کس قلم یا بیان میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کا وصف بیان کرنے کی صلاحیت ہے؟ وہ فاطمہ س جو آیت "تطہیر" میں ہر قسم کی نجاست سے پاکیزہ واحد خاتون قرار پائی ہیں۔ وہ فاطمہ س جو واقعہ "مباہلہ" میں پیغمبر اکرم ص، امام علی ع، امام حسن ع اور امام حسین ع کے ہمراہ واحد خاتون تھیں۔ وہ فاطمہ س جو سورہ کوثر میں خیر کثیر ہیں اور خداوند متعال کی جانب سے پیغمبر عظیم الشان ص کو خاص عطیہ ہیں۔ وہ فاطمہ س جو قرآن کریم کے بقول "یطعمون الطعام علی حبه" اور اپنی اور اپنے اہلخانہ کی افطاری مسلسل تین دن تک مسکین، یتیم اور اسیر کو بخشنے والی ہیں۔ وہ فاطمہ س جو رسول اکرم ص کے بقول "ام ابیہا" ہیں۔ وہ فاطمہ س جو ہر حال میں نبوت کی حامی تھیں اور پیغمبر اکرم ص کی مطیع اور ہمراہ تھیں۔
وہ فاطمہ س جن کی کائنات کی برترین ہستی اور حبیب خدا حضرت محمد مصطفی ص کی نظر میں ایسی قدر و منزلت تھی کہ جب بھی آتیں آنحضور ص اٹھا کر ان کا احترام کرتے، ان کی جانب بڑھتے اور ان کی پیشانی اور ہاتھوں پر بوسہ دیتے تھے۔ وہ فاطمہ س جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی واحد "کفو" تھیں اور انے کے قرآنی طرز زندگی نے جنت کے جوانوں کے سردار حسنین شریفین علیہما السلام جیسے بچوں کی تربیت کی اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا جیسی بے مثال بیٹی کو پالا۔ وہ فاطمہ س جو اپنی انفرادی، گھریلو اور اجتماعی زندگی میں قرآن کریم کا مجسم نمونہ تھیں۔ فاطمہ س وہی بے مثال گرانقدر خاتون ہیں جن کے والد عالم ہستی کے برترین باپ، حبیب خدا، خاتم النبیین اور رحمت للعالمین ہیں۔ وہ فاطمہ س جن کے شوہر قرآن ناطق، پیغمبر ص کی جان، ساقی کوثر، دوزخ اور بہشت تقسیم کرنے والے اور امیرالمومنین ہیں۔
وہ فاطمہ س جن کے بچے حسن و حسین اہل بہشت جوانوں کے سردار اور ام کلثوم اور زینب زہد و تقوی اور پاکدامنی و حیا کا مظہر ہیں۔ لہذا علی ع و فاطمہ س کی الہی تربیت کے نتیجے میں حضرت زینب س "پیغمبر کربلا" کے درجے پر فائز ہوتی ہیں۔ فاطمہ س خدا پر پختہ عقیدہ رکھنے والی قرآن کے علوم سے آگاہ وہ جلیل القدر خاتون ہیں جنہوں نے رسول اکرم ص کی وفات کے بعد بھی نبوت اور نبوی میراث کی حمایت کا پرچم زمین پر نہیں گرنے دیا اور حقیقی محمدی ص اسلام یعنی امامت و ولایت کی حمایت جاری رکھی۔ جناب صدیقہ طاہرہ س نہ صرف مسلمان خواتین کیلئے مکمل اسوہ ہیں بلکہ ہر اہل معرفت، بصیر، حق مدار اور حق طلب انسان کیلئے مکمل رول ماڈل ہیں۔ وہ فاطمہ س جس نے خاتم الانبیاء ص کی رحلت کے بعد فتنوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبے دور میں حق کی آواز بلند کی۔
وہ فاطمہ س جس نے رحلت رسول اکرم ص کے بعد خدا پر پختہ ایمان کے ساتھ حق کا ساتھ دیتے ہوئے انتہائی شجاعانہ انداز میں شرعی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سنت نبوی ص اور امامت و ولایت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی حمایت کا پرچم بلند کیا۔ وہ پرچم جسے بلند رکھنے پر خود رسول خدا ص بارہا تاکید کر چکے تھے اور خداوند حکیم کا وہ اہم حکم جو رسول خدا ص کی جانب سے علی علیہ السلام کی وصایت، امامت اور ولایت کے اعلان، ابلاغ اور وصیت پر مبنی تھا اور خداوند متعال نے اس اعلان کو رسول خدا ص کی پوری رسالت کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔ اور اس حکم کے اعلان اور ابلاغ کے بعد خداوند منان نے آیہ کریمہ "الیوم اکملت لکم دینکم۔۔" نازل فرمائی تاکہ امامت، ولایت اور پیغمبر ص کے بعد ان کی جانشینی کی اہمیت پر تاریخ بھر کیلئے ہمیشگی گواہ بن جائے۔
حضرت زہرا س جنہوں نے اس پرچم کو اونچا رکھنے کیلئے کس قدر مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں۔ وہ پرچم جو صراط مستقیم کا پرچم ہے۔ وہ پرچم جو آئین محمدی ص اور سنت نبوی ص کی بقا کا پرچم ہے۔ وہ پرچم جو ہر قسم کے انحراف سے دوری اور امامت و ولایت کے راستے کی جانب ہدایت کا پرچم ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ س عالم ہستی کا عظیم راز اور شب قدر کی حقیقت ہیں اور پروردگار عالم کی بارگاہ میں ان کے مقام کی عظمت بے مثال ہے۔ انہوں نے نبوت و امامت و ولایت کی حامی کے روپ میں ایک لمحے کیلئے بھی اپنی جدوجہد ترک نہیں کی۔ حتی اس وقت جب ان کے گھر کا دروازہ جلایا گیا۔ وہ دروازہ جس پر کبھی رسول خدا ص دستک دیا کرتے تھے اور اس گھر والوں پر سلام بھیجتے تھے۔
ظلم و ستم سے اس عظیم خاتون کا پہلو توڑ دیا گیا اور رسول خدا ص کی بیٹی کی بے حرمتی کی گئی اور حتی اس کا گریہ بھی برداشت نہیں کیا گیا جو البتہ مزاحمت، احتجاج اور حق طلبی کا گریہ تھا۔ لیکن فاطمہ س ہمیشہ تک "راہ" بھی ہے، "نشانی" بھی ہے، "رہنما" بھی ہے، "رہبر" بھی ہے اور مزاحمت کا رول ماڈل بھی ہے۔ جب تک ان کی سانسوں میں سانس تھا وہ حق طلبی، انصاف طلبی، دین محمدی ص، سنت نبوی ص اور امامت و ولایت امیرالمومنین علی ع سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ حتی انہوں نے امام علی ع کو وصیت کی کہ رات کو غسل دیا جائے، رات کو جنازہ اٹھایا جائے اور ان پر ظلم و ستم کرنے والوں کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے۔ ان کی چھپی ہوئی قبر امام مہدی عج کے قیام تک حق محوری اور نبوت و امامت کی حمایت کا پرچم بنی رہے گی۔
اللهم صل علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها و سرالمستودع فیها بعدد ما احاط به علمک
وہ فاطمہ س جن کی کائنات کی برترین ہستی اور حبیب خدا حضرت محمد مصطفی ص کی نظر میں ایسی قدر و منزلت تھی کہ جب بھی آتیں آنحضور ص اٹھا کر ان کا احترام کرتے، ان کی جانب بڑھتے اور ان کی پیشانی اور ہاتھوں پر بوسہ دیتے تھے۔ وہ فاطمہ س جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی واحد "کفو" تھیں اور انے کے قرآنی طرز زندگی نے جنت کے جوانوں کے سردار حسنین شریفین علیہما السلام جیسے بچوں کی تربیت کی اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا جیسی بے مثال بیٹی کو پالا۔ وہ فاطمہ س جو اپنی انفرادی، گھریلو اور اجتماعی زندگی میں قرآن کریم کا مجسم نمونہ تھیں۔ فاطمہ س وہی بے مثال گرانقدر خاتون ہیں جن کے والد عالم ہستی کے برترین باپ، حبیب خدا، خاتم النبیین اور رحمت للعالمین ہیں۔ وہ فاطمہ س جن کے شوہر قرآن ناطق، پیغمبر ص کی جان، ساقی کوثر، دوزخ اور بہشت تقسیم کرنے والے اور امیرالمومنین ہیں۔
وہ فاطمہ س جن کے بچے حسن و حسین اہل بہشت جوانوں کے سردار اور ام کلثوم اور زینب زہد و تقوی اور پاکدامنی و حیا کا مظہر ہیں۔ لہذا علی ع و فاطمہ س کی الہی تربیت کے نتیجے میں حضرت زینب س "پیغمبر کربلا" کے درجے پر فائز ہوتی ہیں۔ فاطمہ س خدا پر پختہ عقیدہ رکھنے والی قرآن کے علوم سے آگاہ وہ جلیل القدر خاتون ہیں جنہوں نے رسول اکرم ص کی وفات کے بعد بھی نبوت اور نبوی میراث کی حمایت کا پرچم زمین پر نہیں گرنے دیا اور حقیقی محمدی ص اسلام یعنی امامت و ولایت کی حمایت جاری رکھی۔ جناب صدیقہ طاہرہ س نہ صرف مسلمان خواتین کیلئے مکمل اسوہ ہیں بلکہ ہر اہل معرفت، بصیر، حق مدار اور حق طلب انسان کیلئے مکمل رول ماڈل ہیں۔ وہ فاطمہ س جس نے خاتم الانبیاء ص کی رحلت کے بعد فتنوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبے دور میں حق کی آواز بلند کی۔
وہ فاطمہ س جس نے رحلت رسول اکرم ص کے بعد خدا پر پختہ ایمان کے ساتھ حق کا ساتھ دیتے ہوئے انتہائی شجاعانہ انداز میں شرعی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سنت نبوی ص اور امامت و ولایت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی حمایت کا پرچم بلند کیا۔ وہ پرچم جسے بلند رکھنے پر خود رسول خدا ص بارہا تاکید کر چکے تھے اور خداوند حکیم کا وہ اہم حکم جو رسول خدا ص کی جانب سے علی علیہ السلام کی وصایت، امامت اور ولایت کے اعلان، ابلاغ اور وصیت پر مبنی تھا اور خداوند متعال نے اس اعلان کو رسول خدا ص کی پوری رسالت کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔ اور اس حکم کے اعلان اور ابلاغ کے بعد خداوند منان نے آیہ کریمہ "الیوم اکملت لکم دینکم۔۔" نازل فرمائی تاکہ امامت، ولایت اور پیغمبر ص کے بعد ان کی جانشینی کی اہمیت پر تاریخ بھر کیلئے ہمیشگی گواہ بن جائے۔
حضرت زہرا س جنہوں نے اس پرچم کو اونچا رکھنے کیلئے کس قدر مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں۔ وہ پرچم جو صراط مستقیم کا پرچم ہے۔ وہ پرچم جو آئین محمدی ص اور سنت نبوی ص کی بقا کا پرچم ہے۔ وہ پرچم جو ہر قسم کے انحراف سے دوری اور امامت و ولایت کے راستے کی جانب ہدایت کا پرچم ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ س عالم ہستی کا عظیم راز اور شب قدر کی حقیقت ہیں اور پروردگار عالم کی بارگاہ میں ان کے مقام کی عظمت بے مثال ہے۔ انہوں نے نبوت و امامت و ولایت کی حامی کے روپ میں ایک لمحے کیلئے بھی اپنی جدوجہد ترک نہیں کی۔ حتی اس وقت جب ان کے گھر کا دروازہ جلایا گیا۔ وہ دروازہ جس پر کبھی رسول خدا ص دستک دیا کرتے تھے اور اس گھر والوں پر سلام بھیجتے تھے۔
ظلم و ستم سے اس عظیم خاتون کا پہلو توڑ دیا گیا اور رسول خدا ص کی بیٹی کی بے حرمتی کی گئی اور حتی اس کا گریہ بھی برداشت نہیں کیا گیا جو البتہ مزاحمت، احتجاج اور حق طلبی کا گریہ تھا۔ لیکن فاطمہ س ہمیشہ تک "راہ" بھی ہے، "نشانی" بھی ہے، "رہنما" بھی ہے، "رہبر" بھی ہے اور مزاحمت کا رول ماڈل بھی ہے۔ جب تک ان کی سانسوں میں سانس تھا وہ حق طلبی، انصاف طلبی، دین محمدی ص، سنت نبوی ص اور امامت و ولایت امیرالمومنین علی ع سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ حتی انہوں نے امام علی ع کو وصیت کی کہ رات کو غسل دیا جائے، رات کو جنازہ اٹھایا جائے اور ان پر ظلم و ستم کرنے والوں کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے۔ ان کی چھپی ہوئی قبر امام مہدی عج کے قیام تک حق محوری اور نبوت و امامت کی حمایت کا پرچم بنی رہے گی۔
اللهم صل علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها و سرالمستودع فیها بعدد ما احاط به علمک