ہرات کی بڑی مسجد جامع، افغانستان کی تاریخی آثار میں سے ہے۔ مسجد جامع ہرات یا مسجد جمعہ ہرات قدیمی مساجد میں سے ایک مسجد ہے۔ یہ مسجد ۱۴۰۰سال پرانی ہے۔ اس کی مساحت ۴۶۷۶۰مربع میٹر ہے۔ اس کی معماری قابل قدر ہے۔ اس مسجد کو زیادہ تر تیموریوں کی حکمرانی کے دوران وسعت اور ترقی ملی ہے۔
اس مسجد کی سلطان غیاث الدین غوری نےسنہ ۵۹۷ ھ میں منصوبہ بندی کی، لیکن اسے مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ھوا۔ سلطان غیاث الدین غوری کا جنازہ سنہ ۱۲۰۲ عیسوی میں،اس مسجد کے شمالی ایوان کے آخر پر گنبد کے نیچے دفن کیا گیا ہے۔
عہد تیموریان میں تعمیر کی گئی مسجد کا صرف ایک چھوٹا حصہ اس کے جنوبی دروازہ پر باقی بچا ہے۔ تیموری اپنے سلیقہ سے تزئین کرتے تھے۔ اس لئے اس مسجد کی غوری حکومت کے دوران کی گئی تزئِنات تیموریوں کے دوران کی گئی تزئینات کے نیچے دب گئی ہیں۔ البتہ ماہرینآثار قدیمہ نے ۱۹۶۴ء میں ان تزئینات کا انکشاف کیا ہے۔
زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تیموریوں کے دور کے آثار نابود ھوچکے تھے ۔ لیکن ۱۳۲۲ھجری شمسی میں کی گئی اس مسجد کی مرمت کے دوران مذکورہ آثار میں سے بعض کی مرمت کے دوران مذکورہ آثار میں سے بعض کی مرمت کی گئی ہے۔
یہ مسجد، افغانستان کے قدیمی تاریخی آثار میں سے ایک ہے۔
ہر دیکھنے والا جب پہلی بار اس مسجد کو دیکھتا ہے، پہلے ہی لمحہ میں اس عظمت والی اور خوبصورت مسجد کی دلفریب اور باشکوہ معماری کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔
اس خوبصورت اور حیرت انگیزعمارت کی جگہ پر، اسلام سے کئی ہزار سال پہلے آریاؤں کا ایک چھوٹا عبادت خانہ تھا جو لکڑی کا بنا ھوا تھا۔ ہرات کے لوگوں کے دین مبین اسلام کو قبول کرنے کے بعد سنہ ۲۹ ہجری میں یہ عبادت خانہ مسجد میں تبدیل ھوا ہے۔
اس مسجد شریف میں عالم اسلام کے بعض بڑے علماء تدریس کرتے تھے، جن میں حضرت خواجہ عبداللہ انصاری اور خواجہ محمد تاکی قابل ذکر ہیں۔
مسجد جامع ہرات نے تاریخ کے دوران بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ یہ مسجد کئی بار گرانے کے بعد دوبارہ تعمیر یا مرمت کی گئی ہے۔
سنہ ۴۱۴ہجری میں اس مسجد کا لکڑی سے بنا ھوا حصہ نظر آتش ھوا۔ تقریبا دوصدیوں کے بعد شیخ الاسلام فخرالدین رازی کی تجویز اور سلطان غیاث الدین غوری کے حکم سے اس مسجد کو پختہ اینٹوں، تزئینات اور فیروزی رنگ کی ٹائیلوں سے استفادہ کرکے موجودہ صورت میں تعمیر کیا گیا ہے۔ سلطان کی موت کے بعد اس کے بیٹے، سلطان محمود نے اس مسجد کے نا مکمل کام کو مکمل کیا۔ لہذا اس مسجد کی موجودہ عمارت تیموریوں کی معماری کے مطابق تعمیر کی گئی ہے اور حالیہ دور میں اس کی مرمت بھی کی گئی ہے جو تیموریوں کے دور کی معماری کے مشابہ ہے۔
مغلوں کے حملہ کے نتیجہ میں مسجد خراب ھوگئی تھی۔ اس لئے سنہ۸۱۸ ھجری میں اس مسجد کی تعمیر نوکی گئ ہے اور اس مسجد کے شمال میں غیاثیہ کے نام پر ایک مدرسہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
ملک معزالدین کرت کی حکمرانی کے زمانہ میں اس مسجد کی خوبصورتی کو بڑھاوا دینے کے علاوہ صوفیوں کے لئے ایک خانقاہ بھی تعمیر کی گئی ہے۔ ایک سو سال گزرنے کے بعد (تیموری بادشاھوں کے) شاہ رخ میرزا کے زمانہ میں اس مسجد کے رواقوں اور دیواریوں کو معرق ٹائیلوں اور خوبصورت خطاطی سے سجایا گیا ہے۔