تحریر: محمد حسن جمالی
انسان نہیں تها، اللہ تعالیٰ نے اسے خلق کیا، مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا، زندگی کا مقصد سمجهایا، ہدایت اور ضلالت کے راستے دکهائے۔ انسان کی ہدایت کا مکمل انتظام کیا، اس کی راہنمائی کے لئے رسول ظاہری کو بهیجنے کے ساتھ رسول باطنی کو بهی مامور کیا۔ انسان کو راہ راست کی ہدایت کرکے صراط مستقیم پر گامزن رکهنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا بهیجنا اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ انسان ایک مجبور مخلوق نہیں بلکہ اللہ نے انسان کو خود مختار بنایا ہے۔ اگر انسان مجبور ہوتا تو اسے ہادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی، درنتیجہ نبیوں و رسولوں کی آمد لغو ہو جاتی اور اس سے خدا کا عبث و بے ہودہ فعل انجام دینا لازم آتا ہے، جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بے ہودہ و لغو کام انجام دینے سے منزہ ہے۔
انسان کے خود مختار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہدایت اور ضلالت کے راستے بالکل واضح اور نمایاں کرکے انسان کو دکهائے ہیں لیکن راستے کے انتخاب کا حق انسان کو عطا کیا ہے۔ انسان کی اپنی مرضی ہے، چاہے تو ہدایت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر چلے یا گمراہی کی راہ اپنا کر اس پر سفر کرے۔ البتہ خدا کا یہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا کہ روز قیامت ہدایت کی راہ پر چلنے والوں کو جزا اور ضلالت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر زندگی گزارنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ اسی اختیار کی قدرت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے آج دنیا میں انسانوں کی اکثریت ضلالت کے راستے پر گامزن ہے۔ وہ نہ جینے کے سلیقے سے واقف ہے اور نہ مرنے کے طریقے سے آشنا۔ اکثر انسانوں کی نظر میں حیوانوں کی طرح کهانا، پینا اور خواہشتات نفسانی کی تکمیل کرکے تولید نسل کرنا زندگی ہے۔ ان کی نگاہ میں دوسروں پر ظلم کرنا، دوسروں کی جان، مال، عزت اور آبرو سے کهیل کر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا لذت بخش زندگی ہے۔
نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے عمل کے ذریعے تا ابد بشریت کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکها دیا۔ دنیا میں جی کر مرنے سے تو ہر کوئی آشنا ہے، ہر انسان کو اس بات کا علم ہے کہ دنیا میں آنکھ کهولنے کے بعد ایک مدت تک انسان نے زندہ رہنا ہے، جینا ہے، زندگی کی نعمت سے لطف اندوز ہونا ہے، پهر انجام موت ہے اور مرنا ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت سے نہ کوئی بچا ہے اور نہ بچے گا، اس سے فرار کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں۔ مظلوم کربلا ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام نے دنیائے انسانیت کو نہ فقط حقیقی معنوں میں حیات اور موت کا مفہوم سمجهایا بلکہ نواسہ رسول نے آدم کی آولاد کو مر کر جینا بهی سکها دیا ہے۔ آپ نے مرنے سے پہلے کی زندگی کا تصور یوں پیش کیا ہے کہ اگر لوگ حق سے متصل رہ کر عزت سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو واقعی معنوں میں وہ زندہ ہیں، لیکن اگر وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی آغوش میں ذلت سے زندگی کے لمحات گزار رہے ہوں تو ایسی زندگی زندگی نہیں موت ہے۔
شہید انسانیت حسین(ع)
Published in
اسلامی مناسبتیں