علمی اور ثقافتی شعبوں میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے

Rate this item
(2 votes)

علمی اور ثقافتی شعبوں میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے درس اخلاق میں بیان فرمایا :

اخلاقی بحثوں میں ہم اس حصے تک پہنچے کہ اخلاق اس شخص کا وسطی اوردرمیانی مرحلہ ہے کہ جو سیر الی اللہ کا خواہاں ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم سب خواہ نخواہ ذات اقدس الٰہی کی طرف لوٹ کر جائیں گے «یا أَیهَا الْإِنسَانُ إِنَّک کادِحٌ إِلَی رَبِّک کدْحاً فَمُلاَقِیهِ» یہ پہلی اصل تھی ۔

دوسری اصل یہ ہے کہ ہم اگر اس راہ پر نہ بھی چلیں تب بھی ہمیں لے جایا جائے گا ۔ اگر اس راہ پر گامزن ہوں تو ہمیں روح و ریحان نصیب ہو گی اور اگر ہمیں لے جایا گیا تو «خُذُوهُ فَغُلُّوهُ» کا سامنا کرنا پڑے گا ؛ کتنا بہتر ہے کہ اس راہ پر ہم خود چلیں۔ تیسری اصل یہ ہے کہ آخر کار ہر راہ کے لیے زادہ راہ ، رفیق اور ہمراہ کی ضرورت ہے ۔ اس طولانی اور ابدی راہ کو ان وسائل کے بغیر طے نہیں کیا جا سکتا ۔ زادہ راہ قرآن نے مقرر کر دیا ہے ؛ رفقاء کی تعیین بھی قرآن کریم نے فرما دی ہے ؛ لیکن مرکب اور سواری اہل بیت ( علیھم السلام ) نے مشخص فرمائی ہے ۔ زادہ راہ کے بارے ذات اقدس الٰہی نے فرمایا : «تَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیرَ الزَّادِ التَّقْوَی» رفقاء کے باب میں سورہ مبارکہ نساء میں مشخص فرمایا : «وَ مَن یطِعِ اللّهَ وَ الرَّسُولَ فَأُولئِک مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَیهِم مِنَ النَّبِیینَ وَ الصِّدِّیقِینَ وَ الشُّهَدَاءِ وَ الصَّالِحِینَ وَ حَسُنَ أُولئِک رَفِیقاً.» اگر کوئی خدا اور پیغمبر (ص) کا مطیع ہو ، تو اس کے اعتقادی ، اخلاقی اور عملی حوالے سے اچھے رفقاء ہوں گے ، ایسا شخص انبیاء ، صدیقین ، صلحاء اور شہداء کے ہمراہ ہو گا ۔ یہ لوگ ہمارے ہمراہ ہیں اور ان کی اچھی رفاقت یہ ہے کہ یہ راستے میں نہیں ٹھہرنے دیں گے ۔ اگر ہمارا زاد راہ کم ہو ، تو پورا کریں گے ؛ ہماری سواری کے فقدان کا ازالہ کریں گے اور اگر ہم تھک گئے اور پیچھے رہ گئے تو یہ ہماری مدد کریں گے۔ یہ لوگ اچھے رفقاء ہیں۔ ایک شخص کو گھر فروخت کرنے کی ضرورت پڑ گئی ، ڈیلرز نے اس کے مکان کی ایک قیمت مقرر کی لیکن اس نے دوگنی سے زیادہ قیمت کہی ۔ اسے کہا گیا : یہ گھر اتنے کا نہیں ہے ! ، اس نے کہا : مجھے معلوم ہے کہ گھر کی قیمت یہ نہیں ہے اور ڈیلرز نے فلاں قیمت معین کی ہے لیکن اس گھر کو ایک ترجیح حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ میں امام کاظم سلام اللہ علیہ کا ہمسایہ ہوں ؛ اس بنا پر اس گھر کی قدر و قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ غرضیکہ وہ اپنے ساتھیوں کا دھیان رکھنے والے ہیں ۔ اگر انبیاء ، صلحاء ، صدّیقین اور شہداء ہمارے ہمراہ ہوں تو ہم راستے ہی میں سرگرداں نہیں رہیں گے اورپھر کوئی بھٹکا ہوا مسافرنہیں ہوگا۔ پس زاد راہ مشخص ، راہ مشخص ، ہمراہ اور سواری بھی مشخص ہے ۔

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے نماز شب کے بارے گیارہویں امام (ع) کی حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

گزشتہ ہفتے وجود مبارک امام عسکری (ع) کے پربرکت میلاد کی مناسبت سے اس نورانی حدیث کو نقل کیا گیا کہ فرمایا : «إنّ الوصولَ إلی الله عزّ و جلّ سفرٌ لایدرک الاّ بِامْتطاءِ اللیل» یعنی اس طولانی راستے کو سواری اور مرکب کے بغیر طے کرنا دشوار ہے ؛ اس راہ کی سب سے اہم سواری نماز شب ہے ۔ "امتطاء"، کا معنی أخذ المطیة یعنی سواری اخذ کرنا ہے ؛ "امتَطَأ" یعنی "أَخَذَ المطیة" اس نے سواری اخذ کی ، فرمایا : جو لوگ اہل تہجّد نہیں ہیں ، وہ پیدل راستہ طے کریں گے لیکن مشقت کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچیں گے لیکن اگر سوار ہو کر جائیں تو زیادہ آسانی سے منزل تک پہنچیں گے اور یہ سوار ہو کر جانا نماز شب کے ہمراہ ہونے کی صورت میں ہے «إنّ الوصولَ إلی الله عزّ و جلّ سفرٌ لایدرک الاّ بِامْتطاءِ اللیل.» راہ مشخص ہے ، ہمراہی ، زاد راہ اور سواری بھی مشخص ہے ۔ یہ باتیں بہت سی کتابوں میں ہیں ۔ اخلاقی کتب کی طرف رجوع کریں تو بیشتر کتابوں میں یہی باتیں مذکور ہیں ؛ لیکن جو مطلب ہمارے بعض اساتذہ(رضوان اللہ علیھم ) نے فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی تقاریر اور گفتگو میں باتقویٰ رہنے کی کوشش کریں ، لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دیں ۔ یہ باتقوٰی رہنا اور لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دینے کا مطلب زاد راہ مہیا کرنے کے لیے سرگرم رہنا ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ امر ہمیں اصل چیز سے روک دے ۔

اگر آپ مشہد جانا چاہیں تو کس قدر زادہ راہ مہیا کریں گے ؟ خوراک کا ایک کارٹن آپ کے لیے اور آپ کے بال بچوں کے لیے کافی ہو گا ؛ آپ ایک ٹرک بھر خواراک تو نہیں لے جائیں گے ، اگر ٹرک بھر لے جائیں تو کچھ آپ خود کھائیں گے اور کچھ دوسرے زائرین کو دے کر ثواب حاصل کریں گے ۔ اگر کوئی شخص زندگی بھر تقویٰ کی فکر میں رہے یعنی واجبات کو انجام دے اور محرمات کو ترک کرے ، نوافل ادا کرے ، نیک کام اور مستحبات انجام دے ، صدقہ دے ، تو وہ صرف زاد راہ جمع کرنے میں مشغول ہے ۔ اس ہفتہ جشن نیکو کاری ہے اگر کوئی ان تقریبات میں اس طرح کے کاموں میں شریک ہو ، فقیروں کا دھیان رکھے تو وہ تقویٰ میں مشغول ہے ۔ یہ تمام چیزیں تقویٰ ہیں ۔ لیکن یہ کام اگر ایک بزرگ اخلاقی عالم کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ کہے گا اس شخص نے اپنی عمر زاد راہ مہیّا کرنے میں خرچ کر دی ہے لیکن خدا کون ہے ؟ خدا جو ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک ہے ، ہم اسے کیوں نہیں دیکھ پاتے ؟ یہ ہدف ہے ؛ نہ وہ زاد راہ کہ جو ہم جمع کر رہے ہیں ۔ آپ متواتر زاد راہ مہیا کرتے رہیں ؛ تو آپ کو بہشت عطا کر دی جائے گی ۔ آپ اور دوسروں کے درمیان فرق یہ ہو گا کہ اگر دوسروں کو دس سجے سجائے کمرے عطا ہوں گے تو آپ کو سو مل جائیں گے ، دوسروں کو دس نہریں ملیں تو آپ کو سو نہریں مل جائیں گی ؛ یہاں تک آپ«فِی جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ» کا مصداق ٹھہرے ہیں لیکن آپ کو «فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ»کا مقام نصیب نہیں ہو گا ۔ چونکہ آپ نے زاد راہ کے حوالے سے کام کیا ہے لیکن منزل اور ہدف کی شناخت حاصل نہیں کی ۔ خدا کا ایک مفہوم ہم سب کے ذہنوں میں ہے ۔ یہ کیسی ذات ہے کہ جو ہم سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک ہے ؟ حتی کہ ہماری ذات سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک ہے ؟ ہمیں اس امر کی خبر نہیں ہے ! ہم نہیں دیکھ رہے ؛ کیوں ؟ چونکہ ہماری باطنی نگاہ نہیں ہے کہ اسے دیکھ سکیں ۔ یہی وہ بات ہے جو ہم سے کہی گئی ہے کہ دیکھیں ! سورہ حج میں فرمایا : «لاَتَعْمَی الأبْصَار وَ لکن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُور» قرآن کریم کا یہ نورانی بیان اسی مطلب سے مربوط ہے ۔ یعنی ہم میں سے بعض کی باطنی آنکھیں بند ہیں ۔ ان باطنی نابیناؤں کو دس کمرے اور باغ تو عطا کر دئیے جائیں گے اور وہ لذّت بھی حاصل کرے گا ۔ سورہ مبارکہ قمر کے اس آخری حصے میں فرمایا : «إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ» یہ آیت جسمانی لذتوں سے متعلّق ہے ؛ ہمارا جسم اور بدن اپنی لذّتیں حاصل کر لے گا؛ لیکن «فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ» سے دور رہیں گے اور قرب الہی کے مقام سے بہرہ مند نہیں ہوں گے ۔ آپ اس آیہ مبارکہ «عَلی سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ» میں یہ پیغام حاصل کرتے ہیں کہ تمام بہشتی کرسیوں پر جلوہ فگن ہیں ان کے سامنے میز سجے ہوئے ہیں ، یہ سب کے سب ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں ؛ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کروڑوں انسان ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں ؟ چونکہ (اتنی زیادہ بھیڑ میں ) آخر کار ایک صف کی شکل بن جاتی ہے کہ جس میں بمشکل ہر دو ، تین افراد ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو سکتے ہیں ؛ ورنہ وہ آخری ، داہنے ہاتھ والے اور باہنے ہاتھ والے تو ایک دوسرے کے روبرو نہیں ہیں ۔ یہ کہاں ملے گا کہ سب کے سب ایک دوسرے کے روبرو ہوں ؟ فرماتے ہیں جب «عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ» کے مقام پر فائز ہو جائیں تو وہاں غیبت ، غیاب اور سِتر نہیں ہے ؛ سب کے سب ایک دوسرے کے روبرو ہیں اور سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں ۔ ان نکات کے نہ مفہوم کا پتہ ہے اور نہ ہی مصداق کا ۔

اخلاق کا ہدف یہ ہے کہ انسان توشہ آخرت مہیا کرے اس نکتہ کوبیان کرتےہوئے حضرت استاد نے فرمایا :

اخلاق اس لیے ہے کہ ہم زاد راہ مہیا کریں ؛ لیکن اخلاق سے بالاتر امور بھی ہیں ۔ اخلاق ایک دوسری چیز کے لیے ہے ۔ اخلاق اس لیے ہے کہ «لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیقِینِ ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» کی بنیاد پر ابھی اور اسی جگہ بیٹھے بیٹھے جہنم کو دیکھا جائے ۔ ہم اس وقت گپ شپ میں مشغول ہیں ؛ جو بہشت یا جہنم پر عقلی یا نقلی دلیل قائم کرتا ہے اس کا سخن حق ہے ؛ "مما لا ریب فیہ"( اس میں کوئی شک نہیں) ہے ؛ لیکن جو منزل تک پہنچ چکے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ تم لوگ گپیں ہانک رہے ہو ، مولوی کے بقول :

 

خود هنر دان دیدن آتش عیان ٭٭٭ نی گپ دلّ علی النار الدخان

 

ہنر یہ ہے کہ انسان خود آگ کو دیکھے۔ فرمایا : «کلاَّ لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیقِینِ ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» اس سےمراد موت کے بعد دیکھنا نہیں ہے ؛ موت کے بعد تو کافر بھی دیکھ لیں گے اور کہیں گے «رَبَّنَا ابْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا» اللہ تعالیٰ انہیں جہنم دکھلائے گا اور فرمائے گا : «أَفَسِحْرٌ هذَا أَمْ أَنتُمْ لاَتُبْصِرُونَ» اور وہ عرض کریں گے : «رَبَّنَا ابْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا» اگر ایسا ہے کہ فرمایا : «لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیقِینِ ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» یعنی ابھی جہنم کو دیکھ رہے ہو ۔ یہ ہنر ہے اور «خود هنر دان دیدن آتش عیان» اگر تم چاہو تو دوسروں کے لیے عقلی یا نقلی دیل قائم کرو کہ جہنم ہے ۔ جی ہاں ! ہے ؛ یہ "ممّا لاریبَ فیه" بھی ہے ؛ لیکن یہ گپ ہے ۔ یہ اس طرح ہے کہ کوئی شخص دور سے دھواں دیکھ کر کہے کہ دھواں ہے لہٰذا آگ بھی ہے ۔ جو شخص آگ نہیں دیکھتا ، دھواں دیکھتا ہے اور دھویں سے آگ کا اندازہ لگاتاہے وہ گپ مار رہا ہے ، دھواں دیکھ رہا ہے اور دھویں سے آگ کا پتہ چلا رہا ہے ؛ وہ گپ مار رہا ہے «نی گپ دلّ علی النار دخان». حضرت امیر (ع) کا خطبہ ھمام میں نورانی بیان یہ ہے کہ فرمایا : «فَهُمْ وَ الْجَنَّةُ کمَنْ قَدْ رَآهَا فَهُمْ فِیهَا مُنَعَّمُونَ وَ هُمْ وَ النَّارُ کمَنْ قَدْ رَآهَا فَهُمْ فِیهَا مُعَذَّبُونَ» یہ گویا ابھی جہنّم کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ وجود مبارک امام رضا ( سلام اللہ علیہ) نے فرمایا : «لا هم منّا» کہ وہ شخص ہم سے نہیں ہے کہ جو یہ یقین نہ رکھے کہ بہشت اور جہنم ابھی موجود ہیں ؛ ایسا نہیں ہے کہ یہ بعد میں پیدا کیے جائیں گے ۔ وجود مبارک پیغمبر (علیہ و علی آلہ آلاف التحیۃ و الثناء) نے معراج کے موقع پر بہشت اور جہنم کو نزدیک سے دیکھا ۔ یہ ہنر ہے اور اخلاق اس امر کا مقدمہ ہے کہ انسان اس مقام پر فائز ہو ۔

اخلاق راہ کا اختتام نہیں ہے بلکہ میان اور وسط ہے ۔ اسی رو سے آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ منازل السائرین میں تحریر ہے (خواہ خواجہ عبد اللہ انصاری ہوں اور خواہ وہ لوگ ہوں کہ جنہوں نے سابق سے یا لاحق سے اس کی شرح کی ہے ) کہ اخلاق ایک صد درجے کے میدان میں وسطی اور میانی مراتب کا حامل ہے ۔ اس کے بعد اصول کی نوبت آتی ہے اور اس کے بعد احوال کی ۔ اسی احوال کے مرحلے میں انسان ایسا حال پیدا کرتا ہے کہ ساری صورتحال کا ابھی مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے ۔ اس وقت وہ مطمئن ہو جاتا ہے بہت سے لوگ"کأنّ" (گویا) کے مقام پر فائز ہوئے لیکن وجود مبارک اھل بیت (علیھم السلام ) "أنّ" (عینیت) کے مقام پر پہنچے ہیں یہ جو فرمایا : «ما کنتُ أعبدُ ربّاً لم أرَهُ» یہ مبدأ کے لیے ہے ، یہ جو فرمایا : «لو کشِفَ الغطاءُ ما ازددتُ یقینا» یہ معاد کے لیے ہے ۔ ایسا شخص مفہوم کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتا (ایک) "کأنّ" کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتا ( دو) "أنّ" اور "إنّ" (خارجی حقیقت ) کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے (تین) ہر چیز دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہم اس مقام پر فائز نہیں ہو سکتے تو کم از کم "کأنّ" کے مقام پر ضرور فائز ہوں ۔

فریقین نے احسان کی تفسیر میں وجود مبارک پیغمبر (علیه و علی آله آلاف التحیة و الثناء) سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ فرمایا : «الإحسان أن تَعبد الله کأنّک تراه فإن لم تَکن تراه فإنّه یراک» آپ کہتے ہیں : «إِیاک نَعْبُدُ»؛مفہوم کو خطاب کر رہے ہیں یا مصداق کو ؟ مفہوم کو کہہ رہے ہیں : «إِیاک»؟! اگر مصداق کو خطاب کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ اسے دیکھ رہے ہوں ۔ فقط جانتے ہیں کہ یہ مفہوم ایک مصداق رکھتا ہے ۔ اس کی مثال اس شخص کی مانند ہے کہ جو مشہد جا رہا ہے اور غذا کا ایک ٹرک بھر کر لے جا رہا ہے ۔ اس کے پاس صرف زاد راہ ہے اور زاد راہ ! فرماتے ہیں کہ کچھ مقدار عقل بھی ہمراہ لو ، کچھ معرفت بھی حاصل کرو ۔ ائمہ (ع) نے ابوذر رضوان اللہ علیہ کے بارے فرمایا ہے : «کان أکثر عبادة أبی ذر التفکر» یہ کیسی ذات ہے کہ جو میرے ساتھ ہے اور میں اسے نہیں دیکھ رہا ؟ روح و ریحان ایسے آدمی کو نصیب ہوتی ہے پھر اسے کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا جب وجود مبارک پیغمبر علیہ و علی آلہ آلاف التحیۃ و الثناء سے کہا گیا کہ وہ آ رہے ہیں ! تو آپ (ص) نے غار کے دہانے پر فرمایا : «لاَتَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا» خدا ہمارے ساتھ ہے «هُوَ مَعَکمْ أَینَ مَا کنتُمْ» پس ہم اس سے کیوں خوفزدہ ہیں ! پس کیوں فقر ، مرض اور بیرونی حملے سے خوف کھاتے ہیں ! وہ تو ہمارے ساتھ ہے اور ہر کام اس کے ہاتھ میں ہے ،«جُنُودُ السَّماوَاتِ و الْأَرْضِ»اس کے لیے ہیں ، پس اسے کیوں نہیں دیکھ پاتے ؟! اگر دیکھ لیں تو پھر ہمیں کوئی خوف نہیں ہو گا ۔ وجود مبارک موسیٰ کلیم (ع) نے دو خطروں کے درمیان کیا فرمایا ؟ سامنے غرق ہونے کا خطرہ تھا اور پیچھے فرعون کا انتہائی عظیم لشکر تھا ۔ جب قوم کے آدمیوں نے حضرت موسیٰ کی خدمت میں عرض کیا کہ سامنے دریا ہے اور پیٹھ پیچھے فرعون کا لشکر پہنچنے والا ہے ؛ یہ آپ نے ہمیں کہاں پھنسا دیا ہے ؟ فرمایا : «کلّا إِنَّ مَعِی رَبِّی» یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟! خدا کرے یہ سخن ہم سب کے شامل حال ہو جائے اور ہم صرف اسی اخلاق کو حاصل کرنے کے درپے ہیں وہ بھی اگر انشاء اللہ حاصل ہو جائے !

یہ بھی پیغمبر اکرم (صلّی الله علیه و آله و سلّم) کے نورانی بیانات میں سے ہے کہ فرمایا : «إنّ الله سبحانه و تعالی یحبّ مَعالی الامور و یکره سَفسافها» اللہ تعالیٰ بلند ہمتوں اور افکار کو پسند کرتا ہے ۔ علوم اس قدر فراوان ہیں کہ انسان کبھی بھی منہ شگافی کرتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں فارغ التحصیل ہو چکا ہوں ! جب تک ہماری سانسوں میں سانس ہے ہمیں کتاب کے ساتھ رہنا چاہیے ، یا درس کہیں یا درس پڑھیں ؛ کیا ممکن ہے کہ ایک اہل حوزہ یا اہل دانشگاہ کتاب ایک طرف رکھ دے ؟! ہمیں بتایا گیا ہے : «إنّ الله سبحانه و تعالی یحبّ مَعالی الامور و یکره سَفسافها» پست فکر و ہمت اور جاہلانہ طور طریقے خدا کو پسند نہیں ہیں علوم اس قدر فراوان ہیں کہ انسان ہر لحظے ان سے استفادہ کر سکتا ہے ۔

اس بنا پر اخلاقی مسائل اس امر کا پیش خیمہ ہیں کہ انسان اس سے بالاتر مراتب پر فائز ہو ۔ اخلاق کا کم سے کم اثر یہ ہے کہ یہ معاشرے کو نورانی اور معطّر کرتا ہے ؛ ایک معاشرے کو آئیڈیل معاشرہ بناتا ہے ۔ اب کسی کو یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ صاحب ! گمراہی کے راستے پر نہ چلیں ، کسی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہ کرو ! یہ ان لوگوں کے لیے ہے کہ جو اہل بیت ( ع) سے آشنا نہیں ہیں ۔ ان سب نورانی روایات ( کلامکم نور) کے باوجود ہم سے یہ کہا جائے : فلاں معصیت اور گناہ مت کرو ؟! یہ گزشتہ مطالب کا ایک خلاصہ تھا اور ہمیں امید ہے کہ خدائے سبحان ہم سب کو ان معارف کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے !

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے اپنی گرانقدر فرمائشات کے دوسرے حصے میں امیر المومنین (ع) کے امام حسن (ع) کے نام خط کے اختتامی حصے میں فرمایا :

وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) کا خط ایک مفصل نامہ ہے اور سید رضی ( رضوان اللہ علیہ ) نے اس نامے کی کانٹ چھانٹ نہیں کی ہے ۔ وہ نامہ جو وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے اپنے فرزند بزرگوار کے لیے تحریر کیا ہے اور معروف یہی ہے کہ یہ نامہ امام مجتبی ( ع ) کے لیے مرقوم فرمایا ، بعض نے کہا ہے کہ کسی اور فرزند کے نام ہے ۔ یہ نامہ انتہائی مفصل ہے اور اس کے متعدد حصے ہیں ۔ ہم اس خط کے آخری اقتباس تک پہنچ گئے ہیں کہ فرمایا : «إِیاک أَنْ تَذْکرَ مِنَ الْکلاَمِ مَا یکونُ مُضْحِکاً وَ إِنْ حَکیتَ ذلِک عَنْ غَیرِک»؛ فرمایا : مبادا اپنی محفلوں میں ایسی بات کہو کہ دوسرے ہنسیں اگرچہ اپنے غیر سے ہی کیوں نہ نقل کرو ! کیا تم لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا ہو کہ تم لب کھولو اور بات کرو کہ جس پر کچھ لوگ ہنسیں ! کیا یہ چیز تمہاری قدروقیمت نہیں گھٹاتی؟! اچھا ! یہ خاندانی تربیت ہے ۔ فرمایا : مبادا ! تم ایسا کام کرو کہ جگت بازی کرو اور دوسرے ہنسیں ۔ آخر تم انسان ہو اور تمہاری ایک قدر و قیمت ہے ۔ خود کو اس طرح رائیگاں ہنسی مذاق کا مورد بناتے ہو ؟ فرمایا : «إِیاک أَنْ تَذْکرَ مِنَ الْکلاَمِ مَا یکونُ مُضْحِکاً وَ إِنْ حَکیتَ ذلِک عَنْ غَیرِک»؛ اس کے بعد اس اقتباس تک پہنچے تھے کہ «إِیاک وَ مُشَاوَرَةَ النِّسَاءِ فَإِنَّ رَأیهُنَّ إِلَی أَفَنِ» ؛ "آفن" ہمزہ کے ساتھ ضعف کے معنی میں ہے اور یہ عفن (عین کے ساتھ) کا غیر ہے کہ جس کا معنی عفونت(بدبواورگندگی) ہے ۔ . «وَ عَزْمَهُنَّ إِلَی وَهْنِ وَ اکفُفْ عَلَیهِنَّ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ بِحِجَابِک إِیاهُنَّ» گزشتہ ہفتے عورتوں سے مشورے کے بارے تفصیلی گفتگو کی گئی تھی ۔ اس میں اشارہ کیا گیا کہ ہر ملک منجملہ ہمارے ملک میں آدھی آبادی مردوں اور آدھی عورتوں پر مشتمل ہے ( یہ پہلی اصل) ؛ مردوں کو تعلیم و تزکیے اور انتظامی کاموں کی ضرورت ہے ، خواتین بھی اسی طرح ہیں ( یہ دوسری اصل ) جس طرح مردوں کو حج و عمرے کے لیے فوٹو گرافی اور ہسپتالوں میں سارے بدن کے ایکسرے کی ضرورت ہوتی ہے ، خواتین کو بھی یہ ضروریات درپیش ہیں( تیسری اصل ) جہاں تک ممکن ہو سکے انسان خود کو اضطرار سے دوچار نہ کرے ؛ اگر آپ مراجع کا فتویٰ ملاحظہ کرتے ہیں کہ اضطرار کی صورت میں مرد، خواتین کی فوٹو بنا سکتے ہیں ۔ ہم کیوں مضطرّ (مجبور) ہوں معاشرے کی آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے ، کے لیے ضروری ہے کہ اپنی تمام ضروریات برطرف کریں تاکہ عورتوں کے لیے مرد اساتذہ ، ڈاکٹرز اور عہدیداروں کی احتیاج ہی پیدا نہ ہونے پائے ۔ ضروری ہے کہ یہ کثیر آبادی خود اپنی ضروریات پوری کر سکے تاکہ عورتوں کے لیے مرد اساتذہ ، ڈاکٹرز اور مرد عہدیدار کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو ، اس عظیم آبادی کو اپنا نظام چلانے کے لیے حوزوی اور دانشگاہی نظام کی ضرورت ہے ، انہیں اداری نظام کی بھی ضرورت ہے سوائے ضروری موارد کے کہ جب محتاج ہو جائیں اور نامحرم ان کی مشکلات برطرف کریں ۔

انہوں نے نتیجے کے طور پر فرمایا :

اس بنا پر خواتین کو بھی حوزوی اور یونیورسٹی کے نظام کی ضرورت ہے ؛ انہیں تدریس اور تعلیم کی ضرورت ہے ۔ تمام امور جو مردوں کے لیے ہیں ، خواتین کے لیے بھی ضروری ہیں تاکہ اپنی مشکلات خود حل کریں ۔ البتّہ انتظامی کاموں کے حوالے سے مرد بعض کاموں میں زیادہ قوی ہیں اور بعض کاموں کے لیے عورت ؛ علمی اور ثقافتی شعبہ جات میں زن و مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کہ مرد اس قدر علم حاصل کرے اور عورت اتنی مقدار بلکہ اس کا تعلق استعداد اور صلاحیت کے ساتھ ہے ، اخلاقی حوالے سے بھی کوئی فرق نہیں ہے ۔ اخلاق کے اعلیٰ ترین مدارج کہ جو عرفانی شہود سے متعلّق ہیں، میں بھی عورت اور مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے ۔ البتہ بعض انتظامی کاموں میں جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ مرد انتظامی کاموں کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے اور ضروری ہے کہ وہ انجام دے ۔ اس طرح کے امور کو عورت انجام نہیں دے سکتی اور اسے انجام دینے بھی نہیں چاہییں ۔ نبوت ، رسالت اور امامت اسی قبیل سے ہے ۔ محاذ جنگ اور جنگ کی سپہ سالاری بھی ایسے ہی ہے ، یہ انتظامی کام ہیں لیکن ان تمام کاموں کی اساس اور بنیاد ولایت کا بلند و بالا مقام ہےاور ولایت، زن و مرد کے لیے یکساں ہے ۔ نبوت ، رسالت ، امامت اور خلافت انتظامی کام ہیں کہ جن کا تعلق لوگوں اور معاشرے سے ہے ؛ مرجعیت اور جمعہ و جماعت کی امامت ، انتظامی کام ہیں ؛ لیکن فقاہت سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا فقاہت اور اجتہاد میں مرد ہونے کی شرط ہے ؟ نہیں ! آیا ولایت میں مرد ہونا شرط ہے ؟ نہیں ۔ کیا نبوت ، رسالت اور امامت کی تمام قدر و قیمت ولایت کی بدولت نہیں ہے ؟ جی ہاں ! چونکہ وہ شخص ولی اللہ ہے ، نبوت ، رسالت یا امامت کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے ۔ ان کی بنیاد یہی ہے ۔ وہاں آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ صدّیقۀ کبرٰی (سلام الله علیها) اور مریم (سلام الله علیها) پوری آب و تاب سے حاضر ہیں ۔

ممکن ہے کہ فتوٰی یہ ہو کہ عورت قاضی نہیں بن سکتی ؛ لیکن عورت لاء کالج کی استاد بن سکتی ہے کہ اس کے شاگرد قاضی ہوں ۔ قاضی بننا کمال نہیں ہے بلکہ کمال اس مجتہد کا ہے کہ جو قاضیوں کی تربیت کر سکے ۔ اس کمال میں عورت اور مرد یکساں ہیں ۔ ممکن ہے کہ مرد کے ہاتھ میں محاذ جنگ اور جنگ کے انتظامی معاملات ہوں لیکن عورت جنگی قوانین کی اچھی طرح تعلیم حاصل کرے، ان کا گہرائی سے جائزہ لے کر دوسروں کو تعلیم دے اور اس کے شاگرد ایک لشکر کے امیر بن جائیں ۔ جہاں کمال ہے ، عورت ہے ۔ جہاں انتظامی کام ہیں ، وہاں مرد اور اس طرح سے کاموں کی تقسیم کر دی گئی ہے ۔

لیکن عورت کا پاک ترین ، طیب ترین اور اصلی ترین فریضہ ماں بننا ہے ۔ یہ امر کسی کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔ اب آپ یہاں تشریف فرما ہیں تو آپ کی بہت قدر و قیمت ہے لیکن آپ لوگوں نے ماں کے مکتب میں پرورش پائی ہے ۔ اگر عورت اس فرض کو چھوٹا سمجھے تو اس نے اپنے آپ اور معاشرے پر جفا کی ہے ۔ مبادا یہ کہے : کیا ہمیں اولاد کی پرورش کے لیے پیدا کیا گیا ہے ؟ ہرگز ایسا مت کہیں ، اصل یہ ہے کہ تم ماں بن سکو ، ایک تعلیم یافتہ ماں تعلیم یافتہ بچے کی تربیت کرتی ہے ۔ وہ چھ ، سات سال کہ جب یہ بچہ ماں کے ہاتھوں میں ہے ، کالج ، یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کے ہر کورس سے قوی تر ہیں، وہ تمام خصوصیات کہ جو شیر خوارگی کے زمانے میں اور مادری محبت کے ساتھ اس بچے کو تلقین اور تعلیم دی جاتی ہیں ۔ ہرگز کسی دوسری جگہ پر اس بچے کو نصیب نہیں ہوں گی ۔ اس بنا پر ایک عورت کا اہم ترین ، اصلی ترین فریضہ ماں بننا ہے ؛ لیکن اسے تعلیم حاصل کرنا چاہئیے اور اس اعلی تعلیم کی روشنی میں بچے کی تربیت اور دیکھ بھال کرے ۔

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے ماؤں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : مبادا ایسا ہو کہ بہت زیادہ سماجی مصروفیات وغیرہ اس امر کا باعث بنیں کہ انسان بچے کو ڈے کئیر سنٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور پھر کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ آپ کیوں ملاحظہ کرتے ہیں کہ جن شہروں میں عاطفہ ، لطف اور محبت ہے ، وہاں اولڈ ہاؤسز کا نام و نشان نہیں ہے ۔ گزشتہ ہفتے بھی ہم نے نقل کیا کہ ایک بزرگ سید نے ایک علاقے میں بہت زیادہ خدمات انجام دیں ؛ مسجد ، حمام اور امامبارگاہ کی تعمیر کی ، اس کے بعد ایک مرتبہ میرے پاس گلہ کر رہے تھے کہ میں نے ان لوگوں کو بہت تشویق دلائی ہے کہ ایک اولڈ ہاؤس بھی تعمیر کریں ، لیکن انہوں نے اس معاملے میں میری کوئی مدد نہیں کی ، میں نے ان سے کہا : ان مردوں کا شکریہ ادا کرو کہ انہوں نے آپ کو پیسے نہیں دیے ، کوئی شخص آمادہ نہیں ہے کہ اپنے ماں باپ کو اولڈ ہاؤس کے حوالے کر دے لہٰذا ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے ۔

وہ بچے کہ جنہیں ڈے کئیر سنٹر کے حوالے کیا جاتا ہے وہ محبت وپیار کا ادراک نہیں کر پاتے اور جوں ہی ان کے ماں باپ بوڑھے ہو جاتے ہیں ، وہ انہیں اولڈ ہاؤس چھوڑ آتے ہیں ، بوڑھوں کو اولڈ ہاؤس کے حوالے کرنے کا مطلب ماں باپ کی تدریجی موت ہے ۔

قرآن کریم نے فرمایا : «وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ»؛ فرمایا : اپنے پر پھیلاؤ اور انہیں ان پروں کی آغوش میں لو ! یہ بات کون قبول کرتا ہے ؟ وہی جس نے بچپن کے سات سال ماں کے دودھ اور محبت کے سائے میں گزارے ہوں لیکن ڈے کئیر میں پلنے والا بچہ جونہی بڑا ہوتا ہے ، ماں باپ کو اولڈ ہاؤس روانہ کر دیتا ہے ۔ اس نے پیارومحبت کو درک نہیں کیا اور محبت کا درس نہیں لیا ۔ اس بنا پر اگر قرآن ہے ، دینی احکام ہیں ، تو تحصیل اور علم اپنی جگہ پر محفوظ ہیں ، معاشرے کی آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے وہ اپنے تمام امور خود انجام دیں تاکہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی نامحرم ان کے کام میں مداخلت کرے اور یاد رہے کہ ان کا اصلی ترین کام ماں بننا ہے ۔ اس امر کا بالکل امکان نہیں ہے کہ معاشرے کو ڈے کئیر سنٹر کے رحم و کرم پر چلایا جا سکے ۔ معاشرے کو ماں اور پاکیزہ دودھ چلا سکتا ہے ۔ جب وہ نماز ادا کرتی ہے تو بچے کو اپنے جائے نماز کے پاس بٹھا دیتی ہے ؛ یہی کہ جو ان چھ یا سات سالوں میں اس کی تسبیح اور سجدہ گاہ سے کھیلتا ہے ، تسبیح اور سجدہ گاہ سے آشنا ہوتا ہے ، وہ خود ذکر کرتی ہے اور بچے کو بھی ذکر سکھاتی ہے ۔ یہ جو فرمایا کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو اس لیے ہے کہ یہ اسلام میں نووارد ہیں ۔ خدا رحمت نازل کرے ہمارے عظیم استاد علامہ طباطبائی پر وہ نورانی حدیث جو مرحوم صدوق کی کتاب "توحید" میںموجود ہے اور انہوں نے اس حدیث کو نقل کر کے اس کی اتنہائی خوبصورت تشریح اور عقلی تحلیل فرمائی ہے ۔ اصل حدیث یہ ہے کہ بچہ جب روتا ہے تو اس کو مت مارا جائے چونکہ پہلے چار ماہ اس کا گریہ خدائے سبحان کی وحدانیت کی شہادت ہے ، دوسرے چار ماہ کا گریہ وجود مبارک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت ہے ، تیسرے چار ماہ کا گریہ ماں اور باپ کے لیے دعا ہے ۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟ کیا بچہ توحید کے بغیر پیدا ہوتا ہے ؟! کیا خدائے سبحان نے بچے کو بغیر سرمائے کے خلق کیا ہے ؟! فرمایا : «وَ نَفْسٍ وَ مَا سَوَّاهَا ٭ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقْوَاهَا» میں نے اسے بہت کچھ سکھایا ہے ، «فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِی» خدا نے سورہ روم اور سورہ شمس میں فرمایا ہے: بچہ علمی سرمائے کے ساتھ دنیا میں آتا ہے ۔ جی ہاں ! حوزہ اور یونیورسٹی کا علم اسے نصیب نہیں ہے ؛ اس مطلب کو سورہ نحل میں فرمایا ہے : «وَ اللَّهُ أَخْرَجَکم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِکمْ لاَتَعْلَمُونَ شَیئاً.» یہ تمام چیزیں جو ہم حوزہ اور یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں ، ہمیں بھول جاتی ہیں ، بہت سے علماء بڑھاپے میں ایک سادہ توضیح المسائل کا ایک صفحہ جو انہوں نے خود تحریر کیا ہے ، نہیں پڑھ سکتے ۔ سعدی کے بقول :

من هر چه خوانده ام همه از یاد من برفت ٭٭٭ الاّ حدیث دوست که تکرار می کنم

 

فقط ایک حدیث دوست باقی رہتی ہے ، ان حوزوی اور یونیورسٹی کے دروس پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ الٰہی سرمایہ ساتھ رہتا ہے ۔ فرمایا : میں نے اسے سرمائے کے ساتھ خلق کیا ہے اور اس کے پاس یہ سرمایہ موجود ہے کہ جس سے وہ استفادہ کر رہا ہے : پہلے چار ماہ کے دوران خدا اور مخلوق میں سے خدا کی وحدانیت کی ستائش کرتا ہے ، دوسرے چار ماہ میں پیغمبر (ص) اور اپنی ذات میں سے پیغمبر (ص) کی عظمت کا اقرار کرتا ہے اور تیسرے چار ماہ میں ماں باپ کی تعریف کرتا ہے ۔ یہ جو فرمایا : «إِن مِن شَی‏ءٍ إِلَّا یسَبِّحُ بِحَمْدِهِ» اس کا مطلب یہی ہے ۔ فرمایا : بچہ جس قدر گریہ کرے ، یہ صادقانہ ہے یہ فضول گریہ نہیں کرتا ۔ اگر مسکراتا ہے تو یہ بھی صادقانہ ہے مگر یہ کہ کوئی راستے سے ہٹا دے ۔ فرمایا : ہم نے اسے پاک و پاکیزہ تمہارے حوالے کیاہے ۔ یہ اسلام میں نووارد ہے «کلُّ مولودٍ یولَدُ علی الفطرة» ، یہ الٰہی امانت ہے ۔ اس امر کی مائیں حفاظت کرتی ہیں ۔ اس بنا پر ملکی معاملات میں صلاح و مشورہ ایک مطلب ہے ؛ مردوں کے انتظامی مسائل میں مشورہ دوسرا مطلب اور خود خواتین سے ان کے اپنے کاموں میں مشورہ ایک علیٰحدہ چیز ہے ۔

پھر فرمایا : حجاب و پاکدامنی میں ان کی عظمت ہے ۔ کیوں مرد کا کافر عورت کی جانب نگاہ کرنا (البتہ شائبے کے بغیر) جائز ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی کوئی حرمت نہیں ہے ۔ چند مرد ایک گھر میں رہ رہے ہیں ؛ باوجود اس کے کہ نامحرم نہیں ہیں لیکن ان کے کمروں میں جھانکنا جائز نہیں ہے ؛ کیوں ؟ کیا نگاہ کے احکام صرف نامحرم کے لیے ہیں ؟! انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی کی پرائیویٹ زندگی میں دخل اندازی کرے ۔ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ وہ کمرہ طلبہ کا ہے اور وہ مرد ہیں لہٰذا میں چھپ کر کھڑکی سے جھانک لوں کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ، دوسرے لوگ کیا کر رہے ہیں ؟! عورت کی جانب نگاہ خصوصی حریم شکنی کے مترادف ہے اگرچہ نامحرم نہ ہو ، عورت کے بدن اور بالوں کی جانب نگاہ نہیں کی جا سکتی اگرچہ لذت کے ارادے سے نہ ہو ، لذّت کا قصد تمام جگہوں پر اشکال رکھتا ہے ، چونکہ یہ حرام کے ساتھ مخلوط ہے ۔ آپ یہی نگاہ کافر عورت پر ڈالتے ہیں؛ کیوں ؟ اس لیے کہ اس کی نہ حرمت ہے اور نہ احترام ۔ اس نے اپنا احترام ختم کر دیا ہے ۔ اس بنا پر عورت کی طرف نگاہ کرنا اس کی کرامت اور خصوصی حریم میں ورود کے مترادف ہے اور اس کا حجاب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عورت پر خود کو ڈھانپنا واجب ہے ، مبادا اس پر کوئی غیر ارادی نگاہ پڑ جائے ، یہ عورت کی عظمت اور جلال ہے کہ وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے اس نامے میں فرمایا : ان کے حجاب کا خیال رکھو «وَ إِنِ اسْتَطَعْتَ أَلاَّ یعْرِفْنَ غَیرَک فَافْعَلْ»؛ جو کام تم خود انجام دے سکتے ہو وہ اپنی زوجہ پر کیوں موقوف کرتے ہو ، «وَ لاَتُمَلِّک الْمَرْأَةَ مِنْ أَمْرِهَا مَا جَاوَزَ نَفْسَهَا» وہ اپنے کام انجام دے سکتی ہے ، وہ گرلز کالج چلا سکتی ہے ؛ جامعہ زہراء کا انتظام سنبھال سکتی ہے ۔ زنانہ کلاسیں منعقد کر سکتی ہے ، وہ استاد بن سکتی ہے ، تدریس ، تالیف اور تقریر کر سکتی ہے ۔ آدھا ملک ان کے زیر اختیار ہے ، ان کا نظم و انتظام سنبھالنا معمولی کام نہیں ہے ۔ «فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَیحَانَةٌ وَ لَیسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ وَ لاَتَعْدُ بِکرَامَتِهَا نَفْسَهَا» مبادا اسے کام کا ذریعہ قرار دو ، اگر کسی کو اداری کام ہو تو وہ تمہاری بیوی کے ذریعے تمہیں کہے ۔ یہ کام مت کرو ! «وَ لاَتُطْمِعْهَا فِی أَنْ تَشْفَعَ لِغَیرِهَا» اسے کہو کہ ٹیلیفون کرے یا فلاں ٹیلیفون کا جواب دے ، اسے کہو کہ فلاں کیس کا مطالعہ کرو اور وہ دخل اندازی کرے ؛ یہ کام مت کرو! چونکہ خدائے سبحان نے انہیں عاطفہ کے ساتھ خلق کیا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مناجات کی تاثیر خواتین میں مردوں سے زیادہ ہے ۔ موطأ مالک کا مطالعہ کیجیے ؛ یہ کتاب قدیم ترین اسلامی کتاب ہے ؛ یہ مطلب مالک نے موطّا میں نقل کیا ہے کہ صدر اسلام میں ابھی بہت سے مرد ہاتھوں میں تلواریں لیے اسلام کے خلاف لڑ رہے تھے لیکن ان کی عورتیں مسلمان ہو چکی تھیں ۔ الٰہی مواعظ سے خواتین کی تاثیر پذیری اگر مردوں سے زیادہ نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔ ابھی شوہر اسلام کے خلاف جنگ کر رہا تھا لیکن بیوی مسلمان ہو چکی تھی اور پیغمبر (ص) کی پیروکار تھی ۔ «وَ إِیاک وَ التَّغَایرَ فِی غَیرِ مَوْضِعِ غَیرَةٍ» ہم نے گزشتہ بحثوں میں ذکر کیا کہ غیرت نمایاں ترین اخلاقی فضیلت ہے ۔ غیرت کے تین بنیادی عنصر ہیں : ماہیت اورحقیقت شناسی ( ایک ) غیر کے حریم میں داخل نہ ہونا ( دو) غیر کو اپنی حریم میںداخل ہونے کی اجازت نہ دینا ( تین ) اسے کہا جاتا ہے غیرت ۔ غیرت یعنی غیر کو دفع کرنا اور یہ کہ انسان نہ غیر کی حریم میں داخل ہو اور نہ ہی غیر کو اپنی حریم میں داخل ہونے کی اجازت دے ؛ چونکہ دیاثت بے غیرتی (عورت کی بدکاری پر چشم پوشی) کی بازگشت بھی غیرت کے ترک کی طرف ہوتی ہے ۔ حضرت امیر (ع) کا یہ نورانی بیان جو پہلے پڑھا گیا کہ فرمایا : «ما زَنیٰ غیورٌ قطُّ» ہر گز ایک غیرت مند، نامحرم کے ساتھ تعلقات نہیں بناتا ۔ کوئی بھی غیرت مند انسان یہ کام نہیں کرتا ہے اور جس نے بھی ایسا کیا وہ بے غیرت ہے ، کیوں ؟ اس لیے کہ غیرت کا معنی یہ ہے کہ غیر کو اپنی حریم میں داخلے کی اجازت نہ دے ( ایک) اور دوسرے کی حریم میں داخل نہ ہو ( دو) یہ دو عنصر کہ جو دفعِ غیر ہیں خود شناسی کی فرع ہے ، انسان جب تک خود کو نہ پہچانے اس وقت تک ان دو طرفوں کو ترک نہیں کر سکتا ۔ فرمایا : «فَإِنَّ ذلِک یدْعُو الصَّحِیحَةَ إِلَی السَّقَمِ وَ الْبَرِیئَةَ إِلَی الرِّیبِ» ان پر زیادتی اور بدگمانی بد ہے ، افراط و تفریط بد ہیں ؛ یہ اقتباس خواتین اور خاندان سے مربوط تھا ۔

پھر فرمایا : «وَ اجْعَلْ لِکلِّ إِنْسَانٍ مِنْ خَدَمِک عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ» وجود مبارک امام مجتبی (ع) کہ جن کے پاس کوئی ظاہری منصب نہیں ہے ؛ فرمایا : اگر آپ عہدیدار اور مدیر بن گئے تو ضروری ہے کہ ہر ہر فرد کے لیے کسی ذمہ داری کا تعین کرو اور منصوبہ بندی کے ساتھ چلو ( ایک) ذمہ داری طلب کرو ( دو ) اسے کام کی تلقین کرو ( تین ) تم کنٹرول اور نگرانی کرو ( چار ) اس سے جواب طلبی کرو (پانچ) ایسا نہ ہو کہ نظام مملکت کو اسی طرح چھوڑ دو یا اپنے تحت کام کرنے والے عملے کو اپنے حال پر چھوڑ دو ۔ «وَ اجْعَلْ لِکلِّ إِنْسَانٍ مِنْ خَدَمِک عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ فَإِنَّهُ أَحْرَی أَنْ لاَیتَوَاکلُوا فِی خِدْمَتِک» جب حساب کتاب سے کام نہ لیا جائے تو ہر شخص اپنا کام دوسرے پر چھوڑ دیتا ہے ، یہ تواکل ہے ، متقابل تواکل یعنی یہ اسے وکیل قرار دیتا ہے اور وہ اسے وکیل قرار دیتا ہے ، اس صورت میں تمام کام بکھر اور ضائع ہو جاتے ہیں ۔

«وَ أَکرِمْ عَشِیرَتَک» قوم ، قبیلے اور اپنے اہل خانہ کا احترام کرو چونکہ تم خالی ہاتھ کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ خدا نے تجھے اس خاندان کے ساتھ قرار دیا ہے ۔ انہیں اذیت دینے کی کیا وجہ ہے !«وَ أَکرِمْ عَشِیرَتَک فَاِنَّهُمْ جَنَاحُک الَّذِی بِهِ تَطِیرُ» تم اگر پرواز کرنا چاہو تو اپنی فیملی اور قوم کے سہارے پرواز کر سکتے ہو ۔ «وَ أَصْلُک الَّذِی إِلَیهِ تَصِیرُ» آخرکار تم اگر کبھی پلٹنا چاہو تو اسی اصل ، قبیلے اور خاندان کی طرف ہی پلٹو گے ۔ «وَ یدُک الّتِی بِهَا تَصُولُ» اگر کبھی دشمن تم پر حملہ کرے اور تم اپنی شجاعت اور ہیبت دکھانا چاہو تو وہ اپنے قبیلے کے ذریعے ہی کر سکو گے ۔

اس خط کے آخر میں فرماتے ہیں : : «اسْتَوْدِعِ اللَّهَ دِینَک وَ دُنْیاک وَ اسْأَلْهُ خَیرَ الْقَضَاءِ لَک فِی الْعَاجِلَةِ وَ الْآجِلَةِ وَ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ» فرمایا : تمہارا دین اور دنیا ان سب کو خدا کے حوالے کرتا ہوں ۔ خدائے سبحان سے دنیا و آخرت کی خیر کا سوال کرتے ہیں ، اسے وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے اپنے نامے کے آخر میں تحریر فرمایا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ حضرت کی یہ اختتامی دعا تمام حوزوی ، دانشگاہی اور بسیجی خواتین و حضرات کے شامل حال ہو ؛ ذات اقدس الٰہی ہم سب کو یہ توفیق مرحمت فرمائے کہ ہم ان معارف کو سمجھیں ، ان پر یقین رکھیں، ان پر عمل پیرا ہوں اور ان کی اشاعت کریں ۔

Read 5241 times