مسجد جامع یزد، ۹۰۰سالہ پرانی ایک تاریخی عمارت ہے۔ یہ مسجد ايران کی خوبصورت ترین مساجد اور باشکوہ ترین معماری کے نمونوں میں شمار ھوتی ہے۔ یہ مسجد ایک سو سال کی مدت میں تاریخ کے تین ادوار میں تعمیر کی گئی ہے۔
اس مسجد کی معماری کافی وسیع اور بے مثال ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے کافی تعداد میں سیاح اس معماری کے بے مثال شاہ کار کو دیکھنے کے لئے ایران اور صوبہ یزد آتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں مسجد جامع یزد کو اس صوبہ کی علامت بلکہ ایران کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ تاریخی عمارت ، ایران کی قدیمی ترین عمارتوں میں پہلی عظیم تاریخی عمارت شمار ھوتی ہے۔
یزد کی تاریخ کی کتابوں میں آیا ہےکہ:" اس مسجد کو ساسانیوں کے آتش کدہ پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس کی سنگ بنیاد علاء الدولہ گرشاسب نے رکھی ہے۔"
قدیم مسجد کو علاء الدولہ کالنجاء کے نواسے گرشاسب کے حکم سے چھٹی صدی ہجری قمری میں، تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کی موجودہ عمارت کو " سید رکن الدین محمد قاضی" نے تعمیر کیا ہے۔
اس عظیم مسجد کا صدر دروازہ خوبصورت اور ۲۴ میٹر بلند ہے اور یہ اس مسجد کی ایک اور بے مثال خوبی ہے۔
اس مسجد میں ایران کی معماری کے بے مثال نمونے اس کے شبستان، اور صحن کی گچ کاری اور گنبد اور میناروں کی کاشی (ٹائیل) کاری مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں۔
اس مسجد کا خوبصورت ترین حصہ اس کے مختلف ایوان اور گنبد ہے۔
اس کے بلند ایوان کو خوبصورت ترین کاشی (ٹائیل) کاری، اور رنگارنگ نقاشی سے سجایا گیا ہے۔
اس کے اصلی ایوان کے نیچے خط کوفی میں ۱۱۰ اسمائے الہی خوبصورت اور فن کاری کے ساتھ خطاطی کئے گئے ہیں۔
نقش و نگاری والی اینٹوں اور کتبوں سے سجائی گئی اس عمارت کو دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔
اس مسجد کا اصلی محراب اور گنبد خانہ میں واقع محراب، معرق ٹائیلوں سے مزین کئے گئے ہیں۔ اس پر ستارہ شکل کی ٹائیلوں سے سنہ۷۷۷ کی تاریخ اور معمار کا نام لکھا گیا ہے۔
مسجد کا گنبد بڑی اور بے ستون چھت پر قرار پایا ہے اور پھر نقش و نگاری سے سجایا گیا ہے۔ اس پر بڑی خوبصورتی سے خط کوفی میں "اللہ و محمد" لکھا گیا ہے۔
مسجد کا خوبصورت گنبد دو حصوں پر مشتمل اور آپس میں ملا ھوا ہے اور اس کو زیباترین نقش و نگاری سے سجایا گیا ہے۔ اس کے ایک طرف " الملک اللہ" کی عبارت خط کوفی میں لکھی گئی ہے۔
اس مسجد کے گنبد کے نیچے ایک حصہ قرار پایا ہے، جسے "تابستانہ" کہتے ہیں۔ اس سرد خانہ کے خوبصورت پنجرے ہیں جو چھوٹی چھوٹی اینٹیوں سے بنے ہیں۔" اس تابستان" کے اندر ایک محراب ہے جس پر خوبصورت ٹائیل کاری کی گئی ہے۔
اس مسجد کے دو میناروں کی بلندی تقریبا ۵۲ میٹر ہے اور ان کا قطر تقریبا آٹھ میٹر ہے۔ یہ دو مینار صفویوں کے دور حکومت میں اضافہ کئے گئے ہیں، لیکن ۱۳۱۳ ہجری شمسی میں مہندم ھوئے اور انھیں تعمیر نو کیا گیا۔ ان میناروں کی بلندی اور ان کی آخری نوک تک کاشی( ٹائیل) کاری بے مثال ہے اور دیکھنے والوں کے لئے قابل تعجب ہے۔
ان دو میناروں میں سے ایک مسجد کے صدر دروازہ پر ہے اور اس پر چڑھنے کے لئے دو راستے ایسے ہیں کہ اگر دو آدمی، ایک اوپر سے نیچے کی طرف اور دوسرا نیچے سے اوپر کی طرف چلیں تو وہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ پاتے ہیں۔
مسجد کے دوگرم خانے، صحن کے مشرقی اور مغربی ضلعوں پر واقع ہیں۔ مشرقی گرم خانہ" شبستان شاردہ" کے نام سے مشہور ہے اور اس کے مستطیل شکل کے ۴۸ ستون ہیں، جن کو شش گوشہ والی فیروزہ رنگ کی ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے ۔ مغربی ضلع پر واقع گرم خانہ میں چند شاہ نشین ہیں جن پر روشن دان لگے ھوئے ہیں۔ اس شبستان میں محراب شکل کے طاق بنائے ھوئے ہیں۔ ان کے مرکزی حصہ میں آٹھ ضلعوں والے پتھروں کے بنے ھوئے روشن دان بنائے گئے ہیں۔
گرم خانہ کا محراب خوبصورت نقش و نگاری سے سجایا گیا ہے۔ مشرقی ضلع کا گرم خانہ مکمل طور پر بنا ہے۔ اس گرم خانہ میں بھی ستون لگے ھوئے ہیں جن کو سات رنگوں والی ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔
مسجد جامع یزد کو سنہ ۱۳۱۳ہجری شمسی میں وزارت ثقافت و ہنر کی طرف سے قومی آثار کی فہرست میں درج کیا گیا ہے۔
مسجد جامع یزد کو رات کی اندھیری میں دیکھا جانے والا خوبصورت منظر۔