امام رضا (ع) کی ولایت عہدی کا تحلیلی تجزیہ

Rate this item
(0 votes)
امام رضا (ع) کی ولایت عہدی کا تحلیلی تجزیہ
تحریر: ساجد مطہری

جیسا کہ مشہور ہے ’’سیاست میں کوئی دوست اور رشتہ دار نہیں ہوتا‘‘ کچھ ایسی ہی داستان عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دو بیٹوں مامون اور امین کی ہے، جب  مامون کو اپنے بھائی امین سے خطرہ لاحق ہوا تو اپنے سگے بھائی کے خلاف تلوار کھینچ لی، ہزاروں لوگوں کے قتل عام کے بعد مامون اپنے بھائی امین پر فائق آیا اور اس کا سر قلم کرکے اقتدار کی کرسی بچا لی۔ مامون عباسی خلفاء میں سب سے زیادہ ذہین، فطین اور شاطر مزاج آدمی تھا، لہذا امین کو اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد اسے مدینہ منورہ میں علویوں کی بغاوت کا خطرہ لاحق ہوا، اسے خبر پہنچ چکی تھی کہ دور دور سے لوگ امام رضا (ع) کے پاس جمع ہو کر ان کے فیوضات اور برکات سے سیراب ہو رہے ہیں اور ان کی بارگاہ اقدس میں زانو تلمذ خم کرکے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں، یہ بات مامون کے لیے انتہائی ناگوار اور ناقابل برداشت تھی، دوسری جانب مدینہ منورہ، مرو (خراسان) سے بہت دور تھا، وہ امام رضا (ع) کی علمی اور سیاسی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا چاہتا تھا، لہذا اس نے امام رضا (ع) کو "مرو" بلانے کا مصمم ارادہ کیا، اپنے وزیر فضل بن سہل کو بلایا اور اس سے مشورہ کرنے کے بعد امام رضا (ع) کو خراسان بلانے کے بعد ولایت عہدی کا عہدہ ان کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔[1]

عباسی خاندان کے لوگ اس فیصلے سے خوش نہیں تھے جبکہ دربار اور مامون کے حلقہ احباب میں بھی اس فیصلے سے متعلق آپس میں چہ میگویاں ہو رہی تھیں۔ چنانچہ مامون کو اپنے فیصلے کے پیچھے پوشیدہ راز آشکار کرنے پڑے، ان میں سے کچھ اہم اغراض و مقاصد یہ ہیں:
1۔ خلافت عباسیہ کی تثبیت و تائید
 مامون الرشید نے امام  رضا(ع) کے خراسان بلانے کا مقصد صراحت کے ساتھ بیان کیا  ہے، ’’میں ابو الحسن (ع) کو یہاں بلا کر ولایت عہدی کی پیشکش کروں گا، اب اگر امام رضا (ع) نے قبول کر لیا تو گویا انہوں نے خلافتِ عباسیہ کو قبول کیا ہے۔‘‘[2]
2۔ امام رضا (ع) کی سرگرمیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
 مامون چاہتے تھے کہ اس طریقے سے امام (ع) کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں کنٹرول میں رکھے، کیونکہ اگر امام رضا (ع) ولایت عہدی کے منصب کو قبول کر لیتے تو آپ خلافت عباسی کے زیر سایہ ایک ولی عہد کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیتے اور آپ کی کاوشیں خلافت عباسیہ کی تشہیر و ترویج کا باعث ہوتیں، یوں اس بات کا خطرہ ٹل جاتا کہ امام رضا (ع) مامون کے راستے میں رکاوٹ بن کر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرے گا۔[3]

3۔ لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی شان و عظمت گھٹانا
 مامون کا اس فیصلے سے ایک اور مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی شان اور عظمت گھٹائی جائے، کیونکہ جب امام (ع) ولایت عہدی کے منصب پر راضی ہو جاتا تو عاشقان، دلدادگان اور موالیان اہل بیت (ع) کو یہ باور کروایا جاتا کہ امام (ع) کی تمام تر سرگرمیاں دنیاوی لالچ کے حصول کے لیے تھیں، رفتہ رفتہ امام عالی مقام (ع) کا وقار اور رعب و دبدبہ ان کے چاہنے والوں کی نظروں میں ماند پڑ جاتا اور ان کے سینوں میں امام (ع) کے ساتھ جذبہ اور عشق و ولولہ ٹھنڈا ہو جاتا۔[4]
4۔ عراق اور یمن میں حکومت کیخلاف ہونیوالے قیاموں کا سدّباب
 عراق اور یمن کے بیشتر شہروں میں مامون کے خلاف قیام کے لیے تیاریاں ہو رہی تھیں اور واضح سی بات ہے کہ ہر دنیا پرست سیاستدان کی طرح مامون بھی ان تمام تر ممکنہ خطرات کو مول لینا نہیں چاہتا تھا اور بروز ہونے سے قبل ہی فتنہ دفن کرنا چاہتا تھا، جس کے لیے مامون کی نظر میں بہتر فیصلہ یہی تھا کہ امام رضا (ع) کو خراسان بلا کر ان کی تمام تر سرگرمیاں زیرِ نظر رکھی جائیں۔[5]
5۔  خراسان کے شیعوں کے دل موہ لینا
خراسان میں آلِ علی اور اہل بیت (ع) کے شیعوں کی اکثریت تھی، مامون کی کوشش تھی کہ ولایت عہدی کی پیشکش کے ذریعے انہیں بھی اپنی جانب رغبت دلا سکے اور یہ تاثر ظاہر کرے کہ میں بھی اہل بیت (ع) کا نام لیوا اور دلداہ ہوں، یوں علویوں کے خراسان میں عباسی حکومت کے خلاف ممکنہ اقدامات کا سدباب کیا جا سکے گا۔[6]

تحلیل و تجریہ:
لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو یہ مسئلہ عیاں اور آشکار ہو جاتا ہے کہ مامون کسی طرح بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، کیونکہ جب امام رضا (ع) خراسان پہنچے اور انہیں تعظیم و تکریم کے ساتھ ولایت عہدی کی پیشکس ہوئی تو امام (ع) نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور فرمایا: ’’اگر تم ہی خلافت کے لیے سزاوار ہو تو تیرے اس لباس کو اتار کر کسی دوسرے کو پہنانا جائز نہیں ہے اور خلافت تیرے لیے نہیں ہے تو تجھے اسے مجھے سپرد کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ امام عالی مقام کے اس جواب سے مامون کے ذہن میں چھپے پشت پردہ عزائم خاک میں مل گئے، لہذا مامون کو اپنا لہجہ تبدیل کرنا پڑا، آگ بگولہ ہو کر تھدید آمیز لہجے میں کہنے لگا: ’’اے اباالحسن! اگر آپ نے ولایت عہدی کی پیشکش ٹھکرا دی تو میں وہی سلوک کروں گا، جو خلیفہ ثانی نے اپنے بعد شوریٰ بناتے وقت کیا تھا کہ جو بھی شوریٰ کے انتخاب میں شرکت نہیں کرے گا، اسے قتل کیا جائے گا۔‘‘[7]

شہید مطہری (رہ) لکھتے ہیں: ’’ امام رضا (ع) ولایت عہدی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن حالات کی نزاکت کے باعث انہیں با دل نخواستہ ایسا کرنا قبول کرنا پڑا، کیونکہ ولایت عہدی کا مطلب یہی یہ ہے کہ مامون اس منصب کا حقدار تھا اور اب وہ کسی کو اپنا جانشین بنا رہا ہے۔‘‘ [8] اور جیسا کہ اس بات کی طرف امام رضا (ع) نے خود  اشارہ کیا ہے، فرمایا ’’جیسا کہ میرے جدّ علی ابن ابی طالب کو شوریٰ قبول کرنا پڑی تھی، میں بھی ایسے ہی ولایت عہدی قبول کر رہا ہوں‘‘ [9] بنابرایں،  امام رضا (ع) نے منصب ولایت عہدی قبول کرنے کے لیے شرائط رکھیں کہ وہ عزل و نصب نہیں کریں گے اور ہر طرح کا حکم دینے سے کناہ کش رہیں گے۔ یوں آپ نے اپنے دامن کو ظلم و استبداد پر مبنی حکومتی اقدامات کی تائید سے الگ کر دیا اور  ریاستی امور میں مداخلت سے کنارہ کش ہو کر اسلام کی ترویج و تشہیر میں مشغول ہوگئے، لوگ دور دور سے امام (ع) کی قدم بوسی اور زیارت کے لیے خراسان کا رخ کرنے لگے، امام (ع) کا حلقہ عشاق بڑھتا گیا، مامون کے لیے یہ حالت ناقابل برداشت تھی کہ ظاہری طور پر منصب خلافت کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود دربار میں بھی اس کا کوئی پرسان حال نہیں، جبکہ لوگوں کے دلوں کے اعماق پر امام (ع) کی حکومت و سلطنت ہے۔

لہذا عوام میں امام (ع) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کم کرنے کے لیے مامون نے مختلف مذاہب و مسالک کے نامور علماء کو دربار بلانا شروع کیا، لیکن اس کا یہ حربہ بھی کارساز نہ ہوا، مناظرے پر بلائے گئے تمام فرقوں کے علماء نے امام (ع) کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اب پورے خراسان میں امام (ع) کی شہرت کا بول بالا تھا اور مامون ان کے سامنے بالکل بے بس دکھائی دے رہے تھے، اس کی تمام تر تجاویز اور ترکیبیں جواب دے چکی تھیں۔ وقت گزرتا گیا، خشکسالی اور قحط سالی سے رنجیدہ لوگ اپنا مدعا لے کر خلیفہ وقت کے پاس آئے، اب مامون کو پاس امام (ع) کی آزمائش کا ایک اور موقع ہاتھ آیا، وہ لوگوں کو  اپنے ساتھ لے کر امام (ع) کی بارگاہ میں آیا اور کہنے لگا: ’’ اے اباالحسن! آپ امام اور اللہ تعالیٰ کی مقرب مخلوق ہیں، آپ ہی بارش کے لیے دعا کیجیے!‘‘

مامون کو پورا یقین تھا کہ بھلا اس چلچلاتی دھوپ میں کیسے بارش ہوسکتی ہے؟! اب امام (ع) بھی دعا سے انکار نہیں کرسکتے اور اگر ہاتھ اٹھا کر بارش کے لیے دعا مانگیں اور بارش نہ ہو تو لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی عظمت ختم جائے گی۔ امام عالی مقام نے فرمایا: "سب نماز استسقاء کے لیے صحرا کی طرف نکل آؤ، امام نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کئے، اچانک آسمان سے بادل نمودار ہوئے اور بجلی گرجنے لگی، لوگ بارش کے تصور میں اپنے لیے سر چھپانے کی تلاس میں ادھر ادھر دوڑے۔ امام (ع) نے فرمایا: یہ بادل فلاں علاقے پر برسیں گے، دس مرتبہ بادل نمودار ہوئے اور امام عالی مقام نے بادل برسنے کی جگہ کی نشاندہی کی، اب جو بادل آئے تو امام (ع) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہ بادل تمہارے لیے بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔"[10]

اس واقعہ نے مامون کی کمر توڑ دی، اب مامون امام (ع) کے سامنے عاجز اور بے بس ہوچکا تھا، خراسان میں قیام کے مختصر عرصہ (صرف دو ہی برسوں) میں امام (ع) کی شہرت آسمانوں کو چھو گئی تھی، لہذا مامون کے پاس امام (ع) کو شہید کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا اور آخرکار ایسا ہی ہوا، 201 ہجری کو امام رضا (ع) خراسان تشریف لائے تھے اور  30 صفر 203 ہجری کو امام عالی مقام نے مامون کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ مفيد، ارشاد، قم، مؤسسہ آل البيت، چھاپ اول، 1413، جلد2، ص261۔
[2]۔ صدوق، عيون الاخبار الرضا، تہران، انتشارات اعلمي، چھاپ اول، جلد2، ص 167۔
[3]۔ ابن صباغ مالكي، فصول المهمہ في معرفۃ الائمہ، قم، دارالحديث، چھاپ اول، 1422، جلد2، ص1027۔
[4]۔ صدوق، عیون اخبار الرضا، ص241۔
[5]۔ عاملي، جعفر مرتضيٰ، حياة السياسيه للامام رضا، قم، انتشارات جامعہ مدرسين، چھاپ جلد 2، 1362، ص 192. و حسن ابراهيم حسن، تاريخ سياسي اسلام، ترجمہ ابوالقاسم پاينده، تہران، انتشارات جاويدان، چھاپ نهم، 1376، جلد2، ص 174۔
[6]۔ گذشتہ حوالہ
[7]۔ اصفہاني، ابوالفرج، مقاتل الطالبيين، ترجمہ رسولي محلاتی، تہران، نشر صدوق، چھاپ دوئم، ‌بي‌تا، ص 524۔
[8]۔ شهيد مطہری، سيري در سيره ائمہ اطهار، جلد 27، تہران، صدرا، 1384، ص 207
[9]۔ شيخ صدوق، عيون اخبار الرضا، جلد 2، ص 141
[10]۔ مستدرک عوالم العلوم، محمد باقر ابطحی، مشہد مقدس، انتشارات بنیاد بین المللی فرھنگی ھنری امام رضا، ص421
 
 
 
Read 1389 times