بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب حفصہ کے والد عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی تھے اور ان کی والدہ زینب بنت مظعون یعنی عثمان بن مظعون کی بہن تھیں-
جناب حفصہ اس زمانہ میں پیدا ھوئی ہیں، جب قریش، کعبہ کی تعمیر نو میں مصروف تھے- مذکورہ واقعہ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پانچ سال قبل رونما ھوا ہے- یہ وہ زمانہ تھا، جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے درمیان کعبہ کی تعمیر جدید کے دوران حجرالاسود کو نصب کرنے کے سلسلہ میں پیدا ھوئے اختلافات کو اپنی غیر معمولی تدبیر، بصیرت اور حکمت عملی سے حل فرمایا-
خنیس بن خذافہ سے ازدواج:
جب جناب خفصہ بالغ ھوئیں، تو خنیس بن خذافہ نامی ایک متدین و مومن مسلمان نے ان کے ساتھ ازدواج کی- ان دو کی ازدواج کے کچھ مدت بعد مشرکین مکہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں اور صحابیوں کو اذیت و آزار پہنچانے میں شدت بخشی، یہاں تک کہ اس اذیت و آزار میں شدت پیدا ھونے کی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابیوں سے فرمایا کہ حبشہ ھجرت کریں- جن افراد نے سرزمین حبشہ کی طرف ھجرت کی اور اس کے بعد پھر مکہ لوٹے، ان میں خنیس بن خذافہ بھی تھے- مشرکین مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر اذیت و آزار کا سلسلہ روزبروز شدت اختیار کرتا جارہا تھا- خنیس بن خذافہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے کچھ صحابیوں اور اپنی شریک حیات جناب حفصہ کے ھمراہ یثرب{ مدینہ منورہ} کی طرف ھجرت کی- اس کے بعد یہ دونوں میاں بیوی رسول خدا {ص} کے دوسرے انصار کے ساتھ شہر مدینہ میں رہائش پذیر ھوئے کہ رسول خدا {ص} کی مدینہ ھجرت کرنے کے بعد آرام و اطمنان سے زندگی بسر کرنے لگے-
خنیس کی شہادت اور جناب حفصہ کی جدائی کے ایام:
جنگ بدر میں اذن الہی سے مسلمانوں کو فتح و نصرت حاصل ھوئی، اس میدان کارزار کے ایک سورما، خنیس بن خذافہ تھے، اس جنگ میں شدید طور پر زخمی ھونے کے باوجود خنیس لڑتے رہے- عزوہ بدر کے اختتام کے بعد خنیس بن خذافہ کو زخمی حالت میں مدینہ منورہ لایا گیا-
پیغمبر اسلام{ص} کے یہ عظیم صحابی، مدینہ منورہ میں ایک مدت کے بعد، جنگ بدر میں ان پر وارد ھوئے شدید زخموں کی تاب نہ لاکر اس دار فانی کووداع کرگئے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد ان کو قبرستان بقیع میں عثمان بن مظعون کے پاس سپرد خاک کیا گیا-
رسول خدا{ص} سے جناب حفصہ کی ازدواج:
جناب عمر بن خطاب، اپنی بیٹی کے بیوہ ھونے اور ان کے رنج و مصیبت کا مشاھدہ کرنے کے بعد اس فکر میں لگ گئے کہ عدت تمام ھونے کے بعد ان کے لئے کسی مناسب شخص کو شوہر کے عنوان سے منتخب کریں-
جناب عمر نے پہلے جناب ابو بکر کی طرف رجوع کیا، اور ان کی خدمت میں اپنی بیٹی سے ازدواج کرنے کی تجویز پیش کی- لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا، اس کے بعد انھوں نے جناب عثمان بن عفان کی خدمت میں جاکر اپنی بیٹی سے ازدواج کرنے کی تجویزپیش کی- لیکن انھوں نے جواب میں کہا: "میں ان دنوں ازدواج کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ھوں-"
جناب عمر بن خطاب مذکورہ دو واقعات سے دل تنگ ھونے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوئے اور آپ {ص} کو یہ داستان سنائی- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب عمر کی باتیں سننے کے بعد جواب میں فرمایا: « يتزوج حفصة من هو خير من عثمان ويتزوج عثمان من هي خير من حفصة » :" "حفصہ کے ساتھ عثمان سے بہتر شخص ازدواج کرے گا اور حفصہ سے بہتر عورت عثمان سے ازدواج کرے گی،" اور اس کے بعد پیغمبر اسلام {ص} نے اپنے لئے حفصہ کی خواستگاری کی-
اس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےھجرت کے تیسرے سال ماہ شعبان میں ان کے ساتھ ازدواج کی اور جناب حفصہ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات بننے کا شرف حاصل ھوا-
اس کے بعد عثمان بن عفان نے ان کی بیوی رقیہ بنت رسول خدا {ص] کی وفات کے بعد رقیہ کی بہن کلثوم سے شادی کی-
نسوانی برتاو:
قابل بیان ہے کہ بعض اوقات، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے درمیان حسد پیدا ھوتا تھا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان مسائل کو حکمت عملی اور پیار و محبت سے حل فرماتے تھے-
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک کنیز تھیں، جن کا نام ماریہ قبطیہ تھا، اس کنیز کو مصر کے بادشاہ نے تحفہ کے طور پر آنحضرت {ص} کی خدمت میں بھیجا تھا اور اسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات بننے کا شرف حاصل ھوا تھا، اس لئے بعض اوقات پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویاں جناب ماریہ قبطیہ سے حسد کرتی تھیں-
اس سلسلہ میں انس سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ جناب عائشہ اور جناب حفصہ کی مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں آنحضرت{ص} نے اس کنیز{ ماریہ قبطیہ} کو اپنے اوپر حرام قرار دیا- اس کے بعد خداوند متعال نے آنحضرت{ص} پر یہ آیہ شریفہ نازل فرمائی: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ » (التحريم: 1" پیغمبر، آپ اس شے کو کیوں ترک کر رہے ہیں جس کو خدا نے آپ کے لئے حلال کیا ہے؟ کیا آپ ازواج کی مرضی کے خواہشمند ہیں؟ اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے-"
احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام { ص} نے ایک بار حفصہ کو طلاق دیدی لیکن پیغمبر رحمت نے دوبارہ رجوع کیا اور اس طلاق سے منصرف ھوئے-
اس واقعہ کے بعد جناب حفصہ بھی اپنی کارکردگی پر پشیمان ھوئیں اور اس کے بعد پیغمبر اسلام {ص} کے حکم کے تابع رہیں-
مشہور ہے کہ جناب حفصہ دن کو روزے رکھتی تھیں اور رات کو عبادت میں شب بیداری کرتی تھیں اور پیغمبر اسلام کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کوششیں کرتی تھیں اور اس کے علاوہ پیغمبر اسلام {ص} سے علم فقہ بھی سیکھتی تھیں-
جناب حفصہ کا علم و فقہ:
جناب حفصہ، حافظ قرآن تھیں اور انہوں نے پیغمبر اسلام {ص} سے بہت روایتیں نقل کی ہیں- ان سے ساٹھ احادیث روایت کی گئی ہیں کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ان میں سے تین احادیث کو متفقہ طور پر نقل کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ صحیح مسلم میں ان سے چھ احادیث الگ سے نقل کی گئی ہیں-
جناب حفصہ کے علم، فقہ اور تقوی کے بارے میں عام شہرت تھی اور ان کا علمی مقام، خلفائے راشدین، خاص کر ان کے والد کے زمانے میں واضح اور زبان زد عام و خاص تھا اور اکثر مواقع پر جناب عمر بن خطاب ان کے فقہی نظریات پر تکیہ کرتے تھے-
ام المومنین جناب حفصہ، احادیث نبوی کے سلسلہ میں بہت سے صحابیوں کے سوالات کا جواب دیتی تھیں اور یہاں تک کہ ان کے بھائی، عبداللہ بن عمر ان سے علم حاصل کرنے میں استفادہ کرتے تھے-
جناب ابو بکر کے زمانہ میں جب قرآن مجید کی کتابت کی گئی، تو انھوں نے جناب حفصہ کو اس کی حفاظت کے لئے منتخب کیا-
جناب حفصہ، مال دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں اور اپنے باپ کی خلافت کے زمانہ میں کسی تغییر کے بغیر زاہدانہ زندگی گزارتی تھیں-
جب جناب عثمان بن عفان کے قتل کا حادثہ پیش آیا، اور عائشہ نے حفصہ سے کہا کہ جناب عثمان کے خون کا انتقام لینے کے لئے ان کے ساتھ باہر نکلیں تو جناب حفصہ نے جناب عائشہ کی تائید کی، لیکن ان کے بھائی، عبداللہ بن عمر نے انھیں باہر نکلنے سےمنع کیا، اس بنا پر جناب حفصہ نے اپنے بھائی کی اطاعت کی اور گھر سے باہر نہ نکلیں- جناب حفصہ ہمیشہ اپنے بھائی، عبداللہ بن عمر کی خیر خواہی کا اعتراف کرتی تھیں-
ام المومنین جناب حفصہ، سرانجام، سنہ ۴۵ ھجری میں ضعیف اور کمزور ھوگئیں اور اسی ضعف و کمزوری کی وجہ سے اسی سال اس دارفانی کو وداع کرگئیں-
مدینہ مورہ کےاس وقت کے گورنر، مروان بن حکم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد ان کے جنازہ کو ان کے بھائی عبداللہ و عاصم نے قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا-