يہ بات صدر اسلام کي خواتين ہي سے مخصوص نہيں تھي بلکہ کفر اور ظلم و تشدد کے سياہ ترين دور ميں بھي يہ سب ممکن ہے ۔ اگر ايک گھرانے نے اپني بيٹي کي اچھي طرح تربيت کي ہے تو يہ بيٹي ايک عظيم انسان بني ہے۔ اس کي زندہ مثاليں ايران، ايران سے باہر اور خود ہمارے زمانے ميں موجود تھيں۔ ہمارے اسي زمانے ميں (اسلامي انقلاب کي کاميابي سے قبل) ايک جوان، شجاع ،عالمہ ، مفکر اور ہنرمند خاتون ’’بنت الہديٰ‘‘ (آيت اللہ سيد محمد باقر شہيد کي خواہر) نے پوري تاريخ کو ہلا کر رکھ ديا، وہ مظلوم عراق ميں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے ميں کامياب ہوئيں اور درجہ شہادت کو حاصل کيا۔ بنت الہديٰ جيسي خاتون کي عظمت و شجاعت، عظيم مردوں ميں سے کسي ايک سے بھي کم نہيں ہے۔ اُن کي فعاليت ايک زنانہ فعاليت تھي اور ان کے برادر کي جد و جہد و فعاليت ايک مردانہ کوشش تھي ليکن دونوں کي جد و جہد و فعاليت دراصل کمال کے حصول اور ان دونوں انسانوں کي ذات اور شخصيت کے جوہر و عظمت کي عکاسي کرتي تھي۔ اس قسم کي خواتين کي تربيت و پرورش کرني چاہيے۔
خود ہمارے معاشرے ميں بھي ان جيسي خواتين کي تعداد بہت زيادہ ہے۔ شاہي ظلم کے زمانے ميں کم و بيش ايسي مثاليں ہمارے پاس موجود ہيں۔ شاہي حکومت سے مقابلے اور اسلامي نظام کے قيام کے زمانے ميں بہت سي عظيم خواتين تھيں۔ ان عظيم القدر خواتين نے اپنے دامن ميں شہدا کي پرورش کي، انہوں نے اپنے شوہروں يا فرزندوں کو فداکار انسانوں کي صورت ميں معاشرے کو تحويل ديا تاکہ وہ اپنے وطن و انقلاب اور اپني قوم اور اُس کي عزت و آبرو کا دفاع کر سکيں۔ يہ سب ان عظيم خواتين کا صلہ ہے اور يہ خواتين بڑے اور عظيم کاموں کو انجام دينے ميں کامياب ہوئي ہيں کہ جن کي ايک کثير تعداد سے ميں خود آشنا ہوں۔
نام کتاب عورت ، گوہر ہستي
صاحب اثر حضرت آيت اللہ العظميٰ سيد علي حسيني خامنہ اي دامت برکاتہ