جمیلہ علم الہدی نے ایک امریکی میڈیا سے انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر تشدد پھیلانے کی مغربی روش ایران میں کارگر نہیں ہوگی۔
صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے نیوز ویک سے انٹرویو میں کہا کہ ایران میں خواتین کو خاندان، والد اورخاندان کے سبھی افراد کی حمایت حاصل ہے اور اس حمایت کے سائے میں وہ معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ خواتین ایران میں اور دنیا میں ہرجگہ، خاندان کے مرکز کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں بنابریں معاشرے میں ان کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔
محترمہ جمیلہ علم الہدی نے مزید کہا کہ ایران میں خواتین کو اپنے حقوق کے لئے مجاہدت نہیں کرنی پڑی ہے کیونکہ انہیں حقوق حاصل ہیں اور ایرانی معاشرے میں مردوں نے خواتین کے احترام کا تحفظ کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اخلاقی پہلو سے خواتین جن اقدار کی مستحق ہیں، ایران میں انہیں قوانین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔
ایران کی خاتون اول نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی دنیاوی تحریکیں ایران میں داخل نہیں ہوسکی ہیں، اس کی سب سے پہلی وجہ ان تحریکوں میں پایا جانے والا تشدد کا رجحان ہے ۔
انھوں نے کہا کہ ایران میں اس کے برعکس خواتین امن و سکون کو ترجیح دیتی ہیں اور یہ ان دونوں کا نمایاں فرق ہے
صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے مغرب کے ان الزامات کے بارے میں کہ ایران میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انہیں زیادہ حقوق کی ضرورت ہے کہا کہ مغرب کو ایران کے بارے میں ضروری معلومات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ غلط فہمی ہے ۔ انھوں نے ایران میں عوام اور خواتین کے روابط کی گہرائی و گیرائي کو نہیں سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی خواتین کو بھی مغربی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ خواتین کے بارے میں مغربی بیانیہ سیاسی محرکات کا حامل ہے ۔
ایران کی خاتون اول نے بہت سے مغربی ملکوں بالخصوص نیویارک میں خواتین کی حالت کے بارے میں کہا کہ مغرب میں اکثرخواتین تنہائي کا احساس کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں خواتین کی خاندان اور شریک حیات کی جانب سے بہت کم حمایت ہوتی ہے ۔
انھوں نے کہا کہ خواتین چونکہ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں، اس لئے ان کا زیادہ احترام ہونا چاہئے۔ لیکن مغرب میں انہیں زیادہ کام کرنا ہوتا ہے وہ مردوں کے مساوی کام کرتی ہیں تاکہ کمترین معیار کی زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مغربی اور ایرانی خواتین میں نمایاں فرق ہے۔ ایران میں خواتین بہت ہی قریبی خاندانی روابط کی مالک ہیں
ڈاکٹر جمیلہ علم الہدی نے ایران کے خلاف امریکا کی دشمنانہ پالیسیوں اور پابندیوں کے بارے میں کہا کہ ہم حال ہی میں ثقافتی یلغار کا نشانہ بنے ہیں، ہم پرمغرب کے ثقافتی حملے ہوئے ہیں ۔ جبکہ آپ ایرانی ثقافت کو دیکھیں تو ایران ثقافتی لحاظ سے مغرب سے بالکل مختلف ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ایران یک طرفہ اور خودسرانہ پابندیوں کا نشانہ بنا ہے جس کی وجہ سے عوام کی زندگی سخت ہوگئی ہے لیکن رہبر معظم کی رہنمائیوں کی بدولت ہم نے ان پابندیوں کو عبور کرنے میں کامیابی حاصل کی
محترمہ جمیلہ علم الہدی نے ایرانی عوام پر پابندیوں کے منفی اثرات کے بارے میں کہا کہ پابندیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ مریضوں اور بچوں پر پڑے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ اس کا نمونہ Epidermolysis bullosa کی بیماری ہے ۔ اس میں مریض کی جلد اکھڑ جاتی ہے اور یہ بہت ہی دردناک اور ناقابل تصوہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کا درد ناقابل بیان ہے۔
ایران کی خاتون اول کا کہنا تھا کہ امریکا دعوی کرتا ہے کہ پابندیاں ایرانی عوام کے مفاد کے تحفظ میں لگائي گئی ہیں لیکن یہ پابندیاں خوراک اور دواؤں پر نافذ کی جارہی ہیں ۔
صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے آخر میں کہا کہ امریکی حکومتوں کی پالیسیاں دنیا کے آزاد اور خودمختار ملکوں کے استعمار اور استحصال پر مبنی ہیں ، وہ دنیا کے ہر آزادی پسند ملک پر دباؤ ڈالتی ہیں تاکہ انہیں امریکی مطالبات ماننے پر مجبور کرسکیں۔
جمیلہ علم الہدی نے ایک امریکی میڈیا سے انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر تشدد پھیلانے کی مغربی روش ایران میں کارگر نہیں ہوگی۔
صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے نیوز ویک سے انٹرویو میں کہا کہ ایران میں خواتین کو خاندان، والد اورخاندان کے سبھی افراد کی حمایت حاصل ہے اور اس حمایت کے سائے میں وہ معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ خواتین ایران میں اور دنیا میں ہرجگہ، خاندان کے مرکز کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں بنابریں معاشرے میں ان کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔
محترمہ جمیلہ علم الہدی نے مزید کہا کہ ایران میں خواتین کو اپنے حقوق کے لئے مجاہدت نہیں کرنی پڑی ہے کیونکہ انہیں حقوق حاصل ہیں اور ایرانی معاشرے میں مردوں نے خواتین کے احترام کا تحفظ کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اخلاقی پہلو سے خواتین جن اقدار کی مستحق ہیں، ایران میں انہیں قوانین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔
ایران کی خاتون اول نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی دنیاوی تحریکیں ایران میں داخل نہیں ہوسکی ہیں، اس کی سب سے پہلی وجہ ان تحریکوں میں پایا جانے والا تشدد کا رجحان ہے ۔
انھوں نے کہا کہ ایران میں اس کے برعکس خواتین امن و سکون کو ترجیح دیتی ہیں اور یہ ان دونوں کا نمایاں فرق ہے
صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے مغرب کے ان الزامات کے بارے میں کہ ایران میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انہیں زیادہ حقوق کی ضرورت ہے کہا کہ مغرب کو ایران کے بارے میں ضروری معلومات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ غلط فہمی ہے ۔ انھوں نے ایران میں عوام اور خواتین کے روابط کی گہرائی و گیرائي کو نہیں سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی خواتین کو بھی مغربی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ خواتین کے بارے میں مغربی بیانیہ سیاسی محرکات کا حامل ہے ۔
ایران کی خاتون اول نے بہت سے مغربی ملکوں بالخصوص نیویارک میں خواتین کی حالت کے بارے میں کہا کہ مغرب میں اکثرخواتین تنہائي کا احساس کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں خواتین کی خاندان اور شریک حیات کی جانب سے بہت کم حمایت ہوتی ہے ۔
انھوں نے کہا کہ خواتین چونکہ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں، اس لئے ان کا زیادہ احترام ہونا چاہئے۔ لیکن مغرب میں انہیں زیادہ کام کرنا ہوتا ہے وہ مردوں کے مساوی کام کرتی ہیں تاکہ کمترین معیار کی زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مغربی اور ایرانی خواتین میں نمایاں فرق ہے۔ ایران میں خواتین بہت ہی قریبی خاندانی روابط کی مالک ہیں
ڈاکٹر جمیلہ علم الہدی نے ایران کے خلاف امریکا کی دشمنانہ پالیسیوں اور پابندیوں کے بارے میں کہا کہ ہم حال ہی میں ثقافتی یلغار کا نشانہ بنے ہیں، ہم پرمغرب کے ثقافتی حملے ہوئے ہیں ۔ جبکہ آپ ایرانی ثقافت کو دیکھیں تو ایران ثقافتی لحاظ سے مغرب سے بالکل مختلف ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ایران یک طرفہ اور خودسرانہ پابندیوں کا نشانہ بنا ہے جس کی وجہ سے عوام کی زندگی سخت ہوگئی ہے لیکن رہبر معظم کی رہنمائیوں کی بدولت ہم نے ان پابندیوں کو عبور کرنے میں کامیابی حاصل کی
محترمہ جمیلہ علم الہدی نے ایرانی عوام پر پابندیوں کے منفی اثرات کے بارے میں کہا کہ پابندیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ مریضوں اور بچوں پر پڑے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ اس کا نمونہ Epidermolysis bullosa کی بیماری ہے ۔ اس میں مریض کی جلد اکھڑ جاتی ہے اور یہ بہت ہی دردناک اور ناقابل تصوہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کا درد ناقابل بیان ہے۔
ایران کی خاتون اول کا کہنا تھا کہ امریکا دعوی کرتا ہے کہ پابندیاں ایرانی عوام کے مفاد کے تحفظ میں لگائي گئی ہیں لیکن یہ پابندیاں خوراک اور دواؤں پر نافذ کی جارہی ہیں ۔
صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے آخر میں کہا کہ امریکی حکومتوں کی پالیسیاں دنیا کے آزاد اور خودمختار ملکوں کے استعمار اور استحصال پر مبنی ہیں ، وہ دنیا کے ہر آزادی پسند ملک پر دباؤ ڈالتی ہیں تاکہ انہیں امریکی مطالبات ماننے پر مجبور کرسکیں۔