ام حبیبہ، پیغمبر اسلام {ص} کی ایک شریک حیات تھیں- ام حبیبہ، ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف کی بیٹی تھیں- اکثر مورخین اور ماہرین انساب کے مطابق ام حبیبہ، " رملہ" کے نام سے مشہور تھیں- وہ پیغمبر اسلام {ص} کی بعثت سے سترہ سال قبل مکہ میں پیدا ھوئی ہیں-
ان کی والدہ کا نام صفیہ تھا، جو ابی العاص بن عبدالشمس بن عبد مناف کی بیٹی اور جناب عثمان بن عفان کی پھپھی تھیں- "رملہ" نے پیغمبر اسلام {ص} کی بعثت سے قبل عبیداللہ بن جحش اسدی، یعنی پیغمبر اسلام {ص} کی بیوی جناب زینب بنت جحش کے بھائی سے ازدواج کی تھی- پیغمبر اکرم {ص} کی بعثت کے بعد " رملہ" اور عبیداللہ ان پہلے افراد میں شامل تھے- جنھوں نے آنحضرت {ص} پر ایمان لایا اور اسلام قبول کیا-
جناب ام حبیبہ، خدا اور اس کے رسول {ص} کو دوسری تمام چیزوں پر ترجیح دیتی تھیں اور کفر و شرک کے بارے میں ایسے پرہیز اور نفرت کرتی تھیں، جیسے کوئی شخص آگ میں گرنے سے اپنے آپ کو بچاتا ہے-
ابو سفیان ہرگز ذہنی طور پر یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ قریش میں سے کوئی شخص سر اٹھاکر اس کے مقابلے میں کھڑا ھونے کی جرات کرے اور اس کے دستورات کی سرپیچی اور نافرمانی کرے اور اہم و بنیادی مسائل میں اس کے خلاف بغاوت کا اعلان کرے-
ابو سفیان، مکہ کا سردار تھا، سب لوگ اس کے دستورات کی اطاعت کرتے تھے- اس کی بیٹی نے خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لایا تھا اور جن خداوں پر ان کا باپ ایمان رکھتا تھا، ان کی وہ کھلم کھلا مخالفت کرتی تھیں-
جناب ام حبیبہ، نے دل و جان سے اسلام کو قبول کیا تھا- بعض کہتے ہیں کہ چونکہ ان کے شوہر، عبیداللہ نے ایمان لایا تھا، اس لئے " رملہ" نے بھی اسی وجہ سے اسلام قبول کیا تھا، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے، بلکہ انھوں نے اپنی مرضی اور دل و جان سے اسلام کو قبول کیا تھا- اس امر کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے اس وقت اسلام کو قبول کیا ہے، جب دین اسلام، بنی امیہ، خاص کر ان کے باپ ابوسفیان کی طرف سے زبردست دشمنی اور دباو سے دوچار تھا-
" رملہ" اور ان کے شوہر، عبیداللہ بن جحش نے ایک ساتھ خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لایا اور پیغمبر اسلام {ص} کی رسالت کی تصدیق کی اور اسے قبول کیا-
ابوسفیان نے اپنی بیٹی اور داماد کو دوبارہ اپنے آبا و اجداد کے دین کی طرف پلٹنے کے لئے سرتوڑ کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ھوا-
جس ایمان نے " رملہ" کے دل میں جڑ پکڑا تھا اور اس کے پورے وجود کو تسخیرکرچکا تھا، وہ اس قدر مضبوط اور مستحکم تھا کہ ابوسفیان کی دشمنی اور خصومت اسے ہلا نہیں سکتی تھی- اس لئے " رملہ" کا اسلام قبول کرنا ابوسفیان کے لئے پریشان کن تھا- کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو اپنے تابع اور کنٹرول میں لاکر اپنی مرضی کے مطابق پرورش نہیں کرسکا تھا اور وہ اسے حضرت محمد {ص} کی پیروی کرنے سے روک نہیں سکا تھا، اس لئے وہ اپنے قبیلہ، قریش میں سر بلندی کے ساتھ رئیس ھونے کا دعوی نہیں کرسکتا تھا-
قریش والوں کو جب معلوم ھوا کہ ابوسفیان اپنی بیٹی " رملہ" اور ان کے شوہر سے راضی نہیں ہے اور ان کی جانب سے کافی گستاخی کی وجہ سے بہت ناراض ہے تو انھوں نے بھی " رملہ" اور ان کے شوہر پر زبردست دباو ڈالا اور انھیں اس قدر جسمانی اذیت و آزار پہنچایا کہ ان کے لئے مکہ میں زندگی گزارنا نا ممکن بن گیا-
اس لحاظ سے جوں ہی پیغمبر اسلام {ص} نے مسلمانوں کو حبشہ ھجرت کرنے کی اجازت دیدی، تو " رملہ" ان کے چھوٹے بچے " حبیبہ" اور ان کے شوہر، عبیداللہ بن جحش بھی مہاجروں کے کاروان میں شامل ھوکر خدا اور اپنے دین و عقیدہ کی حفاظت کے لئے حبشہ کی طرف ھجرت کرگئے اور نجاشی کی پناہ میں قرار پائے-
اس کے بعد ابوسفیان اور مکہ میں قریش کے دوسرے بزرگ آرام و سکون سے نہیں بیٹھے، کیونکہ ان کے لئے یہ بہت مشکل امر تھا کہ مسلمان آسانی کے ساتھ ان کے چنگل سے آزاد ھوکر حبشہ میں اطمینان کا سانس لیں-
اس لئے انھوں نے اپنے نمائندوں کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی طرف روانہ کیا تاکہ انھیں مسلمانوں کے خلاف اکسائیں اور ان سے درخواست کریں کہ مسلمانوں کو ان کے حوالہ کردیں اور اس کے ساتھ نجاشی کو یہ بھی کہہ دیں کہ یہ لوگ حضرت عیسی{ع} اور ان کی ماں حضرت مریم {ع} کے بارے میں اچھا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں، تاکہ نجاشی کے لئے ناراضگی کا سبب بنے-
مشرکین مکہ کے نمایندوں کی نجاشی سے ملاقات اور پیغام پہنچانے کے بعد، نجاشی نے مہاجرین کے بزرگوں کو اپنے دربار میں بلایا اور ان سے چاہا تاکہ اپنے دین کی حقیقت بیان کریں اور حضرت عیسی{ع} اور ان کی ماں حضرت مریم {ع} کے بارے میں اپنا اعتقاد ظاہر کریں- اس کے علاوہ نجاشی نے ان سے کہا کہ ان کے پیغمبر کے قلب پر وحی ھونے والی قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت بھی کریں –
مہاجرین کے بزرگوں نے نجاشی کے سامنے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن مجید کی چند آیات کی ان کے سامنے تلاوت کی- ان حقائق اور قرآن مجید کی آیات کو سننے کے بعد نجاشی نے اتنا رویا کہ ان کی داڑھی تر ھوگئ اور اس کے بعد مسلمانوں سے مخاطب ھوکر کہا:" بیشک جو آپ کے پیغمبر حضرت محمد {ص} پر نازل ھوا ہے اور جو کچھ حضرت عیسی بن مریم {ع} پر نازل ھوا ہے اس کا سرچشمہ ایک ہی ہے"-
اس کے بعد نجاشی نے خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کا اعلان کیا اور حضرت محمد مصطفے {ص} کی رسالت اور نبوت کی تصد یق و تائید کی-
قابل ذکر بات ہے کہ نجاشی کے دوسرے حکام اور کمانڈروں نے اسلام قبول نہیں کیا اور وہ اپنے ہی دین، یعنی عیسائیت پر باقی رہے، لیکن اس کے باوجود نجاشی نے مسلمان مہاجرین اور پناہ گزینوں کی حمایت کا اعلان کیا-
جناب ام حبیبہ خیال کرتی تھیں کہ درد و رنج کا زمانہ ختم ھوگیا ہے اور آرام و آسائش کا وقت پہنچ گیا ہے- وہ خیال کرتی تھیں کہ اس نے جن مشکلات اور مصائب و آلام سے بھرے راستہ کو طے کیا ہے، اس نے سر انجام اسے ایک ایسی سر زمین پر پہنچا دیا ہے جو امن و آمان کی سرزمین ہے، انھیں ایسا خیال کرنے کا حق تھا، کیونکہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کی تقدیر نے کونسا رخ اختیار کیا ہے-
خداوند متعال کی حکمت یہ تھی کہ جناب ام حبیبہ کو آرام و آسائش کے ماحول میں بھی سخت ترین امتحانات اور آزمائشوں میں قرار دے، ایسی آزمائشیں، جن میں سے چالاک اور عقلمند مرد بھی ممکن ہے کامیابی سے باہر نہ آسکیں- لیکن سرانجام منشائےالہی یہی تھا کہ جناب ام حبیبہ اس امتحان کو کامیابی اور سرفرازی کے ساتھ پاس کرے-
ایک رات کو جب جناب ام حبیبہ بسترہ پر لیٹی تھیں، ان پر نیند طاری ھوئی، سپنے میں دیکھا کہ ان کا شوہر عبیداللہ بن جحش ایک سمندر کی طوفانی لہروں کی لبیٹ میں آگیا ہے اور اس کے چاروں طرف تاریکی چھائی ھوئی ہے اور وہ ایک بری حالت میں گرفتار ھوا ہے- جناب ام حبیبہ اچانک نیند سے بیدار ھوئیں، خوف و وحشت اور اضطراب میں دوچار ھوئی تھیں اور وہ اس خواب کے بارے میں اپنے شوہر یا کسی دوسرے شخص کو آگاہ کرنا چاہتی تھیں-
لیکن جلدی ہی یہ خواب شرمندہ تعبیر ھوا، اسی رات کے گزرنے کے بعد دن کو عبیداللہ نے اپنے دین سے مرتد ھوکر دین مسیحیت کو اختیار کیا اور اس کے بعد شراب فروشی کی دوکان پر مشغول ھوا اور دن رات شراب نوشی میں گزارتا تھا اور شراب پی کر کبھی سیر نہیں ھوتا تھا-
ام حبیبہ کے شوہر نے ان کے لئے دو راہوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار بخشا، یعنی طلاق لے کر شوہر کو چھوڑنا یا اسلام کو چھوڑ کر مسیحیت اختیار کرنا- ام حبیبہ نے اچانک اپنے آپ کو ایک سہ راہہ پر پایا:
اولاً یہ کہ: اگر وہ اپنے شوہر کی مسیحیت قبول کرنے کی دعوت کو قبول کرتیں تو اس صورت میں اسے اپنے دین کو چھوڑ کر مرتد ھونا تھا اور اس طرح دنیا و آخرت کی رسوائی کو مول لیتیں-
حقیقت میں یہ ایک ایسا کام تھا، جسے جناب ام حبیبہ کسی صورت میں انجام نہیں دے سکتی تھیں، اگر چہ ان کے بدن سے گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے جدا کیا جاتا-
ثانیاً: یہ کہ اسے مکہ میں اپنے باپ کے گھر جانا چائیے تھا، جو شرک و بت پرستی کا ایک مستحکم قلعہ کے مانند تھا، اور وہاں پر بہت سخت اور دم گھٹنے والے حالات سے مقابلہ کرنا پڑتا-
اور ثالثاً: یہ کہ سر زمین حبشہ میں تنہا و بے سر پرست حالت میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرتیں-
جناب ام حبیبہ نے بالآخر اسی راہ کا انتخاب کیا جس میں خدا کی رضامندی تھی- انھوں نے حبشہ میں ہی بیٹھنے کا قطعی فیصلہ کیا تاکہ خداوند متعال کی طرف سے کوئی عقدہ کشائی ھو جائے- زیادہ دیر نہ ھوئی تھی کہ جناب ام حبیبہ کے لئے ایک گشائش حاصل ھوئی-
رسول خدا {ص} سے ازدواج:
جوں ہی جناب ام حبیبہ کے لئے اپنے عیسائی مذہب اختیار کئے شوہر کے طلاق کے بعد عدت ک مدت ختم ھوئی، تو ان کے لئے ایک گشائش حاصل ھوئی اور ان کے لئے سعادت و خوش قسمتی کی خبر ملی اور انھیں شادی کا پیغام ملا-
ایک دن، صبح کو جناب ام حبیبہ کے دروازہ پر دستک دی گئی، انھوں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ بادشاہ نجاشی کا خادم " ابرہہ" دروازہ پر ہے-
ابرہہ نے احترام و ادب کے ساتھ انھیں سلام کیا اور گھر میں داخل ھونے کی اجازت مانگی اور کہا: بادشاہ آپ کو سلام پہنچاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ:" محمد رسول اللہ {ص} نے اپنے لئے آپ کی خواستگاری کی ہے"-
آنحضرت {ص} نے ایک خط میں نجاشی کو اپنی طرف سے عقد پڑھنے کے لئے وکیل قرار دیا ہے اور آپ کو بھی اختیار ہے، جسے چاھو گی اپنی طرف سے عقد پڑھنے کے لئے وکیل قرار دے سکتی ہو-
اس پیغام کو سن کر جناب ام حبیبہ پھولے نہ سمائیں اور بے اختیار فریاد بلند کرتے ھوئے کہا: خدا تجھے نیک خبر کی بشارت دے-
اس کے بعد جناب ام حبیبہ نے زیب تن کئے ھوئے اپنے زیوات ایک ایک کرکے بدن سے جدا کئے، جو ایک جوڑا دست بند، کئی خلخال، ایک جوڑا گوشوارہ اور کئی انگوٹھیوں پر مشتمل تھے، اور انھیں انعام کے طور پر نجاشی کے خادم ابرہہ کو بخش دیا- حقیقت میں اگر جناب ام حبیبہ اس وقت تمام دنیا کے خزانوں کی مالک ھوتیں، تو وہ بھی ابرہہ کو بخش دینے سے دریغ نہ کرتیں- اس کے بعد ابرہہ سے کہا: میں اپنی طرف سے خالد بن سعید بن العاص کو وکیل قرار دیتی ھوں کیونکہ وہ سب سے میرے نزدیک تر ہیں-
نجاشی کا محل ایک پہاڑی پر واقع تھا- اس کے اطراف میں خوبصورت درخت لگے ھوئے تھے اس کے سامنے حبشہ کا ایک خوبصورت باغ تھا، جس میں دلربا چشمے تھے، شہر کی سڑکوں اور میدانوں کو چکاچوند لگانے والے چراغاں سے سجایا گیا تھا اور محل کو بہترین اور گراں قیمت قالین سے فرش کیا گیا تھا- یہاں پر، جعفر بن ابیطالب، خالد بن سعید بن العاص اور عبداللہ بن حذافہ سہمی وغیرہ جیسے حبشہ میں مقیم پیغمبر اسلام {ص} کے عظیم صحابی تشریف فرما تھے، ان کے حضور میں ایک محفل منعقد کی گئی- جب سب مہمان جمع ھوئے تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے محفل کی صدارت کی اور حضار کے سامنے ایک تقریر کی اور اس میں کہا:
" میں خداوند قدوس، مومن و جبار کا شکر و ثنا بجا لاتا ھوں اور گواہی دیتا ھوں کہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد {ص} خداوند متعال کے بندہ و رسول ہیں اور یہ وہی ہیں جن کے بارے میں عیسی بن مریم {ع} نے بشارت دی ہے-
اما بعد، آپ کو جاننا چاہئیے کہ رسول اللہ {ص} نے مجھ سے چاہا ہے کہ میں ام حبیبہ بنت ابوسفیان کو آنحضرت {ص} کے عقد و نکاح میں قرار دوں اور میں نے آنحضرت {ص} کو مثبت جواب دیا ہے اور خدا اور اس کے رسول {ص} کے قانون کے مطابق آنحضرت {ص} کے وکیل کی حیثیت سے چارسو دینار سونا مہر کے عنوان سے جناب ام حبیبہ کو ادا کر رہا ھوں"- اس کے بعد انھوں نے مذکورہ دینار خالد بن سعید بن العاص کے سامنے رکھے اور اس کے بعد خالد نے کھڑے ھوکر کہا:" الحمدالله احمده و استعینه و استغفره و اتوب الیه و اشهد ان محمداً عبده و رسوله ، ارسله بدین الهدی و الحق لیظهره علی الدین کله و لوکره الکافرون ، اما بعد"میں نے بھی رسول خدا {ص} کی درخواست کا مثبت جواب دیا اور اپنی موکل یعنی ام حبیبہ بنت ابوسفیان کو رسول اللہ {ص} کے عقد میں قرار دیا، خداوند متعال رسول اللہ {ص} اور آپ {ص} کی شریک حیات کو بابرکت زندگی عطا فرمائے-
اور مبارک ھو ام حبیبہ کو اس خیر و سعادت کے سلسلہ میں کہ جسے خداوند متعال نے ان کے لئے مقدر فرمایا ہے- اس کے بعد خالد نے دینار اٹھا لئے تاکہ انھیں ام حبیبہ کی خدمت میں پہنچا دیں- ان کے ساتھی بھی اٹھے اور مجلس کو برخاست کرنا چاہتے تھے، اس دوران نجاشی نے ان سے مخاطب ھوکر کہا: مہربانی کرکے تشریف رکھئے، انبیاء {ع} کا طریقہ کار یہ ہے کہ ازدواج کی تقریب پر کچھ مختصر کھانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے- دستر خوان بچھا دیا گیا اور مہمانوں نے کھانا تناول کیا اور اس کے بعد تشریف لے گئے- جناب ام حبیبہ کہتی ہیں: جب مہر، میرے ہاتھ میں آگیا تو میں نے اس میں سے ۵۰ مثقال سونا ابرہہ کے لئے بھیجا، کیونکہ اس نے میرے لئے یہ خوشخبری لائی تھی، اور کہا: " جب پہلے مرحلہ میں آپ نے مجھے یہ خوشخبری دیدی تو میں نے اس وقت کچھ سونا اور جواہرات آپ کو انعام کے طور پر دئے، اس وقت میرے پاس اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا- اس پیغام کے فوراً بعد ابرہہ، میرے پاس آگیا اور پچاس مثقال سونا اور زیورات اور جواہرات جو میں نے اس سے پہلے دیدئے تھے، سب مجھے واپس کئے اور کہا: بادشاہ نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ سے کوئی چیز قبول نہ کروں اور اس کے علاوہ اپنی بیویوں کو حکم دیا کہ جو کچھ ان کے پاس عطر و خوشبو کے عنوان سے ہے، اسے آپ کے لئے بھیجدیں- دوسرے دن پھر سے میرے پاس آگیا اور اپنے ساتھ عود و خوشبو کی کچھ مقدار لے آیا تھا اور مجھ سے مخاطب ھوکر کہا: مجھے آپ کے ساتھ ضروری کام ہے- میں نے پوچھا: کیا کام ہے؟ اس نے جواب میں کہا: میں مسلمان اور دین محمد {ص} کا پیرو ھوں، پیغمبر اسلام {ص} کو میرا سلام پہنچانا اور انھیں یہ خبر دینا کہ میں نے خدا اور اس کے رسول {ص} پر ایمان لایا ہے- مہربانی کرکے میرے اس پیغام کو نہ بھول جانا- اس کے بعد اس نے میرے سفر کے وسائل آمادہ کئے-
ایک مبارک ملاقات:
ام حبیبہ کا کاروان، بادشاہ نجاشی کے تحفہ و تحائف کو لئے ھوئے بادشاہ کی طرف سے آمادہ کی گئی کشتی میں مدینہ کی طرف روانہ ھوا- مدینہ کے پاس پہنچ کر خبر ملی کہ پیغمبر اسلام {ص} فتح خیبر کے سلسلہ میں مدینہ سے باہر تشریف لے گئے ہیں اور یہ بھی معلوم ھوا کہ آپ {ص} جلدی ہی واپس لوٹنے والے ہیں-
پیغمبر اسلام فاتح کی حیثیت سے لوٹے، اور جعفر بن ابیطالب کا استقبال کرتے ھوئے فرمایا:" مجھے یہ سمجھ میں نہیں اتا ہے کہ جعفر کے آنے پر خوشی مناوں یا فتح خیبر پر"-
مجھے رسول خدا {ص} کے پاس لے گئے، میں نے آنحضرت {ص} سے ملاقات کی، خواستگاری، مجلس عقد اور ابرہہ سے ملاقات کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ آنحضرت {ص} کی خدمت میں پیش کی اوراس کے ساتھ ابرہہ کا سلام بھی پہنچا دیا-
پیغمبر اسلام {ص} یہ خبر سن کر خوش ھوئے اور فرمایا: و علیہ السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ-
جناب ام حبیبہ، دوسری دلھن جناب صفیہ کے ساتھ پیغمبر اسلام {ص} کے گھر گئیں- جناب عثمان بن عفان نے اپنی چچازاد بہن کی آنحضرت {ص} کے ساتھ ازدواج ھونے کے سلسلہ میں ایک بڑے جشن کا اہتمام کیا-
ابوسفیان نے اپنی بیٹی کی رسول اللہ {ص} سے ازدواج کرنے کی خبر سن کر کہا:" اس مرد کی ناک رگڑنا مشکل ہے"- یہ کلام رسول خدا {ص} کے نا قابل شکست ھونے اور آپ {ص} کے مستحکم ھونے کی طرف کنایہ تھا-
اخلاقی اوصاف:
روایت ہے کہ فتح مکہ سے پہلے صلح حدیبیہ کی تجدید کے لئے ابوسفیان مدینہ آگیا اور اپنی بیٹی جناب ام حبیبہ کے گھر گیا، اس فرش پر بیٹھنا چاہتا تھا، جس پر رسول خدا {ص} تشریف رکھتے تھے، اس کی بیٹی نے فوراً اس فرش کو اٹھالیا- ابوسفیان نے کہا: بیٹی؛ میں نہیں جانتا کہ یہ فرش میرے قابل نہیں ہے یا میں اس فرش کے لائق نہیں ھوں؟"- جناب ام حبیبہ نے فرمایا:" یہ فرش پیغمبر خدا {ص} کا ہے اور تم مشرک اور نجس ھو، اس لئے میں نہیں چاہتی ھوں کہ پیغمبر اسلام {ص} کے فرش پر بیٹھ جاو گے"- ابوسفیان نے کہا:" خدا کی قسم، بیٹی، جب سے تجھے نہیں دیکھا،تم شر پسند بن گئی ھو؛"
ام المومنین جناب ام حبیبہ ایک پرہیزگار اور عابد خاتون تھیں، وہ کافی نمازیں پڑھتی تھیں اور اکثر خدا کی یاد میں ھوتی تھیں اور دینی مسائل کو زیادہ اہمیت دیتی تھیں-
جناب ام حبیبہ ذہانت، تیز فہمی اور نیک نیتی میں مشہور تھیں- جناب ام حبیبہ اور جناب عائشہ کے درمیان غیر معمولی حد تک اچھے تعلقات تھے، کہا گیا ہے کہ اس رشتہ کے سلسلہ میں جناب عائشہ نے کلیدی رول ادا کیا ہے اور آنحضرت {ص} کو یہ کام انجام دینے کی ہمت افزائی کی ہے-
جناب ام حبیبہ کوشش کرتی تھیں کہ اپنی سوکنوں، یعنی جناب عائشہ اور جناب ام سلمہ کا اعتماد حاصل کریں، جو پیغمبر اکرم {ص} کا محبت حاصل کرنے میں رقابت کرتی تھیں، اور اس طرح اطمینان حاصل کریں کہ وہ دونوں ان سے راضی ہیں- اس بنا پر جناب عائشہ کو اپنے پاس بلاکر کہا: ہمارے درمیان ایسی چیزیں واقع ھوئی ہیں کہ ممکن ہے دوسری سوکنوں کے درمیان بھی واقع ھوجائیں، کیا آپ مجھے معاف کرسکتی ہیں؟ جناب عائشہ نے کہا: میں آپ کو معاف کرتی ھوں اور خداوند متعال آپ کو شادمانی بخشے کیونکہ آپ نے مجھے شاد کیا ہے – جناب ام سلمہ نے بھی ایسا ہی کہا-
اسلامی احکام کے سلسلہ میں حتی اپنے باپ کا بھی لحاظ نہیں کرتی تھیں:
مسلمانوں اور قریش کے درمیان صلح حدیبیہ انجام پانے کے وقت ابوسفیان مکہ میں نہیں تھا، اس لئے قریش کے ایک سابقہ سردار، سہیل بن عمرو عامری نے ابوسفیان کے نمایندہ کی حیثیت سے اس معاہدہ پر دستخط کئے-
بنی خزاعہ مسلمانوں کے ہم پیمان تھے اور صلح نامہ کے مطابق قریش کو اس قبیلہ پر حملہ کرنے کا حق نہیں تھا- مکہ کے چند ناعاقبت اندیش بیوقوفوں نے پیمان شکنی کی اور بنی خزاعہ پر حملہ کیا- جب مسلمان اس قضیہ سے آگاہ ھوئے تو انھوں نے بنی خزاعہ، یعنی اپنے ہم پیمانوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا-
قریش والوں کو اپنی غلطی کا احساس ھوا اور انھیں معلوم ھوا کہ اگر مسلمان ان پر حملہ کریں گے تو وہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے- اسی لئے انھوں نے ابوسفیان بن حرب کو فوراً رسول خدا {ص} کے پاس بھیجا تاکہ آپ {ص} کے ساتھ مذاکرہ کرکے صلح کے عہد نامہ کو دس سال سے زیادہ مدت کے لئے بڑھا دیں-
ابو سفیان اپنے ذہن میں جنگ و صلح جیسے ہزاروں افکار لئے ھوئے مدینہ کی طرف روانہ ھوا- وہ راستہ میں مسلسل یہ سوچ رہا تھا کہ کونسی وجہ ھوئی کہ مسلمانوں نے اس قدر عزت حاصل کی اور قریش اس قدر ذلت و رسوائی سے دوچار ھوئے؟ اسی فکر و اندیشہ میں تھا کہ اس کے ذہن میں یہ خیال آگیا کہ مدینہ پہنچ کر کس گھر میں ٹھہرے؟
اس نے اپنے آپ سے کہا: میری بیٹی "رملہ" سے کوئی میرے لئے نزدیک تر نہیں ہے- - - اگر چہ وہ محمد {ص} کی بیوی ہیں، لیکن ایک باپ کی حیثیت سے جو تکلیفیں ان کے لئے میں نےاٹھائی ہیں، ان کے پیش نظر وہ ضرور میری مدد کرے گی-
سر انجام، ابوسفیان مدینہ پہنچ گیا– سب سے پہلے اسے رسول خدا {ص} کے پاس جانا چاہئیے تھا، اور اس نے ایسا ہی کیا اور مدینہ میں داخل ھوتے ہی مسجد النبی {ص} کی طرف روانہ ھوگیا- وہاں پر رسول خدا {ص} کو دیکھا کہ چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ھوئے ہیں- ابوسفیان آگے بڑھا اور پیغمبر اسلام {ص} کے سامنے اپنے مسائل بیان کئے- اس نے رسول خدا {ص} کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی- کہ صلح نامہ کو دس سال سے زیادہ مدت تک بڑھا دیا جائے، لیکن آنحضرت {ص} نے انکار کرکے اسے قبول نہیں کیا-
رسول خدا {ص} سے امہات المومنین کی درخواست:
۱-ایک روایت کے مطابق کئی غزوات کے بعد، پیغمبر اسلام {ص} کی بیویوں نے آنحضرت {ص} سے درخواست کی کہ ان کے نفقہ میں اضافہ فرمائیں اور ان کی زندگی کو وسعت بخشیں- نقل کیا گیا ہے کہ جناب ام حبیبہ نے پیغمبر اکرم {ص} سے ایک " سخولی" { یمن کا ایک محل یا قبیلہ} یا" سحوانی" لباس کا مطالبہ کیا- رسول خدا {ص} نے ایک مہینہ تک اپنی بیویوں سے کنارہ کشی فرمائی، یہاں تک کہ اس سلسلہ میں سورہ احزاب کی آیت نمبر ۲۸، ۲۹ اور ۳۳ نازل ھوئیں اور پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کو انتباہ کیا گیا کہ اگر تم لوگ دنیا کی زرق و برق والی زندگی چاہتی ھو، تو پیغمبر {ص] سے جدا ھوسکتی ہو: ."يـاَيُّهَا النَّبىُّ قُل لاَِزوجِكَ اِن كُنتُنَّ تُرِدنَ الحَيوةَ الدُّنيا و زينَتَها فَتَعالَينَ اُمَتِّعكُنَّ واُسَرِّحكُنَّ سَراحـًا جَميلا * و اِن كُنتُنَّ تُرِدنَ اللّهَ ورَسولَهُ والدّارَ الأخِرَةَ فَاِنَّ اللّهَ اَعَدَّ لِلمُحسِنـتِ مِنكُنَّ اَجرًا عَظيمـا "-" پیغمبر آپ اپنی بیویوں سے کہد یجئے کہ اگر تم لوگ زندگانی دنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ھوتو آو میں تمھیں متاع دنیا دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں- اور اگر اللہ اور رسول اور آخرت کی طلبگار ھو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر فراہم کر رکھا ہے- اور اپنے گھروں میں بیٹھی رھو اور پہلی جاہلیت جیسا بناو سنگھار نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکواۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو- "
۲-بعض روایتوں کے مطابق سورہ احزاب کی آیات ۲۸، ۲۹ اور ۳۳ نازل ھونےکے بعد پیغمبر اسلام {ص} کی بیویاں ڈر گئیں کہ کہیں آنحضرت {ص} انھیں طلاق نہ دیں، اس لئے آنحضرت {ص] سے درخواست کی کہ بدستور آپ {ص} کی بیویوں کی حیثیت سے باقی رہیں اور آنحضرت {ص} نے بھی اس کے بعد اوقات اور نفقہ کی تقسیم میں اپنی مصلحت کے مطابق عمل کیا- پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کی درخواست کے بارے میں آیہ شریفہ: " تُرجى مَن تَشاءُ مِنهُنَّ و تُـوى اِلَيكَ مَن تَشاءُ ... " نازل ھوئی-{ سورہ احزاب/۵۱}
" ان میں سے جس کو چاہیں الگ کرلیں اور جس کو چاہیں اپنی پناہ میں رکھیں- - -"
پیغمبر اکرم {ص} کی رحلت کے بعد ام حبیبہ:
اکثرروایتیں جو پیغمبر اسلام {ص}کی رحلت کے بعد ام حبیبہ کی زندگی کے بارے میں ملتی ہیں، وہ تیسرے خلیفہ جناب عثمان بن عفان کے محاصرہ اور قتل اور اس کے بعد والے حوادث سے متعلق ہیں- جب جناب عثمان اعتراض کرنے والوں کے محاصرہ میں گرفتار ھوئے، تو انھوں نے ایک شخص کو حضرت علی {ع} ، جناب ام حبیبہ، زبیر اور پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں کے پاس بھیجا اور ان سے اشیائے خورد و نوش کی درخواست کی- حضرت علی {ع} نے ان کی مدد کا اقدام کیا، لیکن کامیاب نہیں ھوئے- اس کے بعد جناب ام حبیبہ ایک خچر پر سوار ھوکر محاصرہ کئے ھوئے معترضین کے پاس گئیں اور یہ عنوان پیش کیا کہ بنی امیہ کے وصیت نامے عثمان کے پاس ہیں اور میں انھیں ان سے لینا چاہتی ھوں، تاکہ یتیموں اور بیووں کا مال ضائع نہ ھو جائے، اور اس طرح انھوں نے عثمان بن عفان کے گھر میں داخل ھوکر اپنے ساتھ لائی ھوئی کھانے پینے کی چیزیں ان تک پہنچانے کی کوشش کی، لیکن اعتراض کرنے والوں نے ان کی مخالفت کی اور خچر کی لگام کو توڑ دیا، اس طرح کہ ام حبیبہ خچر سے گرنے کے قریب تھیں کہ لوگوں نے انھیں بچا کرانھیں ان کے گھر لے گئے-
ایک اور روایت کے مطابق ام حبیبہ جناب عثمان کو پانی پہنچانے میں کامیاب ھوئی ہیں اور عثمان کو محاصرہ سے آزاد کرنے کا بھی ارادہ رکھتی تھیں-
انھوں نے جناب عثمان بن عفان کے قتل ھونے کے بعد ان کے خون آلود کرتے کو نعمان بن بشیر کے ہاتھ اہنے بھائی معاویہ کے لئے دمشق بھیجا، لیکن معاویہ نے اس خون سے بھرے عثمان بن عفان کے کرتے سے ناجائز فائدہ اٹھا کر شام کے لوگوں کو حضرت علی {ع} کے خلاف اکسایا-
جناب ام حبیبہ کی وفات:
ایک روایت کے مطابق جناب ام حبیبہ نے دمشق سفر کیا ہے، یہاں تک کہ بعض مورخین نے ان کی وفات کو دمشق میں ہی لکھا ہے اور قبرستان باب الصغیر کے پاس ان سے منسوب ایک قبر بھی موجود ہے، لیکن چونکہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ وہ سنہ ۴۴ھجری میں چہتھر {۷۴} سال کی عمر میں مدینہ میں دارفانی کو وداع کر گئی ہیں اور مروان بن حکم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کو قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا-
جناب ام حبیبہ ایک راوی کی حیثیت سے:
جناب ام حبیبہ نے، پیغمبر اسلام {ص} اور جناب زینب جحش سے کئی روایتیں نقل کی ہیں- ان کے بھائی معاویہ اور غلبسہ اور انس بن مالک، ابوبکر بن سعید ثقفی، ابو جراح قرشی، شہر بن حوشب، مسیب بن رافع، عاصم بن ابی صالح اور دوسروں نے ان سے روایتیں نقل کی ہیں- کتب سحاح ستہ میں جناب ام حبیبہ سے رسول اللہ {ص} کی ۶۵ حدیثیں نقل کی گئی ہیں- مثال کے طور پر:
"میں نے پیغمبر اکرم {ص} کی بیوی، ام حبیبہ سے سنا کہ رسول خدا {ص} فرماتے ہیں:" کوئی ایسا مسلمان نہیں ہے، جو دن رات کے دوران ۱۲ رکعت نماز نافلہ { غیر واجب نماز} خدا کے لئے بجا لائے، مگر یہ کہ خداوند متعال اس کے لئے بہشت میں ایک قصر تعمیر کرے، یا یہ کہ اس کے لئے بہشت میں ایک قصر بنایا جائے"- رواہ مسلم- ۷۲۸
ام حبیبہ، عبداللہ بن عمر، ام سلیم، عائشہ، میمونہ، ام کلثوم، ام سلمہ، ابن عباس{ کہ جن کی حدیث حسن و صحیح ہے} اور اسی طرح احمد اور اسحاق سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے شہادت دی ہے کہ رسول خدا {ص} " خمرہ" پر نماز پڑھتے تھے- ابوعیسی نے کہا ہے کہ: "خمرہ "ایک چھوٹی چٹائی ہے- محمد بن عیسی ابو عیسی الترمذی السلمی الوفاء: ۲۷۹، سنن الترمذی: ج ۲، ص ۱۵۱ و ۱۵۲، دار النشر، دار احیاء التراث العربی، بیروت-
زینب بنت ام سلمہ، ام حبیبہ سے نقل کرتی ہیں کہ پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا ہے:" ایک مسلمان عورت کے لئے، جو خدا اور قیامت پر ایمان رکھتی ہے، تین دن سے زیادہ مدت کے لئے بناو سنگھار، ترک کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اس عورت کے لئے بناو سنگھار چار مہینے اور دس دن کے لئے ترک کرنا چاہئیے، جس کا شوہر فوت ھو چکا ھو- الاربعین البلدانیہ- علی بن الحسین بن عساکر، بیروت، دار الفکر ۱۴۱۳ھ
ترتیب و پیشکش: مریم حکیم
مزید تحقیق کے لئے منابع و مآخذ:
]- طبری؛ تاریخ طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، دار التراث، طبع دوم، 1967، ج11، ص604 و مسعودی؛ التنبیه و الاشراف، تصحیح عبدالله اسماعیل الصاوی، قاهره، دار الصاوی، بی تا، ص223 و ابن هشام؛ السیرة النبویه، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفه، بی تا، ج2، ص645.
[2]- عسقلانی، ابن حجر؛ الاصابه فی تمییز الصحابه، بیروت، دارالکتب العلمیه، طبع اول، 1415، ج8، ص140.
[3]- تاریخ طبری، مذکورہ، ج11، ص604 وابن سعد؛ طبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطاء، بیروت، دارالکتب العلمیه، طبع اول، 1990، ج8، ص76.
[4]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ص76 و ابن عبدالبر؛ الاستیعاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجبل، طبع اول، 1992، ج4، ص1844.
[5]- ابن اثیر؛ اسد الغابه، بیروت، دار الفکر، 1989، ج6، ص115.
[6]- تاریخ طبری، مذکورہ ، ج3، ص165 و التنبیه و الاشراف، پیشین، ص223 و السیرة النبویه، پیشین، ج1، ص324 و طبقات الکبری، پیشین، ص77.
[7]بلاذری؛ انساب الاشراف، تحقیق سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، طبع اول، 1996، ج1، ص438.
[8]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77 و السیرة النبویه، مذکورہ ، ج2، ص362 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج3، ص165 و التنبیه و الاشراف، مذکورہ ، ص223.
[9]- تاریخ طبری، پیشین، ج11، ص605 و التنبیه و الاشراف، مذکورہ ، ص223 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77.
[10]- ابنقتیبه؛ المعارف، تحقیق ثروت عکاشه، قاهره، الهیئة المصریة العامة للکتاب، طبع دوم، 1992، ص136.
[11]- عایشه بنت الشاطی؛ نساء النبی، بیروت، دار الکتاب العربی، 1985، ص 198.
[12]- ابن کثیر؛ البدایه و النهایه، بیروت، دار الفکر، 1986، ج5، ص294 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج11، ص606 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77.
[13]- انساب الاشراف، مذکورہ ، ج1، ص439 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج11، ص605 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77.
[14]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77 و تاریخ طبری، مذکورہ و ج11، ص605.
[15]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ج1، ص162 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج2، ص653.
[16]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ج1، ص162 ومسعودی؛ مروج الذهب، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الهجره، طبع دوم، 1409، ج1، ص89.
[17]- السیرة النبویه، مذکورہ ، ج2، ص645 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج2، ص653.
[18]- طبقات الکبری، ایضاً، ص78.
[19]- انساب الاشراف، مذکورہ ، ج1، ص439 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77-78.
[20]- انساب الاشراف، مذکورہ ، ص439 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ص79 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج2، ص654.
[21]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ص78 و زرکلی، خیرالدین؛ الاعلام، بیروت، دارالعلم للملایین، طبع هشتم، 1986، ج3، ص33.
[22]- واقدی؛ مغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسه اعلمی، طبع سوم، 1989، ج2، ص792 و السیرة النبویه، مذکورہ ، ج2، ص396 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج3، ص46.
[23]- سید جمیلی؛ نساء النبی، بیروت، دار مکتبة الهلال، 2003، ص121.
[24]- تاریخ طبری، مذکورہ ، ج4، ص385 – 386 و ابن اثیر؛ الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر – دار بیروت، 1965، ج3، ص173.
[25}. ایضاً-
[26]- مروج الذهب، مذکورہ ، ج2، ص353 و مقدسی، مطهر بن طاهر؛البدء و التاریخ، پورت سعید؛ مکتبة الثقافه الدینیه، بی¬تا، ج5، ص211 و ذهبی، تاریخ اسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، طبع دوم، 1993، ج3، ص539.
[27]- ایضاً-
[28]- حسینی دشتی، مصطفی؛ معارف و معاریف، قم، اسماعیلیان، طبع اول، 1369، ج1، ص261.
[29]- سفرنامه ابن بطوطه، ترجمه محمد علی موحد، بنگاه ترجمه و نشر کتاب، تهران، 1337، ص87 و تاریخ دمشق، ج2، ص418.
[30]- التنبیه و الاشراف، مذکورہ ، ص262 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج11، ص607 و انساب الاشراف، ایضاً، ج1، ص440 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ج8، ص80.
[31]- انساب الاشراف، مذکورہ ، ج1، ص440.
[32]- الاصابه، مذکورہ ، ج8، ص142.
[33]- انساب الاشراف، مذکورہ ، ج1، ص441 و الاصابه، مذکورہ ، ج5، ص56.
[34]- سنن نسائی، بیروت، دار الفکر، طبع اول، 1930، ج3، ص260.
[35]- نساء النبی(بنت الشاطی)، مذکورہ ، ص212