مسجد کبود، افغانستان کے شہر مزار شریف میں واقع ہے۔ بعض برادران حنفی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام علی بن ابیطالب (ع) کا مزار یہاں پر ہے۔ اسی وجہ سے سالانہ ہزاروں افراد اس جگہ کی زیارت کرنے کے لئے مزار شریف کا سفر کرتے ہیں۔
البتہ قابل ذکر ہے کہ اکثر مسلمانوں کا اعتقاد یہ ہے کہ امام علی بن ابیطالب (ع) کا مرقد مملکت عراق کے شہر نجف میں واقع ہے
گزشتہ کئی صدیوں کے دوران مذکورہ مسجد مختلف نشیب و فراز سے گزری ہے۔
یہ جگہ کئی بار ویران اور پھر سے تعمیر کی گئی ہے۔ پوری تاریخ میں گزشتہ کئی صدیوں کے دوران بہت سے بادشاہ اس جگہ پر حاضر ہوئے ہیں، من جملہ سلطان سنجر، سلطان حسین بایقرا وغیرہ نے اس جگہ کو دیکھا ہے۔
سلطان حسین کے دور میں اس جگہ پر گنبد و بار گاہ تعمیر کی گئی ہے۔ اس نے ابتداء میں کئی عمارتیں اور ایک بازار تعمیر کیا اور ہرات کے ایک سو بزرگوں کو وہاں پر منتقل کیا اور دریائے بلخ سے ایک ندی بھی کھود کر وہاں تک پانی لایا اور یہ ندی " نہر شاہی" کے نام سے مشہور ہے ۔ ۔ ۔ لوگ بھی اطراف سے آکر وہاں پر بسنے لگے، بالآخر ایک بڑا شہر تشکیل پایا جو مزار شریف کے نام سے مشہور ہے۔
گیارہویں شیبانی امیر عبدالمؤمن خان ازبک کے زمانہ میں اس جگہ پر ایک گنبد تعمیر کیا گیا۔
جانی خاندان کے دوسرے امیر محمد خان نے اس عمارت کی مرمت کرا کے اسے مزین کیا اور اس کے اطراف میں کئی باغ بنوائے۔
محمد مقیم خان کے زمانہ میں اس کی تعمیر نو ہوئی اور امیر علم خان اور امیر عبدالرحمن خان کے زمانہ میں بھی اس جگہ پر کچھ تعمیرات انجام پائیں اور افغانستان کے آخری بادشاہ محمد ظاہر شاہ کے زمانہ میں اس عمارت کے صدر دروازوں کو مزین کیا گیا اور اس میں کچھ جدید تعمیرات کا اضافہ کیا گیا۔
بہت سے لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسجد کبود، مزار شریف کےامام علی علیہ السلام سے منسوب ہونے کی وجہ سے محترم ہے۔
مسجد کبود مزار شریف کا صدر دروازہ اور عبدالرحمن جامی کا ایک شعر
مذکورہ مسجد ٹائیلوں سے بنی ہے اور اس کا ایک وسیع صحن ہے اور اس کے کاشی کاری شدہ چار دروازے ہیں، اور ان میں سے ہر دروازہ ایک سڑک کی طرف کھلتا ہے اور عمارت کے اندر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے جسے محمد ظاہر شاہ کے حکم سے انجام دیا گیا ہے۔
مذکورہ جگہ پر نماز جماعت قائم ہے اور اس کے قبلہ کی طرف قرآن مجید کے نفیس نسخے موجود ہیں جن کی لوگ تلاوت کرتے ہیں۔