امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : لاَ تَقُولُوا هَذَا رَمَضَانُ وَ لاَ ذَهَبَ رَمَضَانُ وَ لاَ جَاءَ رَمَضَانُ فَإِنَّ رَمَضَانَ اِسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ لاَ يَجِيءُ وَ لاَ يَذْهَبُ وَ إِنَّمَا يَجِيءُ وَ يَذْهَبُ اَلزَّائِلُ وَ لَكِنْ قُولُوا « شَهْرُ رَمَضٰانَ » فَإِنَّ اَلشَّهْرَ مُضَافٌ إِلَى اَلاِسْمِ وَ اَلاِسْمُ اِسْمُ اَللَّهِ عَزَّ ذِكْرُهُ وَ هُوَ اَلشَّهْرُ «اَلَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ اَلْقُرْآنُ » جَعَلَهُ مَثَلاً وَ عِيداً ۔ (۱)
نہ کہو کہ رمضان ایا اور نہ کہو کہ رمضان چلا گیا ، کیوں کہ رمضان خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے جو نہ جاتا ہے اور نہ اتا ہے ، مٹنے اور زائل ہونے والی چیز اتی اور جاتی ہے بلکہ ماہ رمضان کہو اور فقط ماہ کا اضافہ کردو کیوں کہ یہ نام ، خدا کا نام ہے ، ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قران نازل ہوا اور خداوند متعال نے اسے وعد و وعید کے مانند قرار دیا ہے ۔
امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام سے ماہ مبارک رمضان کے روزوں کی تعداد کے بارے میں فرمایا: فلمَ امروا بالصوم شهر رمضان لا اقلّ من ذلك و لا اكثر قيل لانّه قوّة العبادة الذي يعمّ فيها القوي و الضعيف، و انما اوجب اللّه تعالي الفرائض علي اغلب الاشياء و اعمّ القوي، ثم رخص لاهل الضعف و رغب اهل القوة في الفضل، و لو كانوا يصلحون علي اقلّ من ذلك لنقصهم و لو احتاجوا الي اكثر من ذلك لزادهم ۔ (۲)
اگر کسی نے سوال کیا کہ کیوں فقط ماہ مبارک رمضان ہی روزے واجب ہیں نہ اس سے زیادہ اور نہ ہی اس سے کمتر ، تو جواب دو کہ یہ مقدار وہ مقدار جسے کمزور اور طاقتور دونوں ہی رکھ سکتے ہیں اور خداوند متعال نے اپنے احکام اغلب افراد کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے معین کیا ہے اور پھر ناتوان کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر اس دل کرے اور اس کے لئے سخت بھی نہ ہو تو انجام دے یعنی روزے رکھے اور طاقتور کی حوصلہ افزائی ہے کہ ماہ مبارک رمضان کا روزہ رکھ کر خدا سے تقرب حاصل کرے ، یقینا اگر اس سے کم انسانوں کے حق میں بہتر ہوتا تو خداوند متعال کم روزے واجب کرتا اور اگر اس سے زیادہ روزے انسانوں کے حق میں بہتر ہوتے تو خداوند متعال اس سے زیادہ روزوں کے حکم دیتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: کلینی ، اصول کافی ، ج۴ ، ص۶۹ ۔
۲: مجلسی ، محمد باقر، بحارالانوار ، ج۹۳ ، ص۳۷۰