشعار أبي طالب ( الحجّة على الذاهب 241 16
لِيَـعْلَم خيـارُ الناسِ أنّ مـحمّداً
نبيٌّ كموسى والمسيحِ ابنِ مريم
أتـانـا بهَدْيٍ مِثـلَ ما أَتَيا بهِ
فـكلٌ بـأمـرِ اللهِ يَهدي ويَعصِمِ
17ـ بحار الأنوار، للمجلسي 383:15 ( حديث کے ضمن میں﴾
18ـ بحار الأنوار 40:35، حديث 38 ـ الباب الأول ( حديث کے ضمن میں﴾
19ـ أصول الكافي، للكليني 453:1، حديث 2
20ـ بحار الأنوار 83:35، حديث 26
21ـ بحار الأنوار 81:35، حديث 23
22ـ الخرائج والجرائح، للراوندي 138:1 ـ 139، حديث 225. بحار الأنوار 83:35 ـ 84، حديث 26
23- مكان سُلاطح: عريض، ومنه قول الساجع: صُلاطح بُلاطح، بلاطح إتباعٌ. لسان العرب 387:7 « صلطح »
24ـ وهو طالب الذي توفّي صغيراً
25ـ وهو جعفر الطيّار الذي استُشهد في وقعة مُؤتة، وأخبر النبيُّ صلّى الله عليه وآله المسلمين بمنزلته، وأنّ الله تعالى عوّضه عن يديه اللتين قُطعتا في الحرب جناحَين يطير بهما في الجنّة مع الملائكة، فلُقِّب بجعفر الطيّار
26ـ وهو عقيل الذي عمّر وبقي له عَقِب
27ـ وهو أمير المؤمنين عليّ عليه السّلام
28ـ بحار الأنوار 41:35 ـ 42، حديث 38 ضمن حديث
29ـ رياحين الشريعة 3:3. بحار الأنوار 40:35
30ـ الخصائص الفاطميّة، للمولى محمد باقر واعظ الطهراني 216
31ـ الخصائص الفاطميّة، للمولى محمد باقر واعظ الطهراني 216
32ـ أمالي الشيخ الصدوق 111، المجلس 27. بحار الأنوار 287:44 ـ 288. ويقصد صلّى الله عليه وآله بولد عقيل المقتول في محبّة الحسين عليه السّلام: مُسلم بن عقيل سفير الإمام الحسين إلى الكوفة
33ـ شرح نهج البلاغة، لابن أبي الحديد 118:2 ـ 119
34ـ شرح نهج البلاغة 124:2 ـ 125
35ـ بحار الأنورا 23:21. المستدرك، للحاكم النيسابوري 233:3، حديث 539
36ـ شرح نهج البلاغة 224:13
37ـ السيرة النبويّة، لأحمد بن زيني دحلان 34:2
38ـ المستدرك، للحاكم 233:3، حديث 537
39ـ المستدرك، للحاكم 231:3، حديث 533
40ـ المستدرك 233:3، حديث 538
41ـ انظر مثلاً: الصواعق المحرقة، لابن حجر 76
42ـ المناقب، للخوارزمي 328، حديث 61. ينابيع المودّة، للقندوزي 246:1، حديث 28
43ـ المناقب، للخوارزمي 32 ـ 33، حديث 2. كفاية الطالب، للگنجي الشافعي 252. فرائد السمطين، للحمويّ 18:1
44ـ الفردوس، للديلمي 429:1، حديث 1751. مناقب عليّ بن أبي طالب، لابن المغازلي 230، حديث 277
45ـ بحار الأنوار 282:18
46 ـ بحار الأنوار 131:21. سفينة البحار، للقمّي 714:8 مادّة: « هنأ »46-
47ـ بحار الأنوار 302:43. المعجم الأوسط، للطبراني 237:7 ـ 238، حديث 6458. ذخائر العقبى، للمحبّ الطبري 130
48 -بحار الأنورا 166:74. سفينة البحار 494:3 مادة « زمن »
49ـ بحار الأنوار، للمجلسي 64:19 ـ 67
50ـ بحار الأنوار 106:19
51ـ الكامل في التاريخ، لابن الأثير 106:2
52ـ الحجّة على الذاهب 50. بحار الأنوار 109:35
53ـ شرح نهج البلاغة، لابن أبي الحديد 14:1
54ـ سفينة البحار، للمحدّث القمّي 122:7 مادّة: فطم
55ـ رياحين الشريعة، للمحلاّتي 3 /6 بالفارسیة
56- روضة الواعظين، للفتّال النيسابوري 76. بحار الأنوار 10:35، حديث 12
57ـ اشارة الی أن الذریة من ابراهیم الخلیل کانوا موحدین حتی وصولهم للنبی من جانب فهر
58ـ الأمالي، للصدوق 114 ـ المجلس 27
59ـ آل عمران: 39
60ـ البقرة: 130
61- انظر التفاصيل في70- 61 رياحين الشريعة 3:3
الرَّوَح: السَّعَة، والرَّوَح: انبساط في صدر القدم، وقُصعة روحاء: قريبة القعر، ويبدو أنّ اسم الروحاء يشير إلى فسحة في أرض
62- البقيع قريبة من المسجد النبويّ، حيث يقع قبر فاطمة بنت أسد
63- بحار الأنوار 298:48
64- مصباح الزائر، لابن طاووس 60
65- الکافی ج1 ص452-454،100.218. حدیث17