فداھا ابوھا حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر

Rate this item
(0 votes)
فداھا ابوھا حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حضرت فاطمہ معصومہ (س) حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی بیٹی، امام علی رضا علیہ السلام کی بہن اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ہجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ شیخ عباس قمی فرماتے ہیں: "امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت صاحبزادی فاطمہ تھیں، جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں۔۱۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام  علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ حضرت فاطمہ معصومہ (س) بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے بہت مانوس تھیں، انہیں کے پر مرن دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔

اس عظیم خاتون کی فضائل کے لئے یہی کافی ہے  کہ امام وقت نے تین بار فرمایا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ کتاب "کشف اللئالی" میں مرقوم ہے کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیہم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے، جن کا جواب وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔ حضرت معصومہ (س) گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور ان کے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیئے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے ان کے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ اس وقت حضرت معصومہ (س) کی عمر بہت کم تھی، لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔۲۔

مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی (رہ) اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی سے نقل کرتے ہیں نخ حضرت معصومہ (س) کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا (س) کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مرحوم نے حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کی جگہ معلوم  کرنے کے لئے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا: "علیک بکریمہ اھل البیت" یعنی تم کریمہ اہلبیت (س) کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں۔" امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ (س) کی قبر ہے۔" پھر فرمایا: "کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے۔

امام رضا علیہ السلام کے مجبوراً شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد 201ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں، راستہ میں جب ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت کے مخالف تھے، لہٰذا حکومتی کارندوں کے سے مل کر حضرت اور ان کے قافلے پر حملہ کر دیا اور جنگ چھیڑ دی، جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سارے افراد شہید ہوگئے۳۔ حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا: مجھے شہر قم لے چلو، کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے: قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔ ۴۔ اس طرح حضرت وہاں سے قم روانہ ہوگئیں۔ بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے، مویٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور حضرت فاطمہ معصومہ (س) کو اہل قم نے گلبارن کرتے ہوئے موسٰی بن خزرج کے شخصی مکان میں لائے۔۵۔

بی بی مکرمہ نے 17 دنوں تک اس شہر امامت و ولایت میں زندگی گزاری، اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں، اس طرح اپنی زندگی کے آخری ایام خضوع و خشوع الٰہی کے ساتھ بسر فرمائے۔ جس جگہ آج حرم مطہر حضرت معصومہ (س) ہے، یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسٰی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ تھی۔ حضرت معصومہ (س) کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا، جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ (س) کے بدن اقدس کو اس قبر میں اتارے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ (س) کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کرکے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسٰی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ (س) کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔۶۔

امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں: "من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی" ۷۔ یعنی جس نے قم میں معصومہ (س) کی زیارت کی، گویا اس نے میری زیارت کی۔ حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: إِنَ لِلّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَکَةُ وَ إِنَ لِلرَّسُولِ (ص) حَرَماً وَ هُوَ الْمَدِینَهُ وَ إِنَ لِأَمِیرِالْمُؤْمِنِینَ(ع) حَرَماً وَ هُوَ الْکُوفَهُ وَ إِنَ لَنَا حَرَماً وَ هُوَ بَلْدَهٌ قُمَّ وَ سَتُدْفَنُ فِیهَا امْرَأَهٌ مِنْ أَوْلَادِی تُسَمَّی فَاطِمَةَ فَمَنْ زَارَهَا وَ جَبَتْ لَهُ الْجَنَةُ؛۸۔
"خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ میں ہے، رسول خدا کا ایک حرم ہے جو کہ مدینہ ہے، امیر المومنین کا ایک حرم ہے جو کہ کوفہ ہے اور ہم اہل بیت کا حرم ہے جو کہ قم ہے اور عنقریب میری اولاد میں سے موسٰی بن جعفر کی بیٹی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت کے صدقے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔"
ایک اور بیان کے مطابق آپکی زیارت کا اجر بہشت ہے۔ امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: "جو کوئی قم میں پورے شوق اور معرفت سے میری پھوپھی کی زیارت کرے گا، وہ اہل بہشت ہوگا"۹۔ حضرت فاطمہ زھرا (س) کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ (س) بنت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے۔" امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعھم" یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔"

منابع:
1۔ منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸
2۔ کریمہ اہل بیت، ص ۶۳ و ۶۴ نقل از کشف اللئالی
3۔ دلائل الامامہ ص/ ۳۰۹
4۔ زندگانی حضرت معصومہ/آقائے منصوری: ص/ ۱۴، بنقل از ریاض الانساب تالیف ملک الکتاب شیرازی
5۔ دریائے سخن تاٴلیف سقازادہ تبریزی: ص/۱۲، بنقل از ودیعہ آل محمد صل اللہ علیہ و آلہ/ آقائے انصاری
6۔ تاریخ قدیم قم ص/ ۲۱۳
7۔ مستدرک سفینہ البحار، ص۵۹۶؛ النقض، ص۱۹۶. بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۱۹.
8۔ ریاحین الشریعۃ، ج۵، ص۳۵.
9۔ کامل الزیارات، ص۵۳۶، ح۸۲۷؛ بحارالانوار، ج۱۰۲، ص۲۶۶.

Read 1520 times