|
مصنف: محمد صادق نجمی مترجم: محمدمنیرخان ھندی لكھیم پوری
حسنین پرصد قہ حرام ھے ,,عن ابی ھریرة؛ قال:کان رسول(ص) اللّٰہ یُوتیٰ بالتمر عند صِرام النخل، فیجیء ہذا بتمرة ،وہذا من تمرہ ،حتی یصیرعندہ کَوْما من تمر، فجعل الحسن(ع) والحسین(ع) یلعبان بذالک التمر، فاخذاحدھما تمرة، فجعلہ فی فیہ، فنظر الیہ رسول(ص) اللّٰہ(ص)،فاخرجھا من فیہ، فقال: اَمَاْ عَلِمْتَ اَنّّ آلَ مُحَمَّدٍ لَایَاْکُلُوْنَ الْصَّدَقَةَ؟!“[1] امام بخاری نے ابو ھریرہ سے نقل کیا ھے : جب خرموں کے توڑنے اور چننے کا وقت ھو جاتا تھاتو لوگ رسول(ص) کے پاس خرمہ زکات کے طور پر لایا کرتے تھے ، چنانچہ حسب دستور لوگ چاروں طرف سے آنحضرت(ص) کی خدمت میں خرمہ لے کر آئیجن کا ایک ڈھیر ہوگیا، حسنین علیھما السلام ان خرموں کے اطراف میں کھیل رھے تھے ،ایک روز ان دونوںشہزادوں میں سے کسی ایک نے ایک خرمہ اٹھا کر اپنے دهن مبارک میں رکھ لیا !جب رسول(ص) نے دیکھا تو اس کو شہزادے کے دهن سے باھر نکال دیا اور فرمایا: ” اَماَ عَلِمْتَ اَنَّ آل مُحَمَّدٍ لَایَاٴکُلُوْنَ الصَّدَقَة“؟اے میرے لال! کیا تمھیں نھیں معلوم آل محمد پر صدقہ حرام ھے، وہ صدقہ نھیں کھاتے؟! [2] اسی طرح دوسری روایت امام بخاری نے امام حسن (ع) سے یوں منسوب کی ھے: ”ان الحسن بن علی اخذ تمرةمن تمر الصدقة،فجعلھا فی فیہ، فقال النبی(ص): کخ کخ لیطرحھا،ثم قال: اما شعرت انا لا ناکل الصدقة“۔[3] ایک مرتبہ امام حسن (ع)بن علی (ع)نے صدقہ کا خرمہ منھ میں رکھ لیا تو رسول(ص) نے فرمایا:نہ ،نہ ،چنانچہ امام حسن (ع) نے خرمہ کو منھ سے باھر نکال دیا اس وقت رسول اسلام (ص)نے فرمایا : اے میرے لال ! کیا تمھیں نھیں معلوم کہ آل محمد(ص) پر صدقہ حرام ھے؟!
۲۔ شبیہ ِ رسول(ص) یعنی امام حسن و حسین (ع) ۱۔۔۔,, عن انس قال:لم یکن احد اشبہ بالنبی من الحسن بن علی(ص)“[4] امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ھے: امام حسن علیہ السلام رسول خدا(ص) سے سب سے زیادہ شباھت رکھتے تھے۔ ۲۔ ۔۔۔”راٴیت النبی وکان الحسن یشبہ “[5] دوسری روایت میں امام بخاری نے ابن جحیفہ سے نقل کیا ھے: میں نے رسول(ص) کو دیکھاتھا امام حسن آپ سے بالکل مشابہ ھیں ۔ ۳۔… عن عقبة بن الحا رث؛ قال: راٴیت ابابکر (رضی الله عنہ) وحمل الحسن وھو یقول:بابی شبیہ بالنبی(ص) لیس شبیہ بعلی ،وعلی یضحک“[6] اما م بخاری نے عقبہ ابن حا رث سے نقل کیا ھے : عقبہ بن حارث کھتے ھیں : ایک روز میں نے دیکھا کہ ابو بکر امام حسن (ع) کو کاندھے پر بٹھائے ہوئے جارھے ھیں اور یہ کہہ رھے ھیں : میرا باپ قربان ھو جائے آپ پر (اے حسن (ع))آپ شبیہ رسول ھیں نہ کہ شبیہ علی (علیہ السلام) اور علی (ع) اس (قضیہ) کو دیکھ کر مسکرا رھے تھے۔ ۴۔… ,,عن انس بن مالک؛ اُتِیَ عبید اللّٰہ بن زیاد براس الحسین(ع) بن علی علیہ السلام، فجُعِل فی طشت ،فجعل یَنْکُت،ُ وقال فی حسنہ شیئاً ،فقال انس: کا ن اشبہھم برسول(ص) اللّٰہ وکان مخضوباً بالوسمہ“[7] امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ھے : جب امام حسین علیہ السلام ک ا سر اقدس جو وسمہ سے مخضوب تھا، عبید اللہ بن زیاد علیہ اللعنة الدائمہ کے پاس لایا گیا ،تو آپ کے سر اقدس کو ایک طشت میں رکھا گیا ،ابن زیاد سر کے ساتھ بے احترامی (سر پر لکڑی مار رھا تھا) کررھا تھا اور آپ(ع) کے حسن و زیبائی کے بارے میں کچھ کھتا جاتا تھا ۔ انس بن مالک یہ بات نقل کرنے کے بعد کھتے ھیں : جبکہ امام حسین علیہ السلام سب سے زیادہ رسول اسلام(ص) سے شباھت رکھتے تھے۔
۳۔ حسنین علیھما السلام کے ساتھ آنحضرت (ص)کا بیحد محبت کرنا ,,… عن ابی ھریرة؛قبل رسول الله الحسن بن علی،وعندہ الاقرع بن حا بس التمیمی جالساً،فقال الاقرع: ان لی عشرة من الولد،ماقبلت منھم احدا،ً فنظررسول الله (ص)،ثم قال:من لا یرحم لایرحم “[8] امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھے: ایک مرتبہ رسول خدا(ص) امام حسن علیہ السلام کے بوسے لے رھے تھے، اس وقت آپ کے پاس اقرع بن حا بس بھی تھا، اس نے کھا: یا رسول(ص) اللہ ! میں دس فرزند رکھتا ہوں لیکن ابھی تک میں نے کسی کا بوسہ نھیں لیا، رسول(ص) نے فرمایا: جس کے دل میں ( فرزند کی) مھر و محبت نہ ھو وہ خدا کی رحمت سے دور رھے گا۔ عرض موٴلف اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے بھی مسند میں نقل کیا ھے لیکن امام حسن (ع) کی جگہ امام حسین بن علی(ع) کا نام ذکر کیا ھے۔[9]
۴۔ حسنین ریحا نہٴرسول(ص) ھیں ”۔۔۔ عن ابن ابی نعیم ؛قال: کنت شاھداً لابن عمر، وساٴلہ رجل عن دم البعوض، فقال: ممن انت؟ فقال :من اھل العراق، قال:انظروا الی ہٰذا یساٴلنی عن دم البعوض وقد قتلوا ابن النبی(ص)؟وسمعت النبی(ص)یقول:ھما ریحا نتا ی من الدنیا“۔ [10] امام بخاری نے ابن ابونعیم سے نقل کیا ھے: میں عبداللہ بن عمر کی مجلس میں تھا کہ کسی نے عبد اللہ ابن عمر سے مچھرکے خون کے بارے میں سوال کیا، عبد اللہ بن عمر نے کھا تو کھاں کا رهنے والا ھے؟اس نے کھا عراق کارهنے والا ہوں،اس وقت عبد اللہ ابن عمر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کهنے لگے: اے لوگو! اس شخص کو ذرا دیکھو ،مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں سوال کرتا ھے حا لانکہ یہ لوگ فرزند رسول(ص) امام حسین (ع) کا خون ناحق بھا چکے ھیں ؟! اس کے بعد عبد اللہ ابن عمر نے کھا: میں نے رسول(ص) سے سنا تھا کہ آپ(ع) نے فرمایا میرے یہ دونوںبیٹے ”حسن و حسین ریح ا نتای من الدنیا“ اس دنیا میں میرے پھول ھیں ۔
۵۔ حسنین (ع) کے لئے دعائے رسول(ص) ” … عن ابن عباس ؛قال:کان النبی(ص) یعوذ الحسن والحسین، ویقول: ان اباکما کان یعوذ بھا اسماعیل(ع) و اسحا ق، اعوذ بکلمات اللّٰہ التامّة من کل شیطان وھامّة ومن کل عین لامّة “[11] امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے: رسول(ص) نے امام حسن (ع) و امام حسین (ع) کے بارے میں مخصوص دعا کا تعویذ بنایا اور فرمایا: تمھاریجد ابراھیم نے اپنے دونوں فرزند اسمعیل و اسحا ق کے لئے اسی دعا کا تعویذ بنایا تھا : ,,اعوذ بکلمات اللّٰہ التا مّة من کل شیطان و ھامّة و من کل عین لامّة“
۶۔ اے خدا !جو حسن (ع) کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ ,, …عن ابی ھریرة؛ قال:خرج النبی(ص) فی طائفة النھار،ل ا یکلمنی ولا اکلمہ،حتی اتی سوق بنی قینقاع، فجلس بفناء بیت فاطمة(س)، فقال: اثم لکع اثم لکع؟فحبستْہ شیئاً ،فظننتُ انھاتلبسہ سخاباً اوتغسلہ، فجاء یشتد حتی عانقہ، وقبلہ ،وقال:اللّٰھم احببہ واحبب من یحبہ“[12] امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھے : ایک روز رسول(ص) خدا اپنے گھر سے بالکل خاموش باھر نکلے ،یھاں تک کہ بازاربنی قینقاع تشریف لائے اور یھاں سے پلٹ کر شہزادی کونین حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کے خانہ ٴ اطھر کے دروازے پر تشریف فرما ہوئے اور اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو ان لفظوں میں بلانے لگے: کیا لکع یھاں ھے؟ کیا لکع یھاں ھے؟[13] ابوھریرہ کھتے ھیں : جب فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا نے تاخیر کی تو میں نے سوچا کہ شاید آپ نے بچہ کو نظافت کی وجہ سے روک رکھا ھے ، اس کے بعد جب امام حسن علیہ السلام باھر تشریف لائے تورسول(ص)نے شہزادے سے معانقہ کیا اور بوسہ لیا اور اس کے بعد دعا کی: ”اے میرے پروردگار! اس کو دوست رکھ اور جو اس کو دوست رکھے اسے دوست رکھ“ قارئین محترم! یہ تھیں چند وہ آیات و احادیث جو صحیحین میں اھل بیت علیھم السلام کی شان میں نقل کی گئیں ھیں ، انھیں چند صفحا ت کادقت سے مطالعہ کرنے سے پتہ چل جاتا ھے کہ مسئلہٴ خلافت ایسا مسئلہ نہ تھا کہ رسول(ص) فراموش کردیتے اور مسلمانوں کے درمیان اس منصب کے لائق اور حقیقی خلفاء کی نشان دھی نہ کرتے،بلکہ یہ وہ مسئلہ تھا جسے رسو ل(ص) نے ھر جگہ بیان کرنا ضروری سمجھا اور متعدد موارد پر اپنے حقیقی خلفاء کا اعلان فرمایا۔ یہ بات بھی ذهن میں رھے کہ ھم نیجو صحیحین سے اھل بیت (ع)کے فضائل نقل کئے ھیں،یہ صحیحین میں ان کے فضائل کے انبار کے مقابلہ میں جو رسول خدا(ص) سے منقول ھیں اورجو سنیوں کی دیگرمعتبر کتب ِ احادیث و تواریخ میں موجود ھیں ،ایک تنکے سے بھی کم ھیں ،بھر حال اب ھم ان مطالب اوراحادیث کو نقل کرتے ھیں ،جنھیں خلفائے ثلاثہ سے متعلق ان دو کتابوں میں نقل کیاگیا ھے، لیکن اس سے قبل مولائے متقیان حضرت علی(ع) کا ایک خطبہ نقل کر دیں جو آپ نے امامت،خلافت ا ور حکومت کے بارے میں بیان کیا ھے اور نشان دھی فرمائی ھے کہ جو امت کا حا کم ھو اس کے لئے کون سے شرائط لازمی ھیں ۔[14] ________________________
[1] بخاری ج۲، کتاب الزکاة ،باب ”اخذ صدقہ التمر عند صرام النخل“ حدیث ۱۴۱۴۔ [2] مترجم: مذکورہ حدیث سے یہ واضح طور پر ثابت جاتا ھے کہ آل محمد(ع) پرصدقہ حرام ھے اس کا مفہوم یہ ہواکہ اصحا ب کے لئے جائز ھے گویا حرمت صدقہ آل محمد ا(ع)ور اصحا ب کرام کے درمیان حد فاصل ھے، اس حدیث میں امام بخاری نے تھوڑ ا سا اضافہ کیا ھے وہ یہ کہ ”حسنین (ع)نے کھجور کو دہن اقدس میں رکھ لیا تب رسول(ص) نے منع فرمایا “ایسا نھیں ھے بلکہ حسنین کھانے کے ارادہ سے بظاھر دیکھنے والوں کی نظر میں اٹھا رھے تھے ،مگر حقیقت یہ تھی کہ آپ دنیا والوں کی زبان پر اپنی فضیلت زبانِ رسالت سے سنوانا چاھتے تھے کہ آل محمد (ع)اور اصحا ب میں زمین و آسما ن کا فرق ھے، یعنی آپ (ع)یہ بتا نا چاھتے تھے کہ اے مسلمانو! کبھی آل محمد(ص) کے مقابلہ میں اصحا ب کا قیاس نہ کرنا : ”لایُقاسُ بِآلِ محمد(ص) من ہذہ اُلامَّةِ اَحَدٌ وَ لَایُسوَّی بھم مَنْ جَرَتْ نِعَمَتُھم علیہ اَبَداً ہُم اَساسُ الدِّین وَ عِمادُ الیقین اِلیھم یَفِئیُ الغَالِی و بھم یُلْحَقُ التاَّلِی و لَہُم خَصائِص حّقِّ الوِلَایَةِ وَ فِیھم الوَصِیَّةُ وَ الْوِراثَةُ “ شرح نہج البلاغہ ابن الی الحدید جلد۱صفحہ ۳۸ ( خطبہ نمبر۲) ترجمہ: اس امت میں کسی کو آل محمد(علیھم السلام) پرقیاس نھیں کیا جاسکتا ،کیونکہ جن لوگوں پر ان کے احسانات ھمیشہ جاری رھے ہوں ،وہ ان کے برابر نھیں ہوسکتے، یہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ھیں ، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ھے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ھے، حقِ ولایت کی خصوصیات انھیں کے لئے ھیں ، انھیں کے بارے میں پیغمبر کی وصیت اور انھیں کے لئے نبی کی وراثت ھے ۔۱۲ [3] صحیح بخاری جلد۲، کتاب الزکاة ،باب ”مایذکر فی الصدقہ للنبی“(ص) حدیث ۱۴۲۰۔ جلد۴ ،کتاب فضل الجھاد و السیر، باب” من تکلم بالفارسیة“حدیث۲۹۰۷۔ [4] صحیح بخاری جلد۵، کتاب فضایل الصحا بة، باب” مناقب الامام الحسن و الحسین(ع) “ حدیث ۳۵۴۰،۳۵۴۲ [5] صحیح بخاری جلد۴، کتاب المناقب، باب” صفة النبی“حدیث ۳۳۴۹،۳۵۰ ۳۔ [6] صحیح بخاری جلد۵ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب الامام الحسن و الحسین(ع) “ جلد۴، کتاب المناقب، باب” صفة النبی“۳۵۴۲، ۳۳۵۰۔ [7] صحیح بخاری جلد۵، کتاب الفضایل الصحا بة، باب ”مناقب الحسن و الحسین(ع) “حدیث۳۵۳۸ ۔ [8] صحیح بخاری جلد۸، کتاب الادب، باب(۱۷)” رحمة الولد و تقبیلہ و معا نقتہ “حدیث ۵۶۵۱۔ [9] مسند احمد بن حنبل جلد ۲ ،مسند ابو ھریرة، ص ۲۴۱ ۔ مترجم: ایک جگہ امام بخاری نے اس طرح نقل کیا ھے:(ع) آنحضرت(ص) نے فرمایا :اللّٰھم انی اُحبّہ فاَ حبَّہ، اے خدا !تو حسن (ع) کو دوست رکھ کیونکہ میں اس کو دوست رکھتا ھو ں۔ صحیح بخاری جلد ۳ ،کتاب الفضایل الصحا بة ،باب ”مناقب حسن(ع) حسین “حدیث ۳۵۳۹،۳۵۳۷،باب ”ذکراسامة بن زید“ حدیث۳۵۲۸۔ [10] صحیح بخاری جلد۸ ،کتاب الادب ،باب ”رحمة الولد و تقبیلہ“ حدیث۵۶۴۸ ۔ مترجم:(صحیح بخاری ج۳ ،کتاب الفضایل الصحا بة، باب(۲۴)”مناقب الحسن والحسین“ ح۳۵۴۳۔) [11] صحیح بخاری جلد۲ ،کتاب الانبیاء، باب ”(سورہٴ صٰفات آیت ۹۴ )یزفون النسلان“ حدیث۳۱۹۱۔ [12] صحیح بخاری جلد۳، کتاب البیوع، باب(۴۹)” ماذکر فی الاسواق“ حدیث۲۰۱۶۔ جلد ۷، کتاب اللباس، باب(۵۸)” السِخّاب للصبیان“ حدیث۵۵۴۵ ،صحیح مسلم جلد ۷ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب(۸ )”فضائل الحسن و الحسین علیھما السلا م“ حدیث۲۴۲۱۔ (معانقہ کے جملے صحیح مسلم میں آئے ھیں صحیح بخاری میں نھیں ۔مترجم ) [13] نوٹ:لکع بمعنی چھوٹا بچہ استعمال کیا جاتا ھے ، دیکھئے :نھایہ ابن اثیر ۔ [14] اگر آپ اس خطبہ کی روشنی میں خلفائے ثلاثہ کی زندگی کو دیکھیں تو پھر آپ کو اس بات کے تسلیم کرنے میں کسی طرح کی شرم اورجھجھک محسوس نہ ھو گی کہ منصب خلافت کے واحد حقدار حضرت علی ابن ابی طالب(ع) تھے۔مترجم۔
|
|