بسم الله الرحمن الرحيم
اللہ تعالي نے انسانوں کو ايک مرد و عورت سے پيدا کيا اور ان مین مختلف قبائل اور اقوام قرار ديں تاکہ وہ ايک دوسرے کو پہچان سکيں۔ (حجرات، ۱۳) اور اسي شناخت کے راستے سے وہ ايک دوسرے کے قريب آسکيں اور خلاف بشريت وغير انساني معيارات جيسے نسل پرستي، خودپسندي وغيرہ سے پرہيز کريں نيز امن و آشتي کے ساتھ مل جل کر زندگي گزاريں اور صرف تقوي جو کہ ايک معنوي خصوصيت اور اکلوتا معيار برتري ہے، اختيار کريں۔
ايک دوسرے کو پہچاننا، دلی اور فکری سے نزديکي کا مقدمہ ہے، يہي راستہ انسان کو منزل اتحاد تک پہونچاتا ہے، يہي وہ مقصد ہے جو دين اسلام کے اکثر قوانين بالخصوص فريضۂ حج ميں دکھائي ديتا ہے۔
ہشام بن حکم جو امام صادق (ع) کے دانشور اور مومن صحابيوں ميں سے تھے، فرماتے ہيں کہ ميں نے امام عاليمقام (ع) سے فلسفۂ حج اور طواف کعبہ سے متعلق سوال کيا تو آپ نے فرمايا:
فقال: إنّ الله خلق الخلق إلى أن قال و أمرهم بما يکون من أمر الطاعة فى الدين و مصلحتهم من امر دنياهم فجعل فيه الاجتماع من الشرق و الغرب ليتعارفوا و لينزع کلّ قوم من التجارات من بلد إلى بلد و لينتفع بذلک المکارى و الجمّال و لتعرف آثار رسول الله و تعرف أخباره و يذکر و لاينسى
بيشک خدا ہي ساري مخلوقات کا خالق ہے او ر اسي نے انسانوں پر ان کے دنیوی اور آخروی کے مصالح کي بنياد پر احکام فرض کيے ہيں۔ ان هی مصالح ميں سے ايک مشرق و مغرب سے مسلمانوں کے عظيم اجتماع کا اہتمام بھي ہے (جو فريضۂ حج کے عنوان سے بيت اللہ میں حدود میں انجام پاتا ہے) يہ اجتماع ايک دوسرے کو پہچاننے کے لئے معاون ہے تاہم اس کے ذریعےايک دوسرے کے مسائل و مشکلات سے بھي واقفيت ہوتي ہے، اس کے علاوہ انہيں اس موقع پرپيغمبر اکرم (ص) کے ارشادات و فرامين سے بہتر انداز ميں آشنائي ميسر آتي ہے تاکہ وہ اسے ہميشہ اپني زندگي ميں زندہ رکھيں اور گوشۂ فراموشي کے سپرد نہ کريں۔
يہ عظيم تفکر، امت مسلمہ کے اتحاد کا پيش خيمہ ہے اور اسے نظرانداز کرنے کے نتائج انتہائي خطرناک اور تخريبي ثابت ہوسکتے ہيں، امام صادق (ع) نے اسي حديث کے اختتام ميں اس کي طرف اشارہ کيا ہے:
و لو کان کل قوم إنما يتکلون علي بلادهم و ما فيها هلکوا و خربت البلاد و سقط الجلب و الارباح و عميت الاخبار (وسائل الشيعہ، ج ۱۱، ص ۱۴)
اگر دنيا بھر کے اقوام و ملل نے اپنے شہر اور اس کي ظرفيتوں ہي پر اکتفا کي ہوتی ترقي نہ کرپاتے، مٹ گئے ہوتے، شہر کھنڈر ہي رہ جاتے، اشياء لازم کے نفع و نقصان سمجھ ميں نہ آتے، لوگ ايک دوسرے سے بے خبر رہ جاتے۔
اميرالمؤمنين حضرت علي (ع) حج کو پرچم دار اسلام جانتے تھے جس ميں دنيا کے تمام گوشہ و کنار کے مسلمان پناہ ليتے تھے (نہج البلاغہ ، ج ۱) يہ وہ جگہ ہے جہاں اسلام کے مشکلات کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے اور يہ حاجيوں کے لئے انتہائي مفيد اور منفعت بخش ہے اسي طرح دوسرے وہ لوگ کہ جو اس سرزمين سے مشرف نہيں ہوئے ہيں ان کے لئے مفيد ہے۔
امام رضا (ع) نے فرمايا:
و منفعة من في المشرق و من المغرب و في البر و البحر و ممن يحج و ممن لايحج (علل الشرائع، صدوق، ص ۴۰۴)
خانۂ خدا ميں جمع ہونے والے اور اس ميں پناہ لينے والے اس عظيم مقصد کے پيش نظر اپني ثقافتي شناخت کو کھوئے بغير بہت سے مسائل ميں متحد و يک رنگ نظر آتے ہيں اور يہي ان کي قوم و ملت کے لئے ان کي طرف سے عظیم تحفه ہے۔
بيت اللہ ميں جمع ہونے والوں کے مشترکات
دنيا بھر سے جمع ہونے والے حجاج کرام کے مابين غير معمولي اشتراک پايا جاتا ہے، ان ميں سے بعض حسب ذيل ہيں:
۱- وحدت خداوندي پر اعتقاد، سب اسي خدا کي عبادت کرتے ہيں اور اسي نيت کے ساتھ خانۂ کعبہ ميں جمع ہوتے ہيں (إِنَّ هَذِهِ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَاحِدَةً وَاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ) (سورۂ انبيا، ۹۲)
۲- رسول اللہ (ص) کي نبوت پر اعتقاد اور ان کي سنت پر يقين
۳- قيامت پر ايمان
۴- قرآن کريم پر ايمان
۵- فقہي مشترکات
۶- تمام بنيادي مسائل کے ديگر مشترکات
مقام اجتماع کي خصوصيات:
مذکورہ بالا مشترکات کے علاوہ کعبہ اور مکہ مکرمہ دوسري بہت سي خصوصيات کا حامل ہے جس سے اتحاد و يکجہتي کے اسباب فراہم ہوتے ہيں، ان ميں سے بعض مندرجہ ذيل ہيں:
۱- سلامتي
حضرت ابراہيم (ع) کي دعائے (رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَداً آمِناً) (سورۂ بقرہ، ۱۲۶) اور اجابت حضرت حق کے طفيل شہر مکہ عالم اسلام کے لئے بالعموم قيام امن ہے۔
جو بھي اس شہر ميں حج کے ارادے سے وارد ہوتا ہے ايک انتہائي محفوظ مقام پر ہوتا ہے۔
(فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِناً) (سورۂ آل عمران، ۹۷)
اس ميں واضح نشانياں ہيں جيسے مقام ابراہيم، پس جو بھي اس ميں داخل ہوا گويا مقام امن ميں ہے۔ يہ اس حد تک محفوظ ہے کہ رسول خدا نے فرمايا:
اگر کسي نے کسي کا قتل کرديا ہے يا کوئي دوسرا گناہ کيا ہے اور اسي کے بعد اس نے حرم ميں پناہ لے لي تو وہ محفوظ ہے، اس سے اتني دير قصاص نہ ليا جائے اسے گرفتار نہ کيا جائے اور اسے اذيتيں نہ جائيں۔ (الجعفريات، ص ۷۱)
قابل ذکر بات يہ ہے حرم کا با امن ہونا محض انسانوں سے مخصوص نہيں ہے بلکہ چرند، پرند و حيوانات بھي اس ميں محفوظ رہتے ہيں، عبداللہ ابن سنان کہتے ہيں کہ ميں نے حضرت امام صادق (ع) سے آيہ (وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِناً) کے بارے پوچھا، تو انہوں نے فرمايا:
من دخل الحرم من الناس مستجيراً به فهو آمن من سخط اللّه و من دخله من الوحش و الطير کان آمنا من ان يهاج أو يوذي حتي يخرج من الحرم (تہذيب، ج ۵، ۴۴۹)
اگر کسي نے لوگوں سے فرار کرکے حرم ميں پناہ لے لي وہ خشم الہي سے محفوظ ہے اور وہ ہر جانور يا پرندہ جو داخل حرم آجائے وہ تمام اذيتوں سے محفوظ ہے حب تک کہ وہ حرم سے خارج نہ ہوجائے۔
يہ امنيت و سلامتي پائداري و استقلال کي حامل ہے اور کسي بھي زمانہ ميں اس کو نقصان نہيں پہونچنا چاہئے، رسول خدا (ص) نے فتح مکہ کے دن لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا:
جب اللہ نے زمين و آسمان خلق کيا، مکہ کو حرم قرار ديا اور قيامت تک کے لئے يہ محترم ہے اور کسي کو بھي نہ مجھ سے پہلے اور نہ ہي ميرے بعد يہ حق حاصل نہيں ہے کہ اس کے احترام کو پامال کرے، يہاں تک کہ ميرے لئے ايک دن ميں ايک گھنٹے سے زيادہ روا نہيں رکھا گيا ہے۔ (کليني، ج ۴، ص ۲۲۶)
۲- اسلحہ لے جانے کي ممانعت
مکہ و حرم کواسلحوں سے مبرّا علاقہ قرار ديا گيا ہے تاکہ اس کي امنيت مکمل طور سے متحقق ہوسکے۔ امام علي (ع) نے فرمايا:
لاتخرجوا بالسيوف إلى الحرم ولا يصل أحدكم وبين يديه سيف، فان القبلة أمن (صدوق، ص ۳۵۳، خصال، ص ۶۱۶)
تلواروں کے ساتھ حرم کي طرف مت جاؤ اور حالت نماز ميں تلواريں اپنے سامنے نہ رکھو کيونکہ کعبہ، قبلہ امن ہے۔
۳- ماحوليات کا تحفظ
حدود بيت اللہ ميں پيڑ پودوں کا اکھاڑنا، حيوانات کا شکار کرنا منع ہے رسول اللہ (ص) نے فتح مکہ کے روز فرمايا:
إن هذا البلد حرمه الله يوم خلق السماوات والارض، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، وإنه لم يحل القتال فيه لاحد قبلي ، ولم يحل لي إلا ساعة من نهار ، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة ، لايعضد شوكه ، ولا ينفر صيد (النہايہ، ج ۲، ص ۷۵)
يہ وہ شہر ہے کہ جب اللہ نے زمين و آسمان کو خلق کيا تو اسے حرمت بخشي اور يہ حرمت تا روز قيامت باقي رہنے والي ہے، نہ اس کا کانٹا اٹھايا جاسکتا ہے اور نہ ہي جانور کو بھگايا جاسکتا ہے۔
۴- مالي تحفظ
اگر حدود بيت اللہ ميں کسي کا کوئي سامان ملے تو کوئي اسے اٹھانے کا حق نہيں رکھتا ہے ۔ پيغمبر(ص) نے فرمايا: (ولايلتقط لتقط الامن عرفها…) کوئي سامان اگر حدود حرم ميں ملے تو کسي کو حق نہيں کہ اسے اٹھائے البتہ اعلان کرنے کي غرض سے ايسا کيا جاسکتا ہے تاکہ اس کا مالک مل جائے۔
۵- اخلاقي تحفظ
حدود بيت اللہ کے ديگر مصاديق احترام ميں جھگڑا کرنے، قسم کھانے اور خلق خدا کي آبرو اچھالنے سے پرہيز جيسي چيزيں شامل ہيں۔ قرآن کریم ميں خداوند قدوس اس سلسلے ميں ارشاد فرماتا ہے:
فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ (سورۂ بقرہ، ۱۹۷)
احرام کي حالت ميں قربت جنسي، جھوٹ بولنا، بيجا بحث اور جھگڑا جائز نہيں ہے۔
۶- روحي تحفظ
سماعہ بن مہران کہتے ہيں:
ميں نے امام صادق (ع) سے پوچھا ايک آدمي ميرا مقروض ہے، پچھلے کچھ دنوں سے ميں اس کي تلاش ميں تھا مگر وہ نہيں ملتا تھا، آج ميں نے اسے مسجد الحرام ميں ديکھا، وہ طواف کررہا تھا کيا ميں اس سے اپنا مطالبہ کرلوں؟ امام نے فرمايا: نہيں، اسے سلام مت کرنا، اسے شرمندہ مت کرنا يہاں تک کہ وہ حرم سے باہر آجائے۔ (کليني، ج ۴، ص ۴۱)
مذکورہ خصوصيات حرم الہي کو مذاکرے، تبادل نظريات اور اہم فيصلوں کے لئے جہان اسلام کو آمادہ کرتي ہے، دلچسپ بات يہ ہے کہ اللہ نے اس کے انتظام و انصرام کي ذمہ داري متقيوں کے سپرد کر رکھي ہے تاکہ تمام خصوصيات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس سے ہدف اصلي يعني اتحاد کے لئے استفادہ کيا جاسکے۔
وَمَا كَانُواْ أَوْلِيَاءهُ إِنْ أَوْلِيَآؤُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ (سورۂ انفال، ۳۴)
وہ اس کے متولي نہيں ہيں، بيشک متقيوں کے علاوہ کوئي اس کا متولي نہيں ہوسکتا۔
مقاصد کے حصول کے راستے
ہميشہ اہم مقاصد کے حصول کے لئے مختلف محوروں کي يا ايک محور کي ضرورت ہوتي ہے اس طرح سے کہ لوگ اس کي مرکزيت کي رعايت کريں اور متحد نظر آئيں۔
قرآن کريم نے اس محور کو ’’حبل اللہ‘‘ سے تعبير کيا ہے (وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً)(سورۂ آل عمران، ۱۰۳)
اللہ کي رسي کو مضبوطي سے تھام لو اور آپس ميں تفرقہ نہ کرو اور اللہ کي نعمتوں کو ياد کرو جب تم ايک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں ميں محبتوں کو قرار ديا اور تم اس نعمت کے نتيجے ميں ايک دوسرے کے بھائي ہوگئے۔
قرآن کريم کے علاوہ سنت رسول (ص) اور اہل بيت رسول (ص) بھي وحدت مسلمين کے اہم محور ہيں چنانچہ حج کے زمانے ميں بالخصوص ان امکانات کا صحيح فائدہ اٹھايا جانا چاہئے۔
شيعي تاريخي تمدن ايسے امور سے پر ہے جہاں کے رہبروں نے ان مسائل کي طرف خصوصي توجہ کي ہے تاکہ ان کے چاہنے والوں کے لئے عالم اسلام کے ساتھ اتحاد و بھائي چارہ آسان قرار ديا جاسکے، ان ميں سے بعض کا سردست ذکر کيا جارہا ہے:
۱- لوگوں کا قرآن کريم سے متمسک رہنے کي فکر کرنا
(وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ)(سورۂ آل عمران، ۱۰۳)
فاذا ثبت عليکم الفتن کقطع الليل المظلم فعليکم باالقرآن (کافي، ج ۲، ص ۵۹۸)
جب فتنہ تم پر رات کی اندھياريوں کي طرح ٹوٹ پڑے تو تم پر تمسک قرآن لازم ہے۔
۲- سنت رسول کي پيروي
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا (سورۂ حشر، ۷)
رسول (ص) جو کچھ تمہيں ديں اسے لے لو اور جس سے روکيں رک جاؤ۔
۳- آل رسول (ص) سے تمسک
رسول (ص) نے قرمايا:
إني مخلف فيكم الثقلین، ما إن تمسكتم بما لن تضلوا ولن تزلو، كتاب الله، وعترتي أهل بيتي
ميں تمہارے درميان دو گرانقدر چيزيں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں يعني کتاب اللہ اور ميري عترت سے متمسک رہوگے گمراہ نہيں ہوسکتے۔
۱- کتاب خدا (قرآن کريم)
ما إن تمسکم به لن تضلوا من بعدي
۲- میری عترت، جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے گمراہ نہيں ہوسکتے۔
۴- ايک دوسرے کے حقوق اور ديني و اسلامي اخوت و برادري کي رعايت
رسول اکرم (ص) نے مدينہ ہجرت کرنے کے بعد مہاجرين و انصار ميں اخوت برقرار کي اور ہميشہ فرماتے تھے:
المسلم اخوا المسلم لايظلمہ و لايسلمہ (صحيح بخاري، کتاب المظالم، باب لايظلم المسلم المسلم) مسلمان، مسلمان کا بھائي ہے نہ وہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ ہي ظلم کے سامنے سرتسليم خم کرتا ہے۔
امام صادق (ع) اس سلسلے ميں فرماتے ہيں:
المسلم اخ المسلم هو عينه و مرأقه و دليله لايخونه و لايخدعه و لايظلمه ولايکذبه و لايغتابه
مسلمان، مسلمان کا بھائي ہے، وہ ايک دوسرے کي آنکھ، آئينہ اور راہنما ہيں ، وہ ايک دوسرے کے ساتھ خيانت نہيں کرتے، دھوکہ نہيں ديتے، ظلم نہيں کرتے، جھوٹ نہيں بولتے اور غيبت نہيں کرتے۔
۵- تہذيب کي رعايت اور بدکاري سے پرہيز
کونوا لنا زيناولاتکونوا علینا شیناقولوا للناس حسنا و احفظوا السنتکم و کفوهاعن الفصول وقبيح القول (بحارالانوار، ج ۷۱، ص ۳۱۰)
ہمارے لئے زينت کا سبب بنو، شرمندگي کا باعث نہيں، لوگوں سے مودب انداز ميں بات کرو اپني زبان کي حفاظت کرو، زيادہ بولنے اور بدکلامي سے پرہيز کرو۔
اميرالمؤمنين حضرت علي (ع) نے تاکيد کي ہے کہ جان لو اکثر اختلافات اور جھگڑے صرف ايک بات سے شروع ہوئے ہيں چنانچہ مؤمنوں کے چاہئے کہ متانت کے ساتھ بات کريں، دشمنوں کي سازشوں سے محفوظ رہيں۔
امام علي (ع) نے فرمايا:
رب حرب حيث من لفظه (غررالحکم، ج ۵۳۱۳) بہت سي جنگيں ايک لفظ سے شروع ہوئيں ہيں۔
۶- حسد سے پرہيز
حسد ہميشہ اتحاد کي راہ ميں مانع ہوتا ہے اور امام صادق کے قول کے مطابق حسد انسان سے دلي سکون و اطمينان چھين ليتا ہے اور دشمني کا سبب بنتا ہے اور معاشرہ ميں نفاق کا باعث بنتا ہے۔ امام صادق (ص) نے فرمايا: اياکم والخصومة فانهاتشتغل القلب و تورث النفاق و تکسب الضغائن
۷- ايک دوسرے کے مقدسات کا احترام
يہ وہ موضوع ہے جس کي ہميشہ رعايت کرنا چاہئے۔ امام علي (ع) نے معاويہ کے سامنے اپنے چاہنے والوں سے فرمايا:
اکره لکم ان تکونوا سبابين قابل نفرين يہ بات ہے کہ تم ميں سے کوئي بدکلام ہو۔
اللہ تعالي نے قرآن کريم ميں مشرکين کو گالي دينے سے منع کيا ہے۔
وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ (سورۂ انعام، ۱۰۸)
جو اللہ کو نہيں مانتے اور غير خدا کي پرستش کرتے ہيں انہيں بھي گالي نہ دو، ہوسکتا ہے وہ لاعلمي کي بنياد پر خدا کے تیئن بدکلامي کرے۔
۸- واقعيتوں کو قبول کرنا
اتحاد کے لئے مذاکروں حقيقت پسندانہ رويہ ہونا چاہئے اس لئے کہ دوسري صورت ميں اتحاد حاصل نہيں کيا جاسکتا۔
امام علي (ع) نے فرمايا:
من کان غرضہ الباطل لم يدرک الحق و لو کان اشہر من الشمس (غررالحکم، ص ۹۰۲۳)
جس کا مقصد ہي باطل ہو، چاہے حق کتنا ہي واضح يا روشن ہو وہ اسے درک نہيں کرسکتا۔
خلاصہ
حج، حرم اور مکہ مکرمہ کے خصوصيات مسلمانوں کے جمع غفير کو قرآن و سنت رسول (ص) اور آل رسول (ص) کي محوريت کے ساتھ متحد کرسکتا ہے، صحيح پروگرام اور اچھي تعليمات سے مسلمان حاجيوں کو جہالت و تعصب کے امراض سے نجات دلاتے ہوئے اسلامي معاشرہ کو اتحاد اور عزت و سربلندي سے سرفراز کيا جاسکتا ہے۔
اتحاد حج بيت اللہ کے منجملہ برکات ميں سے ايک ہے، بہترين پروگراموں کے ذريعے حاجيوں کو دنيا بھر سے بلاکر مزيد مہذب و با اخلاق بنايا جاسکتا ہے نيز فلسفۂ حج سے آشنا کراکے دنيا کو بہت بڑے بدلاؤ کي طرف موڑا جاسکتا ہے، ايک مستقل سياست اور اسلامي ممالک کے ذخائر سے اقتصادي بہرہ مندي کے ذريعے ’’الاسلام يعلو ولا يعلي عليہ‘‘اور ’’انتم الاعلون ان کنتم مؤمنين‘‘ کا مصداق تلاش کيا جاسکتا ہے۔ افسوس کي بات يہ ہے کہ ابھي تک اس سے کماحقه استفادہ نہيں کيا گيا ہے علاوہ ازين ہميشہ اسلامي خزانوں سے استفادہ کرتے ہوئے اس بات کي پوري کوشش کي جاتي ہے که تفرقہ اور اختلاف کو بڑھاوا ديا جائے تاکہ مسلمانوں کو ايک دوسرے سے جدا کیا جاسکے، يہ ايسے ميں ہورہا ہے کہ جب دین اسلام ميں مسلمانوں کو کافر کہنے کي سخت نفي کي گئي ہے اور يہ سنت نبوي (ص) کے خلاف ہے۔
رسول خدا (ص) نے فرمايا:
من کفر مؤمنا صار کافراً اگر کوئي کسي مؤمن کو کافر کہے وہ خود کافر ہے۔
ايک دوسري حديث ميں رسول نے ارشاد فرمايا:
ايما امر قال لاخيه کافرالا احدهما کوئي اپنے کسي بھائي کو کافر خطاب نہ کرے مگر يہ کہ ان دونوں ميں سے ايک کافر ہے۔
اکثر مذاہب کے علما اس فکر کے مخالف ہيں ليکن اس زمانے ميں يہ فکر ايک بڑے خطرے ميں تبديل ہوگئي ہے اور آج ان کے ہاتھوں دنيا بھر ميں ہزاروں بے گناہ مرد، عورت اور بچے مارے جارہے ہيں۔ ان لوگوں کے اس کام نے دنيا بھر ميں اسلام کے چہرے کو مخدوش کرديا ہے۔ سامراجي طاقتيں اس کا فائدہ اٹھارہي ہيں، وه کوشش کررہے ہيں کہ اسلام کو ايک نيم پختہ دين کے طور پر معرفي کريں اور اس دين سے جڑنے والوں کو بدگمان کر يں۔
اميد ہے کہ دنيائے اسلام کے دانشور، ان تخريبي عناصر کے مقابل کھڑے ہوکر اور اتحاد کے ساتھ اسلام کا دفاع کريں گے اور اس اسلامي لہر کے پيش نظر جو دنيا کے مختلف گوشہ و کنار ميں دکھائي دے رهی هے، اسلام اپني عظمت رفتہ کي بازيابي کرسکے گا اور دنيا ميں اسلام کا بول بالا ہوگا اور اللہ کي مدد سے امت مسلمہ کا وقار بحال ہوگا۔
سيد علي قاضي عسکر
مترجم: مہدي باقر