اس شب آسمان میں غمگيں ستارے بہم مل گئے تھے اور اس بلندی سے کوفے کے ایک گھر کا نظارہ کر رہے تھے ۔ کوفے کی زمین غم و اندوہ سے گریہ کناں تھی اور شہر کی دیواروں پر اضطراب چھایا ہوا تھا ۔ شب کی آرزو تھی کہ صبح نہ ہو اورسورج دوبارہ طلوع کرنے سے شرمسار تھا ۔ اس شب حضرت علی (ع) دیگر شبوں سے زیادہ مطمئن نظر آرہے تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی بیٹی ام کلثوم کے گھر کچھ افطار تناول کیا اور پھر عبادت الہی میں مصروف ہوگئے ۔ کبھی آسمان کی جانب دیکھتے اور کہتے ، خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں اور نہ ہی مجھ سے جھوٹ کہا گیا ہے یقینا آج کی شب وہی شب ہے کہ جس کا مجھ سے وعدہ کیا گيا ہے۔
حضرت علی (ع) انییسویں ماہ رمضان کو نماز صبح کی ادائیگی کے لئے مسجد کی جانب گئے جہاں اپنے وقت کاسب سے شقی ترین شخص ابن ملجم مرادی زہر میں بجھی تلوار لئے امام ( ع) کی آمد کا منتظر تھا تاکہ تاریخ انسانیت کے سب سے عظیم انسان کے فرق مبارک کو شگاف کرے ۔ چنانچہ ابن ملجم ملعون نے انیسویں کی شب میں آپ کے سر پر ضربت لگائی اور دو روز بعد اکیس ماہ رمضان سن چالیس ہجری قمری کو آپ اپنی دیرینہ آرزو یعنی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے ۔
حضرت علی (ع) خضوع و خشوع کے عالم میں نماز صبح کی ادائیگي میں مشغول تھے اور اپنے خدا سے رازو نیاز کر رہے تھے اور جیسے ہی آپ نے اپنا سر ، سجدۂ معبود میں جھکایا تو شقی ابن ملجم نے اپنی تلوار اٹھائی اور اس مرد مجاہد کے سر پر ضرب لگائی کہ جس کے ذوالفقار کی چمک سے دشمنان اسلام کے دل لرز اٹھتے تھے ۔ اچانک زمین و آسمان مین تلاطم برپا ہوا اور اس تلخ واقعے سے خدا کے مومن بندوں کے دل غم واندوہ سے لبریز ہو گئے ۔ جبرئیل امین نے زمین و آسمان کے درمیان ندا دی ۔ خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے ۔ آسمان کے ستارے تاریک ہوگئے اور پرہیزگاری کی نشانیوں کا خاتمہ ہوگيا ۔ خدا کی قسم ایمان و ہدایت کی مضبوط زنجیر ٹوٹ گئی ۔ محمد (ص) کے چچازاد بھائی اور ان کے وصی کی شہادت ہوگئی ۔ ہاں اب ستاروں کی بینائی ، علی کے عابدانہ آنسوؤں کا نظارہ نہیں کرسکیں گی اور آسمان کی سماعت ان کی عاشقانہ مناجات نہيں سن سکے گي ۔ تاریخ کے عظیم مرد مجاہد حضرت علی (ع) کی المناک شہادت کی مناسبت سے تمام حق پسندوں اور انصاف پسندوں کی خدمت میں دلی تعزیت پیش کرتے ہیں ۔
حضرت علی (ع) کادل ، عشق و محبت الہی سے سرشار تھا۔ اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور راتوں میں طولانی نمازیں پڑھتے اور اپنے خالق یکتا سے سے مناجات کرتے تھے ۔ منقول ہے کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا جب سے میں نے پیغمبراکرم (ص) سے سنا ہے کہ نماز شب ، نور ہے میں نے نماز شب کو ترک نہیں کیا ۔ کسی نے آپ سے سوال کیا کہ حتی جنگ صفین کی شب میں بھی ؟ تو حضرت نے فرمایا ہاں حتی اس شب بھی میں نے نماز شب ترک نہیں کی ۔
مولود کعبہ حضرت علی (ع) کی تربیت ، دعا و مناجات کے ماحول میں ہوئی تھی ۔ وہ بچپن سے ہی غار حراء میں رسول خدا کی عارفانہ مناجاتیں سننے کے عادی تھے اور نوجوانی میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ مشرکین کے مجمع میں نماز ادا کرتے تھے ۔ رات کے نصف حصے میں مدینے کے اطراف کے نخلستانوں میں علی (ع) کے آہ و نالے سے معنوی فضا قائم ہوجاتی تھی اور اپنے معبود سے ان کے عاشقانہ راز و نیاز سے مسجد رسول خدا کی رونق دوبالا ہوجاتی ۔
حضرت علی (ع) کے نیک اخلاق زباں زد خاص وعام تھے ۔ تاریخی منابع و مآخذ نے مولا علی (ع) کے دور جوانی کے حالات کو انتہائی فرحت ونشاط ، شادابی اور فعالیت سے سرشار قرار دیا ہے ۔غور طلب بات تو یہ ہےکہ آپ کے دشمن جب آپ ميں کسی عیب کو ظاہر نہیں کرسکے تو ان کے خوش اخلاق ہونے اور متبسم ہونے کو ان کے لئے ایک عیب شمار کرنے لگے ۔ حضرت علی (ع) کے اصحاب و انصار آپ کے اخلاق حسنہ کے بارے مین کہتے ہیں وہ ہمارے درمیان ہم میں سے ہی ایک تھے اور انتہائی متواضع اور منکسرا لمزاج تھے ۔ ایک دن معاویہ نے حضرت علی (ع) کے ایک قریبی ساتھی قیس بن سعد سے کہا کہ خدا علی پر رحمت نازل کرے کہ وہ بہت خوش مزاج اور متبسم تھے ۔ قیس نے کہا یقینا بالکل ایسا ہی تھا اور رسول خدا بھی اپنے ساتھیوں اور اصحاب کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش آتے تھے البتہ تو اے معاویہ بظاہر یہ بتانا چاہتا ہے کہ علی کی مدح کررہا ہے لیکن اس سے تو آنحضرت میں عیب نکالنا چاہتا ہے جبکہ اس تبسم اور خوش مزاجی کے بعد بھی امیرالمومنین (ع) کی ہیبت سب سے زیادہ تھی اور یہ ہیبت و جلال ، تقوی کے سبب تھا نہ کہ وہ ہیبت جو تو شام کے اراذل و اوباش اور کم ذات لوگوں کے دلوں ميں رکھتا ہے ۔
حضرت علی (ع) یتیموں اور غمزدہ افراد کے ساتھ بہت مہربانی اور محبت سے پیش آتے تھے ۔ ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے اور ان کا خیال رکھتے تھے آپ نے یتیموں کے سلسلے ميں انتہائی سنجیدہ نصیحت فرمائی ہے آپ فرماتے ہیں تمہیں خدا کی قسم یتیموں کو فراموش نہ کرنا ، ان کے لبوں کو غذا کے انتظار میں نہ رکھنا ، خیال رہے کہ وہ بھوکے نہ رہ جائیں اور تمہاری موجودگي میں ان کے حقوق ضائع نہ ہوں ۔ ایک دن امام علی (ع) کا ایک دوست کچھ مقدار میں شہد اور انجیر حضرت کے لئے لایا ۔ حضرت علی (ع) نے حکم دیا کہ اسے یتیمون کے درمیان تقسیم کردیا جائے اور پھر آپ بنفس نفیس ان کے پاس بیٹھ گئے ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے شہد اور انجیر ان کےمنھ میں دیتے تھے ۔ لوگوں نے عرض کی کہ آپ کیوں یہ کام کر رہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا " امام یتیمون کا باپ اور ان کا سرپرست ہوتاہے میں یہ کام اس لئے انجام دے رہا ہوں کہ تاکہ ان میں بے پدری کا احساس نہ ہونے پائے " ابو الطفیل کہتےہیں حضرت علی (ع) اپنے دور حکومت میں یتیم و مسکین پر خاص توجہ رکھتے تھے ۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے ارد گرد بہت سے یتیم بچوں کو جمع کیا اور ان کے لئے ایک بہترین دسترخوان بچھایا اور اس پر انواع واقسام کے کھانے چن دیئے اور لذیذ لقمے ان کے منھ میں ڈالنے لگے ۔ یہ منظر اس حد تک متاثر کرنے والا اور پر کشش تھا کہ بعض اصحاب نے یہاں تک کہہ دیا کہ اے کا ش میں یتیم ہوتا اور اس طرح سے علی (ع) کے لطف وکرم میں شامل ہوجاتا ۔
بعض انسان اپنے دوستوں کے اجتماع میں خوش اخلاق اور بذلہ سنج ہیں جبکہ اہل خانہ کے درمیان ان کا رویہ اور اخلاق بالکل بدلا ہوا ہوتا ہے ۔ لیکن بلند و باعظمت افراد ، اپنے اعلی اخلاقی فضائل کی بنیاد پر ہمیشہ خداپسندانہ رویہ رکھتے ہیں ۔ متعدد روایات کے مطابق دو الہی انسانوں حضرت امیر (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ازدواجی زندگي تمام انسانوں کے لئے بہترین نمونۂ عمل ہے کیوں کہ ان میں سے دونوں کی ذات ، ایثار و فداکاری اور دوسروں کو معاف کرنے کے اعتبار سے بے مثال تھی ۔ اور اس سلسلے میں ہمارے مولا و آقا حضرت علی کا یہی قول کافی ہے کہ آپ نے فرمایا " خدا کی قسم ہرگز فاطمہ سلام اللہ علیہا کو کبھی غصہ نہيں دلایا اور ان کو کبھی ایسا کام انجام دینے پر مجبور نہیں کیا جس کی جانب وہ مائل نہيں تھیں یہاں تک کہ اپنے معبود حقیقی سے جاملیں ۔ اور اسی طرح فاطمہ نےبھی مجھے کبھی غصہ نہیں دلایا اور میرے حکم کی مخالفت نہیں کی ۔ميں جب بھی انہں دیکھتا تو میرے سارے غم واندوہ برطرف ہوجاتے تھے ۔
حضرت علی (ع) شیر بیشۂ شجاعت اور میدان جنگ کے عظیم مجاہد تھے ۔ انہوں نے کبھی دشمن کا مقابلہ کرنے سے فرار نہیں کیا اور دل میں خوف کو کبھی جگہ نہیں دی ۔ جب مولا سے سوال کیا گیا کہ کیوں آپ کی پشت پر زرہ پر نہيں ہے ؟ تو فرمایا ميں ہرگز دشمن کو پیٹھ نہیں دکھاتا تاکہ دشمن میری پیٹھ پر ضرب لگا سکے ۔
جنگ احزاب یا جنگ خندق میں ایک بہت بڑے بہادر عمرو بن عبدود سے آپ کا سامنا ہوا اور اس نے پوری طاقت سے حضرت علی پر حملہ کیا ۔ حضرت علی (ع) نے مشرکوں کے اس پہلوان کو زمین پر دے مارا اور جب آپ نے چاہا کہ اسے ہلاک کردیں تو اس لعین نے مولا کے چہرے پر آب دھن پھینکا اور ان کا غصہ بھڑکا دیا لیکن علی (ع) دشمن کی اس حرکت کے بعد ، اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر چند قدم چلنےکے بعد دوبارہ لوٹے اور پھر اسےقتل کردیا ۔
در حقیقت علی (ع) فریضۂ الہی کی انجام دہی میں خدا کے سوا کسی کو نہيں پہچانتے تھے اور اسی بناء پر دشمن کی توہین آمیز حرکت کے بعد کچھ لمحوں کے لئے توقف کیا تاکہ عمرو بن عبدود کا قتل رضائے خدا کے لئے ہو ، اس میں ذاتی انتقام شامل نہ ہونے پائے ۔ " امام علی ، عدل انسانی کی آواز " نامی کتاب کے عیسائی مورخ جارج جرداق لکھتے ہیں اے دنیا تیرا کیا بگڑ جاتا اگر تو اپنی ساری طاقت اس میں صرف کرتی کہ ہر زمانے ميں عقل و قلب و زبان اور شمشیر کے اعتبار سے ، علی (ع) جیسی شخصیت معاشرے کے حوالے کرتی ۔
حضرت علی (ع) کی شخصیت اور آپ کا طرز زندگي تمام انسانیت کےلئے مشعل راہ ہے ۔ اس عظیم نوری مخلوق کی ممتاز صفات اور خصوصیات کی شناخت کے ساتھ ہی ہم خاکی بندوں کی زندگي میں ایک تعمیری تبدیلی رونماہوتی ہے اور کمال ، نیز قرب الہی کے حصول کا راستہ ہموار ہوتاہے ۔ رہبر انقلاب اسلامی ایران حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای حضرت امام علی کی توصیف میں فرماتےہیں " امیرالمومنین حضرت علی (ع) سب کے لئے ایک مکمل نمونہ ہیں ۔ ان کی کارناموں سے بھری جوانی ، جوانوں کے لئے نمونۂ عمل ہے ۔ ان کی حکومت کا عدل و انصاف ، حکمرانوں کے لئے عملی نمونہ ہے ۔ ان کی سراپامجاہدانہ اور ذمہ دارانہ زندگي ، تمام مومنین کے لئے مشعل راہ ہے ۔ ان کے حکمت آمیز بیانات و کلمات اور ان کے یادگار دروس علما ، دانشوروں اور روشن خیال افراد کے لئے نمونۂ عمل ہیں ۔