امام زین العابدین علیہ السلام نے 61 ہجری میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھالیں اور 94 ہجری میں آپ کو زہر سے شہید کر دیا گیا۔ اس پورے عرصے میں آپ (ع) اسی الہیٰ مقصد کی تکمیل کے لئے کوشاں رہے، جس پر آپ سے پہلے دیگر آئمہ کوشاں رہے۔ وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے، وہ اعمال جو آپ (ع) نے انجام دیئے، وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں، وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں جو آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہین، ان سب کی امام (ع) کے اسی بنیادی موقف کی روشنی میں تفسیر و تعبیر کی جانی چاہیئے۔ چنانچہ اس پورے دور امامت میں مختلف موقعوں پر حضرت (ع) کے موقف اور فیصلوں کو بھی اسی عنوان سے دیکھنا چاہیئے۔ مثال کے طور پر اسیری کے دوران کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد اور پھر شام میں یزید پلید کے مقابلہ میں آپ (ع) کا موقف جو شجاعت و فداکاری سے بھرا ہوا تھا۔
امام زین العابدین علیہ السلام کے مختلف موقفوں اور اقدامات کا بڑی باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس بنیادی موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام جزئیات و حوادث کا جائزہ لیا جائے تو بڑے ہی معنی خیز حقائق سامنے آئیں گے۔ امام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو عظیم ہستی ایک ایسا انسان نظر آئے گی، جو اس روئے زمین پر خداوند وحدہ لا شریک کی حکومت قائم کرنے اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں نافذ کرنے کو ہی اپنا مقدس مقصد سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر کوشش و کاوش بروئے کار لاتا رہا ہے اور جس نے پختہ ترین اور کار آمد ترین کارکردگی سے بہرہ مند ہوکر نہ صرف یہ کہ اسلامی قافلہ کو اس پراگندگی اور پریشاں حالی سے نجات دلائی ہے، جو واقعہ عاشور کے بعد دنیائے اسلام پر مسلط ہوچکی تھی بلکہ قابل دید حد تک اس کو آگے بھی بڑھایا ہے۔ دو اہم اور بنیادی فریضے جو ہمارے تمام ائمہ علیہم السلام کو سونپے گئے تھے، ان کو امام سجاد علیہ السلام نے بڑی خوش اسلوبی سے جامہ عمل پہنایا ہے۔
امام علیہ السلام کی زندگی کا وہ مختصر اور تاریخ ساز دور، معرکہ کربلا کے بعد آپ (ع) کی اسیری کا زمانہ ہے، جو مدت کے اعتبار سے مختصر، لیکن واقعات و حالات کے اعتبار نہایت ہی پرہیجان اور و سبق آموز ہے، جہاں اسیری کے بعد بھی آپ کا موقف بہت ہی سخت اور مزاحمت آمیز رہتا ہے۔ بیمار اور قید ہونے کے باوجود کسی عظیم مرد مجاہد کی مانند اپنے قول و فعل کے ذریعے شجاعت و دلیری کے بہترین نمونے پیش کئے ہیں۔ ایام اسیری میں امام (ع) کے اقدامات بالکل کسی پرجوش انقلابی کی مانند نظر آتے ہیں، جس کے لئے کوئی معمولی سی بات بھی برداشت کر لینا ممکن نہیں ہے۔ لوگوں کے سامنے بلکہ پھرے مجمع میں بھی مغرور و بااقتدار دشمن کا دندان شکن جواب دینے میں کسی طرح کا تامل نہیں کرتے۔
کوفہ کا درندہ صفت خونخوار حاکم، عبیداللہ ابن زیاد جس کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے، جو فرزند رسول (ص) امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعوان و انصار کا خون بہا کر مست و مغرور اور کامیابی کے نشہ میں بالکل چور ہے، اس کے مقابلہ میں حضرت (ع) ایسا بے باک اور سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ ابن زیاد آپ (ع) کے قتل کا حکم جاری کر دیتا ہے۔ چنانچہ اگر جناب زینب سلام اللہ علیہا ڈھال کی مانند آپ (ع) کے سامنے آکر یہ نہ کہتیں کہ میں اپنے جیتے جی ایسا ہرگز نہ ہونے دوں گی اور ایک عورت کے قتل کا مسئلہ درپیش نہ آتا نیز یہ کہ قیدی کے طور پر دربار شام میں حاضر کرنا مقصود نہ ہوتا تو عجب نہیں ابن زیاد امام زین العابدین علیہ السلام کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگین کر لیتا۔
بازار کوفہ میں آپ (ع) اپنی پھوپھی جناب زینب (ع) کے ساتھ ہم صدا ہو کر تقریر کرتے ہیں، لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرتے ہیں اور حقیقتوں کا انکشاف کر دیتے ہیں۔اسی طرح شام میں چاہے وہ یزید کا دربار ہو یا مسجد میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم، بڑے ہی واضح الفاظ میں دشمن کی سازشوں سے پردہ اٹھا کر حقائق کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت (ع) کے ان تمام خطبوں اور تقریروں میں اہلبیت (ع) کی حقانیت، خلافت کے سلسلہ میں ان کا استحقاق اور موجودہ حکومت کے جرائم اور ظلم و زیادتی کا پردہ چاک کرتے ہوئے نہایت ہی تلخ اور درشت لب و لہجہ میں غافل و ناآگاہ عوام کو جھنجوڑنے اور بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس قید و بند کے سفر میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار جناب زینب سلام اللہ علیہا کے کردار سے بالکل ہم آہنگ ہے۔ دونوں کا مقصد حسینی انقلاب اور پیغامات کی تبلیغ و اشاعت ہے۔ اگر لوگ اس بات سے واقف ہو جائیں کہ حسین علیہ السلام قتل کر دیئے گئے، کیوں قتل کر دیئے گئے؟ اور کس طرح قتل کئے گئے تو آئندہ اسلام اور اہلبیت علیہم السلام کی دعوت ایک نیا رنگ اختیار کر لے گی، لیکن اگر عوام ان حقیقتوں سے ناواقف رہ گئے تو انداز کچھ اور ہوگا۔ لہٰذا معاشرہ میں ان حقائق کو عام کر دینے اور صحیح طور پر حسینی (ع) انقلاب کو پہچنوانے کے لئے اپنا تمام سرمایہ بروئے کار لاکر جہاں تک ممکن ہوسکے اس کام کو انجام دینا ضروری تھا۔
آپ کی حیات طیبہ کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے، جب آپ (ع) مدینہ رسول (ص) میں ایک محترم شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور اپنا کام پیغمبر اسلام (ص) کے گھر اور آپ (ع) کے حرم (مسجد النبی (ص)) سے آغاز کرتے ہیں۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے آئندہ موقف اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کی حالت و کیفیت اور اس کے تقاضوں پر بھی ایک تحقیقی نظر ڈال لی جائے۔ جب عاشور کا المناک حادثہ رونما ہوا، پوری اسلامی دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ خبر پہنچی، خصوصاً عراق اور حجاز میں مقیم ائمہ علیہم السلام کے شیعوں اور طرفداروں میں ایک عجیب رعب و وحشت کی فضا پیدا ہو گئی، کیونکہ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ یزیدی حکومت اپنی حاکمیت کو مسلط کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے، حتیٰ اس کو عالم اسلام کی جانی پہچانی عظیم، مقدس اور معتبر ترین ہستی فرزند رسول (ص)حسین ابن علی علیہما السلام کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے میں بھی کسی طرح کا کوئی دریغ نہیں ہے اور اس رعب و وحشت میں جس کے آثار کوفہ و مدینہ میں کچھ زیادہ ہی نمایاں تھے، جو کچھ کمی رہ گئی تھی، وہ بھی اس وقت پوری ہوگئی جب کچھ ہی عرصہ بعد بعض دوسرے لرزہ خیز حوادث رونما ہوئے، جن میں سرفہرست حادثہ ”حرہ“ ہے۔
اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے زیر اثر علاقوں یعنی حجاز خصوصاً مدینہ اور عراق خصوصاً کوفہ میں بڑا ہی گھٹن کا ماحول پیدا ہوگیا تھا، تعلقات و ارتباطات کافی کمزور ہوچکے تھے۔ وہ لوگ جو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے طرفدار تھے اور بنو امیہ کی خلافت و حکومت کے زبردست مخالفین میں شمار ہوتے تھے، بڑی ہی کسمپرسی اور شک و شبہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ حضرت امام سجاد (ع) نے اپنی سیرت اور نہج کے ذریعے کبھی بھی گوشہ نشینی، صوفیت یا رہبانیت کی نمائندگی نہیں کی، امام سجاد (ع) نے سانحہ کربلا سے ناقابل تصور صدمہ اٹھایا اور اس کے بعد اپنی سیرت و کردار اور سچے گفتار و بیان کے ذریعے جہاد کیا اور اپنے گرد موجود لوگوں کو ایسے ہدایت یافتہ گروہوں میں تبدیل کر دیا کہ جنہوں نے ظالموں کے دلوں میں زلزلہ برپا کر دیا اور ان کے تاج و تخت کو ہلا کر رکھ دیا۔
امام سجاد سانحہ کربلا کے بعد تمام ھم و غم اور الم و دکھوں کے باوجود معاشرے کے درمیان رہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد آپ کے گرد جمع ہوگئی اور چشمہ امامت سے سیراب ہونے لگی، آپ کے علم و فضل، بزرگی و دانائی اور فضائل و مناقب کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ حضرت امام سجاد (ع) کی دعاؤں میں سے صرف چند دعائیں ہی ہم تک کتابی صورت میں پہنچیں ہیں، جو دنیا میں صحیفہ سجادیہ کے نام سے جانی جاتی ہیں، لیکن ان دعاؤں میں موجود عظیم ترین مفاہیم و معانی کے لعل و جواہر کو مدنظر رکھتے ہوئے بابصیرت لوگ دعاؤں کے اس مجموعے کو "زبور آل محمد" کہتے ہیں۔ ان دعاؤں نے عارفین کے دلوں کو حرمِ خدا اور معرفتِ الہیٰ کی ناقابلِ تصور بلندیوں تک پہنچا دیا، عابدوں کے لیے محرابِ عبادت میں وہ لذت مہیا کر دی کہ جس نے ان کے لیے فانی دنیا کی لذتوں کو بے معنی کر دیا، زاہدوں کو ایسا زادِ راہ عطا کیا، جس سے وہ دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوگئے۔۔۔۔۔
حضرت امام سجاد (ع) ایسے بلند اخلاق کے مالک تھے کہ مومنین کے دل ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور بشری پیکر میں موجود اس مشعلِ نور سے ہدایت حاصل کرتے تھے۔۔۔۔۔ ہشام بن عبد الملک تخت حکومت پر بیٹھنے سے پہلے ایک مرتبہ حج کے لیے آیا تو طواف کے بعد حجر اسود کا بوسہ لینے کے لیے اس نے حجر اسود تک پہنچنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ لوگوں کے رش کی وجہ سے حجر اسود تک نہ پہنچ سکا، پھر اس کے لیے حطیم میں زم زم کے کنویں کے پاس ایک منبر لگا دیا گیا، جس پر بیٹھ کر وہ لوگوں کو دیکھنے لگا اور اہل شام اس کے گرد کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران حضرت امام سجاد (ع) بھی آکر خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے اور جب وہ حجر اسود کی طرف بڑھے تو لوگوں نے امام سجاد (ع) کو خود ہی راستہ دے دیا اور وہ حجر اسود کے پاس بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر ایک شامی نے کہا: یہ کون ہے، جس کی لوگوں کے دلوں میں اتنی ہیبت و جلالت ہے کہ لوگ اس کے لیے دائیں بائیں ہٹ کر صف بستہ کھڑے ہوگئے؟ ہشام نے اس شامی کو جواب دیتے ہوئے کہا: میں اس کو نہیں جانتا۔ (حالانکہ ہشام خوب اچھی طرح سے امام سجاد (ع) کو جانتا اور پہنچانتا تھا لیکن پھر بھی اس نے جھوٹ بولا کہ کہیں ان شامیوں کے دل میں امام سجاد (ع) کی ہیبت و جلالت نہ بیٹھ جائے)۔ فرزدق بھی وہیں پر موجود تھا، اس نے سوال کرنے والے شامی سے کہا: میں اس شخص کو جانتا ہوں۔ اس شامی نے کہا: اے ابا فراس کون ہے یہ؟ تو فرزدق نے اس کے جواب میں ایک ایسا قصیدہ پڑھا کہ جس نے باطل کے پردوں کو ہٹا کر ہر طرف حق کا نور پھیلا دیا، اس قصیدہ کے چند اشعار کا ترجمہ سامعین کے نظر ہے: "یہ وہ شخصیت ہیں، جن کے نشانِ قدم کو بھی وادئ بطحاء (مکہ) پہنچانتی ہے، انھیں خانہ کعبہ، حرم اور حرم سے باہر کا سارا علاقہ پہنچانتا ہے۔ یہ تمام بندگان خدا میں سے بہتر و افضل ہستی کے فرزند ہیں، یہ متقی و پرہیزگار پاک و پاکیزہ اور عَلمِ ہدایت ہیں۔ یہ علی ہیں اور ان کے بابا رسول خدا (ص) ہیں، کہ جن کے نور سے امت تاریکیوں میں ہدایت حاصل کرتی ہے۔ جب قریش انھیں دیکھتے ہیں تو کہنے والے کہتے ہیں، ان کے بلند مرتبہ اخلاق پہ جود و سخا کی انتہاء ہوتی ہے۔ انھیں عزت و شرف کی وہ بلندی نصیب ہوئی ہے، جس کو پانے سے عرب و عجم قاصر ہیں۔
اگر یہ حجر اسود کا بوسہ لینے نہ آتے تو حجر اسود والا کونہ خود ان کی ہتھیلی کو چومنے ان کے پاس پہنچ جاتا۔ وہ حیا و شرافت کی وجہ سے آنکھیں جھکائے رکھتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت و جلالت کی وجہ سے آنکھیں نیچی رکھتے ہیں اور ان سے صرف اس وقت بات کی جا سکتی ہے جب وہ مسکرا رہے ہوں۔ اگر تم ان کو نہیں جانتے تو جان لو یہ فرزندِ فاطمہ ہیں، ان کے جد امجد پر تمام انبیاء کی نبوت کا اختتام ہوتا ہے۔ لوگوں کا ان (آل رسول) سے محبت کرنا عین دین ہے اور ان سے بغض و کینہ رکھنا عین کفر ہے، ان کا قرب ہی نجات دینے والا اور بچانے والا ہے۔ ان کی محبت کے صدقہ میں شر اور بلائیں دور ہوتی ہیں اور ان کے وسیلے سے احسان خدا اور نعمات الہیٰ کو حاصل کیا جاتا ہے۔ ذکرِ خدا کے بعد ہر روز ان کا ذکر سب سے مقدم و افضل ہے اور انھی کے ذکر کے ساتھ کلام کا اختتام ہوتا ہے۔ اگر اہل تقویٰ کو شمار کیا جائے تو یہ متقیوں کے امام نظر آئیں گے اور اگر کوئی کہے زمین پر سب سے افضل کون ہیں؟ تو بھی کہا جائے گا، سب سے افضل یہی ہیں۔"
حضرت امام سجاد (ع) ہی وہ شخضیت ہیں کہ جن کا خشوع و خضوع، زہد و تقویٰ اور عبادت و خدا پرستی ضرب المثل بن گئی اور آج تک آپ کو زین العابدین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت امام سجاد (ع) نے اپنے کردار و عمل سے ظالموں اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ امام سجاد (ع) کبھی تو اپنے مظلوم بابا حضرت امام حسین (ع) کی شہادت اور سانحہ کربلا کے مصائب پر گریہ کرتے، کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے اور کبھی اپنے کردار و عمل کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کے راستے کی رہنمائی کرتے۔۔۔۔۔۔ حضرت امام سجاد (ع) کے طرز عمل سے لوگوں کو امام حسین (ع) اور اہل بیت رسول (ص) کی مظلومیت سے آگاہی مل رہی تھی، نسل در نسل اہل بیت کے حقوق کو غضب کرنے والوں کے اصل چہرے لوگوں پہ عیاں ہو رہے تھے، لوگوں کے دلوں پہ حکمرانوں کی بجائے اہل بیت کا اقتدار مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
اور یہی وہ بات تھی، جس نے بنی امیہ کے لیے حضرت امام سجاد (ع) کے مقدس وجود کو خطرہ بنا دیا تھا اور وہ نبوت کی نیابت میں جلنے والی اس شمعِ امامت کو بجھانے کے درپے ہوگئے، آخر میں اس ظلم کو ڈھانے کی ذمہ داری ولید بن عبدالملک اور بعض روایات کے مطابق ہشام بن عبد الملک کو سونپی گئی کہ جس نے ایک کھانے میں زہر ملا کر حضرت امام سجاد (ع) کو کھلا دیا۔ آپ (ع) پوری سیاسی بصیرت اور شجاعت و شہامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت ہی احتیاط اور باریک بینی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے، یہاں تک کہ تقریبا 35 سال کی انتھک جدوجہد اور الٰہی نمایندگی کی عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد آپ (ع) سرفراز و سربلند اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور اپنے بعد امامت و ولایت کا عظیم بار اپنے فرزند و جانشین امام محمد باقر علیہ السلام کے سپرد فرما دیئے۔
امام سجاد علیہ السلام کی سیرت طیبہ اور الہیٰ تحریک
Published in
اسلامی مناسبتیں