مستجار
قَالَ الصَّادِقُ(ع:(
بَنیٰ إِبْراہِیمُ الْبَیْتَ۔۔۔وَجَعَلَ لَہُ بَابَیْنِ بَابٌ إِلَی الْمَشْرِقِ وَ بَابٌ إِلَی الْمَغْرِبِ،وَالْبَابُ الَّذِی إِلَی الْمَغْرِبِ یُسَمَّیالْمُسْتَجَارَ۔[ 81
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
”جنا ب ابراھیم خلیل ںنے کعبہ کی تعمیر فرمائی اور اس کے لئے دو دروازے بنائے،ایک در مشرق کی طرف،اور ایک در مغرب کی طرف،جودر مغرب کی طرف ھے اسے مستجار کھتے ھیں’ ’۔
رکن یمانی
رَا یَٔنٰاکَ تُکْثِرُ اِسْتِلاٰمَ الرُّکْنِ الْمَیٰانیِّ فَقَالَ: مٰا اَتَیْتُ عَلَیْہِ قَطُّ اِلاّ وَٰجَبْرَئیلُ قٰائِمٌ عِنْدَہُ یَسْتَغْفِرُ لِمَنْ اسْتَلَمَہُ۔[ 82
عطا کھتے ھیں:
”لوگوں نے حضرت رسول خد ا صلی الله علیہ و آلہ و سلم سے کھا ھم بھت دیکھتے ھیں کہ آپ(ص)رکن یمانی کا بوسہ لے رھے ھیں فرمایا:میں ھر گز رکن یمانی کے پاس نھیں آیا مگر یہ کہ میں نے دیکھاکہ جبرئیل ع)وھاں کھڑے ھیں اور جولوگ اسے چوم رھے ھیں ان کے لئے مغفرت کی دعا کر رھے ھیں ”۔
سعی کی جگہ
عَنْ ا بَٔی بَصِیرٍ قَالَ:
سَمِعْتُ ا بَٔا عَبْدِ اللّٰہِ (ع)یَقُولُ:
[ مَا مِنْ بُقْعَةٍ ا حَٔبَّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمَسْعَیٰ لِا نَّٔہُ یُذِلُّ فِیھَا کُلَّ جَبَّارٍ۔[ 83
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:“کوئی بھی جگہ خدا وند عالم کے نزدیک سعی کی جگہ سے محبوب اورپسندیدہ نھیں ھے کیونکہ وھاں ھر جبار وستم گر ذلیل خوارھوتا ھے ”۔
مقبول شفاعت
قَالَ عَلِیُّبْنُ الْحُسَیْنِ (ع:(
السَّاعِی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ تَشْفَعُ لَہُ الْمَلاٰئِکَةُ فَتُشَفَّعُ فِیہِ بِالإِیجَابِ۔[ 84
امام زین العابدین (ع)فرماتے ھیں:
”فرشتہ صفاو مروہ کے درمیان سعی کرنے والے کی(خدا سے) شفاعت طلب کرتے ھیں اور ان کی دعاقبولھوتی ھے ’ ’ ۔
ھرولہ
عَنْ ا بَِٔی عَبْدِ اللّٰہِ(ع) قَالَ:
صَارَ السَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِا نََّٔ إِبْرَاہِیمَ عَرَضَ لَہُ إِبْلِیسُ فَا مََٔرَہُ جَبْرَئِیلُ(ع)، فَشَدَّ عَلَیْہِ فَھَرَبَ مِنْہُ،فَجَرَتْ بِہِ.السُّنَّةُ - یعنی بالْھَرْوَلَة[ 85
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”صفاو مروہ کے درمیان سعی میں (ھرولہ)اس لئے ھے کہ ابلیس نے خود کو وھاں جناب ابراھیم (ع) پر ظاھرکیا اس وقت جبرئیل (ع)نے جناب ابراھیم (ع) کو شیطان پر حملہ کا حکم دیا آپ (ع) نے اس پر حملہ کیا تو وہ بھاگااس وجہ سے ھرولہ سنت بن گیا ”۔
صفا ومروہ کے درمیان بیٹھنا
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰہِ (ع:(
لاٰ یَجْلِسُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ إِلاَّ مَنْ جَھَدَ۔[ 86
امام جعفرصادق(ع) نے فرمایا:
”صفاو مروہ کے درمیان نہ بیٹھے مگر وہ شخصجو تھک جائے ’ ’ ۔
اھل عرفات پر فخر
قال رسول الله (ص:(
”إنّ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یُباھی مَلائِکَتَہُ عَشِیَّةَ عَرَفَة بِاَھْلِ عَرَفَةَ فَیَقُولُ:
[ اُنْظُرُوا اِلی عِبادی ا تَٔوْنی شُعْثاً غُبْراً”۔[ 87
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”بلا شبہ خدا وند عالم روز عرفہ کے عصر کے وقت اھل عرفات کے سلسلہ میں فرشوں سے فخر ومباھات کرتا ھے اور فرماتا ھے :میرے بندوں کو دیکھو جو پریشاں حال اور غبار آلود میرے پاس آئے ھیں”۔
مشعر الحرام
قال رسول الله(ص): - وَھُوَ بِمنیٰ:-
لَوْ یَعْلَمُ اَہْلُ الجَمْعَ بِمَنْ حَلُّوا ا ؤَبِمَنْ نَزَلُوا لاَ سْتَبْشَرُوا بالفَضْلِ مِنْ رَبِّھِمْ بَعْدَ المَغْفِرَةِ”۔[ 88
رسول خدا (ص)جب منیٰ میںتشریف فرماتھے آپ(ص) نے فرمایا: “اگر اھل مشعر جان لیتے کہ کس کی بارگاہ میں آئے ھیں اور کس لئے آئے ھیں تو مغفرت اور بخشش کے بعد خدا کے فضل کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو بشارت دیتے ”۔
منیٰ
قال الصادق(ع:(
[ ”إِذَا ا خَٔذَ النَّاسُ مَوَاطِنَھُمْ بِمِنًی،نَادَی مُنَادٍمِنْ قِبَلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ:إِنْ ا رَٔدْتُمْ ا نْٔا رَٔضَی فَقَدْ رَضِیتُ”۔[ 89
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
”جب لوگ منیٰ میں اپنی جگہ ٹھھر جاتے ھیں تو منادی خداوند عالم کی جانب سے ندا دیتا ھے اگر تم یہ چاھتے تھے کہ میں تم سے راضیھو جاو ںٔ تو میں تم سے
راضیھو گیا ”۔
شیطا ن کو کنکریاں مارنا
قالَ الصَّادِقُ(ع:(
”إنَّ عِلَّةَ رَمْیِ الْجَمَراٰتِ ا نََّٔ إِبْراہِیم(ع) تَراء یٰ لَہُ إِبْلِیسُ عِنْدھٰا فَا مَٔرہُ جَبْرائیلُ بِرَمْیِہ بِسَبعِ حَصَیاتٍ وَا نَٔ یُکَبِّر مَعَ
[ کُلِّ حَصَاةٍ فَفَعَلَ وَجَرَتْ بِذلِکَ السُّنَةِ”۔[ 90
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
”ان جمرات کوکنکریاں مارنے کی وجہ یہ ھے کہ ابلیس وھاں پر حضرت ابراھیم) ع) کے سامنے ظاھرھوا اسوقت جبرئیل (ع) نے جناب ابراھیم (ع) کو حکم دیا کے سات کنکریوں سے شیطا ن کو ماریں اور ھر کنکری پر تکبیر بھی کھیں جناب ابراھیم (ع) نے ایسا ھی کیا اور اس کے بعد سے یہ سنت بن گئی”۔
قربانی
عن ا بٔی جعفر (ع)قال: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
[ إِنَّمَا جَعَلَ اللّٰہُ ھَذَا الْا ضَٔحَی لِتَشْبَعَ مَسَاکِینُھُمْ مِنَ اللَّحْمِ فَا طَٔعِمُوھُمْ”۔[ 91
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:
”کہ رسو ل خدا (ص)نے فرمایا :خدا وند عالم نے اس قربانی کو واجب قرار دیا ھے تاکہ بےنوا اور مسکین لوگ گوشت سے استفادہ کریں اور سیرھوں پس انھیں کھلاو ”ٔ۔
مغفرت طلب کرنا
قال الصادق(ع:(
”اِسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللّٰہِ لِلْمُحَلِّقِینَ ثَلاٰثَ مَرَّاتٍ”۔[ 92
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:
”کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ میں سر مڈانے والوں کے لئے تین مرتبہ استغفار کیا (اور خداسے ان کے لئے بخشش طلب کی)ھے”۔
حج کے اسرار
عالم جلیل سید عبد الله مرحوم محدث جزائری کے پوتوں سے نقل کرتےھوئے کتاب شرح نخبہ میں تحریر کرتے ھیں :
متعدد ما خذ میں جن پر میری تائید ھے بعض بزرگوں کی تحریر میں یہ حدیث مرسل اس طرح نقلھوئی ھے کہشبلی حج انجام دینے کے بعد امام زین العابدین ںکی زیارت کو آئے تو حضرت (ع) نے ان سے فرمایا:
حَجَجْتَ یَا شَبْلِیُّ؟
قَالَ:نَعَمْ یَا ابْنَ رَسُولِ اللّٰہِ فَقَالَ(ع):ا نََٔزَلْتَ الْمِیقَاتَ وَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ الثِّیَابِ وَاغْتَسَلْتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ:فَحِینَ نَزَلْتَ الْمِیقَاتَ نَوَیْتَ ا نََّٔکَ خَلَعْتَ ثَوْبَ الْمَعْصِیَةِ وَلَبِسْتَ ثَوْبَ الطَّاعَةِ؟ قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ ثِیَابِکَ نَوَیْتَ ا نََّٔکَ تَجَرَّدْتَ مِنَ الرِّیَاءِ وَالنِّفَاقِ وَالدُّخُولِ فِی الشُّبُھَاتِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ اغْتَسَلْتَ نَوَیْتَ ا نََّٔکَ اغْتَسَلْتَ مِنَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوبِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَمَا نَزَلْتَ الْمِیقَاتَ وَلاٰ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ الثِّیَابِ وَلاٰ اغْتَسَلْتَ،
اے شبلی! کیا تم نے حج کر لیا؟عرض کیا ھاں اے فرزند رسول خدا !فرمایا:کیا تم میقات میں ٹھھرے اور اپنے
سلےھوئے لباس کو جسم سے اتار کر غسل کیا؟ شبلی نے جواب دیا، ھاں۔امام نے پوچھا جب تم میقات
میںداخلھوئے تو کیا یہ نیت کی کہ میں نے گناہ اور نافرمانی کا لباس اتار دیا ھے اور خدا کی اطاعت و
فرمانبرداری کا لباس پہن لیا ھے ؟
شبلی: نھیں۔امام نے پوچھا:جب تم نے اپنا سلاھوا لباس اتارا تو کیا یہ نیت کی تھی کہ خود کو ریا ،دوروئی اور
شبھات وغیرہ سے دور کر رھےھو ؟شبلی نھیں:
امام (ع): غسل کرتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خود کو خطاو ںٔ اور گناہوں سے پاک کر
رھےھو؟شبلی نھیں :
امام (ع):(پس در حقیقت تم ) نہ میقات میں واردھوئے اور نہ تم نے سلاھوا لباس اتارا اور نہ غسل کیا ھے ”۔
ثُمَّ قَالَ:تَنَظَّفْتَ وَا حَٔرَمْتَ وَعَقَدْتَ بِالْحَجِّ، قَالَ:نعم۔قَالَ: فَحِینَ تَنَظَّفْتَ وَا حَٔرَمْتَ وَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ تَنَظَّفْتَ بِنُورَةِ
التَّوْبَةِ الْخَالِصَةِ لِلَّہٰ تَعَالیَ؟قَالَ لاٰ،قَالَ:فَحِینَ ا حَٔرَمْتَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ حَرَّمْتَ عَلَی نَفْسِکَ کُلَّ مُحَرَّمٍ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ قَدْ حَلَلْتَ کُلَّ عَقْدٍ لِغَیْرِ اللّٰہِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ لَہُ(ع):مَا تَنَظَّفْتَ وَلاٰا حَْٔرَمْتَ وَلاٰ عَقَدْتَ الْحَجَّ ،
”اس کے بعد امام(ع) اس سے پوچھتے ھیں، کیا تم نے خودکو پاک صاف کیا اور احرام پہنا اور حج کا عھد
وپیمان کیا (یعنی حج کی نیت کی)شبلی: ھاں
امام (ع): کیا تم یہ نیت کی تھی کہ خود کو خالصتوبہ کے نور ہ سے پاکیزہ کر رھےھو؟شبلی :نھیں
امام (ع):احرام باندھتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ جو کچھ خدا نے تمھیں کرنے سے روکا ھے اسےاپنے آپ پر حرام سمجھو؟شبلی:نھیں۔ امام: حج کا عھد کرتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم نے ھر غیر
الٰھی عھد وپیمان سے خودکو رھا کر لیا ھے؟ شبلی: نھیں۔امام(ع) :پھرتم نے احرام نھیں باندھا پاکیزہ نھیںھوئے اور حج کی نیت نھیںکی ”۔
قَالَ لَہُ: ا دَٔخَلْتَ الْمِیقَاتَ وَصَلَّیْتَ رَکْعَتَیِ الْإِحْرَامِ وَلَبَّیْتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ:فَحِینَ دَخَلْتَ الْمِیقَاتَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ بِنِیَّةِ الزِّیَارَةِ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ:فَحِینَ صَلَّیْتَ الرَّکْعَتَیْنِ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ تَقَرَّبْتَ إِلَی اللّٰہِ بِخَیْرِ الْا عٔمَالِ مِنَ الصَّلاٰةِ وَا کَٔبَرِ حَسَنَاتِ الْعِبَادِ؟ قَالَ:لا،
قَالَ:فَحِینَ لَبَّیْتَ نَوَیْتَ ا نََّٔکَ نَطَقْتَ لِلّٰہِ سُبْحَانَہُ بِکُلِّ طَاعَةٍ وَصُمْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِیَةٍ؟ قَالَ:لاٰ ،
قَالَ لَہُ(ع): مَا دَخَلْتَ الْمِیقَاتَ وَلاٰ صَلَّیْتَ وَلاٰ لَبَّیْتَ،
”اس کے بعد امام (ع)نے پوچھا :کیا تم میقات میں داخلھوئے اور دو رکعت نماز احرام ادا کی اور لبیک کھی
؟شبلی:ھاں۔
امام (ع):میقات میں داخلھوتے وقت کیا تم نے زیارت کی نیت کی؟ شبلی :نھیں۔
امام (ع):کیا دو رکعت نماز پڑھتے وقت تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم بھترین اعمال اور بندوں کے بھترین حسنات یعنی نماز کے ذریعہ خدا سے قریبھو رھےھو؟شبلی: نھیں۔
امام (ع):پس لبیک کھتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خدا کی خالص فرمانبر داری کی بات کر رھےھواور ھر معصیت سے خاموشی اختیار کر رھےھو؟شبلی :نھیں ۔
امام (ع)نے فرمایا:پھر نہ تم میقات میں داخلھوئے نہ نماز پڑھی اور نہ لبیک کھی ”۔
ثُمَّ قَالَ لَہُ:ا دَٔخَلْتَ الْحَرَمَ وَرَا یَٔتَ الْکَعْبَةَ وَصَلَّیُتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ :فَحِینَ دَخَلْتَ الْحَرَمَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ حَرَّمْتَ عَلَی نَفْسِکَ کُلَّ غَیْبَةٍ تَسْتَغِیبُھَا الْمُسْلِمِینَ مِنْ ا ۂَْلِ مِلَّةِ الْإِسْلاٰمِ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ فَحِینَ وَصَلْتَ مَکَّةَ نَوَیْتَ بِقَلْبِکَ ا نَّٔکَ قَصَدْتَ اللّٰہَ؟ قَالَ:لاٰ۔
قَالَ(ع):فَمَا دَخَلْتَ الْحَرَمَ وَلاٰ رَا یَٔتَ الْکَعْبَةَوَلاٰ صَلَّیْتَ،
”امام (ع) نے پھر پوچھا :کیا تم حرم میں داخلھوئے، کعبہ کو دیکھا اور نماز ادا کی ؟شبلی :ھاں۔
امام(ع) :حرم میں داخلھوتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ اسلامی معاشرہ کے مسلمانوں کی غیبت کو اپنے
اوپر حرام کرتےھو ؟ شبلی: نھیں۔
امام (ع):مکہ پہنچتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی کہ صرف خدا کو چاھتےھو ؟شبلی:نھیں۔
امام (ع):پھر نہ تم حرم میں واردھوئے اور نہ کعبہ کا دیدار کیا اور نہ نماز ادا کی ”۔
ثُمَّ قَالَ:طُفْتَ بِالْبَیْتِ وَمَسَسْتَ الْا رَٔکَانَ وَسَعَیْتَ؟قَالَ:نَعَمْ۔
قَالَ(ع):فَحِینَ سَعَیْتَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ ھَرَبْتَ إِلَی اللّٰہِ وَعَرَفَ مِنْکَ ذٰلِکَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ؟قَالَ:لاٰ ۔
قَالَ فَمَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ وَلاٰ مَسِسْتَ الْا رَٔکَانَ وَلاٰ سَعَیْتَ۔
”پھر امام نے پوچھا :کیا تم نے خانہ خدا کا طواف کیا ارکان کو مس کیا اور سعی انجام دی ؟شبلی :ھاں۔
امام (ع):سعی کرتے وقت کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ شیطان اور اپنے نفس سے بھاگ کر خدا کی پناہ حاصلکرتےھواور وہ غیب سے سب سے زیادہ آگاہ ھے وہ اس بات کو جانتا ھے ؟ شبلی:نھیں۔
امام (ع):پھر نہ تم نے خانہ خدا کاطواف کیا نہ ارکان مس کئے اور نہ سعی کی،
ثُمَّ قَالَ لَہُ:صَافَحْتَ الْحَجَرَوَ وَقَفْتَ بِمَقَامِ إِبْرَاہِیمَ(ع) وَصَلَّیْتَ بِہَ رَکْعَتَیْنِ؟قَالَ:نَعَمْ فَصَاحَ) ع)صَیْحَةً کَادَ یُفَارِقُ الدُّنْیَا ثُمَّ
قَالَ:آہِ آہِ۔
ثُمَّ قَالَ(ع):مَنْ صَافَحَ الْحَجَرَ الْا سَْٔوَدَ فَقَدْ صَافَحَ اللّٰہَ تَعَالَی،فَانْظُرْ یَامِسْکِینُ لاٰ تُضَیِّعْ ا جَْٔرَ مَا عَظُمَ حُرْمَتُہُ،وَتَنْقُضِالْمُصَافَحَةَ بِالْمُخَالَفَةِ،وَقَبْضِالْحَرَامٍ نَظِیرَ ا ۂَْلِ الْآثَامِ۔
ثُمَّ قَالَ(ع):نَوَیْتَ حِینَ وَقَفْتَ عِنْدَ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ(ع)ا نََّٔکَ وَقَفْتَ عَلَی کُلِّ طَاعَةٍ وَتَخَلَّفْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِیَةٍ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ:فَحِینَ صَلَّیْتَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ نَوَیْتَ ا نََّٔکَ صَلَّیْتَ بِصَلاٰةِ إِبْرَاہِیمَ(ع)،وَا رَْٔغَمْتَ بِصَلاٰتِکَ ا نَْٔفَ الشَّیْطَانِ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ لَہُ:فَمَا صَافَحْتَ الْحَجَرَ الْا سَْٔوَدَ وَلاٰ وَقَفْتَ عِنْدَ الْمَقَامِ وَلاٰ صَلَّیْتَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ۔
”امام(ع) نے دریافت فرمایا:کیا تم نے حج اسود سے مصافحہ کیا، مقام ابراھیم (ع) کے نزدیک کھڑےھوئے
اوردو رکعت نماز ادا کی ؟شبلی: ھاں،
پس امام (ع):نے فریا د بلند کی ایسا لگتا تھا کہ آپ (ع) دنیا سے ھی کو چ کرجانے والے ھیں اس کے بعد
فرمایا :آہ ،آہ۔۔۔۔
پھر فرمایا :جو حجر اسود کو لمس کرے اس نے خدا سے مصافحہ کیا پس اے مسکین !دیکھ اس عظیم حرمتوعزت کو ضائع نہ کر اور مصافحہ کو مخالفت اور گناہکاروں کے مانند حرام کاری کے ذریعہ نہ توڑ اس کے بعد پوچھا : جب تم مقام ابراھیم (ع)کے نزدیک گئے تو کیا تمھاری نیت یہ تھی کہ خدا کے تمام احکام وفرامین کی پابندی اور ھر معصیت ونافرمانی کی مخالفت کرو گے؟شبلی: نھیں
امام (ع):جب تم نے طواف کی دور کعت نماز ادا کی تو کیا یہ نیت تھی کہ تم نے جناب ابراھیم کے ھمراہ نمازپڑھی ھے اور شیطان کی ناک کو خاک پر رگڑدیاھے ؟شبلی:نھیں۔
امام(ع):پھر درحقیقت نہ تم نے حجر اسود کا مصافحہ کیا نہ مقام ابراھیم کے پاس کھڑےھوئے اور نہ وھاں دورکعت نماز اداکی ۔
ثُمَّ قَالَ(ع):لَہُ ا شَٔرَفْتَ عَلَی بِئْرِ زَمْزَمَ وَ شَرِبْتَ مِنْ مَائِھَا؟ قَالَ:نَعَمْ۔
قَالَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ ا شَٔرَفْتَ عَلَی الطَّاعَةِ، وَغَضَضْتَ طَرْفَکَ عَنِ الْمَعْصِیَةِقَالَ:لاٰ۔
قَالَ(ع):فَمَا ا شْٔرَفْتَ عَلَیْھَا وَلاٰ شَرِبْتَ مِنْ مَائِھَا۔
پھرامام(ع) نے پوچھا :کیا تم چاہ زمزم پر گئے اور اس کا پانی پیا؟ شبلی :ھاں
امام (ع)نے فرمایا :کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم نے خدا کی فرماں برداری حاصل کر لی اور اس کے گناہوںاور معصیت سے آنکھیں بند کر لی ھیں؟شبلی:نھیں
امام (ع)نے فرمایا :پھر درحقیقت نہ تم چاہ زمزم پر گئے اور نہ اس کا پانی پیا ھے ”۔
ثُمَّ قَالَ لَہُ(ع):ا سَٔعَیْتَ بَیْنَ الصَّفَاوَالْمَرْوَةِ وَمَشَیْتَ وَتَرَدَّدْتَ بَیْنَھُمَا؟قَالَ:نَعَمْ۔
قَالَ لَہُ:نَوَیْتَ ا نَّٔکَ بَیْنَ الرَّجَاءِ وَالْخَوْفِ؟ قَالَ:لاٰ۔
قَالَ:فَمَاسَعَیْتَ وَلاٰمَشَیْتَ وَلاٰتَرَدَّدْتَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ۔ ثُمَّ قَالَ:ا خَٔرَجْتَ إِلٰی مِنیٰ؟ قَالَ :نَعَمْ،قَالَ: نَوَیْتَ ا نَّٔکَ آمَنْتَ
النَّاسَ مِنْ لِسَانِکَ وَقَلْبِکَ وَیَدِکَ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا خَرَجْتَ إِلٰی مِنًی۔
ثُمَّ قَالَ:لَہُ ا ؤَقَفْتَ الْوَقْفَةَ بِعَرَفَةَ،وَطَلَعْتَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ، وَعَرَفْتَ وَادِیَ نَمِرَةَ،وَدَعَوْتَ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ عِنْدَالْمِیْلِ
وَالْجَمَرَاتِ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:ھَلْ عَرَفْتَ بِمَوْقِفِکَ بِعَرَفَةَمَعْرِفَةَ اللّٰہِ سُبْحَانَہُ ا مَٔرَ الْمَعَارِف وَالْعُلُومِ وَعَرَفْتَ قَبْضَ اللّٰہِ عَلٰیصَحِیفَتِکَ وَ اطِّلاٰعَہُ عَلَی سَرِیرَ تِکَ وَقَلْبِکَ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ نَوَیْتَ بِطُلُوعِکَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ ا نَّٔ اللّٰہَ یَرْحَمُ کُلَّ مُو مْٔنٍ وَ
مُو مْٔنَةٍ وَیَتَوَلَّی کُلَّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ؟ قَالَ: لاٰ، قَالَ: فَنَوَیْتَ عِنْدَ نَمِرَةَ ا نَٔکَ لاٰ تَا مُٔرُ حَتَّی تَا تْٔمِرَ،وَلاٰ تَزْجُرُ حَتَّی تَنْزَجِرَ؟
قَالَ: لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَمَا وَقَفْتَ عِنْدَ الْعَلَمِ وَالنَّمِرَاتِ، نَوَیْتَ ا نَٔھَا شَاھِدَةٌ لَکَ عَلَی الطَّاعَاتِ حَافِظَةٌ لَکَ مَعَ الْحَفَظَةِبِا مَٔرِ رَبِّ
السَّمَاوَاتِ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا وَقَفْتَ بِعَرَفَةَ،وَلاٰ طَلَعْتَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ،وَلاٰ عَرَفْتَ نَمِرَةَ، وَلاٰدَعَوْتَ، وَلاٰ وَقَفْتَ عِنْدَ النَّمِرَاتِ۔
”پھرامام (ع) نے کیا تم نے دریافت کیا، صفاو مروہ کے درمیان سعی انجام دی اور پید ل ان دو پھاڑوں کےدرمیان راہ طے کی ھے ؟ شبلی :ھاں
امام (ع): کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خوف ورجاء کے درمیان راہ طے کر رھےھو؟شبلی:نھیں
امام (ع):پس تم نے صفاو مروہ کے درمیان سعی نھیں کی پھر فرمایا کیا تم منیٰ کی طرف گئے ؟شبلی:ھاں
امام (ع):کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ لوگوں کو اپنی زبان اپنے دل اور اپنے ھاتھوں سے امان میں رکھو؟شبلی:نھیں
امام (ع):پھر تم منیٰ نھیں گئےھو۔ اس کے بعد پوچھا :کیا تم نے عرفات میں وقوف کیا اور جبل رحمت کے
اوپر گئے اور وادی نمرہ کو پہچانااور جمرات کے کنارے خدا سے دعاکی ؟شبلی:ھاں
امام (ع)نے فرمایا:آیا عرفات میں وقوف کے وقت تمھیں معارف و علوم کے ذریعہ الله کی معرفتھوئی اور کیا تم نے جانا کہ الله تمھارے نامہ عٔمل کولے گا اور وہ تمھاری فکر و خیال سے آگاھی رکھتا ھے ؟شبلی:نھیں
امام :کیا جبل رحمت کے اوپر جاتے وقت تمھاری یہ نیت تھی کہ خداوند عالم ھر با ایمان مرد وزن پر رحمت
نازل کرتا ھے اور ھر مسلمان مردوزن کی سرپرستی کرتا ھے ؟شبلی:نھیں
امام :آیا وادی نمرہ میں تم نے یہ خیال کیا کہ کوئی حکم نہ دو جب تکخود فرمانبردار نہھوجاو أور نھی نہ کرو
جب تک خود کو نہ روکو؟ شبلی:نھیں
جب تم نشان اور نمرہ کے نزدیک ٹھھرے تو کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ وہ تمھاری عبادات اور طاعت پر گوا ہھوں اور خداوندعالم کے نگھبانوں کے ھمراہ اس کے حکم سے تیری حفاظت کریں؟ شبلی:نھیں
حضرت نے فرمایا:پھر نہ تم عرفات میں ٹھھرے نہ جبل رحمت کے اوپر گئے نہ نمرہ کو پہچانا نہ دعا کی اور نہ نمرہ کے نزدیک وقوف کیاھے۔
ثُمَّ قَالَ:مَرَرْتَ بَیْنَ الْعَلَمَیْنِ،وَصَلَّیْتَ قَبْلَ مُرُورِکَ رَکْعَتَیْنِ،وَمَشَیْتَ بِمُزْدَلِفَةَ، وَل قَطْتَ فِیھَا الْحَصَی،وَمَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ
الْحَرَامِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ :فَحِینَ صَلَّیْتَ رِکْعَتَیْنِ،نَوَیْتَ ا نََّٔھَا صَلاٰةُ شُکْرٍ فِی لَیْلَةِ عَشْرٍ،تَنْفِی کُلَّ عُسْرٍ، وَتُیَسِّرُ کُلَّ یُسْرٍ؟
قَالَ :لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَامَشَیْتَ بَیْنَ الْعَلَمَیْنِ،وَلَمْ تَعْدِلْ عَنْھُمَا یَمِیناً وَشِمَالاً،نَوَیْتَ ا نَْٔ لاٰ تَعْدِلَ عَنْ دِینِ الْحَقِّ یَمِیناً وَشِمَالاً،لاٰ
بِقَلْبِکَ،وَلاٰ بِلِسَانِکَ،وَلاٰبِجَوَارِحِکَ، قَالَ:لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَ مَا مَشَیْتَ بِمُزْدَلِفَةَ وَلَقَطْتَ مِنْھَا الْحَصَی،نَوَیْتَ ا نَّٔکَ رَفَعْتَ عَنْکَ
کُلَّ مَعْصِیَةٍ،وَ جَھْلٍ،وَثَبَّتَّ کُلَّ عِلْمٍ وَعَمَلٍ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا مَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ،نَوَیْتَ ا نَّٔکَ ا شَٔعَرْتَ قَلْبَکَ
إِشْعَارَ ا ۂَلِ التَّقْویٰ وَالْخَوْفَ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ؟ قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا مَرَرْتَ بِالْعَلَمَیْنِ،وَلاٰ صَلَّیْتَ رِکْعَتَیْنِ،وَلاٰ مَشَیْتَ بِالْمُزْدَلِفَةِ،وَلاٰرَفَعْتَ مِنْھَا الْحَصَی،وَلاٰ مَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۔
پھرامام نے پوچھا کہ کیا تم دونشانوں کے درمیان سے گذرے اور وھاں سے گذرنے سے پھلے دورکعت نمازاداکی اور پیدل مذدلفہ گئے اور وھاں کنکریاں چنیں اور مشعر الحرام سے گذرے؟شبلی:ھاں
امام نے فرمایا:جب دورکعت نماز اداکی تو کیا یہ نیت کی تھی کہ یہ نماز شب دھم کی نماز شکر ھے جو ھرسختی کو دور اور کاموں کو آسان کرتی ھے ؟ شبلی:نھیں
امام :جب تم دو نشانوں کے درمیان سے گذرے اور دائیں اور بائیں منحرف نھیںھوئے تو کیا یہ نیت کی تھی کہدین حق سے دائیں اور بائیں نہ دل سے نہ زبان سے اور نہ اپنے اعضاء بدن سے منحرف نھیں ھوئےھو؟شبلی:نھیں
امام :جب تم مذدلفہ گئے اور وھاں سنگریزے جمع کئے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ ھر گناہ اور جھالت کو خودسے دور کیاھے اور ھر علم و نیک عمل کو اپنے آپ میں پائےدار کیا ھے؟شبلی:نھیں
امام :جب تم مشعر الحرام سے گذرے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ اپنے دل کو اھل خدا کے تصور اور خدا کے خوف سے آراستہ کرو؟شبلی:نھیں
امام :پھر نہ تم دو پھاڑوں کے درمیان سے گذرےھو، نہ دورکعت نماز ادا کی ھے ،نہ مذدلفہ گئےھو ،نہ سنگریزے چنے ھیں اور نہ مشعر الحرام سے گذرےھو”۔
ثُمَّ قَالَ لَہُ:وَصَلَّتَ مِنٰی،وَرَمَیْتَ الْجَمْرَةَ، وَحَلَقْتَ رَا سْٔکَ، وَذَبَحْتَ ھَدْیَکَ،وَصَلَّیْتَ فِی مَسْجِدِ الْخَیْفِ،وَرَجَعْتَ إِلَی
مَکَّةَ،وَطُفْتَ طَوَافَ الْإِفَاضَةِ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:فَنَوَیْتَ عِنْدَ مَا وصَلْتَ مِنًی وَرَمَیْتَ الْجِمَارَ،ا نَّٔکَ بَلَغْتَ إلَی مَطْلَبِکَ،وَقَدْ
قَضَی رَبُّکَ لَکَ کُلَّ حَاجَتِکَ؟قَالَ:لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَ مَا رَمَیْتَ الْجِمَارَنَوَیْتَ ا نَّٔکَ رَمَیْتَ عَدُوَّکَ إِبْلِیسَ وَغَضِبْتَہُ بِتَمَامِ
حَجِّکَ النَّفِیسِ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا حَلَقْتَ رَا سْٔکَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ تَطَھَّرْتَ مِنَ الْا دَٔنَاسِ، وَمِنْ تَبِعَةِ بَنْی آدمَ،وَخَرَجْتَ مِنَالذَّنُوبِ کَمَا وَلَدَتْکَ ا مُٔکَ؟ قَالَ: لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا صَلِّیْتَ فِی مَسْجِدِ الْخَیْفِ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ لاٰ تَخَافُ إِلاَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّوَذَنْبَکَ،وَلاٰ تَرْجُو إِلاَّ رَحْمَةَ اللّٰہِ تَعَالیَ؟ قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا ذَبَحْتَ ھَدْیَکَ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ ذَبَحْتَ حَنْجَرَةَ الطَّمَع بِمَا تَمَسَّکْتَ بِہِ مِنْ حَقِیقَةِالْوَرَعِ،وَا نَّٔکَ اتَّبَعْتَ سُنَّةَ إِبرَاہِیمَ بِذَبْحِ وَلَدِہِ،وَثَمَرَةِ فُو أَدِہِ وَرَیْحَانِ قَلْبِہِ،وَحاَجَّہُ سُنَّتُہُ لِمَنْ بَعْدَہُ،
وَقَرَّبَہُ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ؟لِمَنْ خَلْفَہُ قَالَ:لاٰ، قَالَ: فَعِنْدَمَا رَجَعْتَ إِلَی مَکَّةَ وَطُفْتَ طَوَافَ الْإِ فَاضَةِ نَوَیْتَ ا نَّٔکَ ا فَٔضْتَ مِنْ
رَحْمَةِ ١للّٰہِ تَعَالَی،وَرَجَعْتَ إِلَی طَاعَتِہِ وَتَمَسَّکْتَ بِوُدِّہِ وَا دَّٔیْتَ فَرَائِضہ،وَتَقَرَّبَتَ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ: لَہُ زَیْنُ
العابدین(ع) فَمَا وَصَلْتَ مِنًی وَلاٰرَمْیَتَ الْجِمَارَ،وَلاٰحَلَقْتَ رَا سْٔکَ، وَلاٰ ا دَّٔیْتَ نُسُکَکَ،وَلاٰ صَلَّیْتَ فِی مَسْجِدِ الْخَیْفِ، وَلاٰ طُفْتَ طَوَافَ الْإِ فَاضَةِ،وَلاٰ تَقَرَّبْتَ۔اْرجِعْ فَإِنَّکَ لَمْ تَحُجَّ۔
”پھر امام (ع)نے پوچھا کیا تم منیٰ پہنچے اور جمرہ کو کنکریاں ماری ،سر کے بال اتارے،اور اپنی قربانی انجام دی؟ نیز مسجد خیف میں نماز ادا کی ، اور مکہ واپس آکر “طواف افاضہ انجام دیا ”؟شبلی:ھاں
امام (ع)نے فرمایا:جب تم منیٰ پہنچے اور رمی جمرات انجام دی تو کیا یہ محسوس کیا کہ تمھاری تمنا پوریھوگئی اور خدا وند عالم نے تمھاری تمام حاجتیں پوری کردیں ؟شبلی:نھیں
امام (ع):جب جمرات کو کنکریاں ماریں تو کیا یہ نیت تھی کہ اپنے دشمن ابلیس کو کنکری ماررھےھواور اپنےقیمتی حج کو مکمل کرنے کے ساتھ تم نے اسے غضب ناک کر دیا ھے؟شبلی:نھیں
امام(ع):جب تم نے اپنے سر کے بال اتارے توکیایہ نیت کی تھی کہ بنی آدم کے گناہوں اور آلودگیوں سے پاکھو گئے اور اپنے گناہوں سے یوںباھر آگئے جیسے تمھیں تمھاری ماں نے ابھی پیدا کیا ھے؟ شبلی:نھیں
امام (ع):جب تم نے مسجد خیف میں نماز ادا کی تو کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ خدا ئے متعال اور گناہوں کےعلاوہ کسی چیز سے نھیں ڈرتے اور خدا کی رحمت کے علاوہ کسی اور سے امیدوار نھیں ھو؟شبلی:نھیں
امام(ع):جب تم نے اپنی قربانی کو ذبح کیا تو کیا یہ نیت تھی کہ حقیقی تقویٰ وپرھیز گاری کے ذریعہ تم نے اپنی لالچ کا گلا کاٹ دیا ھے اور جناب ابراھیم (ع)کہ جنھوں نے اپنے میوہ دٔل اور لخت جگر بیٹے کو قربان گاہ میں لا کر خدا سے قرب حاصل کرنے کا ایک وسیلہ اپنے بعد کی نسلوں کے لئے سنت کے طور پر قائم کیا تھا،ان کی پیروی کر رھےھو؟ شبلی: نھیں
امام(ع) :جب تم مکہ واپسھوئے اور “طواف افاضہ” انجام دیاتو کیا یہ نیت کی تھی کہ خدا کی رحمت سے کوچ کر کے اس کی اطاعت کی طرف پلٹ رھےھو،اس کی محبت حاصل کر لی ھے الٰھی واجبات ادا کئے ھیں اور خدا سے نزدیکھو گئےھو؟ شبلی: نھیں
امام :پھر نہ تم منیٰ پہنچے ،نہ شیطانوں کوسنگریزے مارے ھیں،نہ اپنے سر کے بال اتارے ھیں،نہ اپنے حج کے اعمال انجام دیئے ھیں،نہ مسجد خیف میںنماز ادا کی ھے،نہ طواف بجا لائےھواور نہ خدا کے قرب میںپہنچےھوواپس جاو کٔہ تم نے حج انجام نھیں دیا ھے ۔
[ فَطَفِقَ الشِّبْلِیُّ یَبْکِی عَلَی مَافَرَّطَہُ فِی حَجِّہِ،وَمٰا زَالَ یَتَعَلَّمُ حَتَّی حَجَّ مِنْ قَابِلٍ بِمَعْرِفَةٍ وَیَقینٍ۔[ 93
”جنا ب شبلی اس با ت پر بُری طرح رونے لگے کہ جیسا حج کرناچاہئے تھا انجام نھیں دیا اور مناسک حج آگاھی کے ساتھ ادا نھیں کئے آپ اپنی حالت پر شدت سے غم زدہ تھے اور اس کے بعد سے حج کے اسرار ومعارف یاد کرنے میں مشغولھو ئے تاکہ اگلے سال پوری شناخت اور یقین کے ساتھ حج بجالائیں” ۔
ختم قرآن
قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع:(
تَسْبِیحَةٌ بِمَکَّةَ ا فَْٔضَلُ مِنْ خَرَاجِ الْعِرَاقَیْنِ یُنْفَقُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَقَالَ:مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ بِمَکَّةَ لَمْ یَمُتْ حَتَّی یَریٰ رَسُولَ اللّٰہِ
[ وَیَریٰ مَنْزِلَہُ فِی الْجَنَّةِ۔[ 94
امام زین العابدین (ع):نے فرمایا:
”مکہ میں سبحان الله کہنے کا ثواب عراق اور شام کے مالیات کو خدا کی راہ میں انفاق کرنے سے بھتر ھے،
نیز فرمایا:جو شخص مکہ میں ایک قرآن ختم کرے وہ اپنی موت سے پھلے حضرت رسول خدا (ص)کی زیارت کر لیتا ھے اور جنت میں اپنی جگہ کا مشاھدہ کر لیتا ھے ”َ
کعبہ سے وداع
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
[ إِذَا ا رَٔدْتَ ا نَٔ تَخْرُجَ مِنْ مَکَّةَ وَتَا تْٔیَ ا ھَٔلَکَفَوَدِّعِ الْبَیْتَ وَطُفْ بِالْبَیْتِ ا سُٔبُوعاً۔[ 95
معاویہ ابن عمار کھتے ھیں-کہ امام جعفر صادق ں نے فرمایا :
”جب تم مکہ سے نکل کر اپنے گھر والوں کی طرف واپس آنا چاہوتو کعبہ سے وداع کرو اور سات مرتبہ اس کے گرد طواف کرو”۔
قبولیت کی نشانی
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
[ آیَةُ قَبُولِ الْحَجِّ تَرْکُ مَا کَانَ عَلَیْہِ الْعَبْدُ مُقِیماً مِنَ الذُّنُوبِ۔[ 96
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حج کے قبولیت کی نشانی یہ ھے کہ جو گناہ بندہ پھلے انجام دیتا تھا اسے ترک کردے ”۔
حج کی نورانیت
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰہِ(ع)قَالَ:
[ الْحَاجُّ لاٰ یَزَالُ عَلَیْہِ نُورُ الْحَجِّ مَا لَمْ یُلِمَّ بِذَنْبٍ۔[ 97
امام جعفرصادق (ع)فرمایا:
”حج کرنے والا جب تک اپنے آپ کو گناہ سے آلودہ نہ کرے ، حج کا نورھمیشہ اس کے ساتھ رھتاھے”۔
دوبارہ آنے کی نیت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
[ مَنْ ا رَٔادَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةَ فَلْیَو مَُّٔ ھَذَا الْبَیْتَ،وَ مَنْ رَجَعَ مِنْ مَکَّةَ وَھُوَ یَنْوِی الْحَجَّ مِنْ قَابِلٍ زِیدَ فِی عُمُرِہِ۔[ 98
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص دنیا وآخرت چاھتا ھے وہ اس گھر کی طرف آنے کا قصد کرے اور جو شخص مکہ سے واپس ھو اوریہ نیت رکھے کہ اگلے سال بھی حج سے مشرفھوگا تو اس کی عمر میں اضافہ ھوتا ھے ’ ’ ۔
حج کی تکمیل
قالَ الصادِقُ(ع:(
”اِذاحَجَّ اَحَدُکُمْ فَلْیَخْتِمْ حَجَّہُ بِزِیارَتِنَا لِا نَّٔ ذٰلِکَ مِنْ تَمامِ الحَجِّ”۔[ 99
امام جعفر صادق (ع) اسماعیل ابن مھران سے فرماتے ھیں:
”جب بھی تم میں سے کوئی شخص حج انجام دے اسے چاہئے کہ اپنے حج کو ھماری زیارت پر تمام کرےکیونکہ یہ حج کے کاملھونے کی شرطوں میں سے ھے ”۔
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی زیارت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
[ مَنْ حَجَّ فَزٰارَ قَبْری بَعْدَ مَوْتی کَانَ کَمَنْ زٰارَنی فی حَیٰاتِی۔[ 100
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جس نے حج کیا اور میری موت کے بعد میری زیارت کی وہ اس شخصکے مانند ھے جس نے میری زندگی میں میر ی زیارت کی ھے”۔
پیغمبر (ص)کے ساتھ حج
”عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰہِ(ع) قَالَ:
[ إِنَّ زِیٰارَةَ قَبْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی الله علیہ و آلہ و سلم تَعْدِلُ حَجَّةً مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ مَبْرُورَةً۔[ 101
امام محمد باقر(ع) فرماتے ھیں:
”بلا شبہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم کے قبر کی زیارت (کاثواب (آنحضرت(ص) کے ساتھ کئے جانےوالے ایک مقبول حج کے برابر ھے ”۔
عاشقانہ زیارت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
مَنْ جٰاءَ نی زٰائِراً لایَعْمَلُہُ حٰاجَةً اِلاّٰ زِیٰارَتی، کَانَ حَقّاً عَلَیَّ اَنْ اَکُونَ لَہُ شَفیعاً یَوْمَ الْقِیٰامَةِ۔[ 102
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص میری زیارت کو آئے اور میری زیارت کے علاوہ کوئی اور کا م نہ کرے تو مجھ پر یہ حق ھےکہ میں روز قیامت اس کی شفاعت کروں” ۔
فرشتو(ع) کی ماموریت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالیٰ لَیْ مَلَکَیْنِ یَرُدَّانِ السَّلاٰمَ عَلٰی مَنْ سَلَّمَ عَلَیَّ مِنْ شَرْقِ البِلاٰدِ وَغَرْبِھٰا،اِلاّٰ مَنْ سَلَّمَ:
عَلَیَّ فی دٰاری فَاِنّی اَرُدُّ عَلَیْہِ السَّلاٰمَ بِنَفْسی۔[ 103
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے میرے لئے دو فرشتے خلق فرمائے ھیں کہ جو شخص بھی مشرق ومغرب میں مجھے سلامکرتا ھے اور مجھ پر درود بھیجتا ھے وہ اس کا جواب دیتے ھیں مگر جو شخص میرے گھر آتا ھے اور مجھے سلام کرتا ھے تو میں خودا س کے سلام کا جواب دیتاھو ں ”۔
مسجد النبی میں نماز
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
صَلاٰةٌ فِی مَسْجِدِی ھَذَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ عَشَرَةَ آلاٰ فِ صَلاٰةٍ فِیغَیْرِہِ مِنَ الْمَسَاجِدِإِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَإِنَّ الصَّلاٰةَ فِیہِ تَعْدِلُ مِائَةَ ا لَٔفِ صَلاٰةٍ۔[ 104
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میری مسجد میں نماز دوسری مسجدوں میں پڑھی جانے والی دس ہزار نمازوں کے برابر ھے سوائے مسجدالحرام کے کہ
اس میں پڑھی جانے والے نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ھے ”۔
جنت کا باغ
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص:(
مَا بَیْنَ قَبْرِی وَمِنْبَرِی رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِالْجَنَّةِ،وَمِنْبَرِی عَلَی تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ ۔[ 105
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے اور میرا منبر جنت کے دریچوں میں سے ایک دریچہ کے اوپر ھے ”۔
حضرت فاطمہ (ع)پرسلام
یزید ابن عبد الملک نے اپنے باپ سے سنا کہ اس کے دادا کھتے تھے کہ میں حضرت فاطمہ زھرا (ع) کی خدمت میں حاضرھواآپ (ع)نے مجھے سلام کیا اور اس کے بعد دریافت کیاکہ تم کس لئے یھاں آئےھو؟میں نے عرضکی،برکت کی درخواست کرنے ۔
قَالَتْ:ا خَٔبَرَنِی ا بَٔی وَھُوَ ذَا ھُوَ ا نَّٔہُ مَنْ سَلَّمَ عَلَیْہِ وَعَلَیَّ ثَلاٰثَہَ ا یَّٔامٍ ا ؤَجَبَ اللّٰہُ لَہُ الْجَنَّةَ۔
حضرت فاطمہ سلام الله علیھا نے فرمایا:
”میرے بابا نے مجھے خبر دی ھے کہ :جوشخص ان(ص)پر اور مجھ پرتین روز سلام کرے خدا وند عالم اس پر جنت واجب کردیتا ھے ”۔
[ قُلْتُ لَھَا:فِی حَیَاتِہِ وَحَیَاتِکِ قَالَتْ نَعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنَا۔[ 106
”میں نے حضرت (ع)سے پوچھا :ان کی اورآپ (ع) کی حیات میں ؟ فرمایا: ھاں اور ھماری موت کے بعد بھی
”۔
ائمہ (ع)پر سلام
قَالَ ا بَٔو جَعْفَرٍ(ع)،وَنَظَرَ النَّاسَ فِی الطَّوَافِ قَالَ:
ا مُٔرُوا ا نَٔ یَطُوفُوا بِھَذَا ثُمَّ یَا تُْٔونَافَیُعَرِّفوُنَا مَوَدَّتَھُمْ ثُمَّ یَعْرِضُوا عَلَیْنَا نَصْرَھُمْ”۔[ 107
امام محمد باقر (ع) نے،اس وقت جب کہ آپ لوگوں کوطواف کرتےھوئے دیکھ رھے تھے فرمایا:
”ان کو حکم دیا گیا ھے کہ یھاں (کعبہ کے گرد)طواف کریں اور اس کے بعد ھمارے پاس آئیں اور اپنی دوستی اور محبت و نصرت ومدد کا ھم سے اظھارکریں اوراسے ھمارے سامنے پیش کریں ”۔
شھیدوں پر سلام
عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
إِنَّ فَاطِمَةَ علیھا السلام کَانَتْ تَا تْٔی قُبُورَ الشُّھَدَاءِ فِی کُلِّ غَدَا__________ةِ سَبْتٍ فَتَا تْٔی قَبْرَ حَمْزَةَ وَ تَتَرَحَّمُ عَلَیْہِ وَتَسْتَغْفِرُ
[ لَہُ۔[ 108
امام جعفرصادق (ع)نے فرمایا:
”حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا:ھر سنیچر کی صبح کوشھیدا کی قبروں پر آتیں پھر جناب حمزہ کی قبر پرآتی تھیں اور ان کے لئے رحمت وبخشش کی دعا کر تی تھیں ” ۔
ائمہ (ع)کی زیارت
قَال الرضا(ع:(
إِنَّ لِکُلِّ اِمامٍ عَہْداً فی عُنُقِ اَوْلِیائِہِ وَشِیعَتِہِ
وَاِنَّ مِنْ تَمامِ الوَفاءِ بالعَھْدِ وَحُسْنِ الا دٔءِ زِیارَةُ قُبُورِھِمْ فَمَنْ زارَھُم رَغْبَةً فی زیارَتِھِمْ وَ تَصْدیقاً بِما رَغبوا فیہِ کانَ ائَٔمَّتُھُم شُفَعائَھُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ۔[ 109
امام علی رضا (ع) نے فرمایا:
”ھر امام (ع)کاعھدان کے دوستوں اور چاہنے والوں کی گردن پر ھے کہ اس عھد کی مکمل وفا ان کی قبروںکی زیارت ھے پس جو شخصعشق و محبت کے ساتھ اور اس کی تصدیق کے ساتھ جس کی طرف وہ رغبتکرتے ھیں ان کی قبروں کی زیارت کرے تو ان کے ائمہ (ع)بھی قیامت میں اپنے ان زائروں کی شفاعت کریں گے ”۔
مسجد قبا میں نماز
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ و آلہ و سلم:
[ الصَّلاٰةُ فی مَسْجِدِ قُبٰاءَ کَعُمْرَةٍ۔[ 110
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”مسجد قبامیں نماز پڑھنا ایک عمرہ انجام دینے کے مانند ھے ”۔
دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے سلو ک
زَیْدٌ الشَّحَّامُ عَنِ الصَّادِق(ع)،ا نَّٔہُ قَالَ:“یَا زَیْدُ خَالِقُوا النَّاسَ بِا خَٔلاٰقِھِمْ صَلُّوافِی مَسَاجِدِ ھِمْ وَعُودُوا مَرْضَاھُمْ وَاشْھَدُواجَنَائِزَ ھُمْ وَإِنْ اسْتَطَعْتُمْ ا نَٔ تَکُونُوا الْا ئَٔمَّةَ وَالمُو ذَّٔنِینَ فَافْعَلُوا فَإِنَّکُمْ إِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا ھَو لُٔاٰءِ الْجَعْفَرِیَّةُ رَحِمَ اللّٰہُجَعْفَراً مَا کَانَ ا حَٔسَنَ مَا یُو دَّٔبُ اصَٔحَابَہُ وَإِذَا تَرَکْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا ھَو لُٔاٰءِ الْجَعْفَرِیَّةُ فَعَلَ اللّٰہُ بِجَعْفَرٍ مَاکاَنَ ا سَْٔوَأَ
[ مَایُو دَّٔبُ اصَٔحَابَہُ۔[ 111
”امام جعفر صادق (ع)نے زید شحّام سے فرمایا :اے زید!خود کو لوگوں کے اخلاق سے ھماہنگ کرو ،ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو،ان کی مسجد وں میں نماز اداکرو،ان کے پیماروں کی عیا دت کرو،ان کے جنازوں کی تشییع میں حاضرھو،اور اگربن سکو تو ان کے امام جماعت یا موذن بنو۔ کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ لوگ یہ کھیں گے کہ یہ لوگ جعفری(حضرت جعفر بن محمد علیھما السلام کی پیروی کرنے والے )ھیں خدا وند عالم
جعفر (ره) پر رحمت نازل فرمائے اس نے ان لوگوں کی کیا اچھی تربیت کی ھے اور اگر ایسا نہ کروگے تو وہ لوگ کھیں گے کہ یہ جعفری ھیں ،خداوند عالم جعفر (ره)کے ساتھ ایسا ویسا کرے اس نے اپنے ماننے والوں کی کیا بُری تربیت کی ھے!!”۔
حاجیوں کا استقبال
عَنْ ا بِٔی عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
”کَانَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع) یَقُولُ:یَا مَعْشَرَ مَنْ لَمْ یَحُجَّ اسْتَبْشِرُوا بِالْحَاجِّ وَصَافِحُوھُمْ وَ عَظِّمُوھُمْ فَإِنَّ ذَلِکَ یَجِبُ عَلَیْکُمْ تُشَارِکُو ہُمْ فِی الْا جَٔرِ”۔[ 112
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”حضرت علی بن الحسین علیھما السلام ھمیشہ فرماتے تھے اے لوگو!جو حج پر نھیں گئےھو حاجیوں کےاستقبال کے لئے جاو ،ٔ ان سے مصافحہ کرو،اور ان کا حترام کرو کہ یہ تم پر واجب ھے اس طرح تم ان کے ثواب میں شریک ھوگے ”۔
حاجیوں کے اھل خانہ کی مدد کا ثواب
قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع):مَنْ خَلَفَ حَاجّاً
[ فِی ا ھَٔلِہِ وَمَالِہِ کاَنَ لَہُ کَا جَٔرِہِ حَتَّی کَا نَّٔہُ یَسْتَلِمُ الْا حَٔجَارَ۔[ 113
امام زین العابدین (ع) نے فرمایا:
”جو شخص حاجی کی عدم موجودگی میں اس کے اھل خانہ اور اس کے مال کی دیکھ بھال کرے تو اس کا ثواب اسی حاجی کے ثواب کے مانند ھے یھاں تک کہ گویا اس نے کعبہ کے پتھروں کو بوسہ دیا ھے ”۔
مبارک ھو
عَنْ یَحْیَی بْنَ یَسَارٍ قَالَ:حَجَجْنَا فَمَرَرْنَا بِا بَِٔی عَبْدِ اللّٰہِ(ع) فَقَالَ:
[ ”حَاجُّ بَیْتِ اللّٰہِ وَزُوَّارُ قَبْرِ نَبِیِّةِ صلی الله علیہ و آلہ و سلم وَشِیعَةُ آلِ مُحَمَّدٍ(ع) ھَنِیئاً لَکُمْ۔[ 114
یحییٰ بن یسار کھتے ھیں:
”ھم نے حج انجام دینے کے بعد امام جعفر صادق (ع) سے ملاقات کی، حضرت نے فرمایا:الله کے گھر کے حاجی قبر پیغمبر (ص) کے زائر اور شیعہ أٓل محمد(ص)(ھونا تمھیں )مبارک ھو”۔
١۔ / ٩۔تفسیر قمی: ۶٢ / 81 ]مستدرک الوسائل : ٣٢٣ ]
١۔ / 82 ]اخبار مکہ ارزقی: ٣٣٨ ]
۴۔ /۴٣۴/ 83 ]کافی: ٣ ]
٢١۶٨ ۔ /٢/ 84 ]من لایحضرہ الفقیہ: ٢٠٨ ]
١٣/ 85 ]علل الشریع: ۴٣٢ ۔وسائل الشیعہ: ۴۵٠ ]
٢۔ /۴١٧/ 86 ]من لایحضرہ الفقیہ: ٢٨۵۴ ]
٢۔ /۶٩٢/ 87 ]مسنداحمد حنبل : ٧١١١ ]
١١ ۔ /۴۵/ 88 ]معجم الکبیر طبرانی: ١١٠٢١ ]
۴۔ /٢۶٢/ 89 ]کافی: ۴٢ ]
٢۔ / ١۔کنز الفوائد : ٨٢ / 90 ]علل الشرایع: ۴٣٧ ]
١۴ ۔ / 91 ]وسائل الشیعہ: ١۶۶ ]
۵۔ /٢۴٣/ 92 ]تھذیب الاحکام : ٨٢٣ ]
١٠ ۔ / 93 ]مستدرک الوسائل : ١۶۶ ]
۵۔ /۴۶٨/ 94 ]تھذیب الاحکام: ١۶۴٠ ]
۵٣٠ ۔ /١/ 95 ]کافی: ۴ ]
١٠ ۔ / 96 ]مستدرک الوسائل: ١۶۵ ]
۴۔ /٢۵۵/ 97 ]کافی: ١١ ]
٢۔ /١۴١/ 98 ]من لایحضرہ الفقیہ: ۶۴ ]
١۔ / 99 ]علل الشرایع: ۴۵٩ ]
٣۔ /٣۵١/ 100 ]معجم الاوسط طبرانی: ٣٣٧۶ ]
١۴ ۔کامل الزیارات: ۴٧ ۔ / 101 ]وسائل الشیعہ: ٣٣۵ ]
١٢ ۔ /٢٢۵/ 102 ]معجم الکبیر طبرانی: ١٣١۴٩ ]
١٢ ۔ /٢۵۶/ 103 ]کنز العمال: ٣۴٩٢٩ ]
١۔ / ۴ - ،ثواب الاعما- ل ۵٠ /۵۵۶/ 104 ]کافی: ١١ ]
۴۔ /۵۵۴/ 105 ]کافی: ٣ ]
۶۔ /٩/ 106 ]تھذیب الاحکام: ١٨ ]
١٠ ۔ / 107 ]مستدر ک الوسائل : ١٨٩ ]
١۔ /۴۶۵/ 108 ]تھذیب الاحکام: ١۶٨ ]
۴۔ / 109 ]کافی: ۵۶٧ ]
٢ا/ ٣٢۴ ۔ / 110 ]سنن ترمذی: ۴۵ ]
١۔ / ٢ -، من لایحضرہ الفقیہ: ٣٨٣ / 111 ]وافی: ١٨٢ ]
۴۔ /٢۶۴/ 112 ]کافی: ۴٨ ]
١١ ۔ / ١، -وسائل الشیعہ : ۴٣٠ /١۴٧/ 113 ]محاسن : ٢٠۶ ]
۴۔ / 114 ]کافی: ۵۴٩ ]