امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت پر قائد انقلاب اسلامی کا خطاب

Rate this item
(2 votes)

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌

امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت پر قائد انقلاب اسلامی کا خطابحضرت امام حسین علیہ السلام کا یوم ولادت بڑا عظیم دن ہے۔ الحاج میرزا جواد آقا تبریزی ملکی کے بقول تین شعبان کی عظمت کو حسین ابن علی کی عظمت کی ایک پرتو کی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس دن ایسی ہستی کی ولادت ہوئی ہے جس کی ذات سے، جس کی تحریک سے، جس کے قیام سے، جس کے ایثار سے اور جس کے اخلاص سے اسلام کی تقدیر وابستہ تھی۔ تاریخ انسانیت کی اس عظیم ہستی نے ایک ایسی تاریخ رقم کر دی جس کی کوئی مثال ہے نہ نظیر۔ آپ نے بشریت کے سامنے ایسا کارنامہ پیش کیا جو کبھی فراموش کیا ہی نہیں جا سکتا ہے، یہ اسوہ حسنہ کے طور پر ہمیشہ باقی رہنے والا کارنامہ ہے۔ اللہ کی راہ میں اس عظیم پیمانے پر قربانی پیش کرنا، اس قربانی میں اپنی جان، اپنے اصحاب با وفا کی جان کا نذرانہ پیش کرنا اور اہل حرم کی اسیری کو برداشت کرنا، اس مقصد کے تحت کہ اسلام کو بقا مل جائے، اس مقصد کے لئے کہ ظلم کے خلاف پیکار، تاریخ انسانیت میں پائیدار اور یادگار اصول کی حیثیت سے ثبت ہو جائے! یہ ایسی چیز ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ راہ خدا میں یوں تو بہت سے لوگ شہید ہوئے ہیں، پیغمبر اسلام کے ساتھ، حضرت امیر المومنین کے ساتھ انبیائے الہی کے ساتھ دفاع حق میں بہتوں نے جام شہادت نوش کیا ہے لیکن کوئی بھی واقعہ سانحہ کربلا جیسا نہیں ہے۔ ایک انسان دوستوں اور ساتھیوں کی حوصلہ افزائی اور تحسین و ستائش کے بیچ فتح و کامرانی کی امید کے ساتھ میدان کارزار میں اترے اور جنگ کرتے ہوئے شہید ہو جائے، بیشک اس کا بھی اجر بے پناہ ہے۔ لیکن اس شخص اور اس گروہ کے مابین زمین اور آسمان کا فرق ہے جو ایک تاریک و ظلمانی دور میں، ایسے وقت جب دنیائے اسلام کے تمام با اثر افراد اس کا ساتھ دینے سے انکاری ہو جائیں، اتنا ہی نہیں، اس کی ملامت اور سرزنش بھی کر رہے ہوں، اسے کسی سے مدد کی امید نہ ہو، عبد اللہ ابن عباس جیسی شخصیت روک رہی ہو، عبد اللہ بن جعفر جیسی شخصیت آگے بڑھنے سے منع کر رہی ہو، کوفہ میں رہنے والے محب و انصار ساتھ دینے کو تیار نہ ہوں، پھر بھی اس جماعت کا سردار اپنے معدودے چند اصحاب باوفا کے ساتھ، اپنے اہل خانہ، اپنی زوجہ، بہن، بھانجوں، بھتیجوں، نوجوانوں اور شش ماہے کے ساتھ میدان میں اتر پڑے۔ یہ بڑا عجیب واقعہ ہے۔ یہ بڑا حیرت انگیز اور پرشکوہ منظر ہے جو بشریت کی آنکھوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام اس دن کے لئے خود کو پہلے سے آمادہ کر رہے تھے۔

امام حسین علیہ السلام کی پوری زندگی سراپا درس ہے۔ آپ کا بچپن دروس کا سرچشمہ، آپ کی نوجوانی دروس کا سرچشمہ، آپ کا دور امامت دروس کا سرچشمہ، امام حسن علیہ السلام کی امامت کے دور میں آپ کی زندگی بھی دروس کا سرچشمہ ہے۔ امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کا طرز عمل درس ہی درس ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے جو کارنامہ انجام دیا وہ چند دنوں کے اندر انجام پا جانے والا کوئی کام نہیں تھا۔ یہ بے حد عظیم واقعہ ہے اور خورشید کی مانند اس کی درخشش ایسی ہے کہ دیگر واقعات پر توجہ نہیں ہو پاتی ورنہ امام حسین علیہ السالم نے منی میں علماء، بزرگان، صحابہ اور تابعین سے جو خطاب کیا ہے اور جس کا ذکر احادیث کی کتب میں موجود ہے، وہ اپنی جگہ تاریخی سند کا درجہ رکھتا ہے۔ آپ نے اپنے زمانے کے علماء اور عمائدین مذہب کو جو خط تحریر فرمایا اور جس میں آپ نے لکھا ہے: «ثُمَّ انتُم ايَّتُها العِصابَة، عِصابَةٌ بِالعِلمِ مَشهورَة»(۱)، یہ حدیث کی کتابوں میں نقل کیا گيا ہے، یہ تاریخی سند ہے۔ آپ کا طرز عمل، معاویہ کے سلسلے میں آپ کی حکمت عملی، معاویہ کو آپ کا مکتوب، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے مختصر دور خلافت میں حضرت کے قریب آپ کی موجودگی، یہ سب دروس کا سرچشمہ ہیں، لیکن عاشور کا واقعہ بالکل استثنائی حیثیت کا حامل ہے۔ آج کا دن حضرت کی ولادت کا دن ہے۔ اس دن ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم حسین ابن علی علیہما السلام سے سبق لیں۔ امت مسلمہ کے لئے حسین ابن علی علیہما السلام کا درس یہ ہے کہ حق کی خاطر، انصاف کی خاطر، قیام عدل کی خاطر، ظلم سے پیکار کی خاطر ہمیشہ تیار رہنا چاہئے اور اس لڑائی کے لئے اپنا سب کچھ، تمام متاع زندگی داؤں پر لگا دینا چاہئے۔ اس عظیم سطح پر جاکر یہ کام کرنا کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے، لیکن ہمیں اپنی بضاعت اور حیثیت کے مطابق یہ درس حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

الحمد للہ ملت ایران نے امام حسین علیہ السلام سے یہ سبق سیکھا ہے۔ تیس سال سے زیادہ عرصے سے ملت ایران اسی راستے پر گامزن ہے، یقینا کچھ استثنائات اور شاذ و نادر واقعات بھی ہوئے ہیں لیکن ملت یران کی عمومی حرکت و پیش قدمی حضرت امام حسین علیہ السلام کی سمت میں ہو رہی ہے۔ حضرت کا انجام شہادت کی شکل میں سامنے آیا لیکن آپ نے صرف شہید ہو جانے کا سبق نہیں دیا۔ آپ کی تحریک بڑی بابرکت تحریک ہے۔ حضرت امام حسین جیسی تحریک کے نتیجے میں کبھی ممکن ہے کہ شہادت نصیب ہو لیکن دین خدا کو قائم کرنے کا جذبہ اور دین خدا کے قیام کے نتیجے میں حاصل ہونے والی بے پناہ برکتیں، ان سب کی اپنی جگہ الگ افادیت ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ ایرانی عوام میدان عمل میں اترے اور ایران میں انہوں نے ملکی اور بین الاقوامی ظلم کی عمارت کو مسمار کر دیا، اس کی جگہ اسلامی عمارت کی تعمیر عمل میں آئی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بھی حسین ابن علی کے راستے پر چلے گا وہ ظاہری اعتبار سے اور دنیاوی اعتبار سے ناکامی کا منہ دیکھے گا۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ دنیا کے سامنے درس کے طور پر یہ حقیقت پیش کر دی گئی ہے کہ اگر آپ کو دنیا چاہئے، اگر دنیوی وقار آپ کو مطلوب ہے تو وہ بھی اسی راستے پر چلنے سے حاصل ہوگا، آپ کو اسی راستے پر آگے بڑھنا ہوگا۔ ملت ایران اس کا کامیاب تجربہ کر چکی ہے۔ اس کی قدر و منزلت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایرانی عوام حسینی اور عاشورائی جذبے کے ساتھ میدان عمل میں اترے اور ایک عظیم انقلاب کو جسے گزشتہ صدیوں کا بے نظیر یا کم نظیر انقلاب کہا جانا چاہئے، کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔ ملت ایران نے یہ روش اختیار کی اور لگاتار ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ البتہ دشمن اپنے پرچار میں اور اپنے تشہیراتی پروپیگنڈوں میں اس حقیقت کا اظہار اور اعتراف نہیں کرنا چاہتے لیکن بہرحال دنیا اندھی تو نہیں ہے، لوگ دیکھ رہے ہیں، طاغوتی شاہی دور کا ایران کہاں اور اسلامی جمہوریہ ایران کہاں؟! انیس سو اناسی کا ایران کہاں اور سنہ دو ہزآر تیرہ کا ایران کہاں ؟! علم و دانش کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، سلامتی اور سیکورٹی کے میدان میں، علاقائی تغیرات پراثرو نفوذ کے میدان میں، عالمی واقعات پر موثر کردار کے اعتبار سے، عزت و سعادت کا سفر طے کرنے کے عزم محکم کے اعتبار سے ہم کل کہاں تھے اور آج کہاں پہنچ چکے ہیں؟! آج ملت ایران برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انشاء اللہ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا، اس کا میں یقین دلاتا ہوں، قرائن کی بنیاد پر یہ مسلمہ حقیقت ہے۔

اور اب ماہ شعبان کے سلسلے میں چند جملے۔ تین شعبان کی جو خصوصیات ہیں ان سے قطع نظر، ہم اس وقت ماہ شعبان میں وارد ہو چکے ہیں جو عبادت، توسل اور مناجات کا مہینہ ہے۔ وَ اسمَع دُعائى اِذا دَعَوتُك، وَ اسمَع نِدائى اِذا نادَيتُك؛(۲) یہ پروردگار سے راز و نیاز کرنے کا مہینہ ہے، دلوں کو عظمت و نورانیت کے سرچشمے سے جوڑ دینے کا مہینہ ہے، اس کی قدر کرنا چاہئے۔ مناجات شعبانیہ ہمیں ملنے والا ایک عظیم تحفہ ہے۔ ہمارے پاس متعدد ماثورہ دعائیں ہیں جو بڑی رفعت و بلندی والے مضامین کی حامل ہیں تاہم بعض دعائیں خاص طور پر بہت نمایاں اور ممتاز ہیں۔ میں نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ سے سوال کیا کہ ائمہ علیہم السلام سے منقول دعاؤں میں آپ کس دعا سے خاص عقیدت رکھتے ہیں؟ امام خمینی نے جواب دیا کہ دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ، ان دونوں دعاؤں سے۔ امام خمینی تو بس ذات الہی میں غرق تھے۔ اللہ سے راز و نیاز کرتے، توسل کرتے، بارگاہ خداوندی میں ہمیشہ خاضع و خاشع رہتے، خالق ہستی سے آپ کو بڑا عمیق لگاؤ تھا۔ اس کے بعد آپ کہتے ہیں کہ دو دعاؤں دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ سے آپ کو خاص رغبت اور ربط ہے۔ آپ ان دونوں دعاؤں کے بارے میں غور کیجئے تو دیکھیں گے کہ ان میں بڑی شباہتیں اور مماثلتیں ہیں۔ یہ خضوع و خشوع میں ڈوبے جذبات کے ساتھ کی جانے والی دعا ہے؛ كَاَنّى بِنَفسى واقِفَةٌ بَينَ يَدَيك، وَ قَد اَظَلها حُسنُ تَوَكُّلى عَلَيك، فَقُلتَ ما اَنتَ اَهلُه، وَ تَغَمَّدتَنى بِعَفوِك؛(۳)، اللہ کی مغفرت و بخشش کی امید و آس، اللہ کی رحمت کی امید، عنایات خداوندی کی امید، اللہ سے بلند ہمتی کی التجا، اِلهى هَب لى كَمالَ الانقِطاعِ اِلَيك، و اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضياءِ نَظَرِها اِلَيك.(۴) ماہ شعبان ان عظمتوں کا حامل مہینہ ہے۔ پاکیزہ دلوں کو، ہمارے نوجوانوں کے قلوب کو، ان نورانی اذہان کو اس سنہری موقعے سے کما حقہ فیضیاب ہونا چاہئے، اللہ سے اپنا قلبی رشتہ مضبوط کرنا چاہئے۔

( قائد انقلاب اسلامی کا خطاب - 12-06-2013 )

Read 3271 times