ولى امر مسلمين و مرجع تقليد حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)
مقدمہ:
شرعاً حج سے مراد خاص اعمال كا مجموعہ ہے اور يہ ان اركان ميں سے ايك ركن ہے كہ جن پر اسلام كى بنياد ركھى گئي ہے جيسا كہ امام محمد باقر (ع) سے روايت ہے : "" بنى الاسلام على خمس على الصلوة و الزكاة و الصوم و الحج و الولاية"" اسلام كى بنياد پانچ چيزوں پر ركھى گئي ہے نماز ، زكات ، روزہ ، حج اور ولايت پر _
حج چاہے واجب ہو چاہے مستحب بہت بڑى فضيلت اور كثير اجر ركھتا ہے اور اسكى فضيلت كے بارے ميں پيغمبر اكرم (ص) اور اہل بيت (عليہم السلام) سے كثير روايات وارد ہوئي ہيں چنانچہ امام صادق (ع) سے روايت ہے:
""الحاج والمعتمر وفد اللہ ان سا لوہ اعطاہم وان دعوہ اجابہم و ان شفعوا شفعہم و ان سكتوا ابتدا ہم و يعوضون بالدرہم الف الف درہم ""
حج اور عمرہ كرنے والے اللہ كا گروہ ہيں اگر اللہ سے سوال كريں تو انہيں عطا كرتا ہے اور اسے پكاريں تو انہيں جواب ديتا ہے، اگر شفاعت كريں تو انكى شفاعت كو قبول كرتا ہے اگرچھپ رہيں تو از خود اقدام كرتا ہے اور انہيں ايك درہم كے بدلے دس لاكھ درہم ديئے جاتے ہيں_
وجوب حج كے منكر اور تارك حج كا حكم
حج كا وجوب كتاب و سنت كے ساتھ ثابت ہے اور يہ ضروريات دين ميں سے ہے اور جس بندے ميں اسكى آئندہ بيان ہونے والى شرائط كامل ہوں اور اسے اسكے وجوب كا بھى علم ہو اس كا اسے انجام نہ دينا كبيرہ گناہ ہے_
اللہ تعالى اپنى محكم كتاب ميں فرماتا ہے:
"وللہ على الناس حج البيت من استطاع اليہ سبيلا و من كفر فان اللہ غنى عن العالمين"
اور لوگوں پر واجب ہے كہ محض خدا كيلئے خانہ كعبہ كا حج كريں جنہيں وہاں تك پہنچنے كى استطاعت (قدرت) ہو اور جس نے با وجود قدرت حج سے انكار كيا تو ( ياد ركھئے كہ ) خدا سارے جہان سے بے پروا ہے_
اور امام صادق سے روايت ہے :
جو شخص دنيا سے اس حال ميں چل بسے كہ اس نے حجةالاسلام انجام نہ ديا ہو جبكہ كوئي حاجت اس كيلئے مانع نہ ہو يا ايسى بيمارى ميں بھى مبتلا نہ ہو جسكے ساتھ حج كى طاقت نہ ركھتا ہو اور كوئي حاكم ركاوٹ نہ بنے تو وہ يہودى يا نصرانى ہو كر مرے_
حج كى اقسام :
جو حج مكلف انجام ديتا ہے يا تو اسے اپنى طرف سے انجام ديتا ہے يا كسى اور كى طرف سے ۔ اس دوسرے كو ""نيابتى حج "" كہتے ہيں اور پہلا يا واجب ہے يا مستحب اور واجب حج يا بذات خود شريعت ميں واجب ہوتا ہے تو اسے ""حجة الاسلام"" كہتے ہيں اور يا كسى اور سبب كى وجہ سے واجب ہوتا ہے جيسے نذر كرنے كى وجہ سے يا حج كو فاسد كردينے كى وجہ سے ۔
اور حجة الاسلام اورنيابتى حج ميں سے ہر ايك كى اپنى اپنى شرائط اور احكام ہيں كہ جنہيں ہم پہلے باب ميں دو فصلوں كے ضمن ميں ذكر كريں گے۔
نيز حج كى تين قسميں ہيں تمتع ، افراد ، قران
حج تمتع ان لوگوں كا فريضہ ہے كہ جن كا وطن مكہ مكرمہ سے اڑتاليس ميل تقريباً نوے كيلوميٹر دور ہے اور حج افراد اور قران ان لوگوں كا فريضہ ہے كہ جن كا وطن يا تو خود مكہ ہے يا مذكورہ مسافت سے كم فاصلے پر اور حج تمتع ، حج قران و افراد سے بعض اعمال و مناسك كے اعتبار سے مختلف ہے اور اسے ہم دوسرے باب ميں چند فصول كے ضمن ميں بيان كريں گے۔