13 رجب

Rate this item
(0 votes)
13 رجب

آیات و روایات کی رو سے یہ بات روز روشن کی مانند عیاں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین امام علی علیہ السلام ہیں۔ آنحضرت نے اپنی حیات طیبہ میں متعدد دفعہ آپ کی جانشینی کی طرف صریحاً نشاندہی فرمائی ہے۔ آپ کی ولایت پر آیات قرآنی اور معتبر احادیث بھی موجود ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں آیات ولایت کو۔
’’اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهٗ وَالَّذِينَ اٰمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلٰوةَ وَيُؤتُونَ الزَّكٰوةَ وَهُم رَاكِعُونَ‘‘، "ایمان والو! بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔"(سورۃ المائدہ، آیت 55) جب ہم مذکورہ آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کے معنی ولایت اور واجب الاطاعت امام کے نہیں، دوست، ناصر اور یار و مددگار کے ہیں۔ علمائے اہل سنت کے درمیان قاضی عضد الدین، شریف جرجانی، تفتازانی اور قوشجی نے اس آیت کو امام علی علیہ السلام کے حق میں نازل ہونے کو تسلیم کیا ہے۔(نفخات الازھار فی خلاصۃ عبقات الانوار جلد، 20، صفحہ، 59۔63)

مذکورہ آیت میں چند نکات قابل غور ہیں:
(1) کلمہ "انما" حصر پر دلالت کرتا ہے، یعنی مسلمانوں پر ولایت و رہبری کا حق خدا، رسول اسلام اور بیان شدہ صفات کے حامل اہل ایمان کو ہے، کسی اور کو نہیں ہے۔
(2) اگر ہم یہاں ولی کے معنی ولایت و امامت کے علاوہ مانیں، دوست اور یار و مددگار کے تو پھر اسے صرف مذکورہ ہستیوں سے مخصوص کرنا مناسب نہیں۔ ہر مومن دوسرے مومن کا ناصر و مددگار ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :’’اِنَّمَا المُؤمِنُونَ اِخوَةٌ۔‘‘
"مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں۔" (سورۃ الحجرات آیت، 10) اگر اللہ کی نگاہ میں نصرت اور دوستی کے معنی مقصود ہوتا تو صرف "الذین آمنوا" ہی کافی تھا۔ اس لیے کہ معاشرے میں سبھی مومن ایک دوسرے کے ناصر اور دوست ہیں، چاہے وہ حالت رکوع میں زکواۃ دیں یا نہ دیں۔

اس کے علاوہ اگر یہاں مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر حدیث رسول ہمارے لیے محکم سہارا بنے گی۔ آپ نے متعدد مقامات پر حضرت علی علیہ السلام کو جانشین مقرر فرمایا ہے۔ واقعہ عشیرہ، حدیث منزلت اور واقعہ غدیر خم اس بات کے اہم شواہد ہیں۔ رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "یاعلی انت ولی کل مومن من بعدی"، "اے علی! تم میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہو۔" اس حدیث میں "من بعدی" قابل غور ہے۔ یہ اشارہ ہے امام علی علیہ السلام کی جانشینی کی جانب۔ امت اسلام کی رہبری آپ ہی کے دست مبارک میں ہے۔ (راہنمایی حقیقت، جعفر سبحانی، صفحہ 289.290 مطبوعہ: نشر مشعر، 1385 شمسی، پہلی اشاعت)

کیا دوستی اور یار و مددگار ہونا کسی ایک زمانہ سے مخصوص ہے۔۔۔۔؟ پھر ایک سوال یہ بھی کہ آیت میں "الذین" کا استعمال ہوا ہے، جو جمع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر یہ ایک ہی شخص پر کیسے منطبق ہوگا اور آیت کس طرح صرف علی علیہ السلام پر صدق کرے گی۔۔۔۔؟ ادبیات عرب میں متعدد جگہوں پر جمع کے لفظ سے فرد واحد کو مراد لیا گیا ہے۔ آیت مباہلہ میں "نسائنا" جمع کا صیغہ ہے جبکہ اس کا مصداق صرف جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہیں۔ "انفسنا" جمع کا صیغہ ہے اور اس سے مراد صرف دو شخصیات ہیں، رسول اسلامﷺ اور امام علی علیہ السلام۔ داستان احد میں نازل ہونے والی یہ آیت: ’’اَلَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَد جَمَعُوا لَـكُم فَاخشَوهُم فَزَادَهُم اِيمَانًا‘‘، "یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لئے عظیم لشکر جمع کر لیا ہے، لہٰذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا۔"(سورۃ آل عمران، آیت، 173)

مفسرین نے مذکورہ آیت کا مصداق "نعیم ابن مسعود" کو بتایا ہے، جو ایک شخص ہے۔ اسی طرح ’’يَقُولُونَ نَخشٰٓى اَن تُصِيبَـنَا دَائرَةٌ‘‘، "یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں گردشِ زمانہ کا خوف ہے۔"(سورۃ المائدہ، آیت نمبر، 52) مذکورہ آیت کے متعلق مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(تفسیر ولایی قرآن کریم در اثبات ولایت امیر المومنین علیہ السلام، ناصر مکارم شیرازی، صفحہ 763.764 زیر عنوان: پاسخ بہ ھشت ایراد مخالفان بر آیہ ولایت) اسی طرح قرآن مجید کی دیگر آیات بھی ہیں، جہاں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے، مگر مراد ایک شخص ہے، ایسی تعبیرات کسی شخص کے کردار کی وضاحت کرتی ہیں۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر وحدہ لاشریک کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے، جو کہ اس کی عظمت و جلالت کے تحت ہے۔

آیت ولایت پر ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے حالت نماز میں سائل کی آواز سن لی جبکہ آپ تو نماز کی حالت میں اس قدر غرق رہتے تھے کہ آپ کے پاؤں سے تیر کھینچ لیا گیا تھا اور آپ کو احساس تک نہ ہوا تھا۔۔۔۔؟  سائل کی آواز سننا اور اس کی مدد کرنا عبادت در عبادت ہے۔ حالت نماز میں زکوٰۃ دینا قربت الی اللہ تھا۔ اللہ نے قرآن مجید میں اس عمل کی تعریف کی ہے۔ اگر یہ کام باعث غفلت یا یاد خدا سے دوری کا سبب قرار پاتا تو پروردگار عالم اس کی توصیف نہ کرتا۔ پیغمبران الہیٰ، اولیائے کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی کیفیت نماز ہمیشہ ایک جیسی نہیں ہوتی۔ وہ عام حالت میں بھی ہوتے اور محتاج کی آواز بھی سن کر اس کی مدد بھی کرتے ہیں۔

شیخ صدوق اور علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں: ایک روز رسول اکرمﷺ نماز میں مشغول تھے اور اصحاب کرام آپ کی اقتدا میں تھے۔ دوران نماز ایک بچہ رونے لگا۔ آپ نے نماز کو جلدی تمام کر دیا۔ اصحاب نے اس تیزی سے نماز کو تمام کرنے کی وجہ دریافت کی۔ آپ نے فرمایا: "اما سمعتم صراخ الصبی" کیا تم نے بچے کے رونے کی آواز نہیں سنی؟ کبھی یہی ہستیاں عالم ملکوت اور ذکر الہیٰ میں مکمل طور پر غرق ہو جاتی ہیں، انہیں سوائے ذات الہیٰ کے کسی کا خیال نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اپنے جسم سے بھی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ امام علی علیہ السلام کے پاؤں سے تیر کا نکلنا اسی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کے سلسلے میں ملتا ہے کہ ایک شب آپ کے فرزند ارجمند بلندی سے گر گئے، جس کے سبب ان کے ہاتھ زخمی ہوگئے(ہاتھ ٹوٹ گیا)۔ گھر کے اندر شور برپا ہے، پڑوسی بھی آگئے، لیکن آپ اسی طرح، حادثہ سے مطلق متوجہ ہوئے، مشغول عبادت رہے۔ علی الصبح آپ بیدار ہوئے، دیکھا کہ فرزند کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ آپ نے سبب دریافت کیا۔ بتایا گیا: گذشتہ شب ایسا بھلاں واقعہ پیش آیا تھا۔(منتہی الآمال، شیخ عباس قمی، جلد، 2، صفحہ، 10)

دوسری روایت میں ملتا کے کہ سید الساجدین علیہ السلام حالت نماز میں سر بسجود تھے۔ اسی وقت آپ کے بیت الشرف کے ایک گوشہ میں آگ لگ گئی۔ گھر والوں نے فریاد بلند کی: یابن رسول اللہ! النار! النار! "اے فرزند رسول! آگ لگ گئی ہے! آگ!" آپ اسی طرح سر بسجود مشغول عبادت رہے اور شور و غل اور آگ لگ جانے کے متعلق کچھ نہ سنا۔ آگ کو گل کر دیا گیا۔ اس کے بعد آپ نے سر کو سجدہ سے اٹھایا اور کمال اطمینان سے نماز تمام کی۔(منتہی الآمال، شیخ عباس قمی، جلد، 2، صفحہ، 10) قرآن مجید کی آیات کا ہر رخ سے مطالعہ کرنا ہی نجات کا ضامن ہے، ورنہ بہت ممکن ہے کہ ہمارے نظریات عام باتوں میں بھی مختلف ہو جائیں۔ اسی طرح ائمہ کرام علیہم السلام کی حیات طیبہ کا مسئلہ ہے۔ جب تک ہم مکمل زندگی کا بغور مطالعہ نہیں کریں گے، بہت سے مسائل کا شکار ہوں گے

تحریر: عظمت علی(لکھنؤ)

Read 661 times