تحریر: مولانا سید مشاہد عالم رضوی (تنزانیہ)
جب ہابیل اپنی شرافت پاکیزگی نفس اطاعت و تقوی کی بنا پر اپنے والد حضرت آدم علیہ السلامؑ کے قریب ہونے لگے تو قابیل کو اپنے بھائی ہابیل کی نسبت باپ کی یہ مجبت پسند نہ آئی اوراپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے بھائی سے حسد کرنے لگا حضرت آدم نے اپنی مجبت کا راز ظاہر کرنے کے لئے دونوں کو راہ خدا میں قربانی کا حکم دیا ہابیل چوپان یعنی بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور قابیل دہقان (کسان) تھا اس لئے دونوں اپنی اپنی قربانیوں کے لئے تیار ہوئے ہابیل طہارت نفس وپاکیزگی روح کی بنیاد پر ایک موٹا تازہ دنبہ یاگوسفند راہ خدا میں قربانی کرنے کے لئے لایا جبکہ قابیل نے کچھ ردی بالیاں راہ خدا میں پیش کیں ۔
اس وقت قربانی قبول ہونے کی علامت آسمانی آگ تھی یعنی جس کی قربانی قبول ہوتی آسمان سے آگ آکر اسے جلا ڈالتی چنانچہ یہی ہوا کہ ہابیل کی قربانی کو تھوڑی ہی دیر بعد آسمانی آگ نے جلا کر خاک کر دیا جبکہ قابیل کی ردی بالیاں میدان میں پڑی رہیں" اور پیغمبر آپ ان کو آدم کے دونوں فرزندوں کا سچا قصہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی / سورہ مائدہ/ 26"
تو ابتدائے خلقت کا یہی واقعہ ہمیں قربانی کےآغاز کے بارے میں بتا تا ہے جو راہ خدا میں نبی آدمؑ علیہ السلام کے حکم سے انجام پائی ۔
قربانی ابراہیم ؑ و اسماعیلؑ:
حضرت ابراہیم کا زمانہ نبوت آیا تو خداوند متعال نے نبوت کے ساتھ منصب امامت دینے کے لئے انھیں سخت آزمائشوں میں مبتلا کیا کیونکہ اطاعت ابراہیمی کی مثال انسانی تعمیر و تربیت میں آگے چل کر نہایت موثر واقع ہونے والی تھی اور ان کی زندگی خصوصیت سے نمونہ عمل قرار دی جانے والی تھی ، چنانچہ ابراہیم نار نمرود میں پھینکے گئے ، مکہ کی سنسان خشک و خالی زمین پر جناب ہاجرہ اور گود کے پالے اسماعیل کےساتھ ہجرت کا حکم ملا ، اور جب اللہ نے ان کے دل کے خلوص کوہر طرح سےآزما لیا تو پھر خواب میں جوان بیٹے اسماعیل کے ذبح کرنے کا حکم دیا ۔ " پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہو گیا تو انھوں نے کہا بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب تم بتاو کہ تمہارا کیا خیال ہے / سورہ صافات /102"
جناب ابراہیم نے اسماعیل جیسے ہونہار و معصوم بیٹے سے جب اپنا یہ خواب بیان کر دیا تو اسماعیل ؑ نےفرما یا : " بابا جو آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اس پر عمل کریں انشا اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے / صافات 102 "
اور پھرباپ بیٹے دونوں اللہ کے حکم کو انجام دینے کے لئے تیار ہو گئے جناب ابراہیمؑ نے اپنےجوان بیٹے کو راہ خدا میں قربان کرنےکےلئےمیدان منی میں لٹا دیا مگر اللہ نے اسماعیل ؑ کے بجائے دنبہ بھیج کر اسماعیل ؑ کو ذبح ہونے سے بچا لیا اور قربانی کے اس حسین مظاہرہ کو خدا وند متعال نے تاریخ انسانیت میں محفوظ کر لیا ۔" اور ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھا یا / صافات 105 ۔ " خدا وند عالم کو باپ اور بیٹے کی یہ اطاعت وفرمانبرداری اس قدر پسند آئی کہ اسے ھمیشہ ھمیشہ کےلئےحج کے ارکان کا ایک جز قرار دے دیا ۔ چنانچہ جناب ابراہیم کی یہ قربانی شعار اللہ کا حصہ بن گئی اس لئے حج میں موجود تمام حاجیوں پر 10 / ذی الحجہ کو میدان منی میں قربانی کرنا واجب قرار دیا گیا اورعام مسلمانوں پر مستحب موکد رکھی گئی۔ اس لئے 10 / ذی الحجہ کو دنیا بھر میں اس عظیم قربانی کی یاد میں قربانیاں ہوتی ہیں اور اگر فوت ہو جائے تو 11 اور 12 / ذی الحجہ کو اس نیک عمل کو انجام دینے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔
تاریخ آگے بڑھتی ہے :
آگے چل کر انھیں جناب ابراہیم کی نسل میں ہمارے نبی حضرت محمد ؐ پیدا ہوئے جو کبھی کبھی مقام فخر میں فرمایا کرتے تھے " انا بنُ الذبیحین "
میں دو قربانیوں کا بیٹا ہوں جواشارہ ہےجناب اسماعیل کی قربانی اور اپنےوالد جناب عبد اللہ کی قربانی کی طرف،
واقعہ یہ ہے: کہ جناب عبد المطلب(نبی اکرم ؐ کے دادا ) کعبہ کے متولی تھے اور اکیلے تھے ، اس لئے حاجیوں کی شایان شان پذیرائی سے معذور رہتے ایک دن چاہ زم زم کی کھدائی کا ارادہ کیا اوراس وقت آپ کو اپنی تنہائی اورقوت بازوکی کمی کا بڑی شدت سے احساس ہوا اوربارگاہ خدا میں اس طرح سےگویا دعا کی ؛ بار الہا اگرتومجھے ! تومجھے دس فرزند عطا کردےجو تیرے امر میں ہمارے مددگار ہوں تو میں اپنے ایک فرزند کو تیری راہ میں قربان کردوں گا ۔ اللہ نےانکی یہ دعا سن لی ۔ نذر پوری کرنے کا وقت آگیا بیٹوں کے نام کا قرعہ ڈالا ، جناب عبد اللہ ہمارے نبی کے والدجو فضائل و کمالات ، خاندانی وجاہت او رزیبائی وخوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے، ان کا نام نکلا ۔اہل خاندان اور مکہ والے اس بات سےبہت رنجیدہ ہوئےاور آخر کار مشورہ یہ دیا گیا کہ عبداللہ اور دس اونٹوں میں قرعہ اندازی کریں اور جب پھر عبد اللہ ہی کا نام قرعہ میں نکلا تو لوگوں کے مشورے سےاونٹوں کی تعداد بڑھاتے چلے گئے یہاں تکہ اونٹوں کی تعداد سو تک پہونچ گئی جو ایک انسان کی کامل دیت بھی ہے تواس وقت جناب عبد اللہ کےبجائےقرعہ اونٹوں کےنام نکلا ۔ اس طرح جناب عبد اللہ بچ گئے اور بدلہ میں سو اونٹ عبد اللہ کی جان پر قربان ہوگئے ۔اور
اس طرح ایک بار پھر ابراہیم ؑ و اسماعیلؑ کی قربانی کی یاد تازہ ہو گئی ۔
مگر ان مقدس قربانیوں کے حکم کے باوجود انسان کی قربانی کے بجائے جانور کی قربانی کا راز تاریخ میں چھپا رہا اور تاریخ نے آگے بڑھ کر اس راز سے اس وقت پردہ اٹھایا جب فخر ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ ، سبط رسول صلیاللہعلیہ وآلہ وسلم یعنی حضرتؐ امام حسین علیہ السلام دسویں محرم سن اکسٹھ ھجری کو میدان کربلا میں فوج یزید کے ہاتھوں شہید ہوئے اور قرآن کریم کے مطابق" و ٙ فٙدٙیْناہُ بِذِبح عظیم ۔ اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کوقرار دے دیا ہے / صافات 107 ۔"
کی تفسیر روشن ہو کر سامنے آئی
اس مقام پر علامہ اقبال کہتے ہیں :
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
سر ابراہیم و اسماعیل بود
یعنی آن اجمال را تفسیر بود
اس طرح امام حسینؑ قربانی ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ کی تفصیلی مثال بن کر افق تاریخ انبیا پر ظاہر ہوئے جو آج بھی مومنوں کے قلوب کو گرما رہی ہے اور انسانیت کو ہدایت کا راستہ دکھا رہی ہے ۔ اور راہ دین میں قربانی کا فلسفہ واضح کر رہی ہے ۔گویا دین کی بقا اور دوام معصوم نبی کی قربانی چاہتا ہے یا معصوم امام کی قربانی کا طالب ہے اس لئے آج بھی پیغمبرؐ کے سچے پیروکار قربانی ابراہیم و اسماعیل کی یاد بھی مناتے ہیں اور شہادت سبط نبی حضرت امام حسین کی بھی یادکو تازہ کرتے ہیں ۔اس طرح دس ذی الحجہ اور دس محرم کی قربانی کا تناسب ایک لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے۔
قربانی حضرت ابراہیم ؑو اسماعیلؑ سے پہلے اور بعد
Published in
اسلامی مناسبتیں