نام و نسب
آپ کا اصل نام سید محمد نظام الدین ، والد کا نام سید احمد بخاری ہے۔ آپ کے القابات 'نظام الاولیاء' ، 'محبوب الہی' ، 'سلطان المشائخ' ، 'سلطان الاولیاء' اور 'زری زر بخش' وغیرہ ہیں۔
آپ کے جدِ امجد سید علی بخاری اور نانا خواجہ عرب بخارا سے ہجرت کرکے بدایوں پہنچے۔
سلسلہ عالیہ چشتیہ کے معروف صوفی بزرگ جن کا سلسلہ نسب حضرت امام حسین تک پہنچتا ہے۔
تعلیم و تربیت
ابھی بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہو گیا لیکن آپ کی نیک دل، پاک سیرت اور بلند ہمت والدہ حضرت بی بی زلیخا نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی۔ آپ نے قرآن کریم کا ایک پارہ مقری بدایونی سے پڑھا اس کے بعد مولانا علاؤالدین اصولی سے مختصر القدوری پڑھی۔ مشارق الانوار کی سند مولانا کمال الدین سے حاصل کی۔ اس کے بعد دہلی آکر خواجہ نجیب الدین متوکل سے صحبت رہی۔ یہیں شمس الدین خوازمی سے تحصیل علم کی۔
بیعت و خلافت
ظاہری علوم کے حصول کے بعد آپ نے بیس سال کی عمر میں اجودھن موجودہ پاکپتن حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔آپ کو دیکھ کر حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے یہ شعر پڑھا:
اے آتش فراغت دل ہا کباب کردہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیلاب اشتیاقت جا نہا خراب کردہ
پیر و مرشد کے حکم پر ہی دہلی آکر محلہ غیاث پورہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ سلوک و معرفت کی تمام منزلیں حاصل کرنے کے باوجود آپ نے تیس سال تک نہایت ہی سخت مجاہدہ کیا۔ ایک دن شیخ عبدالرحیم نے عرض کی: حضور آپ سحری میں کچھ نہیں کھاتے، افطاری کے وقت بھی کچھ نہیں کھاتے۔ ضعف و نقاہت سے کیا حال ہو گیا ہے۔ یہ سن کر آپ کر گریہ طاری ہو گیا۔ فرمایا: اے عبدالرحیم کتنے فقیر محتاج مسجدوں درسگاہوں اور چبوتروں پر بھوکے پڑے ہوتے ہیں، اس حالت میں میرے حلق سے نوالہ کیسے اتر سکتا ہے۔
شہرت
اللہ تعالٰی نے آپ کو کمال جذب و فیض عطا فرمایا۔ اہلِ دہلی کو آپ کی بزرگی کا علم ہوا تو آپ کی زیارت اور فیض و برکت کے حصول کی خاطر گروہ در گروہ آنے لگے اور ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا۔ وقت کے بادشاہ اور امراء بھی آپ سے عقیدت کا اظہار کرتے لیکن آپ ان کی طرف التفات نہ فرماتے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کا پوتا معز الدین کیقباد کو آپ سے اس قدر گہرا تعلق تھا کہ اس نے آپ کی خانقاہ کے قریب موضع کھیلوکری میں اپنا قصر تعمیر کروایا اور وہیں سکونت اختیار کی۔ خواجہ نظام الدین بھی اپنی خانقاہ سے سلطان کی نو تعمیر جامعہ مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے جاتے لیکن آپ سلطان سے ملاقات کے لیے کبھی نہ گئے۔
خدمتِ خلق
آپ کے لنگر خانہ میں ہزاروں من کھانا پکتا اور ہزاورں کی تعداد میں فقراء اور مساکین اس خانقاہ سے کھانا کھاتے۔ وصال سے قبل آپ علیل ہوئے تو آپ نے وصیت کی گھر اور خانقاہ کے اندر جس قدر اثاثہ ہے سارے کا سارا مساکین اور غرباء میں تقسیم کردیا جائے۔ آپ کے حکم پر خواجہ محمد اقبال داروغہ لنگر نے ہزارہا من غلہ بانٹ دیا اور ایک دانہ بھی نہ چھوڑا۔
ایک دن آپ نے محفل میں فرمایا کہ جتنا غم و اندوہ مجھے ہے اتنا اس دنیا میں اور کسی کو نہ ہوگا کیونکہ اتنے لوگ آتے ہیں اور صبح سے شام تک اپنے دکھ درد سناتے ہیں وہ سب میرے دل میں بیٹھ جاتے ہیں پھر فرمایا عجب دل ہو گا جو اپنے مسلمان بھائی کا دکھ سنے اور اس پر اثر نہ ہو۔ ایک مرتبہ غیاث پورہ میں آگ لگی، گرمی کا موسم تھا۔ آپ چلچلاتی دھوپ میں اپنے مکان کی چھت پر کھڑے یہ منظر اس وقت تک دیکھتے رہے کہ جب تک آگ ٹھنڈی نہ ہو گئی پھر خواجہ محمد اقبال کو فرمایا کہ جاؤ ہر متاثرہ گھر والے کو دو تنکے، دو دو روٹیاں اور ٹھنڈے پانی کی ایک ایک صراحی پہنچا کر آؤ کیونکہ آبادی کے لوگ اس حالت میں بہت پریشان ہوں گے۔ جب خواجہ محمد اقبال وہاں پہنچے تو لوگ خوشی سے آبدیدہ ہو گئے۔ ایک تنکہ کی قیمت اس وقت اتنی تھی کہ کئی چھپر ڈلوائے جا سکتے تھے۔
وفات
خواجہ نظام الدین اولیاء نے 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725 ہجری کو طلوعِ آفتاب کے وقت وصال فرمایا۔ مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ وفات کندہ ہے۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید امير خسرو دهلوي
پیدائش: 1253ء - وفات: 1325ء –
فارسی اور ہندی شاعر، ابوالحسن نام ، یمین الدولہ لقب۔ امیر خسرو عرف ۔ والد ایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی (آگرہ) میں سکونت اختیار کی۔ امیر خسرو یہیں پیدا ہوئے۔ ان کى والدہ ہندوستانی تھیں۔ کچھ عرصے بعد یہ خاندان دہلی منتقل ہوگیا اور امیرخسرو نے سلطنت دہلی (خاندان غلمان، خليجی ، اورتغلق) کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا اور برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید تھے۔ انھی کے قدموں میں دفن ہوئے۔
خسرو نے ہر صنف شعرمیں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگارچھوڑے۔
فارسی کلام کی مثالیں
اگر فردوس بر روے زمین است
همین است و همین است و همین است
از سر بالین من برخیز ای نادان طبیب
دردمند عشق را دارو به جز دیدار نیست
ناخدا بر کشتی ما گر نباشد، گو مباش!
ما خدا داریم ما ناخدا در کار نیست
ہندی میں دوہے
ख़ुसरो दरिया प्रेम का, उलटी वा की धार,
जो उतरा सो डूब गया, जो डूबा सो पार.
خسرو دریا پریم کا، اُلٹی وا کی دھار
جو اترا سو ڈوب گیا ، ای پار
सेज वो सूनी देख के रोवुँ मैं दिन रैन,
पिया पिया मैं करत हूँ पहरों, पल भर सुख ना चैन.
سیج وہ سونی دیکھ کے روؤں میں دن رین
پیا پیا میں کرت ہوں پہروں، پل بھر سکھ نہ چین