روایات کے مطابق 25 شوال المکرم فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یوم شہادت ہے۔ آپ نے اپنے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد اکتیس سال کی عمر میں ایک سو چودہ ہجری قمری کو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ سنبھالا اور منصب امامت پر فائز ہوئے آپ کا دور امامت چونتیس برسوں پر محیط ہے۔ سن ایک سو چودہ سے ایک سو بتیس ہجری قمری تک اموی دور حکومت تھا جبکہ ایک سو بتیس سے لے کر ایک سو اڑتالیس ہجری قمری یعنی آپ کی شہادت تک عباسی حکمراں برسراقتدار تھے۔
جب آپ منصب امامت پر فائز ہوئے تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی جس کی بناپر اموی حکمرانوں کی توجہ خاندان رسالت سے کسی حد تک ہٹ گئی اور خاندان رسالت کے افراد نے امویوں کے ظلم و ستم سے کسی حد تک سکون کا سانس لیا ۔ اسی دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے بے پناہ کوششیں انجام دیں اور مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جہاں انہوں نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اور ایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی اس تحریک کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع ملے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ علوم و فنون کی توسیع اور دوسری ملتوں کے عقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ اسلامی افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے تقابل اور علمی بحث و مناظرے کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اسی زمانے میں ترجمے کے فن کو بڑی تیزی سے ترقی حاصل ہوئی اور عقائد و فلسفے دوسری زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جاسکتاہے ۔ اس زمانے میں ایک طرف تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں ۔ آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں نیز غیراخلاقی و اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا ۔
آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کرکے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اہل بیت علیہم السلام کی فقہ و دانش کو اس قدر فروغ دیا اور اسلامی احکام کو دنیا میں اتنا پھیلایا کہ آپ کی تعلیمات نے جعفری مذہب کے نام سے شہرت اختیار کرلی ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے جتنی احادیث راویوں نے نقل کی ہیں اتنی کسی اور امام سے نقل نہیں کیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فیض کرنے والے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں بیان کی جاتی ہے جن میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم ، ابان بن تفلب ، ہشام بن سالم ، مفصل بن عمر اور جابربن حیان کا نام خاص طور سے لیا جا سکتا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیداکیا مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابربن حیان نے دو سو زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔ جابربن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔ اہل سنت کے درمیان مشہور چاروں مکاتب فکر کے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق علیہ السلام کےشاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام ابوحنیفہ نے تقریبا" دوسال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا۔ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے کہاہے : " میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔" ایک اور مقام پر امام ابوحنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا :
لولا السنتان ۔ لھک نعما
اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت اور اخلاقی کمالات کے بارے میں مورخین نے بہت کچھ لکھاہے ۔
آپ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور حاجت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا کرتے تھے اور لوگوں کو بھی اپنی باتوں کی نصیحت کرتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں : اپنے رشتے داروں کے ساتھ احسان کرو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ سلام کرنے یا خندہ پیشانی کے ساتھ سلام کا جواب دینے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتاہے ۔ پہلا دور وہ ہے جو آپ نے اپنے دادا امام زین العابدین علیہ السلام اور والد امام محمد باقر علیہ السلام کے زیر سایہ گزارا یہ دور سن تراسی ہجری سے لے کر ایک سو چودہ ہجری قمری تک پھیلا ہوا ہے ۔ دوسرا دور ایک سو چودہ ہجری سے ایک سو چالیس ہجری قمری پر محیط ہے اس دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو اسلامی علوم و معارف پھیلانے کا بھرپور موقع ملا جس سے آپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ اس دور میں آپ نے چارہزار سے زائد شاگردوں کی تربیت کی اور مکتب کو عروج پر پہنچایا ۔ تیسرا دور امام کی آخری آٹھ سال کی زندگی پر مشتمل ہے ۔ اس دور میں آپ پر عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کی حکومت کا سخت دباؤ تھا اور آپ کی ہر قسم کی نقل و حرکت پر مستقل نظر رکھی جاتی تھی ۔ عباسیوں نے چونکہ خاندان پیغمبر کی حمایت و طرفداری کے نعرے کی آڑ میں اقتدار حاصل کیا تھا شروع شروع میں عباسیوں نے امام پر دباؤ نہیں ڈالا لیکن آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے اور اقتدار مضبوط کرنے کے بعد انہوں نے بھی امویوں کی روش اپنالی اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے محبین اور ان پر ظلم و ستم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور اس میں وہ امویوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔