شیعہ تاریخی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو انسانی معاشرے کا تکامل صرف اور صرف ائمہ معصومین علیهم السلام کی ولایت پر منحصر ہے، تقرب الہیٰ کے حصول اور توحید الہیٰ تک پہنچنے کا واحد راستہ یہی ہے اور تمام شعبہ ہائے حیات میں توحید پر مبنی زندگی کے اصولوں کا حصول ولایت ائمہ معصومین علیهم السلام کے بغیر ہرگز ممکن نہیں، کیونکہ الہیٰ تعلیمات کے تناظر میں ائمہ معصومین علیهم السلام کی ذوات مقدسہ کو ارکان توحید، دعائم دین کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے، چنانچہ زیارت جامعہ کبیرہ میں "ارکان توحیدک"، "دعائم دینک"، "محال معرفه الله"، "مساکن برکتہ اللہ"، "معادن حکمه الله"، "المخلصین فی توحید الله"(1) جیسی تعبیرات اسی بات کی غماض ہیں۔ چنانچہ اسی نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے ائمہ معصومین علیهم السلام کے قول و فعل اور تقریر کی ظرفیت واضح ہو جاتی ہے، جس میں تمام عالم بشریت کی ہدایت کیلئے تمام ادوار میں ہر جہت سے انسانی تکامل کی گنجایش موجود ہے۔
چنانچہ افعال معصومین علیهم السلام میں واقعہ عاشورا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی بعثت بھی اسی واقعے کی مرہون منت ہے۔ اسی لئے تاریخ میں واقعہ عاشورا کو بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، اگر واقعہ عاشورا معرض وجود میں نہ آتا تو یزید جیسا فاسق اور فاجر شخص "لَعِبَتْ هاشِمُ بِالْمُلْکِ فَلاَ *** خَبَرٌ جاءَ وَ لاَ وَحْىٌ نَزَلْ" (2) کے مذموم خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے اسلام کی بساط کو لپیٹ کر مقصد بعثت نبوی پر اس طرح پانی پھیر دیتا کہ لوگ اسلام کی حقیقت سے بیگانہ ہو جاتے اور انہیں اس بات کا علم نہ ہوتا کہ اسلام کس شریعت کا نام ہے، ایسے میں امام حسین علیه السلام کا یہ فرمان "علی الاسلام السلام" (3) عملی طور پر محقق ہو جاتا۔ چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو واقعہ عاشوراء در حقیقت "برز الایمان کلہ علی الشرک کلہ" (4) کا دوسرا رخ تھا، جسے میدان کربلا میں معرکہ حق و باطل کی صورت میں پیش کیا جا رہا تھا۔
جس میں ایک طرف پورا اسلام اور دوسری طرف تمام کفر کھڑا تھا، حق اور باطل کے اس عظیم پیکار میں جہاں ایک طرف علی بن ابی طالب علیہ السلام کی نیابت میں حسین بن علی علیہ السلام، تعلیمات اسلامی پر مبنی اسلامی تہذیب کے تمام نمونوں کو انسانیت کے سامنے پیش کر رہا تھا۔ وہی دوسری طرف یزید بن معاویہ عمرو بن عبدود کا نمایندہ بن کر تمام شرک اور شیطانی رذائل کو عملی شکل دے رہا تھا، لہذا اس اعتبار سے ضرورت اس بات کی ہے کہ واقعہ عاشورا کو اس سے متصل تمام حلقوں کے ساتھ ملا کر تحلیل کرتے ہوئے ایمانی اور اسلامی معاشرے کی بنیاد میں عاشورا کے کردار کو واضح کیا جائے، چنانچہ سیرہ اہلبیت علیهم السلام میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت نیز ان کی مصیبت پر گریہ کرنے کی فضیلت کے حوالے سے وارد شدہ روایات، اسی بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اگر ایمانی اور اسلامی نہج پر سماج میں اسلامی تہذیب کو وسیع پیمانے پر بڑی تیزی کے ساتھ فروغ مل سکتا ہے تو وہ امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی سے عقیدت ہے۔
اس ضمن میں امام صادق علیہ السلام کا یہ فرمان "کُلُنا سُفُن النّجاة و لکن سَفینة جَدّی الحُسُین أوسَع وفی لُجج البحار أسرع"(5) بھی اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتا ہے، چنانچہ امام حسین علیہ السلام سے عقیدت کا عظیم جلوہ اربعین حسینی کی صورت میں چہلم کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے، جس میں اسلامی تہذیب کے خوبصورت جلوے ہر طرف بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آج کے ماڈرن دور میں جہاں مغربی تہذیب کی یلغار کے نتیجے میں ہر طرف مادیت کو پروموٹ کیا جا رہا ہے، اگر کہیں اسلامی تہذیب کی حقیقی جھلک نظر آتی ہے تو وہ اربعین حسینی کا ملین مارچ ہے، جو روز بروز آفاقی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس نے کفر اور و الحاد کے ایوانوں کو لرزہ بر اندام کرتے ہوئے اسلامی دنیا کے افق پر تہذیب اسلامی کے نئے آفتاب کا مژدہ سنایا ہے۔ یہ عظیم اجتماع، عالمی موضوع بن گیا ہے، جو معرفت حسینی کی ترویج اور نئے اسلامی تمدن کی تشکیل کیلئے بہترین ذریعہ ہے۔
چنانچہ اس نکتے کے پیش نظر کہ امام حسین علیہ السلام پوری انسانیت سے تعلق رکھتے ہیں، اربعین حسینی کے موقع پر ہر نسل و رنگ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا بحر بیکراں نظر آتا ہے، جس میں مسلمانوں کے علاوه غیر مسلم حضرات بھی کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور اس میں شریک ہر انسان امام حسین علیہ السلام سے عقیدت کو اصول زندگانی سمجھتے ہوئے اسے اتحاد کا مرکز قرار دیتا ہے اسی لئے تو شاعر نے کہا تھا:
در حسین پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کیلئے
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں سے لوگ یہاں آکر عشق حسین علیہ السلام سے لبریز ہوتے ہوئے یکجان و یک روح ہو کر عملی صورت میں خالص انسانی اصولوں پر قائم اسلامی تہذیب و تمدن کے ایسے جوہر دکھاتے ہیں، جس میں چاروں طرف انسانی اقدار کی موجیں ٹھاتیں مارتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
ایک دوسرے سے محبت، دوسروں کا احترام، ایثار و فداکاری، تواضع اور خلوص، مہمان نوازی اور سینکڑوں دیگر اخلاقی اور اسلامی اقدار، اربعین حسینی کے وہ خوبصورت جلوے ہیں، جس میں ہر شخص دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جس کا جوہر اصلی محبت حسین علیہ السلام ہے اور "حب الحسین یجمعنا" کی عملی تفسیر یہاں آکر متحقق ہوتی ہے، جس میں ہر انسان خالص انسانی اور ایمانی جذبے کے تحت قدم بڑھاتے ہوئے مشی کے صحیح مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہی سے اربعین حسینی کی عظیم تاثیر واضح ہو جاتی ہے، چنانچہ یہ تاثیر واقعہ عاشورا کی دین ہے، جس میں امام عالی مقام نے عظیم قربانی پیش کرکے انسانی اور ایمانی معاشرے میں ایک ایسی حرارت پیدا کر دی ہے، جو گزرتے وقت کے ساتھ کبھی بھی ٹھندی ہونے والی نہیں اور زمان و مکان کی حدود و قیود سے ماوراء ہو کر ہر مومن انسان کے دل میں گرمایش ایجاد کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ "اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ علیه السّلام حَرارَةً فى قُلُوبِ الْمُؤ منینَ لا تَبْرُدُ اَبَداً"(6) کی تفسیر کی صورت میں مهدی موعود علیه السلام کے ظهور پرنور تک ایمانی معاشرے کے قلب میں خون کی طرح گردش کرتی رہے گی۔
چنانچه اربعین حسینی کے موقع پر کڑوڑوں انسانوں کا عظیم اجتماع اس کی واضح مثال ہے، جو اسی حرارت کی بنا پر اپنی حرکت کو جاری رکھتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے اہداف اور امنگوں کی تکمیل کیلئے لمحہ بہ لمحہ قدم آگے بڑھاتا ہے اور یہاں آکر رنگ، نسل، قومیت اور قبیلہ سب سے کے سب اپنا رنگ کھو بیٹھتے ہیں اور "حب الحسین یجمعنا" کی اساس پر اسلامی تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے، جس میں ایثار و فداکاری، مہر و محبت جیسی بہت سی الہیٰ صفات کو معراج حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو اربعین حسینی کی عظیم ریلی، تہذیب اسلامی کے فروغ کے لئے بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے، جس میں دنیائے اسلام کا دانشور طبقہ تہذیب اسلامی کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات پر مشتمل اپنی آراء و نظریات کو دنیا بھر سے آنے والے زائرین امام حسین علیہ السلام کے توسط سے دنیا کے گوشہ و کنار تک پہنچا سکتا ہے۔
اسی لئے حوزات علمیہ، دانشگاہوں اور علمی اداروں سے وابستہ افراد کی شرکت، دوسرے طبقات کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور اربعین حسینی کے موقع پر دانشور طبقہ اپنی حاضری کو یقینی بنا کر مغربی سیکولر نظریات پر مشتمل تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کی رو سے عاشورائے حسینی کے اہداف کے تناظر میں تہذیب اسلامی کے خدوخال کو بہترین انداز میں پیش کرسکتا ہے، چنانچہ ماہرین نفسیات کے مطابق اربعین حسینی کا عظیم اجتماع خالص انسانی رجحانات پر مبتنی ہے، جس میں فطرت انسانی سے ہم آہنگ اسلامی اور ایمانی معارف کی قبولیت کیلئے انسانی وجود میں اعلیٰ ظرفی پائی جاتی ہے، جہاں ہر انسان، اپنے آپ کو دوسروں کی خدمت کیلئے وقف کر دیتا ہے، جو اس کے قلب کی پاکیزگی کی علامت ہے اور پاکیزہ قلب ظرف بن کر معارف اہلبیت علیہم السلام کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتا ہے، جسے معارف ناب اہلبیت علیہم السلام کے مظروف سے پر کرنا علماء اور دانشوروں کا کام ہے۔
چنانچہ اس عظیم اجتماع میں ہر طرح کی انانیت دم توڑ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں ہر طرح کی کثرت وحدت میں بدل کر کعبہ دل، حسین علیہ السلام کے گرد چکر کاٹ رہی ہوتی ہے اور اسی مدار پر کڑوڑوں کے اس بے نظیر اجتماع کا ہر فرد حبل االلہ سے متمسک ہوکر قرآن کریم کی آیت مبارکہ "وَاعْتَصِمُواْ بحَبْلِ اللّهِ جمِیعًا وَلاَ تفَرَّقُواْ وَاذْکرُواْ نعْمَتَ اللّهِ عَلَیکمْ إِذْ کنتُمْ أَعدَاء فَأَلَّفَ بَینَ قُلُوبِکمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًاO(7) کو لائحہ عمل بناتے ہوئے تہذیب اسلامی کے بنیادی ستوں یعنی اخوت اور برادری کو جامہ عمل پہنانے کی کوشش کرتا ہے، لہذا اربعین حسینی کے موقع پر اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح امام حسین علیہ السلام کی محبت نے کڑوڑوں کی تعداد میں عقیدت مندوں کے پروانوں کو شمع امامت کے گرد جمع کیا ہے اور آئے دن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں جوش ملیح آبادی کا وہ شعر شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین
اربعین حسینی کے جلووں میں سے ایک جلوہ یہ ہے کہ انسان کو ایسی طرز زندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ایمان کی اساس پر قائم ہے، جس میں معنویت اپنے عروج پر ہوتی ہے اور امامت کے محور پر عشق اور محبت کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر ایثار و فداکاری کی عظیم مثال قائم کر رہا ہوتا ہے، ایمان اور معنویت کی رو سے ہر شخص دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرتے ہوئے "وَ یؤْثِرُونَ عَلی اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ کانَ بهِمْ خصاصَةٌ"(8) کی تفسیر کا عملی مظاہرہ کرتا ہے اور ہر زائر حسینی میزبانوں کے اسی جذبہ ایمانی کی سوغات کو دل میں بسا کر خالص اسلامی تہذیب کو اپنے تمام تر معیارات کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ ایثار و فداکاری وہ عظیم جوہر ہے، جس کے سائے میں ایمانی اصول پر مشتمل ایک خوبصورت سماج کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ لہذا اربعین حسینی کی تمام تر ظرفیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کو عالمی سطح پر عام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے میں دانشور طبقے کی سرپرستی اور نظارت میں ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے، جو ہمیشہ اس واقعے کے تہذیبی پہلوؤں کی تحقیقات کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کے اصولوں کو عالم اسلام کے قومی، علاقائی اور عالمی حالات کے مطابق پیش کریں۔
دوسرے مرحلے میں اس ملین مارچ کو کسی خاص فرقے کا رنگ دیئے بغیر امت مسلمہ کی یکجہتی اور اتحاد کے مظہر کے طور پر پیش کیا جائے، تاکہ اربعین حسینی، ہر قسم کے مسلکی اور مذہبی رنگ و بو سے بالاتر ہو کر عالمی استکبار کے مقابلے میں اسلامی دنیا کے اتحاد کی علامت کے طور پر سامنے آسکے۔ تیسرے مرحلے میں اربعین حسینی کو قومی، لسانی اور طبقاتی امتیازات پر مشتمل اوہام پرستی کے بتوں سے پاک کرکے اسلامی طرز زندگی کے سائے میں اس کی سادگی پر توجہ نہایت ضروری امر ہے۔ چوتھے مرحلے میں اربعین حسینی میں جو چیز محوریت رکھتی ہے، وہ عزاداری ہے، جس کے اندر "مظلوموں کی حمایت کے ساتھ مستکبرین جہاں سے بیزاری اور ان کے خلاف جدوجہد" کا پہلو مضمر ہے، لہذا اس پہلو کو کم رنگ ہونے سے بچایا جائے۔ پانچویں مرحلے میں تمام مسلمانوں کی شرکت کیلئے زمینہ ہموار کیا جائے، تاکہ دنیا کا ہر مسلمان اربعین حسینی کے اس سفر عشق میں شریک ہو کر اس کے فیوضات سے بہرہ مند ہوتے ہوئے اپنے ملک اور قوم کیلئے تہذیب اسلامی کا سفیر قرار پائے۔
چھٹے مرحلے میں اربعین حسینی کے موقع پر رونما ہونے والے اسلامی تہذیب کے شاہکاروں کو کلیپ، موویز، ڈاکومنٹری اور سیریل کی شکل میں بڑے پیمانے پر میڈیا کے ذریعے دنیا میں پھیلانے کیلئے تمامتر صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے۔ ساتویں اور آخری مرحلے میں اربعین حسینی کے ذریعے امام زمانہ کے عالمی انقلاب کیلئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے تمام ذمہ دار افراد اپنا وظیفہ شرعی سمجھ کر عقیدہ مہدویت کو فروغ دیتے ہوئے انتظار کی کیفیت میں بہتری لانے کے ساتھ تمام مومنین کو امام زمانہ کی عالمی حکومت کیلئے آمادہ کریں، تاکہ عاشورائے حسینی کے سرخ اور عقیدہ مہدویت کے سبز پهلو کے سائے میں اسلامی تہذیب کا طائر پرواز افق عالم پر اس قدر اونچی اڑان بھرے کہ استعماری سازشوں کے تمامتر سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، ثقافتی حربے کسی طرح کارگر ثابت نہ ہوں اور ان کے زہر آلود تیر اسے شکار کرنے سے عاجز رہیں اور یوں اسلامی تعلیمات پر مبنی اسلامی تہذیب کے نقوش، دنیا کی دیگر تہذیبوں پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے امام زمانہ کی عالمی حکومت کیلئے زمینہ فراہم کریں، جہاں ارسطو جیسے معلم اول کے مدینہ فاضلہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواله جات:
- 1۔ ابراهيم كفعمى «المصباح» ص505، قم: دار الرضي، 1405 ق، چاپ دوم/ محمد باقر مجلسی «بحار الأنوار» ج97 ص223، بیروت: مئوسسه الوفاء، 1983 م، چاپ دوم۔
2۔ ابن عماد حنبلى «شذرات الذهب» ج1 ص 278، دمشق: دار ابن كثير، 1006ق، چاپ اول۔
3۔ أحمد بن اعثم الكوفى «الفتوح» تحقیق: علی شیری، ج5 ص17، بيروت، دارالأضواء، 1411ق، چاپ اول/ ابن طاووس، اللهوف على قتلى الطفوف» ص24، تهران: نشر جهان، 1348ش، چاپ اول۔
4۔ عبد الحميد ابن أبي الحديد معتزلی «شرح نهج البلاغة» تحقیق: ابراهيم، محمد ابوالفضل، ج13 ص261، قم: کتاب خانه آیت الله مرعشی، 1404ق، چاپ اول/ علامه حلى، «نهج الحقّ و كشف الصدق» ص217، بیروت: دار الكتاب اللبناني، 1982 م، چاپ اول۔
5۔ محمد باقر مجلسی «بحار الانوار» ج ۲۶، ص ۳۲۲، بیروت: مئوسسه الوفاء، 1983 م، چاپ دوم۔
6۔ حسين نورى، «مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل» ج10 ص318، قم: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، 1408 ق، چاپ اول۔
7۔ سورہ آل عمران، آیت نمبر: 103۔ - 8۔ سوره حشر، آیت نمبر: 9۔
تحریر: محمد علی جوہری