بعثت کا معنیٰ و مفہوم:
لفظ بعثت کی اصل بعث ہے جو عربی لفظ ہے۔ اسی کا حقیقی معنیٰ ابھارنا ہے(التحقیق فی کلمات القرآن ج ۱ ص ۲۹۵)۔
قرآن مجید میں یہ لفط موت کے بعد دوبارہ قبر سے اٹھائے جانے کے بارے میں استعمال ہوا ہےقرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہےمَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۔ہمیں ہماری قبروں سے کون اٹھائے گا۔(سورہ یا سین ۵۲) اور اسی معنیٰ میں قیامت کو یوم البعث کہا گیا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں یہ لفظ بھیجنے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ (فطری اعتبار سے ) سارے انسان ایک قوم تھے ، پھر خدا نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے۔(سورہ بقرہ آیت ۲۱۳)
اور اصطلاح میں بعثت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنی طرف سے ہادی و رہبر بھیجے۔ اسی لئے جس دن رسول اکرم ﷺپر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ کواپنا پیغام رسالت لوگوں تک پہنچانے کا حکم ملااس دن کو روز بعثت اور عید مبعث کہا جاتا ہے۔اور اس دن کے بعد سے ہجری تک کے زمانے کو سن بعثت کہا جاتا تھا۔
ضرورت بعثت:
دنیا کےتمام مذاہب و ادیان میں کسی نہ کسی صورت میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ان کی ہدایت کے لئےاللہ کی جانب سے کوئی ہادی و رہبر آیا ہے۔ مثلا عیسائی جناب عیسیٰ علیہ السلام اور ان سے قبل کے انبیاءکو اللہ کے پیغمبر مانتے ہیں،یہودی موسیٰ اور انبیاء بنی اسرائیل کو اللہ کے نمائندےسمجھتے ہیں،ہندو دھرم کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بھگوان وشنو، رام اور کرشن کے بھیس میں؛بھولے ناتھ شنکر، ہنومان کے روپ میں اور دیگر دیوتا لباس بشر میں انسانوں کی ہدایت کے لئے آئے۔ دنیا کےتمام انسانوں کایہ عقیدہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو ہر دور میں ایک الہی ہادی و رہبر کی ضرورت ہے، انسان صرف اپنی ناقص عقل کی بنیاد پر زندگی کا سفر طے نہیں کر سکتا۔
قرآن مجید بھی اس عقیدہ کی تائید کرتا ہےکہ ہر دور میں ایک ہادی و رہبر رہا ہےارشاد ہوتا ہے۔ إِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں ڈرانے والا نہ گذرا ہو۔ (سورہ فاطر آیت ۲۴)
قرآن مجید میں سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے۔لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤﴾ خدا وند عالم نے مؤمنین پر احسان کیا انہیں میں ایک رسول کو بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات سناتا ہےاور ان کا تزکیہ کرتا ہےاور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں تعلیم و تربیت کو رسول کے اہم وظائف میں بتایا گیا ہے۔ کیوں کہ انسان جاہل پیدا ہوتا ہےاور جاہل انسان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے اورصحیح راہ دکھانے کے لئےہادی و رہبر کا ہونا ضروری ہے۔اور اگر ہادی نہیں ہوگا تو لوگ جہالت کے تاریک سمندر میں غرق ہو جائےگیں۔ اس جانب آیت کے آخری حصہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ جو ہادی کے نہ ہونے کا لازمہ ہے۔ اسی لئے اللہ ہر زمانے میںکسی نبی یا رسول کو بھیجا۔
مقصد بعثت :
بالائی سطور سے انبیاء الٰہی اور ہادیان بر حق کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ذیل میں ہم قرآ ن کریم کی رو سے انبیاء ِالٰہی کےاہم مقاصدکی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
(۱)خدا کی عبادت اور طاغوت سے پرہیز
خدا کے وجود کا عقیدہ انسان کے فطرت میں ہے۔ اس فطری غریزہ کی صحیح راہ کی جانب راہنمائی ضروری ہے ورنہ انسان کم عقلی اور صحیح تعلیمات سے دوری کی وجہ سےگمراہ ہو جائے گا۔شاید اسی لئے انبیاء الہی کی تمام تر تعلیمات کا دارومدار عقیدہ توحید رہا ہے۔تمام رسولوں کا یہی پیغام تھا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ کے سامنے اپنا سر نہ جھکاؤ۔ انسان حقیقت توحید کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک غیر اللہ کی عبادت سے پرہیز نہ کرے اس لئےکہ دو متضاد چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی اس لئے خدا کی عبادت کے ساتھ طاغوت کی اطاعت سے پرہیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ کلمہ توحید میں بھی پہلے غیر اللہ کی نفی ہے پھر اللہ کی الوہیت کا اقرار ہے۔انبیاء کی تمام تر تعلیات کا دارمدار یہی پیغام تھا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ اور یقیناہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے پرہیز کرو۔(سورہ نحل ایت ۳۶)
اس آیت میں اللہ نے بعثت انبیاء کا مقصد اللہ کی عبادت اور طاغوت سے دوری بتایا ہے ۔تمام انبیاء کا پہلا پیغام یہی تھا کہ قولوا لا الہ اللہ تفلحواکہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور نجات پا جاؤ۔ یہ عقیدہ انسان کی شخصیت سازی کا معمارہےجس کا عقیدہ اللہ پر ہوگا وہ کبھی غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکائے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے نہیں جھکے گا وہ ہر ایرے غیرے کے سامنےجھکا ہوا ملے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے سر جھکائے گا وہ دنیا میں بھی با عزت رہے گا اور آخرت میںکامیاب و کامران رہے گا اگر اس کامشاہدہ کرنا ہو تو دور حاضر میں ایران اور دیگر اسلامی ممالک کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران کسی سوپر پاؤر کے اگے نہیں جھکا آج بھی سر بلند ہے ۔بقیہ ممالک ہر ایرے غیرے کے سامنے جھکے ہیں نتیجہ میں آج ذلیل و خوار ہیں۔
(۲)تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس
تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے انسان جب دنیا میں آتا ہے تو جاہل آتا ہے ۔ اسی لئے اللہ نے اس کے لئے سب سے پہلے ایسے معلم کا انتظام کیا جسے اپنے پاس سے علم دے کر بھیجا ۔ اور ہر دور میں ایک معلم و ہادی کا انتظام کیا۔ تا کہ انسان اپنی جہالت و کم عقلی کی بنا پر راہ راست سے بہک نہ جائے۔
رسول اسلام ﷺ پر روز مبعث جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں ارشاد ہوا
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾ اپنے پروردگار کے نام سے پڑھو جس نے خلق کیا ہے اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ جس نےقلم کے ذریعہ تعلیم دی اور انسان کو سب کچھ بتایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔(سورہ علق)
رسول ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی سے دو باتیں آشکار ہو جاتی ہیں ایک تعلیم ہے جو بعثت انبیاءکےبنیادی مقاصد میں سے ہے۔ دوسرے لباس و جود میںآنے کے بعد انسان سب سے پہلی ضرورت علم ہے۔
اور انسان حقیقت علم تک اس وقت تک نہیں پہونچ سکتا جب تک تعلیم کی منفی چیزوں کو دور نہ کرے اسی کا نام تزکیہ ہے ۔ تزکیہ انسان کے نفس کو اس لائق بنا دیتا ہے کہ انسان علم کی حقیقت کو درک کر سکے۔ اور اگر انسان بغیر تزکیہ کےلفظیں رٹ بھی لیتا ہے تو یہ علم اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا۔ یہی وجہ کہ انسان اتنی ترقی اور علم کی اس بلندی پر ہونے کے باجود بھی پر سکون نہیں ہے اس کی حیرانی اور پریشانی کی وجہ حقیقت علم سے دوری ہے۔ جو بغیر تزکیہ کے نصیب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے انبیاء کے مقاصد میں تعلیم و تربیت قرآن مجید میں باربار بیان کیا گیا ہے سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے۔
’’پروردگار ان کے درمیان ایک رسول کو بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے بے شک تو عزیز و حکیم ہے۔‘‘
سورہ جمعہ میں ارشاد ہوتا ہے
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾اللہ وہی ہے جس نے مکہ والوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
مندرجہ بالا آیات سے یہ واضح ہے تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس انبیاء کی بعثت کے اہم مقاصد میںسے ہے۔اور اگر تعلیم اور تزکیہ نہیں ہوگا انسان تو ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتابلکہ ہمیشہ گمراہی میں رہے گا جیسے بعثت سے قبل کے لوگوں کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ گمراہی میں تھے۔
(۳)قیام عدل و انصاف
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عدل و انصاف معاشرہ کی بنیادی ضروریات میں سے ہیںکیوں کہ اگر معاشرہ میں عدل و انصاف نہیں ہوگا ایک دوسرے کے حقوق پائمال کئے جائیں گے۔ کمزوراوربے سہارا افراد کو ستایا جائے گا ۔اورمعاشرہ ظلم و ستم سے بھر جائے گا۔ اس لئے ہر ملک، ہر صوبہ اور ہر شہر و دیہات میں ایک حاکم کاانتخاب کیا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ معاشرہ کے مسائل کو حل کرے اور عد ل و انصاف قائم کرے۔
خداوندعالم نے روز اول سے اس ضرورت کا خیال رکھا اور ہر دور میںہادی عادل بھیجاتا کہ وہ لوگوں کے درمیان عد ل و انصاف کرے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں شدید جنگ کا سامان ہے اور بہت سے فائدے ہیں ۔
مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ نے رسولوں کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا۔ اس لئے کہ عدل و انصاف کے لئے ایک پیمانہ اور معیار ہونا چاہیے جو اللہ نے رسولوںکو کتاب و میزان کی شکل میں دے کر بھیجا۔ اور معاشرہ میں عدل انصاف کا قیام اسان نہیں ہے اس کے لئے کبھی تلوار اٹھانا پڑے گی کھبی جنگ کرنا ہوگی اسی لئے اللہ نے آسمان سے لوہا بھی نازل کیا۔ تا کہ اس کے نمائندوں کو عدل و انصاف کے قیام میں کو ئی مشکل پیش نہ آئے۔
مذکورہ آیت میںایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ تاکہ لوگ عدل و انصاف کے ساتھ قیام کریں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ انبیاء عدل و انصاف قائم کریں۔ بلکہ لوگ خود عدل و انصاف کو ساتھ قیام کریں گے۔یہ رہبران الٰہی کی معراج انصاف ہے کہ اگر انہیں عدل و انصاف کرنے دیا جائے تو وہ معاشرہ کو اس بلندی پر پہونچا دیں گے کہ پھر انہیں کسی عدل و انصاف کرنے والے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ لوگ خود عدل و ا نصاف سے قیام کرنے لگیں گے۔ خدا وندعالم ہمارےامام عادل کے ظہور میں تعجیل فرمائے عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرنے والوں میں سے قرار دے اور اس کے ظہور میں تعجیل فرما جو معاشرہ کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔آمین
تحریر: محمد تبریز