مورخین نے امام مظلوم حسین ابن علی علیہما السلام کی چار بیٹیاں تحریر کی ہیں ؛ فاطمہ کبری، فاطمہ صغری، سکینہ اور رقیہ ۔ شیعہ منابع میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی چار سالہ بیٹی کا تذکرہ ہے ، قرن ششم هجری قمری کے مصنف علاء الدین طبری کی کتاب کامل بہائی میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے کہ شام کے قید خانہ میں امام مظلوم حسین ابن علی علیہما السلام کے ایک بیٹی کو دفن کردیا گیا جن کے نام کے سلسلہ میں اختلاف ہے ۔
مشهور یہ ہے کہ شھادت کے وقت اپ کا سن تین یا چار برس کا تھا اور سن 61 ھجری قمری کے ماہ صفر کے ابتدائی دنوں میں اپ کا انتقال ہوگیا ۔
سید ابن طاووس اپنی کتاب لہوف میں تحریر کرتے ہیں کہ جب حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام نے شب عاشور دنیا کی بے وفائی کے سلسلہ میں اشعار پڑھے تو حضرت زینب سلام اللہ علیہا اسے سن کر بہت روئیں ، امام حسین علیہ السلام نے انہیں صبر کی تلقین کی اور فرمایا : میری بہن ام کلثوم و زینب و فاطمہ و سکینہ و رباب ! میری باتیں یاد رکھئے کہ جب میں شھید کردیا جاؤں تو میرے لئے گریبان چاک نہ کرئے گا ، اپنے چہرے زخمی نہ کرئے گا بلکہ صبر سے کام لیجئے گا ۔
واقعہ عاشوراء کے بعد دشمنوں نے زندہ بچے ہوئے لوگوں کو اسیر کرلیا کہ ان اسیروں کے درمیان کمسن بچی بھی موجود ہے ، جنہیں رقیہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے ، اپ امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد جناب زینب اور دیگر اسیروں کے ساتھ اسیر ہوکر شام لے جائی گئیں ، جب شام کے خرابہ سے کسی بچی کے رونے صدا اتی تو اہل شام با خبر ہوجاتے کہ امام حسین علیہ السلام کی کمسن بیٹی حضرت رقیہ رو رہی ہیں ، ایک رات اپ نیند سے بیدار ہوئیں تو اپنے بابا کو یاد کر کے رونے لگیں ، اپ کے گریہ و زاری سے یزید ملعون کی نیند میں خلل پڑا تو اس نے دریافت کیا کہ اس رات کے سناٹے میں کون رو رہا ہے ؟ کسی نے بتایا کہ حسین علیہ السلام کی یتیمہ فریاد کناں ہے تو اس ملعون نے امام حسین علیہ السلام کے سر کو زندان شام میں بھیج دیا ، جب جناب رقیہ نے بابا کا کٹا ہوا سر دیکھا تو بیتاب ہوگئیں اور آہ نالہ کرنے لگیں ، روتے روتے بابا کے منھ پر منھ رکھ دیا اور اسی حالت میں اپ کا دم نکل گیا ، اہل حرم نے خون بھرے کرتے میں ہی اپ کو زندان شام میں دفن کردیا ۔