بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان کا اصلی نام ھند تھا اور وہ امیہ بن مغیرہ بن مخزوم کی بیٹی تھیں- عمر رضا نے اپنی گراں قیمت کتاب " اعلام النساء" میں اس محترمہ خاتون کی سوانح حیات بیان کی ہے اور کہتے ہیں کہ ان کے باپ کے نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ھند، سہل بن مغیرہ بن عبدا اللہ بن مخزوم یا عبدا للہ بن حذیفہ کی بیٹی تھیں- ابن سعد کہتے ہیں کہ ان کے باپ کا نام سہیل زاد الرکب بن مغیرہ تھا اور اسی لئے ان کا لقب" زاد الرکب" تھا- ان کے والد ایک فیاض شخص تھے اور جب سفر پر جاتے تھے، اگر ان کا ہم سفر محتاج ھوتا تو وہ اس کا زاد راہ برداشت کرتے تھے-
جناب ام سلمہ کے نام کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے- ان کا نام " رملہ" بھی کہا گیا ہے- ابن عبدالبر کے مطابق ان کا نام ھند ہے اور وہ کہتے ہیں کہ کئی علماء اسی نام کی تائید کرتے ہیں- {اعلام النساء، ج ۵، ص، ۲۲۱و ۲۲۲}
جناب ام سلمہ کی والدہ عاتکہ بنت عامر بن مالک تھیں- بعضوں نے عاتکہ کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھپھی بتایا ہے-{ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ ج ۱، ص ۵۹۴- طبع بیروت، ۱۴۰۷ھ}
" جناب ام سلمہ" کی والدہ ایک جلیل القدر، دانشور، شریف خاندان میں پلی ھوئی اور صاحب عقل و کمال خاتون تھیں- چونکہ اس خاتون نے سنہ ۶۳ھجری میں ۷۴ سال کی عمر میں وفات پائی ہے { بعض مورخین نے کہا ہے کہ انھوں نے ۹۰ سال کی عمر میں سنہ ۶۰ ھجری میں وفات پائی ہے }اس لئے وہ ھجرت کے نزدیک پیدا ھوئی ہیں- انھوں نے نوجوانی میں ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد سے ازدواج کی تھی- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسلام کی دعوت کا اعلان ھونے کے بعد جناب ام سلمہ نے اپنے شوہر کے ساتھ اسلام قبول کیا اور دونوں میاں بیوی مسلمان ھوئے-
ان کا ایک جانی دشمن، ان کا بھائی عبداللہ بن ابی امیہ تھا، جو جنگ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ھوا- چونکہ ام سلمہ اور ان کے شوہر ابو سلمہ کو مشرکین اور ان کے رشتہ داروں کی طرف سے ناقابل برداشت اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں، اس لئے انھوں نے سنہ ۵ھجری میں کچھ دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ ھجرت کی- ایک مدت کے بعد جب یہ خبر ملی کہ مشرکین مکہ کی طرف سے اذیت و آزار میں کمی واقع ھوئی ہے اور بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، تو ابو سلمہ اپنی بیوی کے ہمراہ مکہ لوٹے- حبشہ میں سلمہ نامی ان کا پہلا بیٹا پیدا ھوا-
مکہ پہنچنے کے بعد انھیں معلوم ھوا کہ یہ خبر جھوٹ تھی، اس لئے انھوں نے پھر سے حبشہ کی طرف ھجرت کی- حبشہ میں ایک مدت تک رہنے کے بعد پھر سے مکہ آگئے اور سنہ ۱۳ ھجری میں مدینہ {یثرب} کی طرف ھجرت کرنے کا فیصلہ کیا- لیکن بنی مخزوم " جناب ام سلمہ" اور ان کے بیٹے کی ھجرت کرنے میں رکاوٹ بنے، اس لئے، اس بار ابو سلمہ اکیلے ہی سفر پر نکلے- ایک مدت کے بعد قبیلہ بنی مخزوم نے کہا کہ " ام سلمہ" ھجرت کرسکتی ہیں، لیکن ان کا بیٹا ، چونکہ بنی مخزون قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے اسے جانے کی اجازت نہیں ہے- لیکن خاندان کے بعض افراد کی ثالثی اور سفارش کی بناپر ان کے فرزند کو بھی اجازت ملی اورجناب ام سلمہ اپنے بیٹے کے ھمراہ مدینہ {یثرب} کی طرف روانہ ھوئیں- جب جناب ام سلمہ مکہ سے باہر آگئیں تو، عثمان بن طلحہ عبدالدار سے ان کی ملاقات ھوئی، اور وہ بھی یثرب{ مدینہ} کی طرف جارہے تھے- ام سلمہ نے اپنے اونٹ کی لگام کو عثمان کے ہاتھ میں دے کر ان کے ہمراہ سفر کرنا قبول کیا- ام سلمہ کہتی ہیں کہ اس سفر میں ہم جس پڑاو پر پہنچتے تھے، تو عثمان میرے اونٹ کو بٹھا کر خود دور چلے جاتے تھے تاکہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ اونٹ سے نیچے اتر جاتی، اس کے بعد اونٹ کو باندھنے کے لئے پھر سے قریب آتے تھے- اور پھرسے سوار ھوتے وقت بھی ایساہی کرتے تھے- کہا جاتا ہے کہ وہ پہلی کجا وہ نشین مہاجر خاتون تھیں جو مدینہ میں داخل ھوئیں-
ابو سلمہ، عزوہ احد میں زخمی ھوئے اور ان ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ھوئے جمادی الثانی سنہ ۴ھجری کو درجہ شہادت پر فائز ھوئے- اگر چہ ابوسلمہ کی شہادت کا سنہ ۲ ھجری میں، جنگ بدر میں زخمی ھونے کے بعد بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن جس روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جناب ام سلمہ مدینہ میں داخل ھوتے وقت اپنے اکلوتے بیٹے سلمہ کے ہمراہ تھیں اور اس کے بعد ان کے ہاں ابو سلمہ سے عمر{ عمرو} ،زینب اور ذرہ نامی تین فرزند پیدا ھوئے، اور اگر یہ روایت صحیح ھوتو، ہمیں اس سلسلہ میں ابو سلمہ کی شہادت کے بارے میں پہلا قول قبول کرنا چاہئے-
تاریخ کی مختلف کتابوں میں آیا ہے کہ جناب ام سلمہ نے ابو سلمہ سے کہا کہ ہم دونوں میں سے جو بھی پہلے وفات پائے وہ دوسری شادی نہ کرے تاکہ بہشت میں بھی ہم ایک ساتھ ھوں، تو ابو سلمہ نے یہ دعا کی کہ میری وفات کے بعد" ام سلمہ" ایک ایسے شخص سے شادی کرے جو ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے اور ان کے ساتھ عدل و انصاف پر مبنی برتاو کرے- ابو سلمہ کی شہادت کے بعد پہلے، خلیفہ اول جناب ابو بکر نے پھر خلیفہ دوم جناب عمر بن خطاب نے ان سے ازدواج کرنے کی درخواست کی، لیکن ام سلمہ نے ان کی درخواست قبول نہیں کی- ان کےبعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی خواستگاری فرمائی کہ پہلے جناب ام سلمہ نے اس خواستگاری کو بھی قبول نہیں کیا- پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دوسری بار خواستگاری کے لئے کسی کو بھیجا تو جناب ام سلمہ نے یہ خواستگاری قبول کی اور اسی سال { اول یا دوم ھجری} کے ماہ شوال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں قرار پائیں- کہا جاتا ہے کہ جناب ام سلمہ نے اپنے بیٹے عمر سے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کا عقد پڑھیں، لیکن عمر کے کافی کم سن ھونے کی وجہ سے شاید یہ خبر صحیح نہ ھو یاکسی دوسرے عمر، من جملہ عمر بن خطاب نے خطبہ عقد پڑھا ھو- یایہ کہ جناب ام سلمہ کا بیٹا عمر مکہ یا حبشہ میں پیدا ھوا ھو اور اس طرح جس قول میں یہ کہا گیا ہے کہ جناب ام سلمہ اپنے اکلوتے بیٹے کے ہمراہ مدینہ میں داخل ھوئی ہیں، صحیح نہیں ہے-
جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا گیا کہ جناب ام سلمہ ایک صاحب کمال اور دانشور خاتون تھیں اور اسی وجہ سے بعض اوقات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بیویوں کی جانب سے مورد تجسس قرار پاتی تھیں-
ایک روایت میں آیا ہے کہ جناب فاطمہ خزاعیہ نے کہا ہے کہ:" ایک دن میں نے "عائشہ" سے سنا کہ انھوں نے کہا: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے- میں نے پوچھا: اب تک کہاں تھے؟ آپ {ص} نے فرمایا: " اے حمیرا" میں ام سلمہ کے پاس تھا- میں نے کہا کہ: کیا ام سلمہ سے سیر نہیں ھوتے ھو؟{ زہری، الطبقات الکبری، ج ۸، ص ۹۴}
کہاگیا ہے کہ سورہ حجرات کی آیت نمبر ۱۱ اس لئے نازل ھوئی ہے کہ " جناب حفصہ" اور " جناب عائشہ" ، جناب ام سلمہ کے پست قد اور لباس کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتی تھیں-
جناب ام سلمہ چند دوسری آیات کے نازل ھونے کا بھی محور تھیں - من جملہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۹۵ ہے کہ اس آیت کی شان نزول میں آیا ہے کہ ایک دن جناب ام سلمہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا: اے پیغمبر خدا؛ ہجرت کے سلسلہ میں کیوں مردوں کا نام لیا گیا ہے لیکن عورتوں کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیاگیا ہے؟ تو خداوند متعال نے اس کے جواب میں اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مذکورہ آیت نازل فرمائی-
جناب ام سلمہ فتح خیبر کے دن حاضر تھیں اور انھوں نے بعض خواتین سے مخاطب ھوکر کہا: کاش: خداوند متعال نے مردوں کے مانند ہم عورتوں پر بھی جہاد واجب قرار دیا ھوتا اور یہی اجر ہمیں بھی ملتا: تو سورہ نساء کی ۲۲ویں آیت نازل ھوئی-
آیہ تطہیر: "انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا"، جناب ام سلمہ کے ہی گھر میں نازل ھوئی ہے-
دوسرے قابل بیان نکات میں سے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عصر کے بعد اپنی بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور جناب ام سلمہ سے شروع کرتے تھے کیونکہ وہ سب سے بڑی تھیں اور جناب عائشہ پر اختتام فرماتے تھے، کیونکہ وہ سب سے چھوٹی تھیں-
جناب ام سلمہ، احادیث کی راویوں میں سے ہیں اور انھوں نے پیغمبر اسلام[ص]، حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اور ابی سلمہ سے روایتیں نقل کی ہیں- صحابیوں اور تابعین کی ایک بڑی تعداد نے ان سے کئی احادیث نقل کی ہیں- ان کی نقل کی گئ احادیث کی تعداد ۳۷۸ ہے- صحیحین میں ان سے صرف ۲۹ حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور طبرانی نے مختلف راویوں سے ۵۱۸ حدیثیں نقل کی ہیں، جنھیں ان راویوں نے جناب ام سلمہ سے نقل کیا ہے- جناب ام سلمہ کے بلند مقام و منزلت اور طولانی عمر کے پیش نظر، ان سے زیادہ احادیث نقل ھونی چاہئے تھیں ، لیکن ان کی حق گوئی، معاویہ سے مخالفت اور علی علیہ السلام اور اہل بیت [ع]کی طرفداری اور غدیر کی بیعت کی یاد دہانی کرانے کی وجہ سے بعد میں ان سے احادیث نقل کرنے میں بائیکاٹ کیا گیا ہے-
جناب ام سلمہ بہت سے عزوات میں من جملہ حدیبیہ، خیبر، فتح مکہ، ھوازن، ثقیف، طائف، اور حجتہ الوداع میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھیں- صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکید کے باوجود قربانی اور حلق کرنے سے اجتناب کرتے تھے- جب اس سلسلہ میں جناب ام سلمہ کی رائے معلوم کی گئی تو انھوں نے تجویز پیش کی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ تاکید کئے بغیر خود قربانی اور حلق انجام دیں- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور اس پر عمل کیا اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بھی قربانی اور حلق کیا-
ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ جناب ام سلمہ صاحب رائے، مفکر اور حق گو تھیں- خلفائے ثلاثہ کے ۲۵ سالہ دور کے زمانے میں اگر جناب ام سلمہ کبھی مصلحت سمجھتیں تو خلفاء کی نصیحت کرتی تھیں- انھوں نے { جناب عمار کے خلیفہ سوم کو اپنا نظریہ پیش کرنے کے سلسلہ میں} خلیفہ سوم کو کچھ تذکرات کا اعلان کیا ہے- { اعلام النساء، ج ۵،ص ۲۲۴}
جناب ام سلمہ نے جناب عائشہ کے نام ایک خط لکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کی یاد دہانی کرکے، انھیں بصرہ کی طرف روانہ ھونے سے رو کرنے کی کوشش کی ہے-
ام المومنین جناب ام سلمہ نے معاویہ کے زمانے میں بھی حضرت علی علیہ السلام کی حمایت کی اور ایک خط میں معاویہ کو لکھا کہ خدا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی علیہ السلام کے دوست ہیں- جان لو کہ علی علیہ السلام پر لعنت بھیجنا، رسول اللہ پر لعنت بھیجنا ہے اور علی علیہ السلام کو اذیت و آزار پہنچنا رسول اللہ کو اذیت و آزار پہنچنا ہے-{ اعلام النساء، ج ۵، ص ۲۲۵}
جناب ام سلمہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ {ص} نے فر مایا: "جو علی کو دوست رکھے اس نے مجھے دوست رکھا ہے اور جو مجھے دوست رکھے اس نے خدا کو دوست رکھا ہے اور جو علی کے بارے میں کینہ رکھے اس نے میرے بارے میں کینہ رکھا ہے اور میرے بارے میں کینہ رکھنا خدا سے کینہ رکھںا ہے"{ مجمع الزوائد، ج ۹، ص ۱۳۲۰} اس کے علاوہ اس خاتون سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: "جو علی کو دشنام دے، اس نے مجھے دشنام دیا ہے- "جناب ام سلمہ نے معاویہ کے نام اپنے خط میں اسی حدیث سے استناد کرکے اشارہ کیا تھا-
جناب ام سلمہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک پیشنگوئی نقل کی گئ ہے، ذیل میں ہم اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں: انھوں نے روایت نقل کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:" جبرئیل امین نے مجھے خبردی ہےکہ میرے نواسے حسین علیہ السلام سر زمین عراق میں قتل کئے جائیں گے- میں نے جبرئیل سے کہا: اس سر زمین کی مٹی مجھے دکھانا جس پر میرے حسین علیہ السلام قتل کئے جائیں گے- جبرئیل گئے اور ایک مٹی لے آئے اور کہا کہ یہ مقتل کی مٹی ہے-"{ البدایہ و النہایہ، ج ۸، ص ۱۹۶ تا ۲۰۰، کنزالعمال، ج ۱۲، ص ۱۲۶، ح ۳۴۳۱۳}
ایک اور روایت میں جناب ام سلمہ سے نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے انسوجاری تھے ، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم؛ آج کیا ھوا ہے کہ آپ {ص} کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں؟ آپ {ص} نے فرمایا کہ ابھی ابھی جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ آپ {ص}کی امت آپ کے فرزند حسین علیہ السلام کو کربلا نامی ایک سر زمین پر قتل کرے گی"{ المعجم الکبیر، ج ۳، ص ۱۰۹، ح ۲۸۱۹}
حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بھی ایک روایت نقل کی گئی ہے: " جناب ام سلمہ سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا:" حسین بن علی سنہ ۶۰ ہجری کے اواخر میں شہید کئےجائیں گے-"{ مجمع الزوائد ، ج ۹، ص ۱۹۰،بقول طبرانی دارلاوسط}
حسین بن علی علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بیان کی گئی پہلی روایت کو جاری رکھتے ھوئے جناب ام سلمہ نے کہا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: " اے ام سلمہ؛ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ھو جائے اس وقت جاننا کہ میرا نواسا قتل کیا گیا ہے"- جناب ام سلمہ نے اس مٹی کو ایک بوتل میں رکھا اور ہر دن اسے دیکھ کر فرماتی تھیں:" اے مٹی؛ جس دن تم خون میں تبدیل ھو جاوگی وہ ایک عظیم دن ھوگا-"{ خصائص الکبری، ج ۲، ص ۱۲۵- المعجم الکبیر طبرانی، ج۳،ص ۱۰۸}
سنن ترمذی کے " ابواب مناقب" میں آیا ہےکہ جناب ام سلمہ{س} نے سنہ ۶۱ ہجری کے عاشورا کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور اس سلسلہ میں فرماتی ہیں: " ظہر کے بعد کا وقت تھا، میں سوئی ھوئی تھی، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے- آپ {ص} رو رہے تھے اور آپ {ص} کی چشمان مبارک سے آنسو جاری تھے اور آپ{ص} کا سر مبارک اور ریش مبارک خاک آلود تھے- میں نے پوچھا: یا رسول اللہ؛ آپ {ص} کیوں اس حالت میں ہیں؟ میرے مولا نے روتے ھوئے فر مایا: ام سلمہ؛ میں اس وقت حسین علیہ السلام کی قتل گاہ { کربلا} سے آرہاھوں اور حسین علیہ السلام کی شہادت کا منظر دیکھ کر آرہا ھوں-"
اس روایت کو جاری رکھتے ھوئے ترمذی نے بیان کیا ہے کہ: اس کے بعد جناب ام سلمہ اس بوتل کو دیکھنے کے لئے گئیں جس میں خاک کربلا تھی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے امانت کے طور پر دیا تھا- اور انھوں نے مشاہدہ کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمائش کے مطابق یہ مٹی خون میں تبدیل ھوچکی تھی" { کتاب ذبح عظیم ص ۱۰۵ و ۱۰۶ سے اقتباس}
ام المومنین جناب ام سلمہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ بیوی تھیں جنھوں نےسب سے آخر پر وفات پائی ہے- ان کی وفات کا سال اختلاف کے ساتھ سنہ ۵۹ سے ۶۳ ھجری تک بتایا گیا ہے- لیکن جو کچھ سنی اورشیعہ روایتوں میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ جناب ام سلمہ سنہ ۶۱ ھجری کے واقعہ کربلا کے وقت زندہ تھیں اور حضرت ابا عبداللہ الحسین کے لئَے عزاداری کی ہے- اس محترمہ خاتون کو قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا ہے-
تدوین: سید عبدالحسین رئس السادات