قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے دختر رسول اکرم حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے یوم ولادت 20جماد الثانی پراپنے پیغام میں کہا ہے کہ جناب سیدہؑ کا دختر رسول ہونے کے حوالے سے احترام اور عقیدت اپنی جگہ ہے لیکن ان کا یہ پہلو سب سے منفرد اور نمایاں ہے کہ وہ عالم نسواں کے لئے قیامت تک نمونہ عمل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے عمل اور اخلاق کے میدان میں اپنی زندگی کے جو اصول اور نقوش چھوڑے ہیں وہ دائمی اور ابدی ہیں کسی زمانے ‘ معاشرے یا علاقے تک مخصوص اور مختص نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ خاتون جنت سیدہ فا طمة الزہرا ؑ کی یاد اور پیغام کو زندہ رکھنے کے تین طریقے ہیں پہلا یہ کہ ان کی ذات اقدس سے عقیدت و احترام اور محبت کا اظہار کیا جائے اور ان سے مکمل وابستگی دکھائی جائے۔ دوسرا یہ کہ ان کواسلام‘ انسانیت اور طبقہ نسواں کی خدمت کرنے پر خراج عقیدت و تحسین پیش کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ ان کے چھوڑے ہوئے قطعی وحتمی نقوش اور اصولوں کو تلاش کرکے ان کا مطالعہ کیا جائے اور ان کو آج کے دور میں نافذ کرنے اور ان کی تطبیق کرنے کے طریقے تلاش کئے جا ئیںکہ جس سے شریعت سہلہ کا تصور اجاگر ہو اور شریعت کی پابندی بھی برقرار رہے انسان شتر بے مہار نہ بنے بلکہ اسلامی احکامات کا پابند رہے جبکہ آسان شریعت کو بھی ساتھ ملا کر چلے۔
علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ موجودہ سنگین دور میں جب خواتین میں فکری انتشار پیدا ہوچکا ہے اور ترقی و جدت کے نام پر عورتوں کا ہر معاشرے میں بالخصوص یورپ اور مغربی معاشروں میں شدت سے استحصال کیا جارہا ہے ایسے حالات میں سیدہ فاطمہ زہراؑ کی سیرت اور کردار ہی واحد ذریعہ ہے جو دنیا بھر کی خواتین کو انحراف ‘استحصال‘ تعیش اور گناہوں سے بچاسکتا ہے۔ آزادی نسواں کی حدود و قیود ہر سوسائٹی نے مقرر کر رکھی ہیں سوائے ان لوگوں کے جو مادر پدر آزاد ہیں اور کسی ضابطے‘ اخلاق اور قانون کے پابند نہیں اور یہی لوگ ایسے معاشروں کی تشکیل میں مصروف ہیں جہاں عورت کو فحاشی کے لئے استعمال کیا جائے ‘ اسکی عزت و حرمت کو پامال کیا جائے اور مرد و زن کے اختلاط سے معاشروں میں بگاڑپیدا کیا جاسکے لہذا ان حالات میں امت مسلمہ خواتین کی آزادی کے ان اصولوں کی روشنی میں جدوجہد کرے جو جناب سیدہ فاطمہؑ کی زندگی سے اخذ کئے گئے ہیں کیونکہ سیدہ فاطمہ ؑ کی پرورش آغوش رسول میں ہوئی۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندانی‘ ذاتی معاملات سے لے کر اجتماعی معاملات تک ہر موقع پر سیدہؑ کی شخصیت کو مدنظر رکھیں ۔