گیارہ ذیقعدہ،حضرت امام علي رضا عليه السلام كي ولادت با سعادت

Rate this item
(0 votes)

گیارہ ذیقعدہ،حضرت امام علي رضا عليه السلام كي ولادت با سعادت

حضرت امام علی رضا علیہ السلام ولادت باسعادت کے بارے میں علماء ومورخین کابیان ہے کہ آپ بتاریخ گیارہ ذی قعدہ ایک سو ترپن ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ پیدا ہوئے۔ اس موقع پر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اور ارشادفرمایاکہ تمہیں خداوندعالم کی یہ عنایت وکرامت مبارک ہو، پھرمیں نے مولود مسعود کوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعد آپ نے ارشادفرمایاکہ اسے لے لویہ زمین پرخداکی حجت ہے اورمیرے بعد حجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے۔

**************

آپ آل محمد کے تیسرے ”علی“ ہیں ۔ آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اورآپ کے القاب صابر، زکی، ولی، رضی، وصی تھے اورمشہور ترین لقب رضا تھا۔ آپ کی نشوونمااورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اوراسی مقدس ماحول میں بچپنااورجوانی کی متعددمنزلیں طے ہوئیں اور ۳۰ برس کی عمرپوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم اعراق میں قیدظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگراس سے پہلے ۲۴ یا ۲۵ برس آپ کوبرابراپنے پدربزرگوارکے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔ آپ کے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کومعلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈوراس وقت ہارون رشیدعباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کوآزادی کی سانس نہ لینے دے گی اورایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آب کی عمرکے آخری حصہ میں اوردنیاکوچھوڑنے کے موقع پردوستان اہلبیت کاآپ سے ملنا یابعدکے لیے راہنما کا دریافت کرنا غیرممکن ہوجائے گااس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اورسکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہلبیت کواپنے بعدہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی چنانچہ اولادعلی وفاطمہ میں سے سترہ آدمی جوممتازحیثیت رکھتے تھے انہیں جمع کرکےحضرت امام علی رضاعلیہ السلام کی جانشینی کااعلان فرمادیا۔ ۱۸۳ ھ میں حضرت اما م موسی کاظم علیہ السلام نے قیدخانہ ہارون رشیدمیں اپنی عمرکاایک بہت بڑاحصہ گذارکردرجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی وفات کے وقت امام رضاعلیہ السلام کی عمر تیس برس تھی والدبزرگوارکی شہادت کے بعدامامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں یہ وہ وقت تھا جب کہ بغدادمیں ہارون رشیدتخت خلافت پرمتمکن تھا اوربنی فاطمہ کے لیے زندگی تنگ تھی۔

**************

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد دس برس ہارون رشیدکادوررہایقینا وہ امام رضاعلیہ السلام کے وجودکوبھی دنیامیں اسی طرح برداشت نہیں کرسکتاتھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والدماجدکارہنااس نے گوارانہیں کیامگریاتوامام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدداورظلم ہوتارہا اورجس کے نتیجہ میں قیدخانہ ہی کے اندرآپ دنیاسے رخصت ہوگئے اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اوریاواقعی ظالم کو بدسلوکیوں کااحساس اورضمیرکی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلاامام رضاکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضاعلیہ السلام کوستانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ہارون رشیدکااہلبیت رسول سے شدیداختلاف اورسادات کے ساتھ جوبرتاؤاب تک رہاتھا اس کی بناء پرعام طورسے عمال حکومت یاعام افرادبھی جنہیں حکومت کوراضی رکھنے کی خواہش تھی اہلبیت کے ساتھ کوئی اچھارویہ رکھنے پرتیارنہیں ہوسکتے تھے اورنہ امام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ آسکتے تھے۔ہارون کاآخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں،امین اورمامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گزرا،امین پہلی بیوی سے تھا جوخاندان شاہی سے منصوردوانقی کی پوتی تھی اوراس لیے عرب سردارسب اس کے طرف دارتھے اورمامون ایک عجمی کنیز سے تھااس لیے دربارکاعجمی طبقہ اس سے محبت رکھتاتھا، دونوں کی آپس کی رسہ کشی ہارون کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اس نے اپنے خیال میں اس کاتصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کردیاکہ دارالسلطنت بغداداوراس کے چاروں طرف کے عربی حصہ جسے شام،مصرحجاز،یمن، وغیرہ محمدامین کے نام کئے اورمشرقی ممالک جیسے ایران،خراسان، ترکستان، وغیرہ مامون کے لیے مقررکئے لیکن جونہی ہارون کی آنکھ بندہوئی خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے آخرچاربرس کی مسلسل کشمکش اورطویل خونریزی کے بعدمامون کوکامیابی حاصل ہوئی اوراس کابھائی امین محرم ۱۹۸ ھ میں موت گھاٹ اتاردیاگیا اس کا سر مامون کے سامنے پیش کیا گیا اور یوں مامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدودسلطنت پرقائم ہوگئی۔

**************

مامون الرشید نے اپنے بھائی امین کوقتل تو کردیا لیکن اسے ہر آن یہ دھڑکا لگا رہا کہ کہیں اس کے حامی بغاوت نہ کردیں دوسری طرف اسے اپنے باپ کی طرح بنی فاطمہ اور آل رسول کی جانب سے بھی خدشات لاحق تھے چنانچہ اس نے نہایت مکاری کے ساتھ خلافت کو فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا حق قرار دے کر امام علیہ السلام کو مدینے سے طوس آنے کی دعوت دی جسے امام علیہ السلام نے سختی سے مسترد کردیا کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ جس شخص نے ہوس اقتدار کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کرکے اس کا سر دربار میں لاکر رکھا ہو وہ اتنی آسانی سے بھلا کیسے مسند خلافت سے دستبردار ہوسکتا ہے اور وہ بھی آل رسول کے حق میں۔ مامون دراصل اپنے اس اقدام سے آل رسول اور ان کے طرفداروں کی مخالفت کو ختم کرنا چاهتا تھا۔ چنانچہ جب آپ نے خلافت کے قبول کرنے سے انکارفرمایا، تواس نے ولیعہدی کی پیشکش کی۔ آپ اس کے بھی انجام سے واقف تھے۔بخوشی جابرحکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے خاندانی اصول کے خلاف تھا چنانچہ آپ نے اس سے بھی انکارفرمایا مگراس پرمامون کااصرار جبرکی حدتک پہنچ گیا تو امام نے فرمایا، میں قبول کرتا ہوں مگر کاروبار سلطنت میں بالکل دخل نہ دوں گا ہاں اگرکسی بات میں مجھ سے مشورہ لیاجائے تونیک مشورہ ضروردوں گا۔

**************

محول شیبانی کا بیان ہے کہ جب وہ ناگواروقت پہنچ گیا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام اپنے جد بزرگوار کے روضہ اقدس سے ہمیشہ کے لئے وداع ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپ بےتابی کے ساتھ اندر جاتے ہیں اور بانالہ وآہ باہر آتے ہیں اور پھر اندر واپس چلے جاتے ہیں آپ نے چندبارایساہی کیااورمجھ سے نہ رہاگیااورمیں نے حاضرہوکرعرض کی مولااضطراب کی کیاوجہ ہے ؟ فرمایا اے محول! میں اپنے نانا کے روضہ سے جبرا جدا کیا جارہا ہوں مجھے اس کے بعداب یہاں آنانصیب نہ ہوگا میں اسی مسافرت اورغریب الوطنی میں شہید کردیا جاؤں گا۔

رجب ۲۰۰ ہجری میں حضرت مدینہ منورہ سے مرو”خراسان“ کی جانب روانہ ہوئے اہل وعیال اورمتعلقین سب کومدینہ منورہ ہی میں چھوڑا اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمرپانچ برس کی تھی آپ مدینہ ہی میں رہے مدینہ سے روانگی کے وقت کوفہ اورقم کی سیدھی راہ چھوڑکر بصرہ اوراہوازکاغیرمتعارف راستہ اس خطرہ کے پیش نظراختیارکیاگیاکہ کہیں عقیدت مندان امام مزاحمت نہ کریں غرضکہ قطع مراحل اورطے منازل کرتے ہوئے یہ لوگ نیشاپور کے نزدیک جا پہنچے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کی مقدس سواری نیشاپوری کے قریب پہنچی توجملہ علماء وفضلاء شہرنے بیرون شہر حاضرہوکرآپ کی رسم استقبال اداکی ، داخل شہرہوئے توتمام خورد وبزرگ شوق زیارت میں امنڈپڑے،مرکب عالی جب شہر کے مرکز میں پہنچاتو خلائق سے زمین پرتل رکھنے کی جگہ نہ تھی۔اس موقع پرامام المحدثین حافظ ابوزرعہ رازی اورمحمدن بن اسلم طوسی آگے بڑھے، اوران کے پیچھے اہل علم وحدیث کی ایک عظیم جماعت حاضرخدمت ہوئی اور اے تمام مومنوں کے امام اوراے مرکزپاکیزگی ،آپ کورسول اکرم کاواسطہ، آپ اپنے اجدادکے صدقہ میں اپنے دیدارکاموقع دیجئے اورکوئی حدیث اپنے جدنامدارکی بیان فرمائیے یہ کہہ کرمحمدبن رافع ،احمدبن حارث،یحی بن یحی اوراسحاق بن راہویہ نے آپ کے خاطرکی باگ تھام لی۔ان کی استدعا سن کرآپ نے سواری روک دئیے جانے کے لیے اشارہ فرمایا، اور اشارہ کیا کہ حجاب اٹھا د ئیے جائیں فوراتعمیل کی گئی حاضرین نے جونہی اپنے پیارے رسول کے جگرگوشہ کا نورانی چہرہ دیکھا سینوں میں دل بیتاب ہوگئے دوزلفیں چہرہ انور پر مانندگیسوئے مشک بوئے جناب رسول خداچھوٹی ہوئی تھیں کسی کویارائے ضبط باقی نہ رہا سب کے سب بے اختیار دھاڑیں مارکر رونے لگے۔ بعض آپ کی سواری کے گرد گھومنے لگےاور جھک کر مرکب اقدس اورعماری کابوسہ دینے لگے غرضکہ عجیب طرح کاولولہ تھاکہ جمال باکمال کودیکھنے سے کسی کوسیری نہیں ہوئی تھی ٹکٹکی لگائے رخ انورکی طرف نگراں تھے یہاں تک دوپہر ہوگئی اوران کے موجودہ اشتیاق وتمنا کے اظہار میں کوئی کمی نہیں آئی اس وقت علماء وفضلاء کی جماعت نے بآوازبلندپکارکرکہاکہ مسلمانوں ذراخاموش ہوجاؤ، اورفرزندرسول کے لیے آزارنہ بنو، ان کی استدعاپرقدرے شوروغل تھما تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

میرے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم نے مجھ سے بیان فرمایااوران سے امام جعفرصادق علیہ السلام نے اوران سے امام محمدباقرنے اوران سے امام زین العابدین نے اوران سے امام حسین نے اوران سے حضرت علی مرتضی نے اوران سے حضرت رسول کریم جناب محمدمصطفی صلعم نے اوران سے جناب جبرئیل امین نے اوران سے خداوندعالم نے ارشادفرمایاکہ ”لاالہ الااللہ “ میراقلعہ ہے جواسے زبان پرجاری کرے گا میرے قلعہ میں داخل ہوجائےگا اورجومیرے قلعہ میں داخل ہوگا میرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔ یہ کہہ کرآپ نے پردہ کھینچوادیا، اورچندقدم بڑھنے کے بعد فرمایا بشرطہاوشروطہاوانامن شروطہا کہ لاالہ الااللہ کہنے والانجات ضرورپائے گالیکن اس کے کہنے اورنجات پانے میں چندشرطیں ہیں جن میں سے ایک شرط میں بھی ہوں۔

**************

روایات کے مطابق جب آپ نیشاپور سے شہرطوس پہنچے تووہاں دیکھا کہ لوگ ایک پہاڑسے لوگ پتھرتراش کرہانڈی وغیرہ بناتے ہیں آپ اس پہاڑی سے سے ٹیک لگاکر کھڑے ہوگئے اورآپ نے اس کے نرم ہونے کی دعاکی وہاں کے باشندوں کا کہناہے کہ اس پہاڑ کا پتھر بالکل نرم ہوگیا اور بڑی آسانی سے برتن بننے لگے۔

کہتے ہیں کہ جب آپ مروپہنچے جسے سکندر ذوالقرنین نے بروایت معجم البلدان آباد کیا تھا اورجواس وقت دارالسلنطت تھا تومامون نے چند روز ضیافت تکریم کے مراسم ادا کرنے کے بعد یکم رمضان ۲۰۱ ھجری بروز پنجشنبہ جلسہ ولیعہدی منعقدہوا، بڑی شان وشوکت اورتزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کواشارہ کیااوراس نے بیعت کی، پھراورلوگ بیعت سے شرفیاب ہوئے سونے اورچاندی کے سکے سرمبارک پرنثار ہوئے اورتمام ارکان سلطنت اورملازمین کوانعامات تقسیم ہوئے مامون نے حکم دیاکہ امام کے نام کاسکہ جاری کیاجائے، چنانچہ درہم ودینار پرحضرت امام علی رضا علیہ السلام کے نام کانقش ہوا، اورتمام قلمرومیں وہ سکہ چلایاگیاجمعہ کے خطبہ میں حضرت کانام نامی داخل کیاگیا۔ یہ ظاہرہے کہ حضرت کے نام مبارک کاسکہ عقیدت مندوں کے لیے تبرک اورضمانت کی حیثیت رکھتاتھا اس سکہ کوسفروحضرمیں حرزجان کے لیے ساتھ رکھنا یقینی امرتھا صاحب جنات الخلودنے بحروبرکے سفرمیں تحفظ کے لیے آپ کے توسل کاذکرکیاہے اسی کی یادگارمیں بطورضمانت بعقیدہ تحفظ ہم اب بھی بعض عقیدت مند سفر میں بازوپرامام ضامن ثامن کاپیسہ باندھتے ہیں۔علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ۳۳ ہزارعباسی مردوزن وغیرہ کی موجودگی میں آپ کوولیعہد بنادیاگیا اس کے بعداس نے تمام حاضرین سے حضرت امام علی رضاکے لیے بیعت لی اوردربار کالباس بجائے سیاہ کے سبزقراردیاگیا جوسادات کاامتیازی لباس تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جشن ولی عہدی کوابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عیدکاموقع آگیامامون نے حضرت سے کہلابھیجاکہ آپ سواری پرجاکرلوگوں کونمازعیدپڑھائیں حضرت نے فرمایاکہ میں نے پہلے ہی تم سے شرط کرلی ہے کہ بادشاہت اورحکومت کے کسی کام میں حصہ نہیں لوں گااورنہ اس کے قریب جاؤں گا اس وجہ سے تم مجھ کو اس نمازعیدسے بھی معاف کردوتوبہترہے ورنہ میں نمازعیدکے لے اسی طرح جاؤں گا جس طرح میرے جدامجدحضرت محمد رسول اللہ صلعم تشریف لے جایاکرتے تھے مامون نے کہاکہ آپ کواختیارہے جس طرح چاہیں جائیں اس کے بعداس نے سواروں اورپیادوں کوحکم دیاکہ حضرت کے دروازے پہ حاضرہوں۔ جب یہ خبرشہرمیں مشہورہوئی تولوگ عیدکے روزسڑکوں اورچھتوں پرحضرت کی سواری کی شان دیکھنے کوجمع ہوگئے، ایک بھیڑلگ گئی سب کوآرزو تھی کہ امام کی زیارت کریں۔ طلوع آفتاب کے بعد امام نے سفیدعمامہ سرپرباندھا،عطرلگایااورعصاہاتھ میں لے کرننگے پاؤں عیدگاہ جانے پرآمادہ ہوگئے ہوگئے اوردوتین قدم چل کرکھڑے ہوگئے اورسرکو آسمان کی طرف بلند کرکے کہا اللہ اکبراللہ اکبر، حضرت کے ساتھ نوکروں، غلاموں اورفوج کے سپاہیوں نے بھی تکبرکہی راوی کابیان ہے کہ جب امام رضاعلیہ السلام تکبرکہتے تھے توہم لوگوں کومعلوم ہوتاتھا کہ درودیواراورزمین آسمان سے آپ کی تکبیرکاجواب سنائی دیتاہے اس ہیبت کودیکھ کریہ حالت ہوئی کہ سب لوگ اورخود لشکروالے اپنی سواریوں سے زمین پر کود پڑے سب کی حالت بدل گئی لوگوں نے جلدی جلدی سنگینوں سے اپنی جوتیوں کے تسمے کاٹ دئیے ننگے پاؤں ہوگئے ۔ لوگوں پر فرط جزبات سے گریہ طاری ہوگیا۔اس کی خبرمامون کوبھی ہوگئی اس کے وزیرفضل بن سہل نے اس سے کہاکہ اگرامام رضااسی حالت سے عیدگاہ تک پہنچ جائیں گے تو ہنگامہ ہوجائیگا اور سب لوگ ان کی طرف ہوجائیں گے اورہم نہیں جانتے کہ ہم لوگ کیسے بچیں گے۔ فضل بن سہل اس انتباہ پر مامون نے فورا ایک شخص یہ پیغام دے کر امام کی خدمت میں روانہ کیا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی جوآپ سے عیدگاہ جانے کے لیے کہا اس سے آپ کوزحمت ہورہی ہے اورمیں آپ کی مشقت کو پسندنہیں کرتا بہتر ہے کہ آپ واپس چلے آئیں اورعیدگاہ جانے کی زحمت نہ فرمائیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام واپس اپنی قیامگاہ تشریف لے لائے۔ اگرچہ اس روز عیدکی نماز نہ پڑھاسکے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں پر مامامون کی حقیقت مزید کھل کر سامنے آگئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مامون رشیدکے عہدمیں نصاری کاایک بہت بڑاعالم ومناظرشہرت عامہ رکھتا تھا جس کانام ”جاثلیق“ تھااس کی عادت تھی کہ متکلمین سے کہا کرتا تھا کہ ہم نبوت عیسی اوران کی کتاب پرمتفق ہیں اوراس بات پربھی اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پرزندہ ہیں اختلاف ہے توصرف نبوت محمد مصطفی صلعم میں ہے تم ان کی نبوت کااعتقادرکھتے ہو اورہمیں انکارہے پھرہم تم ان کی وفات پرمتفق ہوگئے ہیں اب ایسی صورت میں کونسی دلیل تمہارے پاس باقی ہے جوہمارے لیے حجت قرارپائے یہ کلام سن کراکثرمناظرخاموش ہوجایاکرتے تھے۔

مامون رشیدکے اشارے پرایک دن وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام سے بھی ہم کلام ہواموقع مناظرہ میں اس نے مذکورہ سوال دھراتے ہوئے کہاکہ پہلے آپ یہ فرمائیں کہ حضرت عیسی کی نبوت اوران کی کتاب دونوں پرآپ کاایمان واعتقادہے یانہیں آپ نے ارشادفرمایا، میں اس عیسی کی نبوت کایقینا اعتقادرکھتاہوں جس نے ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلعم کی نبوت کی اپنے حوارین کوبشارت دی ہے اوراس کتاب کی تصدیق کرتاہوں جس میں یہ بشارت درج ہے جوعیسائی اس کے معترف نہیں اورجوکتاب اس کی شارح اورمصدق نہیں اس پرمیراایمان نہیں ہے یہ جواب سن کرجاثلیق خاموش ہوگیا۔پھرآپ نے ارشادفرمایاکہ اے جاثلیق ہم اس عیسی کوجس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی بشارت دی، نبی برحق جانتے ہیں مگرتم ان کی تنقیص کرتے ہو، اورکہتے ہو کہ وہ نمازروزہ کے پابندنہ تھے جاثلیق نے کہا کہ ہم تویہ نہیں کہتے وہ توہمیشہ قائم اللیل اورصائم النہار رہا کرتے تھے آپ نے فرمایا عیسی توبنابراعتقاد نصاری خود معاذاللہ خدا تھے تویہ روزہ اورنمازکس کے لیے کرتے تھے یہ سن کرجاثلیق مبہوت ہوگیااورکوئی جواب نہ دے سکا۔ البتہ یہ کہنے لگاکہ جومردوں کوزندہ کرے جذامی کوشفادے نابیناکوبیناکردے اورپانی پرچلے کیاوہ اس کاسزاوارنہیں کہ اس کی پرستش کی جائے اوراسے معبود سمجھاجائے آپ نے فرمایاالیسع بھی پانی پرچلتے تھے اندھے کوڑی کوشفادیتے تھے اسی طرح حزقیل پیغمبرنے ۳۵ ہزارانسانوں کوساٹھ برس کے بعدزندہ کیا تھا قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھرچھوڑکرباہرچلے گئے تھے حق تعالی نے ایک ساعت میں سب کوماردیا بہت دنوں کے بعدایک نبی استخوان ہائے بوسیدہ پرگزرے توخداوندتعالی نے ان پروحی نازل کی کہ انہیں آوازدوانہوں نے کہاکہ ائے استخوان بالیہ”استخوان مردہ اٹھ کھڑے ہو وہ سب بحکم خدااٹھ کھڑے ہوئے اسی طرح حضرت ابراہیم کے پرندوں کو زندہ کرنے اورحضرت موسی کے کوہ طور پرلے جانے اوررسول خداکے احیاء اموات فرمانے کاحوالہ دے کر فرمایاکہ ان چیزوں پرتورات انجیل اورقرآن مجیدکی شہادت موجودہے اگرمردوں کوزندہ کرنے سے انسان خداہوسکتا ہے تو یہ سب انبیاء بھی خداہونے کے مستحق ہیں یہ سن کروہ چپ ہوگیااوراس نے اسلام قبول کرنے کے سوااورکوئی چارہ نہ دیکھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

راس الجالوت ایک یہودی عالم تھا جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا وہ کسی کو بھی اپنی نظر میں نہ لاتا تھا ایک دن اس کا مناظرہ اور مباحثہ فرزند رسول حضرت امام رضاعلیہ السلام سے ہوگیا آپ سے گفتگو کے بعد اس نے اپنے علم کی حقیقت جانی اور سمجھا کہ میں خود فریبی میں مبتلا ہوں۔

امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد اس نے اپنے خیال کے مطابق بہت سخت سوالات کئے جن کے تسلی بخش اوراطمینان آفرین جوابات سے بہرہ ورہوا جب وہ سوالات کرچکاتو امام علیہ السلام نے فرمایاکہ اے راس الجالوت ! تم تورات کی اس عبارت کا کیا مطلب سمجھتے ہوکہ ”آیانورسینا سے روشن ہوا جبل ساعیرسے اور ظاہر ہوا کوہ فاران سے“ اس نے کہاکہ اسے ہم نے پڑھا ضرور ہے لیکن اس کی تشریح سے واقف نہیں ہوں۔ آپ نے فرمایاکہ نورسے وحی مرادہے طورسیناسے وہ پہاڑمراد ہے جس پرحضرت موسی خداسے کلام کرتے تھے جبل ساعیر سے محل و مقام عیسی علیہ السلام مراد ہے کوہ فاران سے جبل مکہ مرادہے جوشہرسے ایک منزل کے فاصلے پرواقع ہے پھرفرمایاتم نے حضرت موسی کی یہ وصیت دیکھی ہے کہ تمہارے پاس بنی اخوان سے ایک نبی آئے گا اس کی بات ماننااوراس کے قول کی تصدیق کرنااس نے کہا ہاں دیکھی ہے آپ نے پوچھاکہ بنی اخوان سے کون مرادہے اس نے کہا معلوم نہیں، آپ نے فرمایاکہ وہ اولاداسماعیل ہیں، کیوں کہ وہ حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے ہیں اوربنی اسرائیل کے مورث اعلی حضرت اسحاق بن ابراہیم کے بھائی ہیں اور انہیں سے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس کے بعدجبل فاران والی بشارت کی تشریح فرما کر کہا کہ شعیانبی کاقول توریت میں مذکورہے کہ میں نے دوسوار دیکھے کہ جن کے پرتوسے دنیاروشن ہوگئی، ان میں ایک گدھے پرسوار تھا اور ایک اونٹ پر، اے راس الجالوت تم بتلاسکتے ہوکہ اس سے کون مراد ہیں؟ اس نے انکار کیا، آپ نے فرمایا کہ راکب الحمار سے حضرت عیسی اور راکب الجمل سے مرادحضرت محمدمصطفی صلعم ہیں۔

پھرآپ نے فرمایاکہ تم حضرت حبقوق نبی کے اس قول سے واقف ہو کہ خدااپنابیان جبل فاران سے لایااورتمام آسمان حمدالہی کی (آوازوں) سے بھرگئے اسکی امت اوراس کے لشکرکے سوارخشکی اورتری میں جنگ کرینگے ان پرایک کتاب آئے گی اورسب کچھ بیت المقدس کی تباہی کے بعد ہوگا اس کے بعدارشاد فرمایاکہ یہ بتاؤ کہ تمہارے پاس حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کی کیادلیل ہے اس نے کہاکہ ان سے وہ امورظاہرہوئے ،جوان سے پہلے کے انبیاء پرنہیں ہوئے تھے مثلادریائے نیل کا شگافتہ ہونا، عصاکاسانپ بن جانا، ایک پتھرسے بارہ چشمہ جاری ہوجانااوریدبیضاوغیرہ، آپ نے فرمایاکہ جو بھی اس قسم کے معجزات کوظاہرکرے اورنبوت کامدعی ہو،اس کی تصدیق کرنی چاہیے اس نے کہانہیں آپ نے فرمایاکیوں؟ کہااس لیے کہ موسی کوجوقربت یامنزلت حق تعالی کے نزدیک تھی وہ کسی کونہیں ہوئی لہذاہم پرواجب ہے کہ جب تک کوئی شخص بعینہ وہی معجزات وکرامات نہ دکھلائے ہم اس کی نبوت کااقرارنہ کریں ،ارشادفرمایاکہ تم موسی سے پہلے انبیاء مرسلین کی نبوت کاکس طرح اقرارکرتے ہو حالانکہ انہوں نے نہ کوئی دریاشگافتہ کیا، نہ کسی پتھرسے چشمے نکالے نہ ان کاہاتھ روشن ہوا،ا ورنہ ان کاعصااژدھابنا،راس الجالوت نے کہاکہ جب ایسے اموروعلامات خاص طورسے ان سے ظاہرہوں جن کے اظہارسے عموماتمام خلائق عاجزہو، تووہ اگرچہ بعینہ ایسے معجزات ہوں یانہ ہوں ان کی تصدیق ہم پرواجب ہوجائے گی۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایاکہ حضرت عیسی بھی مردوں کوزندہ کرتے تھے کورمادرزادکو بینا بناتے تھے مبروص کوشفادیتے تھے مٹی کی چڑیابناکرہوامیں اڑاتے تھے وہ یہ امورہیں جن سے عام لوگ عاجز ہیں پھرتم ان کوپیغمبر کیوں نہیں مانتے؟

راس الجالوت نے کہا کہ لوگ ایساکہتے ہیں، مگرہم نے ان کوایساکرتے دیکھانہیں ہے فرمایاتوکیا آیات و معجزات موسی کوتم نے بچشم خوددیکھا ہے آخروہ بھی تو معتبرلوگوں کی زبانی سناہی ہوگاویساہی اگرعیسی کے معجزات ثقہ اورمعتبرلوگوں سے سنو،توتم کوان کی نبوت پرایمان لاناچاہئے اوربالکل اسی طرح حضرت محمدمصطفی کی نبوت ورسالت کااقرارآیات ومعجزات کی روشنی میں کرناچاہیئے سنو ان کاعظیم معجزہ قرآن مجیدہے جس کی فصاحت وبلاغت کاجواب قیامت تک نہیں دیاجاسکےگا یہ سن کروہ خاموش ہوگیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک مشہور مجوسی عالم ہربذ اکبر حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرعلمی گفتگوکرنے لگاآپ نے اس کے سوالات کے مکمل جوابات عنایت فرمائے اس کے بعداس سے سوال کیاکہ تمہارے پاس زرتشت کی نبوت کی کیادلیل ہے اس نے کہاکہ انہوں نے ہماری ایسی چیزوں کی طرف ہدایت فرمائی ہے جس کی طرف پہلے کسی نے رہنمائی نہیں کی تھی ہمارے اسلاف کہاکرتے تھے کہ زرتشت نے ہمارے لیے وہ ا مورمباح کئے ہیں کہ ان سے پہلے کسی نے نہیں کئے تھے آپ نے فرمایاکہ تم کو اس امرمیں کیاعذر ہوسکتاہے کہ کوئی شخص کسی نبی اوررسول کے فضائل وکمالات تم پرروشن کرے اورتم اس کے ماننے میں پس وپیش کرو، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم نے معتبرلوگوں سے سن کرزرتشت کی نبوت مان لی اسی طرح معتبرلوگوں سے سن کرانبیاء اوررسل کی نبوت کے ماننے میں تمہیں کیاعذر ہوسکتاہے؟

Read 3583 times