دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں اور انقلابات پر نظر دوڑائیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سب میں خواتین کا کردار نمایاں ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اس انقلاب میں بھی خواتین کا کردار بہت نمایاں اور بعض مقامات پر فیصلہ کن نظر آتا ہے۔ خواتین آبادی کا نصف ہوتی ہیں اور نصف آبادی کے تناظر میں ان کی شرکت کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نظر نیہں آتی۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں مظاہروں میں شرکت ہو، حکومت کے خلاف احتجاج کا موضوع ہو یا مردوں کو گھروں سے باہر نکالنے کا مسئلہ ہو، ایران کی مومن خواتین کا کردار منفرد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو شاہ کے خلاف چلنے والی تحریک میں خواتین صف اول میں نطر آئیں گی۔ خفیہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونی والے انقلابیوں میں بھی آپ کو خواتین کی ایک بڑی تعداد ملے گی۔ ایران کے انقلاب سے پہلے شاہ کے دور میں مجاہد خواتین مکمل اسلامی پردے کے ساتھ معصوم بچوں کو اٹھائے کر مردہ باد شاہ کا نعرہ لگاتے ہوئے گلیوں اور شاہراہوں پر نظر آتی تھیں۔
امام خمینی اس طرح کی خواتین کے بارے میں فرماتے ہیں، کیا تم نے تاریخ میں یہ مناظر دیکھے ہیں کہ آج ایران میں بچوں کو گودوں میں اٹھائے باپردہ خواتین ٹینکوں اور توپوں کے مقابلے میں طاغوتی حکومت کے خلاف میدان میں ہیں۔ دنیا کی کس تاریخ میں خواتین نے اس طرح کی قربانی اور ایثار پیش کیا ہے۔ ایران کی فہیم و بابصیرت خواتین نے ممتا کو عشق الہیٰ سے منسلک کرتے ہوئے اپنے نوجوان بچوں کو ظالم و جابر حکمرانوں کے مقابلے میں تیار کیا اور ان کو شہادت جیسے جذبے سے سرشار کیا۔ امام خمینی نے بارہا ان انقلابی خواتین کی تعریف کی ہے، آپ نے خواتین کو انقلاب کا صف اول کا دستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خواتین مظاہروں میں صف اول تھیں اور انہوں ںے اپنے اس اقدام سے مردوں میں بھی جوش و جذبہ پیدا کیا۔ خواتین نے اپنے بچوں کو شہادت کے لیے تیار کیا اور شہداء کے خون کی پاسداری کرتے ہوئے انقلاب کو تسلسل اور ہمیشگی عطا کی۔ امام خمینی نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ ہمارا انقلاب خواتین کا مرہون منت ہے۔ آپ کے اس جملے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کا کردار کتنا اہم ہے اور امام خمینی اس کردار کے کس حد تک قائل تھے۔
ایران کے انقلاب کے مختلف مراحل میں ایرانی خواتین نہ صرف مظاہروں اور احتجاج میں شرکت کرتیں بلکہ مساجد، امام بارگاہوں اور گھروں میں خواتین کے اجتماع منعقد کرکے انقلاب کے اہداف، امام خمینی کے افکار اور اسلامی حکومت کے قیام کے بارے میں خواتین کو آگاہ کرتی تھیں۔ بہت سی خواتین اور ان کے اہل خانہ شاہی حکومت کے جبر کا شکار خاندانوں اور افراد کو پناہ دیتیں اور ان کی مشکلات کو حل کرنے میں اہم کردار کرتیں۔ ایران کی مجاہد خواتین مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ انقلابی تحریک میں سرگرم عمل رہتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے خواتین نے انقلاب کی کامیابی کے لیے شہادت کا جام نوش کیا۔ اسلامی انقلاب کی تاریخ میں یوں تو کئی نام ہیں، لیکن ایک قبائلی عورت باختری بیگلری کا ذکر کرتے ہیں۔ تیس سالہ باختری نے اپنے دو بچوں کے ہمراہ حضرت زینب کی پیروی کرتے ہوئے شاہ کے ظلم حکومت کے خلاف آواز اٹھائی، جس کے جواب میں شاہی کارندوں نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، اس فائرنگ میں نہ صرف محترمہ باختری شہید ہوگئیں بلکہ ان کے دو بچے بھی راہ اسلام میں قربان ہوگئے۔ لرستان کی اس شہید خاتون کو انقلاب اسلامی کی پہلی شہیدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی اس طرح کی خواتین کے شجاعانہ کردار کے پیش نظر فرماتے تھے کہ ہماری عزیز خواتین اس بات کا باعث بنیں کہ ہمارے مردوں میں مزید جرات و شجاعت پیدا ہوگئی۔ میں خواتین کی زحمات کا قدردان ہوں اور یہ کامیابیاں ان کی مرہون منت ہیں۔ اسلامی انقلاب میں بھی ایرانی خواتین کا کردار کافی نمایاں رہا۔ خواتین نے مختلف میدانوں منجملہ سیاسی، سماجی، علمی اور ثقافتی میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ ایران کی خواتین اسلامی انقلاب کے برپا کرنے، اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے اور اس انقلاب کو مستحکم کرنے میں بھی نمایاں کردار کی حامل ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کی بھرپور شرکت نہ صرف اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کے لیے موثر اور فائدہ مند ثابت ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ان حلقوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام تھی، جو اسلام کے بارے میں اس غلط نظریئے کے قائل ہیں کہ اسلام خواتین کو چاردیواری کے اندر قید رکھنے کا قائل ہے۔ ایران کی خواتین کے عملی کردار نے دنیا کو بتا دیا کہ اسلام میں اسلامی تعلیمات کا خیال رکھتے ہوئے مردوں کے شانہ بشانہ اجتماعی سرگرمیاں انجام دی جا سکتی ہیں۔
ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں بھی ایرانی خواتین نے نہ صرف اپنے جوانوں اور مردوں کو میدان جنگ کی طرف جانے میں حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی عدم موجودگی میں بچوں کی تربیت اور گھر اور گھرانے کو چلانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بعض ایرانی مائوں نے اپنے دو دو اور تین تین نوجوان راہ خدا میں شہادت کے لیے پیش کیے۔ ایرانی خواتین نے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی قربانیوں سے انقلاب کے اغراض و مقاصد اور امنگوں کو زندہ رکھا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی خواتین نے تعلیم و تعلم کے شعبے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ امام خمینی ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ خواتین اسلامی مملکت کی تقدیر کو سنوارنے میں شریک ہوں۔ آپ خواتین سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ آپ نے جس طرح انقلاب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا، اب انقلاب کو مضبوط و مستحکم بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کریں، وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق اپنے عمل و کردار کو استوار کریں۔
امام خمینی اور آپ کے بعد رہبر انقلاب اسلامی کی خواتین کے حقوق اور صلاحیتوں پر خصوصی توجہ اس بات کا باعث بنی کہ خواتین مختلف شعبوں میں فعال و سرگرم ہوئیں اور اںہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اس وقت تعلیم کے میدان میں ایرانی خواتین کی کارکردگی تمام اسلامی ممالک سے کہیں بہتر ہے۔ اس وقت تعلیم کے شعبے میں ایرانی خواتین کا حصہ 68 فیصد ہے۔ خواتین کی شرح خواندگی انقلاب سے پہلے 34 فیصد تھی، جو اب 80 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ عالمی ادارے یونسکو کے ایک سروے کے مطابق 2012ء میں ایرانی خواتین تعلیمی شعبے میں اپنے موثر کردار کی وجہ سے دنیا کے ان چھ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں، جہاں عورت کو مکمل تعلیمی سہولیات میسر ہیں اور ان کا خاتون ہونا ان کے تعلیمی کیریئر میں کہیں رکاوٹ نہیں بنتا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی طرف سے علمی سرگرمیوں میں خصوصی توجہ کی وجہ سے گذشتہ سالوں میں کئی ایرانی طالبات نے بین الاقوامی سطح پر ہونے والے علمی اور تعلیمی مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ہیں۔ ایران نے انقلاب کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی کے جن شعبوں میں بالخصوص نانو، ایٹمی، ائیروسپیس اور فزکس و کمیسٹری میں جو نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس میں خواتین کا کردار بھی نمایاں ہے۔ مختلف شعبہ جات میں نئی نئی ایجادات میں بھی ایرانی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایرانی خواتین کو تمام انسانی، سماجی، شہری اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ ایرانی خواتین بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور ملازمتوں کے حصول میں بھی ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ایرانی خواتین یونیورسٹیوں میں اپنی علمی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کر رہی ہیں، ریسرچ کے شعبے میں ایرانی خواتین کا کردار خطے کے تمام ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور بہترین افکار و نظریات کی حامل خواتین کی موجودگی کو ایران کی اسلامی حکومت کے لیے ایک الہیٰ نعمت سے قرار دیتے ہیں۔ ایرانی خواتین اسلامی تعلیمات، قومی وقار، دینی اقدار اور ملکی ثقافت کی پاسداری کرتے ہوئے ملک و وطن کی خدمت میں مصروف ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ آج ایران کی پہچان اور ثقافت کا پرچم ایرانی خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ ایرانی خواتین اپنے اسلامی پردے کی حفاظت کرتے ہوئے اور اپنی دینی و ثقافت کی پاسداری کرتے ہوئے دنیا کے لیے اپنے افکار و نظریات برآمد کرنے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ایرانی خواتین اپنے عملی کردار میں دنیا کو بتا رہی ہیں کہ عورت مختلف شعبوں میں فعال اور سرگرم کردار ادا کرسکتی اور معاشرے کے لیے موثر اور سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ آج ایران میں خواتین مختلف شعبوں میں موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہیں اور اسلامی پردے کی بدولت مردوں کی غلط نگاہوں سے بھی محفوظ ہیں۔
ایرانی خواتین نے اپنے آپ کو اپنی سطح سے گرایا نہیں اور مردوں کی لذت کا سامان بننے کی بجائے عورت کا ایک پروقار کردار پیش کیا ہے اور بلا شک و شبہ یہی ایرانی اور اسلامی عورت کی بنیادی خصوصیات اور صفات ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ ایرانی خواتین نے اپنے آپ کو انقلاب اور انقلاب کے بعد اسلامی معاشرے کے لیے ایک موثر اور سود مند فرد کے طور پر ثابت کیا ہے اور حکومت کے مختلف شعبوں میں اپنے حقوق کو حاصل بھی کیا ہے اور اپنے فریضے کو بھی احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ بہرحال مکتب تشیع میں نہ صرف یہ کہ خواتین کو سیاسی دھارے سے باہر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ مکتب خواتین کو معاشرے میں ایک بلند انسانی مقام دینے کا قائل ہے۔ امام خمینی نے اس سوال کے جواب میں کہ اسلامی انقلاب میں خواتین کا کیا کردار ہوگا، کہا تھا کہ خواتین مختلف امور میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں آزاد ہیں۔ ہم خواتین کی حقیقی آزادی کے قائل ہیں، نہ کہ شاہ کے ظاہری اقدامات کی طرح۔
امام خمینی اس طرح کی خواتین کے بارے میں فرماتے ہیں، کیا تم نے تاریخ میں یہ مناظر دیکھے ہیں کہ آج ایران میں بچوں کو گودوں میں اٹھائے باپردہ خواتین ٹینکوں اور توپوں کے مقابلے میں طاغوتی حکومت کے خلاف میدان میں ہیں۔ دنیا کی کس تاریخ میں خواتین نے اس طرح کی قربانی اور ایثار پیش کیا ہے۔ ایران کی فہیم و بابصیرت خواتین نے ممتا کو عشق الہیٰ سے منسلک کرتے ہوئے اپنے نوجوان بچوں کو ظالم و جابر حکمرانوں کے مقابلے میں تیار کیا اور ان کو شہادت جیسے جذبے سے سرشار کیا۔ امام خمینی نے بارہا ان انقلابی خواتین کی تعریف کی ہے، آپ نے خواتین کو انقلاب کا صف اول کا دستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خواتین مظاہروں میں صف اول تھیں اور انہوں ںے اپنے اس اقدام سے مردوں میں بھی جوش و جذبہ پیدا کیا۔ خواتین نے اپنے بچوں کو شہادت کے لیے تیار کیا اور شہداء کے خون کی پاسداری کرتے ہوئے انقلاب کو تسلسل اور ہمیشگی عطا کی۔ امام خمینی نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ ہمارا انقلاب خواتین کا مرہون منت ہے۔ آپ کے اس جملے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کا کردار کتنا اہم ہے اور امام خمینی اس کردار کے کس حد تک قائل تھے۔
ایران کے انقلاب کے مختلف مراحل میں ایرانی خواتین نہ صرف مظاہروں اور احتجاج میں شرکت کرتیں بلکہ مساجد، امام بارگاہوں اور گھروں میں خواتین کے اجتماع منعقد کرکے انقلاب کے اہداف، امام خمینی کے افکار اور اسلامی حکومت کے قیام کے بارے میں خواتین کو آگاہ کرتی تھیں۔ بہت سی خواتین اور ان کے اہل خانہ شاہی حکومت کے جبر کا شکار خاندانوں اور افراد کو پناہ دیتیں اور ان کی مشکلات کو حل کرنے میں اہم کردار کرتیں۔ ایران کی مجاہد خواتین مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ انقلابی تحریک میں سرگرم عمل رہتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے خواتین نے انقلاب کی کامیابی کے لیے شہادت کا جام نوش کیا۔ اسلامی انقلاب کی تاریخ میں یوں تو کئی نام ہیں، لیکن ایک قبائلی عورت باختری بیگلری کا ذکر کرتے ہیں۔ تیس سالہ باختری نے اپنے دو بچوں کے ہمراہ حضرت زینب کی پیروی کرتے ہوئے شاہ کے ظلم حکومت کے خلاف آواز اٹھائی، جس کے جواب میں شاہی کارندوں نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، اس فائرنگ میں نہ صرف محترمہ باختری شہید ہوگئیں بلکہ ان کے دو بچے بھی راہ اسلام میں قربان ہوگئے۔ لرستان کی اس شہید خاتون کو انقلاب اسلامی کی پہلی شہیدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی اس طرح کی خواتین کے شجاعانہ کردار کے پیش نظر فرماتے تھے کہ ہماری عزیز خواتین اس بات کا باعث بنیں کہ ہمارے مردوں میں مزید جرات و شجاعت پیدا ہوگئی۔ میں خواتین کی زحمات کا قدردان ہوں اور یہ کامیابیاں ان کی مرہون منت ہیں۔ اسلامی انقلاب میں بھی ایرانی خواتین کا کردار کافی نمایاں رہا۔ خواتین نے مختلف میدانوں منجملہ سیاسی، سماجی، علمی اور ثقافتی میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ ایران کی خواتین اسلامی انقلاب کے برپا کرنے، اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے اور اس انقلاب کو مستحکم کرنے میں بھی نمایاں کردار کی حامل ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کی بھرپور شرکت نہ صرف اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کے لیے موثر اور فائدہ مند ثابت ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ان حلقوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام تھی، جو اسلام کے بارے میں اس غلط نظریئے کے قائل ہیں کہ اسلام خواتین کو چاردیواری کے اندر قید رکھنے کا قائل ہے۔ ایران کی خواتین کے عملی کردار نے دنیا کو بتا دیا کہ اسلام میں اسلامی تعلیمات کا خیال رکھتے ہوئے مردوں کے شانہ بشانہ اجتماعی سرگرمیاں انجام دی جا سکتی ہیں۔
ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں بھی ایرانی خواتین نے نہ صرف اپنے جوانوں اور مردوں کو میدان جنگ کی طرف جانے میں حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی عدم موجودگی میں بچوں کی تربیت اور گھر اور گھرانے کو چلانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بعض ایرانی مائوں نے اپنے دو دو اور تین تین نوجوان راہ خدا میں شہادت کے لیے پیش کیے۔ ایرانی خواتین نے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی قربانیوں سے انقلاب کے اغراض و مقاصد اور امنگوں کو زندہ رکھا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی خواتین نے تعلیم و تعلم کے شعبے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ امام خمینی ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ خواتین اسلامی مملکت کی تقدیر کو سنوارنے میں شریک ہوں۔ آپ خواتین سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ آپ نے جس طرح انقلاب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا، اب انقلاب کو مضبوط و مستحکم بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کریں، وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق اپنے عمل و کردار کو استوار کریں۔
امام خمینی اور آپ کے بعد رہبر انقلاب اسلامی کی خواتین کے حقوق اور صلاحیتوں پر خصوصی توجہ اس بات کا باعث بنی کہ خواتین مختلف شعبوں میں فعال و سرگرم ہوئیں اور اںہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اس وقت تعلیم کے میدان میں ایرانی خواتین کی کارکردگی تمام اسلامی ممالک سے کہیں بہتر ہے۔ اس وقت تعلیم کے شعبے میں ایرانی خواتین کا حصہ 68 فیصد ہے۔ خواتین کی شرح خواندگی انقلاب سے پہلے 34 فیصد تھی، جو اب 80 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ عالمی ادارے یونسکو کے ایک سروے کے مطابق 2012ء میں ایرانی خواتین تعلیمی شعبے میں اپنے موثر کردار کی وجہ سے دنیا کے ان چھ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں، جہاں عورت کو مکمل تعلیمی سہولیات میسر ہیں اور ان کا خاتون ہونا ان کے تعلیمی کیریئر میں کہیں رکاوٹ نہیں بنتا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی طرف سے علمی سرگرمیوں میں خصوصی توجہ کی وجہ سے گذشتہ سالوں میں کئی ایرانی طالبات نے بین الاقوامی سطح پر ہونے والے علمی اور تعلیمی مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ہیں۔ ایران نے انقلاب کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی کے جن شعبوں میں بالخصوص نانو، ایٹمی، ائیروسپیس اور فزکس و کمیسٹری میں جو نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس میں خواتین کا کردار بھی نمایاں ہے۔ مختلف شعبہ جات میں نئی نئی ایجادات میں بھی ایرانی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایرانی خواتین کو تمام انسانی، سماجی، شہری اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ ایرانی خواتین بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور ملازمتوں کے حصول میں بھی ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ایرانی خواتین یونیورسٹیوں میں اپنی علمی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کر رہی ہیں، ریسرچ کے شعبے میں ایرانی خواتین کا کردار خطے کے تمام ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور بہترین افکار و نظریات کی حامل خواتین کی موجودگی کو ایران کی اسلامی حکومت کے لیے ایک الہیٰ نعمت سے قرار دیتے ہیں۔ ایرانی خواتین اسلامی تعلیمات، قومی وقار، دینی اقدار اور ملکی ثقافت کی پاسداری کرتے ہوئے ملک و وطن کی خدمت میں مصروف ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ آج ایران کی پہچان اور ثقافت کا پرچم ایرانی خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ ایرانی خواتین اپنے اسلامی پردے کی حفاظت کرتے ہوئے اور اپنی دینی و ثقافت کی پاسداری کرتے ہوئے دنیا کے لیے اپنے افکار و نظریات برآمد کرنے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ایرانی خواتین اپنے عملی کردار میں دنیا کو بتا رہی ہیں کہ عورت مختلف شعبوں میں فعال اور سرگرم کردار ادا کرسکتی اور معاشرے کے لیے موثر اور سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ آج ایران میں خواتین مختلف شعبوں میں موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہیں اور اسلامی پردے کی بدولت مردوں کی غلط نگاہوں سے بھی محفوظ ہیں۔
ایرانی خواتین نے اپنے آپ کو اپنی سطح سے گرایا نہیں اور مردوں کی لذت کا سامان بننے کی بجائے عورت کا ایک پروقار کردار پیش کیا ہے اور بلا شک و شبہ یہی ایرانی اور اسلامی عورت کی بنیادی خصوصیات اور صفات ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ ایرانی خواتین نے اپنے آپ کو انقلاب اور انقلاب کے بعد اسلامی معاشرے کے لیے ایک موثر اور سود مند فرد کے طور پر ثابت کیا ہے اور حکومت کے مختلف شعبوں میں اپنے حقوق کو حاصل بھی کیا ہے اور اپنے فریضے کو بھی احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ بہرحال مکتب تشیع میں نہ صرف یہ کہ خواتین کو سیاسی دھارے سے باہر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ مکتب خواتین کو معاشرے میں ایک بلند انسانی مقام دینے کا قائل ہے۔ امام خمینی نے اس سوال کے جواب میں کہ اسلامی انقلاب میں خواتین کا کیا کردار ہوگا، کہا تھا کہ خواتین مختلف امور میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں آزاد ہیں۔ ہم خواتین کی حقیقی آزادی کے قائل ہیں، نہ کہ شاہ کے ظاہری اقدامات کی طرح۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس