لغت ميں ''قدر'' کے معني مقدار اور اندازہ کرنے کے ہيں(1) - ''تقدير'' بھي اندازہ کرنے اور معين کرنے کو کہتے ہيں (2) ليکن ''قدر'' کے اصطلاحي معني کسي چيز کے وجود کي خصوصيت اور اس کي پيدائش کي کيفيت کے ہيں (3) دوسرے لفظوں ميں يہ کہا جائے کہ ہر چيز کے وجود کي محدوديت اور اندازے کو ''قدر'' کہتے ہيں(4) -
حکمت الہي کے نظريہ کے مطابق خلقت کے نظام ميں ہر چيز کا ايک خاص اندازہ ہے اور کسي بھي چيز کو بغير حساب و کتاب کے خلق نہيں کيا گيا ہے - اس دنيا کا بھي حساب و کتاب ہے اور يہ رياضي کے حساب کي بنياد پر تنظيم ہوئي ہے ، اس کا ماضي، حال اور آئندہ ايک دوسرے سے مرتبط ہے - استاد مطہري نے قدر کي تعريف ميں فرمايا: '' ... قدر کے معني اندازہ اور معين کرنے کے ہيں... حوادث جہاني ... چونکہ اس کي حديں، مقدار اور زماني و مکاني موقعيت معين کي گئي ہيں ، لہذا يہ تقدير الہي کے اندازے کے مطابق ہے(5) - پس خلاصہ يہ کہ ''قدر'' کے معني کسي چيز کي جسماني اور فطري خصوصيات کے ہيں جس ميں شکل، طول، عرض اور زماني و مکاني موقعيت شامل ہے اور يہ تمام مادي اور فطري موجودات کو اپنے دائرہ ميں لئے ہوئے ہے -
يہي معني روايات سے بھي استفادہ ہوتے ہيں ، جيسا کہ ايک روايت ميں امام رضا(عليہ السلام) سے سوال کيا گيا: قدر کے کيا معني ہيں؟: امام (عليہ السلام) نے فرمايا: ''تقدير الشئي ، طولہ و عرضہ''- ہرچيز کا اندازہ جو طول و عرض کے اعتبار سے وسيع تر ہو (6) ،ايک دوسري روايت ميں امام رضا (عليہ السلام) نے قدر کے معني بيان کرتے ہوئے فرمايا: ہرچيزکا اندازہ جو طول و عرض اور باقي رہنے کے اعتبار سے وسيع تر ہو(7) -
اس بناء پر تقدير الہي کے معني يہ ہيں کہ مادي دنيا ميں مخلوقات اپنے وجود ، آثاراور خصوصيات کے اعتبار سے محدود ہيں اور يہ محدوديت ،خاص امور سے مرتبط ہے ايسے امور جو اس کي علت اور شرايط ہيں، اور علل و شرايط اور وجود کے مختلف ہونے کي وجہ سے موجودات کے آثار اور خصوصيتيں بھي مختلف ہيں، ہر مادي موجود کو مخصوص پيمانے کے ذريعہ اندر اور باہر سے اندازہ کيا جاتا ہے - يہ قالب ، حدوديعني طول ، عرض، شکل،رنگ ، مکان اور زمان کي کيفيت اور تمام عوارض، مادي خصوصيات شمار کي جاتي ہيں ، لہذا مادي موجودات ميں تقدير الہي کا مطلب يہ ہے کہ موجودات کو ان کے شايان شان وجود کي طرف ہدايت کرنا جو ان کے لئے مقدور ہوا ہے (8) -
ليکن قدر کي فلسفي تعبيرکے اعتبار سے اصل عليت ہے '' اصل عليت يعني حوادث کا ايک دوسرے کے ساتھ ضروري اور قطعي ارتباط - اور دوسرے يہ کہ ہر حادثہ کا ضروري اور يقيني ہونا نيز اپنے وجود کي خصوصيات اور تقدير کو ايک امر يا امور سے مقدم سمجھنا (9) -
پوري دنيا اور تمام حوادثات کے اوپر اصل عليت اور نظام اسباب و مسببات حاکم ہے اور ہر حادثہ اپنے وجود کي ضرورت نيز زماني اور مکاني خصوصيت ، شکل و صورت اوراپني دوسري تمام خصوصيات کو اپني علتوں کے مقدمہ سے کسب کرتا ہے ، ہر وجود کے ماضي، حال اور استقبال اوراس کے متقدمہ علتوں کے درميان جدا نہ ہونے والا رابطہ پايا جاتا ہے (1ظ ) -
مادي موجودات کي علتيں فاعل، مادہ ، شرايط اور عدم مانع ہے اور ان ميں سے ہر ايک کا خاص اثر ہے اوريہ تمام تاثيرات ايک خاص وجود کے قالب کو تشکيل ديتے ہيں - اگر يہ تمام عليتں، شرايط اور عدم مانع ايک جگہ جمع ہوجائيں توعلت تامہ بن جائے گي اور اپنے معلول کو ضرورت اور وجود عطا کرتي ہے جس کو ديني متون ميں ''قضائے الہي'' سے تعبير کرتے ہيں ليکن ہر موجودکا اس کے علل و شرايط کو مدنظر رکھتے ہوئے ايک خاص قالب ہوتا ہے جو اپنے وجود کي خصوصيت اور عوارض کو تشکيل ديتا ہے اور ديني متون ميں اس کو ''قدر الہي '' سے تعبير کرتے ہيں -
قدر کے معني واضح ہونے سے شب قدر کي حقيقت کو سمجھنا ممکن ہوجاتا ہے - شب قدر وہ رات ہے جس ميں تمام مقدرات لکھے جاتے ہيں، اور ہر چيز کا معين قالب اور اندازہ تيار کيا جاتا ہے -
بہ عبارت ديگر ، شب قدر ، ماہ رمضان کي آخري دس راتوں ميں سے ايک ہے - ہماري روايات کے مطابق انيسويں يا اکيسويں يا تيسويں راتوں ميں کوئي ايک رات ، شب قدر ہے -(11) اس رات ميں (جس ميں قرآن کريم بھي نازل ہوا ہے)لوگوں کے تمام اچھے اور برے امور ، ولادت، موت، روزي، حج، طاعت، گناہ ، خلاصہ يہ کہ پورے سال ميں جو بھي حادثہ رونما ہونے والا ہے وہ سب امورمعين ہوتے ہيں(12) - شب قدر ہميشہ اور ہر سال آتي ہے ،اس رات ميں عبادت کرنے کا بے حد ثواب ہے اور ايک سال کي زندگي پر بہت زيادہ موثر ہے(913- اس رات ميں آنے والے سال کے تمام حوادث کو امام زمانہ کي خدمت ميں پيش کيا جاتا ہے اور آپ اپنے اور دوسروںکے حالات سے باخبر ہوجاتے ہيں - امام باقر(عليہ السلام) فرماتے ہيں : '' انہ ينزل في ليلة القدر الي ولي الامر تفسير الامور سنة سنہ، يومر في امر نفسہ بکذا و کذا و في امر الناس بکذا و کذا '' - شب قدر ميں ولي امر (ہر زمانہ کے امام) کو کاموں کي تفسير اور حوادث کي خبر دي جاتي ہے اور وہ اپنے اور دوسرے لوگوں کے کاموں کي طرف مامور ہوتے ہيں(14)
پس شب قدر وہ رات ہے :
1- جس ميں قرآن کريم نازل ہوا -
2- آئندہ سال کے حوادث اس رات ميں مقدر ہوتے ہيں -
3- يہ حوادث امام زمانہ (روحي و جسمي فداہ)کو پيش کئے جاتے ہيں، اورآپ کچھ کاموں پر مامور ہوتے ہيں -
اس بناء پر يہ کہا جاسکتا ہے کہ شب قدر ، تقدير، اندازہ گيري اور دنيا کے حوادث کو معين کرنے کي رات ہے -
يہ بات قرآن کريم کي آيات سے بھي ثابت ہے کيونکہ سورہ بقرہ کي 185 ويں آيت ميں فرمايا ہے : '' شھر رمضان الذي انزل فيہ القرآن'' ماہ رمضان ميں قرآن کريم نازل ہوا ہے - اس آيت کے مطابق قرآن کريم (نزول دفعي) ماہ رمضان ميں ہوا ہے - سورہ دخان کي تيسري آيت سے پانچويں آيت تک بيان ہوا ہے : '' انا انزلناہ في ليلة مبارکة انا کنا منذرين فيھا يفرق کل امر حکيم امرا من عندنا انا کنا مرسلين'' -
ترجمہ
اسي طرح سورہ قدر ميں تصريح ہوئي ہے کہ قرآن کريم شب قدر ميں نازل ہوا ہے -
مذکورہ تينوں آيتوں سے واضح ہوتا ہے :
1- قرآن کريم ماہ رمضان ميں نازل ہوا ہے -
2- قرآن کريم ماہ مبارک رمضان کي راتوں ميں سے مبارک رات ميں نازل ہوا ہے -
3- قرآن کريم ميں اس رات کا نام شب قدر ہے -
4- سورہ دخان کي آيات کے مطابق اس رات کي دو خصوصيتيں ہيں:
الف : قرآن کا نازل ہونا -
ب : اس رات ميں امرحکيمي جدا ہوتے ہيں -
ليکن سورہ قدر ميںجو کہ بمنزلہ سورہ دخان کي تفسير اور شرح کے ہے ، شب قدر کي چھ خصوصيات بيان ہوئي ہيں:
الف : شب قدر ، قرآن کريم کے نازل ہونے کي رات ہے (انا انزلناہ في ليلة القدر) -
ب : شب قدر کي عظمت و اہميت کسي کے اوپر روشن نہيں ہے (وما ادراک ما ليلة القدر) -
ج : شب قدر ہزار راتوں سے بہتر ہے - ''ليلة القدر خير من الف شھر''-
د : اس رات ميں ملائکہ اور روح رب العالمين کي اجات سے نازل ہوتے ہيں (تنزل الملائکة و الروح فيھا باذن ربھم) اور روايات ميں تصريح ہوئي ہے کہ يہ سب امام زمانہ کے قلب پر نازل ہوتے ہيں -
ھ : ان کا نازل ہونا ہر کام کے محقق ہونے کے لئے ہے جيسا کہ سورہ دخان ميں اس کي طرف اشارہ ہوا ہے (من کل امر) اور يہ نزول (جو کہ شب بيداري کرنے والے مومنين پر خدا کي خاص رحمت کے برابر ہے) طلوع فجر تک جاري رہتا ہے (سلام ھي حتي مطلع الفجر) -
و : شب قدر ميں تقدير ا ور اندازہ گيري ہوتي ہے کيونکہ اس سورہ ميں (جس ميں صرف پانچ آيتيں ہيں) تين بار ''ليلة القدر '' کي تکرار ہوئي ہے اور قرآن کريم کا يہ خاص اہتمام اس رات ميں اندازہ گيري اور تقدير کي وجہ سے ہے -
مرحوم کليني نے اپني کتاب کافي ميں امام صادق (عليہ السلام) سے نقل کيا ہے کہ آپ نے اس آيت ''انا انزلناہ في ليلة مبارکة'' کي تفسير کے جواب ميں فرمايا: جي ہاں شب قدر ايسي شب ہے جو ہر سال ماہ رمضان کي آخري دس راتوں ميں آتي ہے - اسي رات ميں قرآن کريم نازل ہوا ہے اور يہ ايسي رات ہے جس کے متعلق خداوند عالم نے فرمايا : ''فيھا يفرق کل امر حکيم'' اس رات ميں حکمت آميز امور معين اور جدا ہوتے ہيں، اس کے بعد فرمايا: '' پورے سال ميں جو بھي پيش آنے والا ہے وہ شب قدر ميں معين ہوتا ہے - خير و شر، طاعت و معصيت اسي طرح اگر کوئي بچہ پيدا ہونے والا ہے يا کسي کو موت آنے والي ہے يا کسي کو رزق ملنے والا ہے وہ سب اسي رات ميں معين ہوتے ہيں (15) -
حوالہ جات:
1- قاموس قرآن، سيد علي اکبر قرشي، ج5، ص 246 و 247-
2- گذشتہ حوالہ، ص 248-
3- الميزان ، سيد محمد حسين طباطبائي ،ج 12، ص 15ظ و 151-
4- گذشتہ حوالہ، ج 19، ص 1ظ 1-
5- انسان و سرنوشت ، شہيد مطہري ، ص 52-
6- المحاسن البرقي، ج 1، ص 244-
7- بحار الانوار، ج 5، ص 122-
8- الميزان، ج19، ص 1ظ 1- 1ظ 3-
9- انسان و سرنوشت ، شہيد مطہري ، ص53-