انسان جب سفر پر جاتا ہے تو اس کے پاس کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہوتی ہے۔ مختلف قسم کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ رات گزارنے کے واسطے مطمئن جگہ اور خطرات سے بچنے کے لیے پناہگاہ کی ضرورت ہوتی ہے، عزیز و اقارب سے دوری کی وجہ سے اداسی محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ ہمسفر نہ ہونے کی صورت میں تنھائی محسوس کرتا ہے۔ راستے کے اتار چڑاو، درندوں، جانوروں کا خوف بھی بے سکونی کا باعث بن سکتا ہے۔ مرشد و راہنماء کے بغیر راستہ بھٹکنے کا خطرہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے۔ سفر ذاتی طور پر ان تمام خطرات، بے سکونی اور خوف کا مجموعہ ہے، اسی وجہ سے عرب کہاوت میں سفر کو سقر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایسے میں آپ ایک مسافر کا تصور کریں، جو بھوک، پیاس اور تھکاوٹ سے نڈھال ہے۔ زاد راہ سے تہی دست ہے، ہر طرح کے درندے جانور اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
راہنما اور مرشد کا فقدان ہے، رات گزارنے کے لئے پناہگاہ تو دور کی بات، سر چھپانے کی جگہ میسر نہیں ہے۔ ہر طرح کے خوف و خطر نے اس کو گھیرا ہوا ہے، نہ آگے جانا ممکن ہے، نہ پیچھے ہٹنے کا امکان ہے۔ آگے سیلاب، طیبعی خطرات تو پیچھے خونخوار بھیڑیئے اس کے خون کے پیاسے ہیں۔ شدید بارش ہو رہی ہے تو آسمانی بجلی گر کر اس کو راکھ بنانے میں کوئی دیر نہیں۔ بادلوں کی گرج نے اس بے چارے مسافر کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ ہر طرف سے بے قراری، پریشانی، گھبراہٹ، وحشت، خطرات اور بے چینی سے بھرا ہوا ہے۔ ایسے میں دور سے ایک ہاتف کی آواز آتی ہے، جو انتھائی شفیق انداز میں کہتا ہے۔ اے مسافر تم میرے مضبوط قلعے میں آجاو۔
میں تمہیں تمام خطرات سے بچا کر منزل مقصود تک پہنچا دوں گا۔ مسافر یک دم ایسی آواز سننے پر چونک اٹھتا ہے، پھر ایک سکون کا سانس لے کر آواز دینے والے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
یہ ایک مثال تھی، انسان اور اس کی دنیوی زندگی کے لئے۔ مسافر حضرت انسان ہے، راستہ دنیا کی زندگی ہے، خونخوار درندے شیطان اور اس کی سپاہی ہیں۔ خطرات انسان کی خواہشات نفسانی اور لمبی آرزوئیں ہیں۔ راستے کا اتار چڑاو انسان کی زندگی کی مشکلات ہیں۔ انسان اس سفر میں اس مسافر کی مانند ہے، جو ہر طرح کے خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو اللہ کی طرف سے آواز آتی ہے “دُعِیتُمْ فِیهِ إِلَى ضِیَافَةِ اللَّهِ۔”، “یہ ایک ایسا مہینہ ہے، جس میں تمہیں اللہ کے یہاں دعوت دی گئی ہے۔” ایک مسافر کے لئے خطرات سے محفوظ رہنے اور تھکاوٹ دور کرنے کے لئے ایک جگہ کافی ہے، لیکن جب کوئی دولت مند، سخی اور مہربان شخص اس کی میزبانی کرے تو اس سے اچھا اور کیا ہوسکتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں اللہ تعالی انسان کی میزبانی کرتا ہے تو پہلی بات یہ ہے یہ مسافر ایک مضبوط قلعے میں داخل ہوا ہے اور جو توحید کے قلعے میں داخل ہوتا ہے، وہ ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رہے گا۔ “کلمہ لا الہ اللہ حصنی فمن دخل فی حصنی امن من عذابی۔”
دوسری بات یہ ہے کہ کہ اللہ انتہائی عزت و احترام کے ساتھ میزبانی کر رہا ہے “جُعِلْتُمْ فِیهِ مِنْ أَهْلِ كَرَامَةِ اللَّهِ۔” اور اللہ تعالیٰ تین کھانوں کے ساتھ اس مہمان کی پذیرائی کر رہا ہے، رحمت، برکت اور مغفرت۔ “أَقْبَلَ إِلَیْكُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ۔”، “خدا کا برکت، رحمت اور مغفرت سے بھرپور مہینہ آرہا ہے۔” اس مسافر کے لئے زاد راہ کی ضرورت ہے، جس میں اللہ اس مہینے میں برکت دے گا، جبکہ ہر مسافر کے لئے دھوپ سے بچنے کے لئے سایہ کی ضرورت ہے تو رحمت الہیٰ کا سایہ اس کے سر پر ہوگا اور اس کی نافرمانی کی وجہ سے میزبانی میں کمی نہیں آئے گی، کیونکہ اللہ اس مہینے کی بدولت اس کے گناہ معاف کر دے گا۔ اللہ نے اپنی رحمت واسعہ کے ذریعے اس مہمان کی خاطر زاد راہ کا اتنا بندوبست کیا کہ اس میں سانس لینا تسبیح کا درجہ اور سونا عبادت کا مقام رکھتا ہے۔ “أَنْفَاسُكُمْ فِیهِ تَسْبِیحٌ وَ نَوْمُكُمْ فِیهِ عِبَادَةٌ۔”، “اس مہینے میں تمہارا سانس لینا تسبیح اور سونا عبادت ہے۔”
سانس لینا ایک غیر اختیاری کام ہے، جبکہ سونا انسان کی خواہش کا تقاضا ہے، اس مسافر کا میزبان اتنا کریم ہے، جو غیر اختیاری عمل پر تسبیح کا ثواب اور خواہش پوری کرنے پر عبادت کا اجر دیتا ہے۔ مسافر کے لئے نشان راہ اور منزل مقصود کا پتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اس فانی دنیا کے مسافر کی منزل مقصود آخرت ہے۔ رمضان کا مہینہ معاد کی نسبت انسان کے عقیدے کو پختہ کرنے کی بہترین فرصت ہے۔ “وَ اذْكُرُوا بِجُوعِكُمْ وَ عَطَشِكُمْ فِیهِ جُوعَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔”، “اس مہینے میں روزے کی وجہ سے جو تمہیں پیاس اور بھوک لگتی ہے، اس سے قیامت کے دن کی پیاس اور بھوک کو یاد کرو۔”رمضان کا مہینہ انسان کے لئے اندروانی خطرات یعنی اخلاقی رذیلت سے پاک ہونے کا مہینے ہے، جس سے انسان اندورنی خطرات سے محفوظ رہتا ہے۔ انسان کو اخلاقی رذیلت سے پاک کرنے خاطر اس مہینے میں اللہ تعالی نے بڑا پیکچ رکھا ہے۔
“أَیُّهَا النَّاسُ مَنْ حَسَّنَ مِنْكُمْ فِی هَذَا الشَّهْرِ خُلُقَهُ كَانَ لَهُ جَوَازاً عَلَى الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِیهِ الْأَقْدَامُ وَ مَنْ خَفَّفَ فِی هَذَا الشَّهْرِ عَمَّا مَلَكَتْ یَمِینُهُ خَفَّفَ اللَّهُ عَلَیْهِ حِسَابَهُ وَ مَنْ كَفَّ فِیهِ شَرَّهُ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ یَوْمَ یَلْقَاهُ وَ مَنْ أَكْرَمَ فِیهِ یَتِیماً أَكْرَمَهُ اللَّهُ یَوْمَ یَلْقَاهُ وَ مَنْ وَصَلَ فِیهِ رَحِمَهُ وَصَلَهُ اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ یَوْمَ یَلْقَاهُ وَ مَنْ قَطَعَ فِیهِ رَحِمَهُ قَطَعَ اللَّهُ عَنْهُ رَحْمَتَهُ یَوْمَ یَلْقَاهُ۔”، “اے لوگو! تم میں سے جو کوئی اس مہینے میں اپنے اخلاق کو اچھا اور نیک کرے گا تو وہ آسانی سے پل صراط عبور کرے گا کہ جس دن لوگوں کے قدم میں لغزش ہوگی اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے ماتحت سے مدارا اور نرمی کرے گا تو خداوند قیامت کے دن اس کے حساب میں نرمی کرے گا اور اگر کوئی اس مہینے میں دوسروں کو اپنی اذیت سے بچاتا رہے گا تو قیامت کے دن خدا اس کو اپنے غیض و غضب سے محفوظ رکھے گا اور اگر کوئی اس مہینے میں کسی یتیم پر احسان کرے گا تو خداوند قیامت کے دن اس پر احسان کرے گا اور کوئی اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم کرے گا تو خداوند قیامت کے دن اس کو اپنی رحمت سے متصل کرے گا اور جو کوئی اس مہینے میں اپنے رشتہ داروں سے قطع رابطہ کرے گا، خداوند قیامت کے دن اس سے اپنی رحمت کو قطع کرے گا۔”
ایک مسافر کے لئے سب سے خطرناک چیز بیرونی خطرات ہیں، اس دنیا کے مسافر بھی جن بیرونی خطرات سے محفوظ نہیں، وہ شیطان اور اس کے سپاہی ہیں۔ اللہ تعالٰی انسان کو ان خطرات سے بچانے کے لئے اس بابرکت مہینے میں شیطان اور اس کے سپاہیوں کو زنجیروں میں جھگڑ دیتا ہے، تاکہ ان کا تسلط انسان پر نہ اور انسان راہ حق سے نہ بھٹکے۔ “وَالشَّیَاطِینَ مَغْلُولَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا یُسَلِّطَهَا عَلَیْكُمْ.”، “شیاطین اس مہینے میں باندھے گئے ہیں، اپنے رب سے درخواست کرو کہ ان کو تمہارے اوپر مسلط نہ کرے۔”
تحریر: فدا حسین ساجدی