کربلا بھی عجب ہے کہ جب بھی اس کے بارے سوچا، اس کا خیال دل میں لائے، اس کو جاننے کی جستجو کی، اس کو پڑھنے کی کوشش کی، اس کو سمجھنے کا ارادہ کیا، اس کی معرفت کا در وا کیا، اس کے دروازے پہ دستک دی، اس کی گہرائیوں میں جھانکنے کی سعی کی، اس کی حقیقت کو پانے کی کوشش کی، اس نے پہلے سے زیادہ معرفت عطا کی۔ پہلے سے بڑھ کر پیاس اور تڑپ پیدا کی، نئے زاویئے کھولے، نئی گرہیں کھولیں، نئے در وا کئے۔ چودہ صدیاں ہوگئیں اس فاجعہ کو، ابھی تک اس پر ایسے ہی بات ہوتی ہے، جیسے بس آج کا سانحہ ہو، جیسے گزرے کل کی بات ہو۔ جو بھی ایام محرم میں اس کی طرف متوجہ ہوا کہ کچھ مل جائے، اسے معرفت کے نئے خزانے مل گئے۔ ہم جو چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کی گہرائیوں اور اس کی معرفت کی کوشش کرکے نئے زاویوں سے آگاہ ہو کر جھوم جھوم جاتے ہیں، کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہم نے امام حسین ؑ اور ان کے نانا کو دیکھا نہیں، ہم نے ان کی زیارت نہیں کی، ہم نے ان کی مصاحبت نہیں کی۔
ہم نے ان کے چہرہ انور کی زیارت کرتے ہوئے ان کی زبان وحی سے حسنین کریمین ؑ کی شان اقدس میں احادیث مبارکہ "حسین مجھ سے ہے، میں حسین سے ہوں، جو اس سے محبت رکھے گا، وہ مجھ سے محبت رکھے گا، اللہ اسے دوست رکھے گا، جو اسے دوست رکھے گا۔"، "حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔" بیان کرتے نہیں سنی۔ ہم نے مسجد نبوی میں خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ، محبوب کبریا کو خطبہ دیتے منبر سے اتر کر شہزادوں کو اٹھا کر گود میں بٹھاتے نہیں دیکھا اور ہم نے وحی کے بغیر کلام نہ کرنے والے نبی رحمت کو واجب نماز میں حالت سجدہ میں شہزادگان کو نانا کی پیٹھ پہ سوار ہو کر سواری کرتے اور سجدے کی طوالت میں نہیں دیکھا۔ ہم نے رسول خاتم کو امام حسین ؑ کی زندگی میں جب بی بی ام سلمیٰ کو ایک خاک والی شیشی دی اور فرمایا کہ اسے سنبھال لو، جب یہ خون میں تبدیل ہو جائے تو سمجھ لینا میرا حسین دشت نینوا میں شہید ہوگیا، یہ کہتے ہوئے امام حسین ؑ پر رسول خدا کو عزا برپا کرتے، گریہ کرتے نہیں دیکھا۔ پھر بھی ہم نے یقین کیا۔
ہم نے رسول خاتمؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے امام حسین ؑ کے غم میں آنسوؤں کا سیلاب برپا کر دیا، جس نے یزیدیت کی اسلام کے خلاف سازشوں کو بہا دیا۔ ہم نے چودہ صدیاں بعد بھی رسول و آل رسول کے غم کو اپنے غموں سے بڑھ کر اہمیت دی، جو بھی حسینی ہیں، اپنے غموں کو بھول کر ان ایام میں فقط آل نبی کے غموں پہ نوحہ کناں اور ماتم کناں ہوتے ہیں۔ کیا عجیب لوگ تھے، جو چودہ صدیاں پہلے رسول خدا کی زبان وحی سے سب کچھ سن کر جنت کے ان سرداروں کو اپنی تلواروں سے خون میں تر بہ تر کرنے کیلئے تل گئے۔ کیا عجیب لوگ تھے، جو خاتم الانبیاء کو بوسے دیتے، گلے لگاتے، چومتے، واجب نماز میں پیٹھ پہ سواری کرواتے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی بے قصور قتل کرنے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی دوڑ میں شامل نظر آئے۔ کربلا عجب ہے کہ اس نے عرب کے قبائلی تعصب، جو بہ طاہر چھپ گیا تھا اور نوزائیدہ اسلام کے وسیع مفادات کی وجہ سے بہ ظاہراً چھپ گیا تھا، رسول خاتم کی رحلت کے چند برس بعد ہی اسے کھول کر رکھ دیا کہ اب رہتی دنیا تک طلقاء کی اولادوں کے ہاتھوں اسلام پر ہونے والے حملوں اور سازشوں کا پردہ چاک کرنے میں کسی کو جھجھک نہیں ہوتی۔
ہاں اس میں بھی چودہ صدیاں پہلے کی طرح آل نبی کے ساتھ تعصب برتنے والے پیچھے نہیں رہتے، اگر اپنی آنکھوں سے رسول خاتم ؐ کو دیکھنے اور سننے والوں سے کربلا کا عظیم سانحہ رونما ہونا ممکن ہے تو آج کے چودہ صدیاں بعد کسی متعصب، ناصبی طلقاء کی اولاد سے جب یہ سنتے ہیں کہ محرم میں شادیاں رچاؤ، بہت ثواب کا کام ہے تو حیرانی کیسی۔؟ مجالس امام حسین ؑ ، جلوس ہائے عزاء کی مخالفت کرنے والے اس دور کے نام نہاد مسلمانوں کے اس عمل پر قطعاً حیرانگی نہیں ہوتی کہ اللہ کے نبی جس نے انہیں کلمہ پڑھایا، مسلمان بنایا، اس سے مسواک کا سائز، عمامے کا رنگ تک تو لینا نہیں بھولے، اگر بھولے ہی ہیں تو نبی رحمت کے فرزندان کے بارے معتبر ترین حدیث کو بھول گئے اور غم حسین منانے ؑ کی سنت بھول گئے، ایسے نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے جب جلوس و مجالس کی مخالفت سامنے آتی ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔ یہی امت مسلمہ کی تاریخ ہے، یہی ان کی محبت رسول ہے، یہی ان کا دعویٰ محبت اہلبیت ؑ ہے۔
جو لوگ یزید کی وکالت کیلئے مرے جا رہے ہیں، ان کو بھی یہ ورثہ ان کی گھٹیوں میں پلایا گیا ہے، جس طرح محرم میں شادیاں کروانے پر زور دیا جا رہا ہے، دراصل یہ یزید زادے پیدا کرنے کا منظم منصوبہ ہے، علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے بجا فرمایا تھا کہ
حقیقتِ ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
اور در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا میں فرمایا۔۔
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
یزید فرعون، نمرود و شداد کا وارث تھا، جس کا راستہ آل ابراہیم، آل ابو ہاشم کے چشم و چراغ امام حسین ؑ نے روکا، ورنہ اسلام جو ابھی نوزائیدہ تھا، وہ آل امیہ اور طلقاء کی اولادوں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی ازلی سازشوں کی نذر ہو جاتا اور لوگ ان کے پراپیگنڈہ اور چکا چوند سے اصل کو بھول ہی جاتے۔
مگر امام حریت و آزادی نے اپنے اکہتر ساتھیوں سمیت ریگ زار کربلا پر ایسا تاریخ ساز معرکہ لڑا، جس کے بعد رہتی دنیا تک اسلام کی حقانیت اور اس کی تازگی شہدائے کربلا کے سرخ خون کی بدولت خوشبو بکھیرتی رہیگی اور اس واقعہ پہ لکھنے والے اپنے قلم کی سیاہی سے شہداء کے پاک لہو کی سرخی کو اوراق تاریخ پر نقش کرتے رہینگے۔ علامہ محمد اقبال (رہ) نے جو لکھا ہے، وہ انتہائی قابل غور ہے، فرمایا
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گر دیدہ است
اب قیامت تک یزید کے پیرو، اس کے چاہنے والے، اس سے محبت اور فرزند نبی سے اپنا بغض اور دشمنی رکھنے اور دکھانے والے آتے رہیں، اس سے اسلام کو کچھ فرق نہیں پڑنے والا، اسلام تا قیامت جبر و استبداد اور بادشاہت، خاندانی وراثت کے دعویداروں کی خونی پنجوں سے آزاد ہوچکا، امام حسینؑ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے وفاؤں کے جو چراغ روشن کئے، اس کے بعد اگر امت مسلمہ سے کسی نام نہاد مسلمان کے زبان و عمل سے امام عالی مقام امام حسین ؑ اور ان کے پاکباز ساتھیوں کے غم کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس کی مخالفت کی جاتی ہے تو بھلے کرنے دو، امام حسین کو تو بس جو چاہیئے تھے، وہ شب عاشور ان کے پاس تھے اور کہہ رہے تھے۔۔۔
دیا بجھا کے کہتے تھے ساتھیوں سے یہ حسین ؑ
جو چاہو ڈھونڈ لو کوئی رستہ اماں کیلئے
کہا یہ سن کے رفیقوں نے یک زبان ہو کر
یہ جان تو وقف ہے مولائے انس و جاں کے لئے
ہماری تو منزلِ آخر ہے آستان حسین ؑ
یہ سر جھکے گا نہ اب اور کسی آستاں کے لئے
تحریر: ارشاد حسین ناصر